Monday, April 19, 2010

ذوق اور فوق

اچھا یہ معلوم ہے کہ جانوروں میں عام طور پہ نر، مادہ سے زیادہ خوشگوار شخصیت رکھتے ہیں۔  میں نے موم بتی روشن کرتے ہوئے اندھیرے کا موضوع چھیڑا۔ جواب ملا مجھے تویہاں لفظ شخصیت پہ ہی اعتراض ہے۔ اور جانوروں میں ہی کیا انسانوں میں بھی نر زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں۔ میں نے فورا شخصیت لفظ واپس لیا، حالانکہ اس پہ بحث ہو سکتی تھی اور شاید میں انہیں قائل بھی کر لیتی کہ جانوروں کی بھی شخصیت ہوتی ہے۔ لیکن اس سے دوسرے موضوع کے لئے توانائ کم ہو جاتی، جبکہ ہم پہلے ہی توانائ کے بحران کی وجہ سے نیم اندھیرے میں تھے۔ توانائ کے بحران سے تو آپ آجکل اچھی طرح واقف ہونگے۔ لیکن چونکہ اس سے انسانی نروں کی خوبصورتی پہ کوئ فرق نہیں پڑتا تو ہم اس سے بھی صرف نظر کرتے ہیں۔
موم بتی کی اس روشنی میں، میں نے ان سے دریافت کیا کہ پھر خواتین کے مقابلہ ء حسن کیوں ہوتے ہیں۔ مردوں کے کیوں نہیں ہوتے, اب باڈی بلڈنگ کو اس ضمن میں مت لے آئِے گا۔ کمزور دل صاحبان پہ واضح کر دوں کہ اس سے میری انسانی نروں کی ظاہری ہتک مقصود نہ تھی۔  جواب ملا کہ اب اگر اتنی گرمی میں شمع رخ روشن کے آگے رکھ بھی لیں تو سوائے مزید گرمی لگنے کہ کوئ پروانہ نہیں آئیگا۔ پروانے برسات میں پیدا ہوتے ہیں۔ میں حیرانی سے انکا منہ دیکھتی ہوں۔ اس نیم جان حالت میں اس طرح کے تجریدی بیانات سے لو لگ سکتی ہے۔ سو، میں پھر جانوروں کو پکڑتی ہوں۔
تمام نر خوبصورت ہوتے ہیں کیونکہ انہیں مادہ کو لبھانا ہوتا ہے۔ نر مور جو اپنے حسین ملکوتی رنگوں کے پر پھیلا کر ناچتا ہے تو وہ مورنی کو اپنے خوبصرت رنگوں اور اپنے رقص کے انداز سے سحر میں لے آتا ہے۔ اگر دو تین نر مور ہوں تو مادہ اس میں سے اسکے ساتھ رہنا چاہتی ہے جو زیادہ خوبصورت پر اور انداز رقص رکھتا ہو۔

 
نر ہرن کے سینگ جتنے بڑے ہوتے ہیں مادہ ان پہ اتنی فدا ہوتی ہے۔ سینگ جتنے بڑے ہوں رقیب بھی اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔ 


حتی کہ شیر کو بھی، شیرنی کو رجھانے کے لئے اپنے ایال کے بال، اپنی دھاڑ، دوڑ اور دوسرے نروں سے جنگ جیت کر دکھانی پڑتی ہے۔


پرندوں میں کچھ پرندے اپنے خوبصورت پر اورکچھ اپنے پروں کے سائز اور کچھ اپنے گھونسلے بنانے کی مہارت دکھا کر دل موہ لیتے ہیں۔  

کوئل کی خوبصورت دل پگھلا دینے والی کوک مادہ کوئل نہیں بلکہ نر کوئل نکالتا ہے مادہ کوئل تو بس کک کر کے رہ جاتی ہے۔ الغرض سب ہی نر اپنے اندر موجود خصوصیات کو مادہ کے سامنے بہتر طریقے سے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ انکی جانب ملتفت ہو۔ انہیں قبولیت بخشے اور انکے ساتھ رہنے پہ راضی ہو۔
خیریت مجھے کچھ فساد کی بو آ رہی ہے. نہیں یہ موم جلنے کی بو ہے۔ اور، اس میں فساد کی کیا بات ہے۔ ایسے ہی مجھے خیال آیا کہ انسانی مادائیں جانوروں کی ماداءووں کے مقابلے میں خاصی کم ذوق نہیں ہوتیں۔

