Thursday, April 22, 2010

کزن میرج، ایک اور تجزیہ

کافی عرصے سے کزن میرج پہ لکھنا چاہ رہی تھی۔ لیکن جب اسکے متعلق ایسی تحریریں پڑھیں جس میں لوگوں نے اپنے ذاتی تجربات کے ذریعے اسکے کسی بھی نقصان دہ پہلو کو خدا پہ ڈالدیا تو یہ خیال آیا کہ اس پہ ضرور لکھنا چاہئیے۔ ذاتی تجربات تو نہیں کہ میرے خاندان میں کزن میرج کا ایسا کوئ خاص رواج نہیں۔ لیکن مشاہدات سے کزن میرج ایک صحتمند ، توانا اور ذہنی طور پہ چست نسل کے لئے کوئ بہتر خیال نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ شادی کے نتیجے میں ہر دو فریقین کی ترجیح ایک صحتمند اولاد ہی ہوتی ہے اور ایسا کم ہی ہوتا ہے بالخصوص جنوبی ایشیائ گھرانوں میں کہ شادی کا مقصد صرف ایک وفاداراور پر جوش رفاقت ہو۔

اگر میں صرف اپنے ذاتی مشاہدات گنوانے بیٹھ جاءووں جو اندرون سندھ کے کسی دور افتادہ گاءوں سے، کراچی میں ایسے خاندان جہاں خاندان سے باہر شادی ہرگز نہیں ہوتی پہ مشتمل ہے۔ تو ان سب میں بچوں کی معذوری یا پیدائش کے فوراً کسی پیچیدگی کا شکار ہونا یا کسی ایسے عارضے میں مبتلا ہونا جیسا کہ دل کے والو کی خرابی  یہ ان جوڑوں میں زیادہ پائ جاتی ہے جو کہ کزن ہوتے ہیں۔

جو تحریریں میں نے اس ضمن میں پڑھیں اس میں ایک بات کو بری طرح نظر انداز کیا گیا اور وہ یہ کہ یہ صرف کزن میرج نہیں،  بلکہ پشت ہا پشت تک ایک ہی نسل میں شادی کا رجحان ہے۔  کبھی کسی کا اپنے کزن سے شادی کرنے کا دل بہت ہو، کچھ اور معاشرتی مسائل ہوں تو الگ بات ہے۔ لیکن صرف کزن سے شادی کرنا یہ ایک صحت مند طرز عمل نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئ سانحہ آپکے ساتھ نہیں ہوا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ اب اس عمل کو درست قرار دے دیا جائے۔ اگر میں آپکو دو طرح کے پریشر کوکر دکھاءووں اور کہوں کہ الف کے ساتھ ککر پھٹنے کے امکانات ساٹھ فی صد ہیں اور ب کے ساتھ ککر پھٹنے کے امکانات دس فیصد تو کوئ بھی عقلمند شخص دس فیصد والے کو خریدے گا۔ اگرچہ اسکی قیمت معمولی سی زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔

کزن میرج کے ساتھ بالعموم یہ مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ اسے دین اسلام پہ حملہ تصور کر لیا جاتا ہے۔ مذہب کزن میرج کی اجازت دیتا ہے اسے لازمی نہیں بناتا۔ یہ اجازت تو اپنے لے پالک بچے کے شوہر یا بیوی سے شادی کرنے کی بھی ہے لیکن اسکے لئے اب ہر مسلمان پہ لازمی نہیں کہ وہ کوئ بچہ لے کر پالے پھر اسکی شادی کر کے اسکے اپنے جوڑے سے الگ ہونے کا انتظار کرے۔

