Friday, March 11, 2011

ایک سونامی چاہئیے

اطلاع  ملی کہ جاپان میں شدید زلزلے کے ساتھ سونامی آگئ۔  نیوکلیئر پاور پلانٹ سمیت متعدد مقامات شدید نقصان سے دوچار۔ پاکستان میں کچھ لوگ کف افسوس مل رہے ہونگے کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ یہ سب کچھ ہمارے یہاں ہوتا۔  قدرتی آفات کے نام پہ ہمارے یہاں کچھ لوگوں کی رال ٹپکنے لگ جاتی ہے۔ امداد جو ملتی ہے۔
خیر، اس وقت تو میں یہ خبر پڑھ کر سر دھن رہی ہوں کہ  وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا آج سب سندھ اسمبلی میں داخل ہوئے تو ان کا ڈیسکیں بجا کر گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔  اسکی وجہ یہ نہ تھی کہ انہوں نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کے لئَ کوئ موءثر قدم اٹھا ڈالا تھا، یہ انکا سر درد نہیں۔ اسکی وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ وہ موجودہ عہد حکومت کے دوران ہونے والے کراچی میں سنگین واقعات مثلاً پچھلے سال محرم میں ہونے والی دہشت گردی اور لوٹ مار،  کے مجرمین کو وصل جہنم کر آئے تھے اور نہ ہی اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ بحیثیت وزیر داخلہ سندھ میں جرائم کی سرکوبی کرنے میں کامیاب رہے اور کراچی سمیت پورے سندھ میں انہوں نے جرائم پیشہ لوگوں لو اپنے انجام تک پہنچادیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے کراچی میں پچھلے تین سالوں میں نہ صرف  ڈکیتیوں سے لے کر اغواء برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ٹارگٹ کلنگ میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔
تو پھر انکی پذیرائ کی وجہ کیا ہے؟  اسکی وجہ یہ ہے کہ لیاری کے جرائم پیشہ عناصر کو پیپلز پارٹی کی حفاظت کی چادر اوڑھائ۔ یہ یقیناً سندھ میں پیپلز پارٹی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ یوں ، پچھلے سال شیر شاہ میں ہونے والے قتل و غارت گری کے مجرموں کو پہلے امن کمیٹی کا تحفظ دیا گیا  اور پھر پیٹھ تھپک کر شاباش دے دی گئ۔ اور اس عمل کو پیپلز پارٹی کے ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل رہی۔ انکا کہنا کہے کہ اس طرح وہ لیاری کے جرائم پیشہ افراد کو مین اسٹریم میں لا رہے ہیں۔ مرنے والے جائیں جہنم میں۔ ویسے بھی انکی اکثریت اردو بولنے والوں سے تعلق رکھتی ہے۔ انکی پرواہ اگر کسی کو کرنی چاہئیے تو وہ ایم کیو ایم ہے۔ پیپلز پارٹی کیوں کرے۔ سب کو اپنے تعصب کی جنگ لڑنی ہے۔
اپنی ایک عوامی تقریر میں وہ فرماتے ہیں کہ
یہ بات بھی کوئ ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ کراچی میں اغواء برائےتاوان اور لوٹ مار کی وارداتیں اب صوبائ حکومت کی سرپرستی میں ہو رہے ہیں۔ اغواء برائے تاوان اور ڈاکے، فیوڈل سسٹم کے کرتا دھرتاءوں کا نشان امتیاز رہے ہیں۔ اور اب شاید ایم کیو ایم سے متائثر ہو کر انہوں نے بھتے کو بھی اپنے منشور میں شامل کر لیا ہے۔ ایم کیو ایم اپنے اس امیج کو دھونے کی کوشش کر رہی ہے تو پیپلز پارٹی نے اسے حاصل کر لیا۔   
اس روئیے کے بعد پاکستانی معاشرے کے مختلف لوگ خدا جانے کس منہ سے یہ بات کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم تعصب کی سیاست کرتی ہے فاشسٹ ہے۔ اور ہم نہیں ہیں۔ یہاں سب ایک حمام میں ننگے ہیں۔
ہماری حکمراں جماعت کے حصے میں یہ کارنامہ بھی آیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف انہوں نے سندھ میں ہڑتال کال کی اور اسے کامیاب بنانے کے لئے ایکدن میں نو سے زائد افراد مارے گئے۔ شہر میں گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ اور انتہائ دلچسپی کی بات یہ کہ ہمارے محبوب صدر کے گھر بلاول ہاءس کے سامنے ہی ایک بس کو جلایا گیا۔ یہ بات تو ہمارے قارئین کو ضرور پتہ ہوگی کہ صدر صاحب، پیپلز پارٹی کے کو چیئر مین ہیں۔ یوں جیالوں کی آزادی، عدلیہ کی آزادی پہ سبقت لے گئ۔
یہ بات ہمارے علم میں نہیں کہ  سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہڑتال کی 'دانشمندانہ، جیالی اور جوسی تجویز' پہ ملکی کال دینے کے بجائے کراچی کو کیوں چنا گیا؟
 خیر، ملکی سیاست پہ ایک ہلکی سی نظر سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ پاکستان میں آزاد غنڈوں کا کوئ تصور نہیں رہا۔ ہر غنڈہ ، بدمعاش شخص کام پہ لگا ہوا ہے۔ کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے وابستہ ہے۔ مذہبی جماعتوں نے انہیں مجاہد کا نام دیا ہے اور سیاسی جماعتوں نے کارکنوں کا۔
میری عزیز دوست نے اپنے جواں العمر بھائ اور  چار چھوٹی بچیوں کے باپ کے ایسے ہی قتل پہ  آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ جو لوگ سیاسی غنڈوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں۔ انکے لئے انصاف کی داد رسی کس سے چاہیں؟
میرے پاس اس کا جواب نہیں۔ میں تو خوداپنے ملک میں کسی سیاسی سونامی کی منتظر ہوں۔