16 comments:

  1. یہ بھی اچھی تحقیق ہے (:

    لیکن شاید انسانوں میں یہ معاملہ اُلٹ ہے۔اور شاید یہی بات ہمارے مردوں کی خوش ذوقی کی دلیل ہے۔

    ReplyDelete
  2. يہ ايک واضح حقيقت ہے کہ چرند و پرند ميں نر ہی مادہ کا دل لَبھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ آپ نے بامقصد يا بے مقصد طور پر واضح کر ديا ہے کہ انسانوں ميں اس کا اُلٹ ہوتا ہے

    ReplyDelete
  3. Baqaul Ibn e Safi, "Nature jab insaan ko dhoka deti hai to woh Keats ho jaata hai, Wordsworth ho jaata hai, Meer o Ghalib ho jaata hai, jab ke haqeeqat mein yeh sab do bachon ke baap banna chahte hain". Dekha jaae to insaan ki jabillat haiwaanaat se qat'an mukhtalif nahi, bank balance, cars, social status... yeh sab (umooman) mardon ki zaat mein wahi khoobiyan paida karte hain jo baarasinghay ke seengh, sher ke baal aur mor ki dum mein, un ki maadaaon ke liay paai jaati hain. Farq dar asal (meri nazar mein)insaan ki purpaich shakhsiyat hai. Insaan ki khushnaseebi (ya almiya) us ki aala (debatable) zehni istitaa'at hai. Baqaul Yousufi "Ghora (horse) kabhi apnay ghoraypan se sharminda nahi hoga. Yeh to insaan hi hai jo har waqt is fikr mein ghaltaan rehta hai "Na hota mein to kya hota"" (yeh jumlaa e mautariza mehaz insaan aur haivaan ke beech afkaar par mabni farq numaayan karne ko beech mein ghusaaya). Isi fikr ki salahiyat ka nateeja hai ke insani rishta e azdavaj sirf jismaani haisiyat nahi rakhta, balke aam taur pe m'aashrati, m'aashi aur fikri juhatein ziada ahmiyat ki haamil hoti hain aur insaani nar avaail e umr mein inhi juhaton mein insaani maada ko lubhaane mein masroof e amal rehte hain. Jaisa ke yehin aik mazmoon mein bahanabaazi ke zimn mein Ghalib ka sher bayaan hua hai... taqreeb e bahr e mulaaqaat ka insiraam kya insaani m'aashray mein mard hi nahi kiya kartay? Woh taisha jis ne humsukhan farhad ko shirin se kiya, shirin ko to nahi chalaana paraa tha (maana ke misaal siyaaq e daastaan se bahir hai) Waise to insaani zehan bhi baatin se ziada zaahir hi ki tarf maa'il rehta hai, ilmi qabliyat jaanchnay ka mayaar chhapay huay kaaghaz ke tukre par foreign university kaa naam, khwaah aik kamre ki ho, deeni rujhaan ka paimaana daarhi ki lambai, paakbaazi ki kasauti hijaab aur lehjay ki durushti, insaan ki nazar beshak har maamlay mein khoogar e paikar e mehsoos hai, aur insaani shakhsiyat aur ravaiyyay mein irtiqa ki shikast ki gavaah khud insaani taareekh hai (idiocy personified=human race-personal opinion). "Knight in shining armor for a (or many for that matter) damsel in distress" jaise kirdaaron ka har daur mein har tehzeeb ke qasas o rivaayaat kaa hissa hona bhi mardaana fitrat ke is rang ka akkaas hai. Farq bas itna hai ke insaani kaseeruljuhat shakhsiyat is ka izhaar mukhtalif rukhon mein karti hai. (highly generalized critique from here on) khawaateen economic security dhoondti hain: pehla savaal umooman yehi hota hai ke "Larka kya karta hai".. so "larkay" khoob se khoobtar ki justuju mein apne bank balance ko khoob se khoobtar karne mein lagay rehte hain. Woh social security dhoondti hain: woh to khawateen ke liay humaare m'aashray mein bina shaadi mumkin nahi. Qissa mukhtasar, chahay mard shaoori taur pe tasleem naa karen aur khud hi aql o firasat se aari honay ka ailaan karte phiren, yaani jismani husn ko insaani azdavaaji zindagi (jo ke haivaanat ki personal life se kahin ziada complicated hai) ki bunyaad qaraar den, par tehat-as-shaoor musalsal unhein seengh barhaane aur dum rangeen banaane mein lagaae rakhta hai. (Badmazaaqi ki maafi chahta hun, par urdu type karni nahi aati, so roman hi mein likhta chala gaya, naiz jahaan roman rasm ul khat naamauzun mehsoos hua, wahaan angraizi mutaraadif hi likh daalay. Aur thora jaldi mein likhne ke baais jumlay berabt bhi hain. Yehan mardon ke status ke peechhe bhaagne mein baat ka rukh sirf khawaateen ko lubhaane ki khaatir mardaana kaawish tak rakhne ki wajah blog ka siyaq o sabaaq hai, mardaana anaa se chashmposhi nahi. Insaani amaal ke muharrikaat agar itne saada hua karte to psychiatrists kab ka apna dhanda samait ke burgershop khol chuke hote)