مغربی ممالک میں بھی تقریباً  سو سال پہلے تک کزن میرج ہوتی تھی۔ مشہور زمانہ ارتقاء کا نظریہ پیدا کرنے والے سائنسداں  چارلس ڈارون کی بیوی اسکی کزن تھی اور آئینسٹائن کی دوسری بیوی بھی اسکی کزن تھی۔ لیکن بعد میں مغرب نے اسکے برے اثرات کے پیش نظر اسے اتنا کم کر دیا کہ اب زیادہ تر حالات میں مغربی معاشرے میں کزن سے شادی سگے بہن بھائ کی شادی کی طرح ہی بری تصور کی جاتی ہے۔ اور اب وہاں کچھ حلقے یہ مہم چلاتے ہیں کہ کزن میرج کوئ مذہباً بری بات نہیں ہے۔
اب ہم اسکے سائینسی تجزئیے کی طرف آتے ہیں اور اسے مینڈل کے وراثتی قانون کے تحت دیکھتے ہیں۔

ایک نسل سے دوسری نسل تک خصوصیات جینز کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں۔یہ جینز کروموسومز پر موجود ہوتے ہیں۔ ہر انسان میں کروموسومز کے تیئیس جوڑے پائے جاتے ہیں۔ عورتوں میں یہ جوڑا دو ایکس پہ مشتمل ہوتا ہے اور مردوں میں ایک ایکس ہوتا ہے اور دوسرا وائ۔ بچے اپنے کروموسومز کے جوڑوں کا ایک حصہ باپ سے اور دوسرا ماں سے حاصل کرتے ہیں۔ لڑکوں میں ماں سے کروموسوز کا ایکس حصہ اور باپ کی طرف سے وائ حصہ آتا ہے۔ اور لڑکیوں میں ماں کی طرف سے ایکس اور باپ کی طرف سے بھی ایکس حصہ آتا ہے۔ اسی لئے بعض جینیاتی بیماریاں لڑکوں کی طرف سے، بعض لڑکیوں کی طرف سے اور بعض دونوں سے چلتی ہیں۔

کروموسومز دھاگے جینز سے بنے ہوتے ہیں اور یہ جینز پیغامات رکھتے ہیں کہ ہماری ممکنہ شکل و صورت، رنگ بال، ذہن مزاج حتی کہ بیماریاں کیا ہو سکتی ہیں۔والدین کے  جینز آپس میں ملتے ہیں تو ان میں والدین کی جینز کے سب خواص موجود ہوتے ہیں۔

جینز پہ لکھے ہوئے یہ پیغامات جو ہماری نسل کے آغاز سے اس پہ موجود ہیں۔ سب کے سب ہم میں ظاہر نہیں ہوتے۔ کچھ جو مضبوط ہوتے ہیں ظاہر ہو جاتے ہیں اور جو کمزور ہوتے ہیں وہ جینز میں موجود تو ہوتے ہیں مگر اس وقت خاموش ہوتے ہیں انہیں مغلوب جینز کہتے ہیں۔ جیسے والدین میں سے ایک آنکھیں نیلی ہیں اور دوسے کی براءون تو اگر بچے کی آنکھیں نیلی ہیں تو یہ جین غالب آگئ اور براءون جین کا پیغام چھپپا ہوا ہے۔ اگلی کسی نسل میں یہ براءون جین والا پیغام ممکن ہے کہ سامنے آجائے اور نیلی جین والا مغلوب ہو جائے۔


اب اگر آپ  اس دی گئ  شکل پہ تھوڑا سا غور کریں تو ہرے رنگ کی اشکال صحتمند والدین کی ہیں انکے بچے بھی صحتمند ہونگے۔دوسرے جوڑوں میں کسی ایک کا آدھا حصہ سفید دکھایا گیا ہے اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انکے بچوں میں بھی انکے اثرات موجود ہیں۔ جو بچے آدھے سفید اور آدھے ہرے ہیں ان میں بیماری کے جینز تو موجود ہیں لیکن وہ ان میں ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ان بچوں میں یہ صلاحیت ہے کہ آگے والی نسل میں اسے ٹرانسفر کر دیں۔ انہیں کیریئر کہتے ہیں۔ یعنی خود نہ متائثر ہو لیکن اگلے کو پہنچا سکتا ہو۔ اب اگر انکا ملاپ کسی ایسے شخص سے ہوتا ہے جو خود بھی کیریئر ہے تو اس بیماری کے ہونے کے امکانات کہیں زیادہ ہونگےجیسا کہ بعد کی تصویروں سے ظاہر ہے۔