28 comments:

  1. حقیقت سے لبریز تحریر۔۔۔ یقین مانیے کہ آپ کی طرح میرا دل بھی بے گناہ لوگوں کی موت پر روتا ہے۔۔۔ لہو تلاش کرنا ہی تو مشکل ہو گیا ہے اب۔۔۔ کس کے خلاف آواز اٹھائیں۔۔۔ حکمرانوں کے خلاف۔۔۔ یا ان کے اتحادیوں کے خلاف۔۔۔ یا پھر ہمیشہ کی طرح بیرونی ہاتھ پر الزام لگا دیا جائے۔۔۔

    ReplyDelete
  2. ایم کیو ایم صوبائی حکومت کا حصہ نہیں ہے؟

    ReplyDelete
  3. ٹھیک کہا آپ نے۔ پیپلز پارٹی صریح تعصب اور نسلیت پرستی میں مبتلا ہے چاہے وہ خود کو کتنا ہی پاک صاف کہیں۔ کیا مفاہمت کی سیاست میں ذوالفقار مرزا جیسے شخص کی کوئی گنجائش نکلتی ہے۔ ہرگز نہیں۔

    نہ جانے ہم لوگ کبھی پاکستانی بن بھی سکیں گے یا نہیں۔

    ReplyDelete
  4. يہ تو اب پرانی خبر ہو چکی ہے ۔ اس کے بعد بہت کچھ ہو چکا ہے ۔
    ايم کيو ايم اگر پاک صاف ہے تو لُٹيروں اور قاتلوں کی حکومت ميں کيوں شامل ہے ؟

    ReplyDelete
  5. افتخار اجمل صاحب، کون سی خبر پرانی ہو گئ۔ یہ کہ ذالفقار مرزا جب کل اسمبلی ،میں داخل ہوئے تو ارکان اسمبلی نے ان کا پر جوش استقبال کیا۔ یہ خبر کتنی پرانی ہے اتنی کہ پرسوں رات میں مرنے والوں کا آج سوئم ہوا اور اس دوران مزید پندرہ افراد مارے گئے۔
    میں ایم کیو ایم کی ترجمان نہیں۔ نہ ان کا ایجینڈا جانتی ہوں۔ لیکن کراچی میں پیدا ہونے اور زندگی گذارنے کے بعد یہ خوب اچھی طرح سمجھتی ہوں کہ تمام پاکستانی اقوام اچھی طرح تعصب میں لتھڑی ہوئ ہیں۔ مگر سب اپنے اپنے موقع پہ ظاہر ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے سب کی زبان پہ مصنوعی نعرے ہوتے ہیں۔
    مجھ سمیت بہت سارے لوگوں کو یہ کھٹکا ہے کہ آج ایم کیو ایم حکومت سے بالکل الگ ہو جائے تو یہ صرف کراچی ہوگا جہاں فتنہ فساد ہوگا۔ دیگر صوبوں کے لوگ ایم کیو ایم کی دہشت گردی کے قصے سنائیں گے وہ جو خود بھی ان میں گوڈے ڈوبے ہونگے۔ کراچی میں سندھی مہاجر کا ہنگامہ شروع ہوگا۔ کراچی میں ہی پٹھان اور پنجابی اتحاد بین المسلمین کے مثالی نمونے بن جائیں گے۔ وزیر داخلہ سندھ، کراچی میں آپریشن کلین اپ شروع کریں گے۔ جس کا نشانہ صرف اردو اسپیکنگ آبادی کے لوگ ہونگے۔ باقی سب اچھے بچے قرار پائیں گے۔ یہ
    سب کچھ تو نوے کی دہائ میں ہو چکا ہے۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