    ReplyDelete
  4. یہاں بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ اللہ پاک نے جانور نر کو خوبصورت بنا کر انسانی نر کی تھوڑی عزت بنا دی ۔ اب یہ انسانی نر نما مرف زرا خوش ہو جاتے ہین کہ چلو کچھ تو ہمارے حصے آیا۔۔ معذرت کے ساتھ

    ReplyDelete
  5. ہاہاہاہا
    یہ اکثر عورتیں جب سوال کرتی ہیں دنیا بھر کے مردوں کے بارے تو بغل میں بیٹھے میاؤں کو کیوں بھول جاتی ہیں؟ ہیں جی؟

    ReplyDelete
  6. آلڈس ہکسلے نے اپنے ایک مضمون میں یہ دلچسپ سوال اٹھایا تھا کہ" آخر نر مور ہی کیوں ناچتا ہے مادہ کیوں نہیں ۔ اگر مقصد فطرت کے مقاصد کا حصول ہے تو مادہ کو بھی اتنی ہی دلچسپی ہونی چاہیے نر کو لبھانے میں"

    میرےخیال میں شاید کچھ جانور مادائیں بھی نرگسیت کا مادہ اپنے اندر رکھتی ہیں

    ReplyDelete
  7. mamu
    بہت خوب لکھا ہے – یہ تو مرد ہی ہیں جو “مادہ پرست ” ہو گیے ہیں-
    مگرمیرا اپنا خیال ہے کہ اگر سارے جانورں کو اپنی مادہ کے لیے شاپنگ کروانی پڑے تو ویاں بھی مادا بیوٹی پالر سے خوب صورت ہی باہر آے اور نر انسان نما مرد لگے گا-