کئ پشتوں تک ایک ہی نسل کے لوگ اپنے  کزنز سے شادی کرتے رہیں
تو کمزور جینز کے غالب ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اسکی مثال اس طرح ہے کہ اگرجینز میں دس نسل پہلے کسی ایک کو دل کی خرابی کا مرض لا حق تھا تو مسلسل دس نسلوں تک اآپس میں شادی کے نتیجے میں دل کی خرابی کے امکانات بڑھتے چلے جائیں گے۔ کیونکہ ہر جین کے اندر اسکا پیغام چھپا ہوگا۔ جسکی فریکوئینسی بڑھنے سے وہ زیادہ ہوتا چلا جائیگا۔

اچھا ۔جانوروں میں ایک چیز اور ہوتی جو ان بریڈنگ کہلاتی ہے۔ اس عمل میں اعلی ترین نسلی خواص رکھنے والے جانوروں کی اولادیں حاصل کی جاتی ہیں اور پھر ان اولادوں میں جنکے بہترین خواص ہوتے ہیں انکی میٹنگ کراتے ہیںیعنی کزن میرج۔ یہ عمل ہر بار اعلی خواص رکھنے والی اولادوں کیساتھ دوہرایا جاتا ہے۔ اس طرح کمزور خواص رکھنے والی جینز آہستہ آہستہ باہر ہوجاتی ہیں اور اعلی خواص رکھنے والی جینز قائم رہتی ہیں۔

یہ خاصہ ٹیکنیکل کام ہوتا ہے۔ اسکے نتیجے میں ایک اعلی خواص رکھنے والی نسل تو حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن ایک اور خامی پیدا ہو جاتی ہے جسے ان بریڈنگ ڈپریشن کہتے ہیں۔ اور اسکی وجہ سے اگر کوئ ایک کمزوری کسی ایک جین میں ہو تو وہ اس نسل کی تمام جینز کے اندر ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے میرے ایک کولیگ جن کے یہاں شادی خاندان سے باہر قطعاً نہیں ہوتی تھی۔ ان کی ایک بہن کے تین بچے تھے اور تینوں بچوں کو جلد کی ایک ایسی بیماری تھی جسکا کوئ علاج نہ تھا۔ میری سرائیکی ماسی کے خاندان میں پچھلے دو سال میں تین نوزائیدہ بچوں کا انتقال دل کے والو کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہو اور تین بچے دماغ کی کمزوری کا شکار ہیں۔

ایک ریسرچ کے ذریعے یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ جتنا  کزن میرج کو دہرایا جاتا ہے اتنا ہی بچوں میں جسمانی کمزوریاں اور دماغی صلاحیتیں کم ہونے کا اندیشہ بڑھتا رہتا ہے۔ اور اسکی مثال وہ اس طرح دیتے ہیں کہ یہ اثر اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جتنا کہ بیالیس سال کی عمر کے بعد کسی خاتون کے پیدا ہونے والے بچے میں کسی بھی قسم کی خرابی یا معذوری کا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اب اگر کوئ یہ کہے کہ اپنے سے بڑی عمر کی خاتون سے شادی کرنے میں کوئ مضائقہ نہیں اور اسلام اسکی اجازت دیتا ہے بلکہ رسول اللہ نے اپنی نوجوانی کا زمانہ اپنے سے پندرہ سال بڑی خاتون کے ساتھ گذارا اور وہ بھی ایک دو تین سال نہیں پورے پچیس سال تو  سب خاموش ہو جائیں گے اپنے سے بڑی خاتون تو آنٹی ہی ہو سکتی ہیں۔دل مزید نرم کر لیں تو باجی۔ مگر بیوی، لا حول ولا قوت۔ بس۔ مگر کزن میرج پہ سب دلیلیں دینے لگتے ہیں کہ خدا کا نام لیکر کر ڈالوجی کچھ نہیں ہوتا۔