    راشد کامران صاحب، ایم کیو ایم نے کل کی ہڑتال میں جو پیپلز پارٹی کی طرف سے تھی حصہ نہیں لیا۔ اب باقی یہ کہ ان دونوں کا اتحادی ہونا وہ تو امریکن پیپر میرج لگتی ہے۔ ورنہ کیا ایسا ہوتا کہ ذوالفقار مرزا کے ان غیر ذمہ دارانہ بیانات کے بعد سندھ اسمبلی میں ان کو اتنی پذیرائ ملتی۔ ذوالفقار مرزا کو یہ پذیرائ سندھی تعصب دکھانے کی وجہ سے ملی۔ یہ بات نہیں معلوم کہ پیپلز پارٹی اس قسم کا رویہ سندھ میں دکھا کر عوام کو کیا پیغام دے رہی ہے۔ سوائے اسکے کہ وہ سندھی نیشنلزم کا کارڈ استعمال کرے۔
    وزیر داخلہ اگر سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کو سزا ملنی چاہئیے تو انہیں لیاری سمیت ہر دوسرے دہشت گرد کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لینا چاہئیے۔
    ہر پارٹی اپنے لسانی بد معاشوں کو مین اسٹریم میں لاتی رہے تاکہ وہ قانون کی زد پہ نہ آ سکیں کیا یہی جمہوریت ہے ایسی جمہوریت اپنے ارتقاء کے عروج پہ کیا ہوگی؟

    ReplyDelete
  6. افتخار اجمل بھوپال@ ،
    ہن آرام اے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    Abdullah

    ReplyDelete
  7. میں عنیقہ صاحبہ کی بات سے متفق ہوں، اور میرا تجزیہ یہ کہتا ہے کہ اس احتجاج کی آڑ میں پیپلزپارٹی نے ایک تیر سے تین شکار کھیلے ہیں، عدلیہ کو پیغام دیا ہے کہ ہمارے خلاف فیصلے کیئے تو ہم ایسا حشر کر دیں گے پاکستان کا، دوسرا شکار، ایم کیو ایم کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر علیدگی اختیار کی تو پھر صرف امن کمیٹی کے دہشت گرد ہی کافی ہونگے کراچی والوں کی بربادی کے لیئیے، تیسرا شکار، فوج اور استیبلشمنٹ کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہماری حکومت ختم کی گئی تو سندھہ کارڑ استعمال کیا جائے گا۔

    ReplyDelete
  8. میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر حکمران جماعت کی پالیسیوں سے سنگین اختلافات ہیں تو پھر حکومت اور اتحاد میں رہنے کا جواز نہیں۔۔ جسطرح جماعت اسلامی زیاں الحق کے ہر کرتوت کی ذمہ دار ہے اسی طرح ایم کیو ایم حکومت کا اتحادی ہوتے ہوئے اپوزیشن کا ناٹک کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔۔۔ ایم کیو ایم کو بھی اردو کارڈ کھیلنے میں احتیاط برتنی چاہیے۔۔

    ReplyDelete
  9. راشد کامران صاحب خواب غفلت سے باہر آجائیے ایم کیو ایم اب صرف اردو بولنے والوں کی جماعت نہیں ہے،اور اب وہ جس پوزیشن پر ہے وہاں وہ اردو کارڈکھیل کر خودکو پیچھے نہیں دھکیلے گی،
    27,28,29
    دسمبر کو کراچی میں جو کچھ ہوا وہ ایم کیو ایم کی نہیں بلکہ مخالف قوتوں کی کارگزاری تھی،اوراسکی جوکیپیسیٹی تھی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ مخالف قوتیں کس طاقت کے ساتھ کراچی میں کارفرما ہیں،اوران کا ساتھ دینے کےلیئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کالی بھیڑیں بھی وہیں موجود ہیں
    Abdullah