    ReplyDelete
  8. پاکستان کے دوسرے شہروں کا مجھے نہیں پتہ ، کیونکہ کراچی کا ثقافتی پس منظر تھوڑآ الگ ہے۔ جیسے خاندان میں شادیاں یہاں بہت کم ہوتی ہیں۔ لیکن یہ میں اکثر یہاں دیکھتی ہوں کہ جب لڑکے والے کسی رشتے کے لئے ہاں کہتے ہیں تو لڑکی والے اسے پھر کسی طوو نہ نہیں کرنا چاہتے۔ وہ یہ نہیں جاننا چاہتے کہ اس لڑکے کا مزاج کیسا ہے، زیادہ تر صورتوں میں لڑکیوں کو شادی کے بعد سسرال والوں کے ساتھ رہنا ہوتا ہے تو یہ نہیں دیکھتے کہ اس گھر کے اطوار کیسے ہیں۔
    محض معاشی حالات کی استقامت دیکھ کر شادی کو مناسب خیال کر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایک بات یہ ہے کہ معاشی حالات کا تو خدا ہی کو معلوم، وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ لیکن اگر کوئ مزاجاً تکلیف دہ ہو تو وہ زندگی کو ایک بے زاری میں تبدیل کر دیتا ہے۔ پھر پلے جتنا بھی پیسہ ہو دل میں تابندگی نہیں رہتی۔ اور اکثر ایسی صورتوں میں خواتین اپنے بچوں کو بھی وہ توجہ اور محبت نہیں دے پاتیں جو انکا حق ہوتا ہے۔
    جبکہ جانوروں میں مادہ کی ترجیح ات اس بات سے بھی متعین ہوتی ہیں کہ آنیوالی مضبوط نسل کس نر کے ساتھ ممکن ہے۔ اور اس طرح سے مضبوط جینز کی حکمرانی قدرتی طور پہ انکے اندر موجود ہوتی ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ جانوروں میں انتخاب کا حق مادہ کے پاس ہوتا ہے نر کے پاس نہیں۔
    جبکہ انسانوں میں یہ عمل الٹا ہوتا ہے۔ یہ عورت ہوتی ہے جو اپنے آپکو سجا بنا کر پیش کرتی ہے۔ اپنی بہتر خصوصیات کو ظاہر کرتی ہے اور زمانے کے مطالبات میں تبدیلی کے ساتھ انہیں بھی اختیار کرتی ہے۔انسانوں میں حق انتخاب مرد کے پاس ہوتا ہے۔ اس لئے تو کہتے ہیں۔ دلہن وہی جو پیا من بھائے۔
    بد تمیز یہ میں نے ایک عمومی صورت حال بیان کی ہے جس میں انتخاب کا حق مرد کے پاس ہوتا ہے اور وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کسے اپنا جیون ساتھی چننا ہے۔ میں نے انکی خوبیاں شادی کے بعد نہیں پہلے ہی جان لی تھیں۔ اب میرے ذوق کے بارے میں جاننے کے لئے آپکو میرے میاءووں کے بارے میں جاننا پڑیگا۔ لیکن ایک ہلکا سا اندازہ تو اس سے لگا سکتے ہیں کہ میں کیا کیا لکھ دیتی ہوں بے دھڑک۔ میری اس عادت کو بڑھاوا دینے میں وہ پوری طرح شامل ہیں۔

    ReplyDelete
  9. ریاض شاہد صاحب،
    :)
    ماداءووں کی نرگسیت
    :)
    یہ کچھ ماداءووں کی کہانی نہیں ہے بلکہ زیادہ تر جانوروں کی مادائیں یہی کرتی ہیں شاید کچھ ہی ایسے ہوں جو یہ نہ کرتے ہوں۔ سائینس اسکا تعلق مضبوط اور بہتر جینز کی تلاش سے جوڑتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ جینز میں مضبوطی کا معیار مادہ قائم کرتی ہے۔ جو نر بہتر صسحت اور حیتیاتی خوبیاں رکھتا ہے وہ اسے پسند کرتی ہے۔ جانوروں میں معاش کا چکر تو ہوتا نہیں ہے ۔
    اس سلسلے میں شہد کی مکھی کے اوپر تو بانو قدسیہ یا شاید اشفاق احمد نے تو پوری ایک کہانی لکھ ڈالی ہے اسکا نام مجھے یاد نہیں آرہا۔
    ایک مکڑی جسے بلیک وڈو کہتے ہیں ایسے مزاج کی ہوتی ہے کہ میٹنگ کے بعد اپنے نر کو کھا جاتی ہے۔ قدرت، بہت سارے دلچسپ اور عجیب حقائق سے بھری ہوئ ہے۔

    ReplyDelete
  10. کچھ مین اسٹریم سے کٹی ہوئی یا کہیے کہ فطرت سے قریب قبائل میں تو یہ رواج ہے اور اسطرح کے میلے ہوتے ہیں جو جدید تہذیبوں کو عجیب معلوم ہوتے ہیں۔۔
    ویسے دیکھا جائے تو انسانی نر کو بھی کچھ کم ناچنا نہیں پڑتا۔۔ بلکہ جانوروں میں تو کچھ کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ ایک ناچ، ایک محفل اور پھر اپنی راہ۔ انسانوں میں یہ سہولت غالبا "فاسل فیول" سے مشروط ہے۔

    ReplyDelete
  11. As always u took that on u well no wonder. Anyways for part of ur reply watch invention of lie a tragedy of seeking the best man. Rest no for a while I thought too that it's the she got the rite but then thought shud I exclude four legged animals who actually fight to win the ultimate prise? Did u kno all the female lions do the hunting and then mr king of the jungle come forward to feast even before his offsprings? Comparing apples with oranges yeah!