اس ساری تحریر کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپکے خاندان میں کئ نسلوں سے کزن میرج کا سلسہ چل رہا ہے تو خاندان سے باہر نکل کر دیکھیں۔ دو مختلف جینز بہتر نسلی خصوصیات لاتی ہیں۔ معاشرے کے اندر توازن اور برداشت پیدا کرتی ہیں۔ ذہن کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرتی ہیں۔ اور ان سب چیزوں کی  ہمیں بے حد ضرورت ہے۔

25 comments:

  1. سنا ھے کہ ایران میں میڈیکل ٹیسٹ کہ بعد شادی کی اجازت دی جاتی۔میں نے عموما دیکھا ھے کہ کئی پشتوں سے قریبی کزنز سے شادی کرنے والے خاندانوں میں نفسیاتی پیچیدگیوں کے افراد زیادہ ھو تے ھیں۔اور سایئں ٹائیپ لوگ بھی۔اگر کسی کو اعتراض ھو تو برائے مہربانی اپنے آس پا س کا مشاہدہ کر لیں۔

    ReplyDelete
  2. یاسر صاحب، جی ہاں ایران میں شادی کے خواہشمند تمام افراد کو تھیلیسمیا کے ایک ٹیسٹ سے گذرنا ہوتا ہے۔
    تھیلیسمیا وراثتی طور پہ منتقل ہونے والی ایک بیماری ہے اور اگر والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔
    مزید معلومات کے لئے مندرجہ ذیل لنک دیکھیں۔
    http://www.ams.ac.ir/aim/9811/habibzadeh9811.html

    ReplyDelete
  3. ایک بھرپور اور علمی تحریر ہے
    بہت خوب
    آپ نے ابھی شاید ای میل چیک نہیں کی
    میں‌نے دو پیغامات چھوڑیں ہیں

    ReplyDelete
  4. Thanks Anika... bohot maloomati thareer hai.

    ReplyDelete
  5. انیقہ،سب سے پہلے تو آپکا شکریہ،کیونکہ میں اس موضوع پر آپکی تحریر کا انتظار ہی کررہا تھا،:)
    یہ جینٹک میپ جو آپنے اوپر دیا ہے سعودی عرب کے ہر ہسپتال میں آویزاں ہے اور وہاں شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کا بلڈ ٹیسٹ کروانے پر زور دیا جارہا ہے،اس لیئے کہ یہاں بھی قبائلی سسٹم رائج ہے ،اور اسی لیئے جنینیاتی بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں،حکومت اس پر فکر مند بھی ہے،
    آپکی یہ بات بالکل درست ہے کہ کزن میرج اسلام میں جائز ہے مگر جس طرح ہم مسلمانوں میں ٹھونسی جاتی ہے اس کا اسلام میں کوئی جواز نہیں ہے،
    ہم اسلام اسلام تو بہت کرتے ہیں مگر صحیح معنوں میں اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہمارا دم نکلتا ہے،
    پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شادی بیاہ کے معاملات یا اور دیگر اہم معاملات میں استخارہ کرو اور جو ایسا نہیں کرتے آپ نے انہیں
    بڑا بد نصیب کہا،کیونکہ آنے والے وقت کا انسان کو علم نہیں ہوتا جبکہ اللہ علیم و خبیر ہے!
    یہ جو اسلام کا ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ یہ خصوصا شادی بیاہ کے معاملات میں کتنا نبی کے اس انتہائی اہم مشورے پر عمل کرتے ہیں،