    ReplyDelete
  10. آپ ناراض نہ ہويئے بی بی ۔ آپ نے سب درست لکھا اور ميں نے کسی چيز پر اعتراض نہيں کيا ۔
    البتہ جب ہر گھنٹہ دو گھنٹہ بعد خبر ملے کہ ايک آدمی ہلاک يا زخمی ہو گيا يا ايک بس يا ٹرک جلا ديا گيا تو 12 گھنۓ پہلے کی بات بھی نئی نہيں رہتی ۔ کراچی کے حالات آنکھوں کو نہيں دل کو رُلاتے ہيں ۔ آپ نے پی پی پی کا ذکر کيا ۔ ميں تو ايسا ديکھ چکا ہوں کہ ان کا پُر امن جلوس بھی جہاں سے گذر جائے وہاں بعد ميں ٹوٹے ہوئے قمقمے اور روندی ہوئی کيارياں ہی نظر آتی ہيں ۔ مہاجروں کے ساتھ جب ظلم ہوا تو انہوں نے اپنے حقوق کی تحريک شروع کی جس ميں اتفاق سے ميں بھی شامل تھا ۔ وقت گذرنے کے ساتھ وہ تحريک تو گم ہو گئی اور باقی سياسی جماعتوں کی طرح ايک اور سياسی جماعت معرض وجود ميں آ گئی ۔ پھر بھی ان لوگوں ميں دو آدمی قابل اعتماد تھے عظيم احمد طارق اور عمران فاروق ۔ اُن دونوں کو قتل کر ديا گيا ۔ کيوں ؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہيں ۔ ہمارے ملک ميں پہلے ايک پڑھے لکھوں کی جماعت تھی "جماعت اسلامی" جو قاضی حسين احمد صاحب کے دور ميں خالص سياسی جماعت بن گئی ۔ دوسری پڑھے لکھوں کی جماعت بنی مہاجر تحريک وہ ايم کيو ايم بن کر کھو گئی ۔ کيا ہمارے لوگوں کو سياست راس نہيں آتی ؟ کيا آپ اور ميں اور ہم جيسے صرف کَڑھتے ہی رہيں گے اور بلاگ پر تحارير لکھ کر اپنا غم غلط کرتے رہيں گے ؟
    کراچی جہاں زندگی ہردم رواں دواں رہتی تھی جو روشنيوں کا شہر تھا ۔ جہاں نظم و ضبط سڑکوں پر اور گليوں ميں ہر طرف نظر آتا تھا ۔ آدھی رات کو بھی اکيلا شخص خواہ عورت ہو بے دھڑک شہر کے ايک کونے سے دوسرے تک چلے جاتے تھے ۔ اب وہاں دن دھاڑے گھر سے باہر نکلتے دل ڈرتا ہے ۔ کيا "يہ سب کچھ دشموں کا کيا دھرا ہے" کہہ کر ہم لوگ مطمئن ہو سکتے ہيں ؟ يقينی طور پر آپ بھی کہيں گی "نہيں"

    ReplyDelete
  11. لوگ گھر کی حفاظت کے لئے جانور پالتے ہیں آپ نے بلاگ کی حفاظت کے لئے اچھا طریقہ استعمال کیا ہے۔
    ہماری پھپھو کے گھر ایک جانور ہوا کرتا تھا۔ یہ ہر ایرے غیرے کا استقبال ایک طرح سے کرتا تھا۔ مگر جب پھپھو اس کا تعارف کسی سے کرا دیتی تھیں تو یہ اس کو سپیشل پروٹوکول دینا بند کر دیتا تھا مگر باقی سب کا استقبال بدستور غرا کر کرتا تھا۔
    آپ کے پچھلی کچھ تحاریر پر مجھے افسوس ہوا کہ جانور کی فرض شناسی کے تحت سب کے سب اب میدان چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔ مگر اس پوسٹ پر رویہ دیکھ کر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اگر آپ نے اس کو اپنے پرائے کی تمیز نہ کرائی تو میرے خیال سے یہ نہایت غلط ہو گا۔
    فقط آپ کی غیر متعصب غیر سیاسی خالص علمی پوسٹوں کا فین۔