    ReplyDelete
  12. بدتمیز،جیسا کہ آپ کچھ اور سمجھ جاتے ہیں۔ یہ میں نے اپنے اوپر نہیں لیا بلکہ اپنی مثال دی ہے۔ میرے جیسی خواتین بھی تو ہیں ناں۔
    جی یہ شیرنی والی بات مجھے پتہ ہے۔ اور کچح دنوں پہلے جب میں نے کسی بلاگ پہ یا شاید فیس بک پہ یہ پڑھا کہ جانوروں میں بھی بہادری اور شکار کرنے کے خواص نر کو عطا کئے گئے ہیں تو میں اس پہ تبصرہ کرتے کرتے رک گئ کہ وہ یہ غلط سمجھتے ہیں۔ شیروں کے جتھے میں شکار اور اسکی پلاننگ شیرنی کرت ہے۔ حتی کہ اپنے بچوں کی پرورش بھی شیرنی ہی کرت ہے۔ بلیوں کے کیس میں بلا اپنے بچے کھا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو اپنا رقیب سمجھتا ہے اور اس سے بچانے کے لئے بلی اپنے بچوں کے ٹھکانے تبدیل کرتی رہتی ہے جسے ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ بلی اپنے بچوں کو سات گھر گھماتی ہے۔
    شیروں کے ساتھ ایک عجیب بات ایک اور یہ ہوتی ہے کہ تھوڑا بڑا ہو جانے پہ انہیں پرائڈ سے باہر کر دیا جاتا ہے اور وہ دوسرے نر شیروں کے ساتھ مل کر جتھا بنا لیتے ہیں۔اپنے ان ساتھی نروں سے انکی کوئ لڑائ نہیں ہوتی۔
    ریاض شاہد صاحب، یہاں مجھے آپکی ماداءووں کی نرگسیت والی بات پہ ایک بات یاد آئ کہ وہ لڑکیاں جو فیوڈل قسم کے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں عام طور پہ اس بات پہ فخر کرتی ہیں کہ ایک دن ہمارے اماں ابا فون کریں گے کہ بیٹا آءو اور شادی کر لو۔ بس ہم یہاں سے روانہ ہونگے اور شادی والے دن وہاں جا کر شادی کر لیں گے۔ مجھے تو یہ بیان بھی ماداءووں کی نرگسیت پہ مبنی لگتا ہے۔ شادی سے پہلے کوئ یہ بھی نہ پوچھے کہ بابا جان میری شادی کس سے ہو رہی ہے، اور پھر اس پہ فخر کرے۔

    ReplyDelete
  13. باونو قدسیہ کی کہانی کا نام ہے موم کی گلیاں

    ReplyDelete
  14. جب تک مجھے کوئی نی ملتی مین تو یہی کہوں گا
    نا مین کسی پہ ٹُن نہ کوئی میرے پہ ٹُن
    "یہ سب بکواس ہے"۔
    :D

    ReplyDelete
  15. ڈفر، میں نے کب ٹنٹنانے کی بات کی ہے۔ ویسے بھی ٹن ہونے کا تعلق کچھ قابل نوش اشیاء کے ساتھ زیادہ نہیں بنتا۔
    :)
    اب کیا کہوں نرگسیت کے شکار نر، مشرقی تقاضہ یہ ہے کہ پہلے مرد کو ٹن ہونا چاہئیے۔ پھر صنف مخالف میں سے کوئ شرما کر ٹن ہونے کا اقرار کرے گا۔
    :)

    ReplyDelete
  16. مرد کو بھی ناچنا پڑتا ہے. اپنے آپ کو معاشی طور پر صاحب حثیت منوانے کے لئے. اس کے انتخاب کی قوت اس کے اس معاشی ناچ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی حیثیت کے مرہون منت ہوتی ہے.

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