    ReplyDelete
  6. بہت شکریہ عنیقہ صاحبہ عمدہ طریقے سے آپ نے اس چیز پر روشنی ڈالی ہے۔۔ امکانات یا پروبیبلٹی کا مسئلہ سیٹ تھیوری لگا کر کبھی حل نہیں ہوتا اور پچھلے مضامین میں یہ نقص واضح تھا جس سے کنفیوژن ہی پیدا ہوئی تھی لیکن یہاں آپ نے آسان زبان میں اچھی طرح بیان کیا ہے۔ ۔

    ReplyDelete
  7. پر ميرے مامے کے چاچے کے سسر کی بيٹی کی شادی تو خاندان ميں ہوئی ان کے بيس بچے ہوئے سب نارمل مگر ان کے دادا کے پوتے کی نواسی کی پڑپوتی کی شادی خاندان سے باہر ہوئی پانچوں بچے ابنارمل

    ReplyDelete
  8. Asma ... maan you have a huge huge family ....LOL

    ReplyDelete
  9. بالکل بکواس۔ زمانہ قدیم کے امراء اور سرمائی داران خاندان صدیوں سے آپس میں شادیاں کرتے آئے ہیں۔ کیا انکی نسلیں بیماریوں کا شکار ہوئیں؟

    ReplyDelete
  10. :)
    عارف کریم، کزن میرج کی سو بنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک گھر کی دولت کو گھر کے اندر مرتکز رکھنا اور دوسرے اجنبی لوگوں سے میل جول میں گھبراہٹ یا انہین اپنے لئے خطرہ سمجھنا، جو کہ ایک نفسیاتی بیماری ہی ہوتی ہے۔
    اگرچہ اسکے لئے یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ خاندان میں کی گئ شادیاں زیادہ معاشی مسائل کا باعث نہیں بنتی اور فرقیقین چونکہ ایکدوسرے کو جانتے ہیں اس لئے شادی کے بعد نبھا اچھا ہو جاتا ہے حالانکہ یہی دلیل اگر پسند کی شادی کے متعلق دی جائے تو سخت بےزر ہوں۔ شادی کے بعد ثقافتی ٹکراءو نہیں ہوتا۔ حالانکہ ان شادیوں کے نتیجے میں بھی لڑائیاں اتنی ہی ہوتی ہیں جتنی کہ خاندان سے باہر کرنے کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔ اچھا انکے معاشرتی رویوں سے الگ۔ آپ کے پاس کیا ایسا کوئ ڈیٹا موجود ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ ایسا نہیں ہوتا جبکہ ریسچ کہہ رہی ہے کہ پاکستان میں بچوں کی اموات اور ذہنی پسماندگی کا ایک سبب کئ نسلوں سے خاندان میں شادی ہے۔ صوبہ ء سرحد تھیلیسمیا سے شدید طور پہ متائثر ہے۔ اسکی بنیادی وجہ خاندانی شادیاں ہیں۔ جیسا کہ ہم اپنی تحریر میں کہہ شکےہیں اور ہم نے ایک شکل بھی دی ہے کہ جو لوگ کسی بیماری کے کیریئر ہوتے ہیں وہ بیمار نظر نہیں آتے مگر وہ اس بیماری کو اگلی نسل تک پہنچا دیتے ہیں۔ اور اگلی کسی بھی نسل میں یہ بیماری کسی کو یا سب لوگوں کو ہو سکتی ہے۔
    جہاں تک ذہنی پسماندگی اور نفسیاتی بیماریاں ہیں یہ کبھی بالکل واضح ہوتی ہیں اور کبھی ارد گرد کے لوگ بھی چونکہ ایسے ہی ہوتے ہیں اس لئے اندازہ نہیں ہو پاتا۔
    لیکن جس طرح ہمارا نظام چل رہا ہے اور مجھ سمیت آپ سب کو روز ہی عجیب لوگوں سے واسطہ پڑتا ہوگا تو یہ بات مشاہدہ کرنا قطعاً مشکل نہیں کہ بحیثیت مجموعی ہماری ذہنی سطح کیا ہے۔