    ReplyDelete
  12. میں افتخار اجمل صاحب کی ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں۔۔۔ عنیقہ۔۔۔ بات صرف ایم کیو ایم کی نہیں ہے۔۔۔ بات ہمارے سیاسی کلچر کی ہے جو بہت حد تک خطرناک ہو چکا ہے۔۔۔ اور ہر پڑھا لکھا انسان جو سیاست میں جاتا ہے اس جانے کیا ہو جاتا ہے کہ وہ بھی کرپٹ لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے۔۔۔
    بذات خود میں سید مصطفی کمال کا بہت بڑا فین ہوں۔۔۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایم کیو ایم سے منسلک ہیں۔۔۔ بلکہ اس لیے کہ اس نے کسی حد تک کراچی والوں کی بہت خدمت کی۔۔۔ اسی طرح میں شہباز شریف کی اس حد تک تعریف کروں گا کہ انہوں نے لاہور کی شکل سنوارنے میں اپنا اچھا کردار ادا کیا۔۔۔

    ReplyDelete
  13. بد تمیز،میرے لئے آپ بھ اتنے ہی اپنے ہیں جتنے کہ دیگر افراد۔ میں اپنے طور پہ کسی تبصرے کو اس لئے ڈیلیٹ نہیں کرتی کہ یہاں جتنے افراد ہیں چاہیں انہیں آپ میرا اپنا سمجھتے ہوں یا غیر، سب اتنے بڑے ہیں کہ انہیں یہ سیکھنا چاہئیے کہ کس بات کو اہمیت دینی چاہئیے اور کسے نہیں۔ کس کی بات قابل توجہ ہے اور کس کی نہیں۔
    وہ لوگ جو میدان چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے لئے میری تحاریر کی اہمیت نہیں، دیگر چیزوں کی ہے۔ اب مجھے انکے جانے پہ افسوس کرنا چاہئیے یا خاموشی سے وہ کرنا چاہئیے جو میں کرنا چاہتی ہوں۔ زندگی بڑی محدود ہے۔

    ReplyDelete
  14. جو اپنی بے ھودگی اور بدتمیزیوں کی وجہ سے اردو سیارہ پر بین ہوچکے ہوں وہ دوسروں کو تمیز سکھانے چلے ہیں سبحان تیری قدرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اسے ہی تو کہتے ہیں
    Look who is talking!!!!!
    :)
    Abdullah

    ReplyDelete
  15. افتخار اجمل جس طرح حقائق کو توڑ مروڑ کر اپنے مطابق کرتےہیں اس پر انہیں داد ہی دی جاسکتی ہے،
    ایم کیو ایم کے جتنے سرکردہ لوگ ان کی سازشوں کی بھینٹ چڑھتے جائیں گے وہ معصوم ہوتے جائیں گےتو بھئی ہم ان کی نظر میں معصوم بننے کے لیئےاتنی بڑی قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں ہمیں تو معاف ہی رکھیں یہ حضرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    کراچی اب بھی روشنیوں کا شہر ہے اگر لوڈ شیڈنگ نہ ہو،کراچی میں اب بھی لوگ رات دیر تک گھومتے پھرتے ہیں جب دہشت گرد اپنے اپنے علاقوں کو گئے ہوئے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    رہا نظم و ضبط کا سوال تو جو نظم و ضبط کراچی والوں میں عموما اور ایم کیو ایم کے کارکنوں میں خصوصا پایا جاتا ہے،اسکے تو یہ حضرت اور ان کی ممدوح جماعت صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں!
    :)
    ہاں ایک ضروری بات اور کہ ایک جانور کو ہی سب جانور نظر آتے ہیں!
    :)
    Abdullah

    ReplyDelete
  16. میرا ایک تبصرہ (جو ان کی اس پوسٹ پرکیا تھا جہاں کراچی کا رونا رویا گیا ہے اور جسے چھاپنے کی ان حضرت میں ہمت نہ ہوئی،کیوں ؟
    اس کا جواب تمام سمجھدار لوگوں کے پاس موجود ہے!
    وہ جو اپنے تمام جرائم کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھراتے تھے آج خود کے پول کھل رہے ہیں مگراللہ رے ڈھٹائی کہ اب بھی سچائی سے نظریں چرانے کی پالیسی پر ہی گامزن ہیں،)