    جنہیں ہم اپنا رہنما بنا کر بھیجتے ہیں انکی اکثریت اسی کا شکار ہے ، چونکہ وہ ہمارے درمیان سے ہمارے ذریعے سے منتخب ہو کر جاتے ہیں اس لئے یقیناً ہم بھی غیر متوازن روئے رکھتے ہیں۔ ہم یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے درمیان کوئ سوچنے سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتا اور ہم ایک بہتر رہنمائ سے محروم ہیں ، تو یہ بہتر شخص یا اشخاص ہم کیوں حاصل کر پا رہے ہیں۔
    روس کا شاہی خاندان زار، تھیلیسمیا کے شکار لوگوں پہ مشتمل تھا۔ شاید وہیں سے تحیلیسمیا کی بیماری کو شہرت ملی ہے۔ پورے محل میں نرم کشنز بچھے رہتے تھے مبادا بچوں کو کحیل کے دوران چوٹ نہ لگ جائے۔
    جہاں تک امراء اور سرمایہ داران کی خاندانی شادی کا تعلق ہے یہ دولت کو محفوظ رکھنے اور اپنا اثر قائم رکھنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ اسکے علاوہ کچھ لوگ اپنے آپکو نسلی طور پہ اعلی سمجھتے ہیں اس لئے دوسروں سے دور رہتے ہیں۔ مصر کی قلوپطرہ سے کون واقف نہیں۔ قلوپطرہ کے زمانے میں مصر میں شاہی خاندان میں بہن بھائیوں کی شادی ہوتی تھی۔ تاکہ شاہی نظام ایک خاص طبقے کے پاس رہے۔
    یہاں مزید امراء اور سرمایہ دار طبقے کی شادیون کا تذکرہ ممکن نہیں۔ ہے۔
    پاکستان میں چھوٹے بچوں کی اموات شرح کافی زیادہ ہے۔ اور اسکی ایک وجہ کزن میرج ہیں۔ بچوں کو پیدائش سے پہلے ختم ہو جانا، اسکی بھی ایک وجہ یہی ہے۔ یہاں یہ نکتہ ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ ہم شماریاتی سطہ پہ امکانات کی بات کر رہے ہیں۔ اگر ایک خاندان کے سو افراد میں سے چھ بچے دنیا میں آنے سے پہلے مر جاتے ہیں چار بچے پیدائش کے بعد کسی پیچیدگی کا شکار ہونے کی وجہ سے نہیں رہے۔ تین اور بچے کم یا زیادہ ذہنی پسماندگی کا شکار ہے اور ایک اور خاندان میں یہی شرح اسکی آدھی سے بھی کم ہے تو پہلے خاندان کو اسکی وجوہات پہ غور کرنا چاہئے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ جینیاتی طور پہ مختلف بیماریاں ہمیں کن خاندانوں میں نظر آرہی ہیں۔ صرف ذہنی پسماندگی اور معذوری ہی نہیں یہ بیماریاں بھی اہم ہیں۔
    اب اس اصول پہ ہم بہن بھائیوں کی شادی کو درست قرار نہیں دے سکتے۔ سوچنا چاہئے کہ دنیا کی تقریباً تمام تہذیبوں میں اور مذاہب میں بہن بھائیوں کی شادی پہ کیوں پابندی ہے۔
    ان بریڈنگ ڈپریشن کی وجہ سے جانوروں کی کئ نسلیں اور پودوں کی کئ اقسام دنیا سے ختم ہو گئیں کیونکہ جب یہ نمودار ہوتی ہے تو پوری نسل کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ اور کوئ ایک بھی نہیں بچتا۔
    ایک اور مزے کی بات بتاءووں کہ پارسیوں میں خاندانی شادی کا بے حد رواج ہے۔ اور پارسی دنیا کے اس قوم میں شامل ہیں جنکی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

    ReplyDelete
  11. اب تک اس موضوع پر جو کچھ بھی لکھا گیا وہ سب اپنے خاندانوں کی مثالوں پر ہی لکھا گیا۔ جس میں مزید کنفیوژن تو ہوئی لیکن دل مطمعین نہیں تھا ابھی کچھ حقیقت واضح ہوئی۔
    شکریہ۔

    ReplyDelete
  12. بيالوجی کی سابقہ ٹيچر ہونے کے ناطے ميں نے اس پر لکھنا تھا مگر ارادہ اس ليے ترک کر ديا کہ جن کے دماغ ميں يہ خرناس بھرا ہوتا ہے اسے نکالنا انسانی بس کی بات نہيں ميرا اپنا خاندان راجپوت خاندان ميں نسلی شادياں کرنے والا ہے پہلی بار خاندان ميں ايسا ہوا ہے کہ ميرے سميت ٹوٹل تين لڑکيوں نے برادری سے باہر زبردستی شادی کی ہے نسلوں سے چلنے والی ان شاديوں کے اثرات اب سامنے آ رہے ہيں مگر مان کر نہيں ديتے اب بھی ،حتی کہ جن کے گھروں ميں ابنارمل بچے پيدا ہو رہے ہيں وہ بھی اپنے بچوں کی شادياں کزنوں سے کيے جا رہے ہيں دراصل يہ لوگ جو کزن يا نسل در نسل ايک خاندان ميں شادياں کرتے ہيں يہ اپنے آپ کو بہت اعلی نسل تصور کرتے ہيں آخر بندہ کزن ميرج کے حاميوں سے يہ تو پوچھے کہ ان کے خاندان ميں آخر کونسی خاص بات ہے جو کسی اور ميں نہيں، درحقيقت مارے غرور کے ہر دوسرا پاکستانی خاندان خود کو زمين پر خدا تصور کيے بيٹھا ہے اور دوسرے کو کمتر جب کہ حقيقت ميں ہم کيا ہے دنيا کی نظر سے ديکھيں

    ReplyDelete
  13. میری نئی پوسٹ کا جواب تو مجھے یہیں سے مل گیا!!!
    کزن میرج کا سیاپا ھے۔ آئی سی

    ReplyDelete
  14. زمین پر جب ایک ھی جیسی فصل مسلسل کشت ھو گی تو زمین بنجر ھی ھو گی۔

    ReplyDelete
  15. یہ دیکھیں اسماء کو، بیالوجی کی سابقہ ٹیچر ہونے کے باوجود نہیں لکھا۔ ایک تو جو شخص ایک دفعہ ٹیچر ہو جائے بس ہمیشہ کے لئے ہو جاتا ہے۔۔چاہے پڑھانا چھوڑ بھی دے۔
    نسلی برتری کے بت ہمارے یہاں اتنے مضبوط ہیں کہ چاہے لوگ کمیونسٹ ہو جائیں یا قطب کے عہدے پہ اپنے آپکو ثابت کریں یہ فخر ان میں سے نہیں نکلتا کہ وہ کتنی اعلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے ددھیالی خاندان میں اب سے ایک نسل پہلے تک یہی سلسلہ موجود تھا۔ اب اکثر کے دماغ صحیح ہو گئے ہیں۔ خاص طور پہ جو پاکستان میں آگئے تھے۔
    یاسر صاحب، وزن ہے آپکی بات میں۔

    ReplyDelete
  16. بہت ہی معلوماتی مضمون ہے-- عنیقہ نے جو لکھا ہے وہ "علم " ھے-- اسکو اگے بڑھیں اور ثواب کمائیں-- شکریہ

    ReplyDelete
  17. کزنز میرج یا عم زاد شادیوں کی ایک بڑی وجہ برادری سسٹم ہے جو نہ صرف گاوں دیہات بلکہ شہروں میں بھی خوب پھیلا ہوا ہے اور پاکستان کے بہت سارے دیگر مسائل کے حل کی طرح اس مسئلہ کا حل بھی تعلیم ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک ایسا نظام بھی جو کہ لوگوں کو بنیادی صحت کے بارے میں مفید مشورے ، راہنمائی اورصحت کی بنیادی سہولیات مفت فراہم کرے اور یہ نظام فیملی پلاننگ کے موجودہ سیٹ اپ سے بالکل جدا ہو کیونکہ ایک تعداد عوام کی مختلف وجوہات کی بنا پر فیملی پلانگگ سے متنفر ہے۔

    ReplyDelete
  18. عنیقہ :: براہ کرم تصحیح کر لیں، روسی شاہی خاندان میں ہیموفیلیا کی بیماری تھی ، تھیلیسیمیا کی نہیں۔

    ReplyDelete
  19. شکریہ منیر عباسی، یہ میں نے اس سلسے کے تبصرے میں کہیں لکھا ہے۔ تبصرہ لکھتے وقت میں محض یاد داشت کا سہارا لیکر لکھ دیتی ہوں اور اسے کہیں سے چیک نہیں کرتی۔ یہ میری نا اہلی ہے۔ جسے اب میں دور کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئ ہوں۔ تبصرہ میں کیسے تصحیح ہو سکتی ہے؟
    آپ نے اسکی نشاندہی کی، میں نے اسے صحیح تسلیم کیا، میرا خیال ہے کہ اس سے تصحیح ہو گئ۔

    ReplyDelete
  20. مجھے لگتا ہے میرے مامے نے یہ پوسٹ پڑھ لی ہے
    :(

    ReplyDelete
  21. افسوس ہوا، اب کیا کریں گے۔

    ReplyDelete
  22. ایک در بند تو دوسرا کھلا
    چاچا میرا ان پڑھ ہے
    امید ہے کسی نے اس کو زبانی نہیں سنائی ہو گی

    ReplyDelete
  23. اس مضمون کے لیے آپ کا شکریہ عنیقہ۔
    ایک پاکستانی فیملی نے اپنی بیٹی کے کزن سے شادی کے انکار کے بعد کزن شادی پر تفصیلات طلب کی تھیں جو انہیں انگلش میں نہیں سمجھائی جا سکتی تھیں۔

    آپ کا مضمون پڑھنے کے بعد اگلا سوال یہ آیا ہے کہ کیا شادی سے قبل ڈاکٹرز سے ایسے ٹیسٹ کروائے جا سکتے ہیں جو یہ پہلے سے ہی بتا سکیں کہ ان دو کزنز کی شادی کی صورت میں بیماری کا کتنے فیصد رسک ہے؟

    ReplyDelete
  24. اگر ایک خاندان میں مسلسل کئ نسلوں سے کزن میرج نہیں ہو رہی تو کزن میرج میں کوئ خاص حرج نہیں ہے۔ لیکن یہ سلسلہ اگر کئ نسلوں سے چل رہا ہو اور خاندان سے باہر کبھی شادی نہیں کی جاتی تو وراثتی بیماریوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اب کچھ بیماریاں تو ایسی ہوتی ہیں جن پہ کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً دل کی بیماریاں یا ذیابیطس۔ لیکن کچھ بیماراں ایسی ہوتی ہیں جو بچوں کو معذور کر دینے کی حد تک خطرناک ہوتی ہیں۔ مثلاً تھیلیسمیا یا ہیمو فیلیا۔ ایران میں شادی سے پہلے تھیلیسمیا کا ٹیسٹ کروانا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض خاندانوں میں بعض عجیب و غریب بیماریاں سامنے آتی ہیں۔ مثلاً بچوں کا پیدائشی طور پہ کسی عضو سے محروم ہونا۔ یا اپنی بڑھوتری کے دوران کچھ پیچیدگیوں کو جنم دینا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