    ابھی تو میں نے ڈرگ اور اسلحہ مافیا کے بڑوں کا تو ذکرکیاہی نہیں جو سرحد میں ان جرائم کو پال رہے ہیں جس میں فوج اور ایجینسیوں کے بڑوں کے نام بھی آتے ہیں اور اسی سے متعلق جرائم جن میں دہشت گردی،اغوا برائے تاوان شامل ہیں ـ
    اپنے ہر جرم کو کراچی والوں یا ایم کیو ایم کے کھاتے میں ڈالنے کی روایات اب پرانی ہوگئی ہیں اور بے اثر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    Abdullah

    ReplyDelete
  17. کراچی ایک مافیا کے پاس تھا، اب شہر قائد دو مافیائوں میں تقسیم ہوچکا ہے ، پہلی مافیا پریشان ہے کہ بھتہ خوری ،اغوا برائے تاوان ،قتل ، ڈکیتی اور زمینوں پر قبضےکرنے کے لئے دوسری مافیا کہاں سے آگئی ، محترمہ تیسری اور چوتھی مافیا بھی تیار بیٹھی ہے ، پیپلزامن کمیٹی ایک حقیقت ہے یہ بھی وہی کام کررہی ہے ،جوایم کیو ایم آج تک کرتی چلی آئی ہے،تعصب کی عینک اتار کردیکھیں تو دونوں ایک ہی کام کر رہی ہیں،


    آپ نے اوریامقبول جان کا کالم اومترا نہیں پڑھا ،اگر مل جائے توضرور پڑھئے گا ، اوریا کی یہ تحریر کراچی کے حالات پر صادق آتی ہے ،

    ReplyDelete
  18. دانیال دانش صاحب، مجھے نہیں معلوم آپکی عمر کیا ہے اور یاد داشت کتنی ہے۔ امن کمیٹی تو اب بنی ہے۔ ایم کیو ایم کی بھتے کی داستانیں بھی اب زبان زد عام ہوئ ہیں۔ لیکن سندھ میں ابھی شاید دس سال پہلے تک ڈاکوءووں کو زمینداروں اور جاگیرداروں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ ہر با اثر شخص کے اپنے ڈاکو تھے۔ اندرون سندھ جانے والوں کو قافلے بنا کر چلنا پڑتا تھا۔ کچے کا علاقہ اور اندر کے جنگلات ان ڈاکوءوں کی آماجگاہ تھی۔ یہ کہا جاتا تھا کہ ڈاکا ہماری ثقافت ہے۔ فوج کے تعاون سے کئ سال تک یہاں آپریشن کیا گیا۔ اس کے باوجود صورت حال بالکل سو فی صد نہیں۔
    پیپلز پارٹی کے ایک با اثر شخص پہ یہ الزام لگا تھا کہ باہر سے کروڑوں روپے لیکر آنے والے شخص کو ایک ٹانگ پہ بم باندھ کر کراچی میں یر غمال بنائے رکھا۔
    سو یہ بحث عبث ہے کہ کون لوٹ مار کے دھندے میں کتنا ملوث رہا ہے۔
    اوریا مقبول جان کی ہر بات کو اس لئے صحیح مان لیا جائے کہ وہ ایک اخبار کے لئے لکھتے ہیں۔ اور اپنی آنکھوں دیکھی کو اس لئے جھٹلا دیا جائے کہ اسے کہیں تعصب میں نہ ڈال دیا جائے۔
    معاف کیجئیے گا، ایم کیو ایم کو اس لوٹ مار اور خوں ریزی کا سبق سکھانے والے کوئ اور نہیں فرزند زمین ہی ہیں۔ یہ ہماری اس زمین کی ثقافت کا حصہ رہا ہے، ایم کیو ایم کے کیس میں یہ اس لئے کھٹکتا ہے کہ وہ فرزند زمین کی فہرست میں نہیں آتے۔
    دراصل اس طرز عمل کی بناء پہ اس وقت کراچی میں طاقت کا وہ مکروہ کھیل چل رہا ہے۔ جہاں تمام سیاسی جماعتیں خون بہا رہی ہیں۔
    یہ خون اگر پیپلز پارٹی سندھی کے نام پہ اور اے این پی پشتون کے نام پہ بہاتی ہے تو برا نہیں لگتا۔ یہی لوٹ مار اگر پیپلز پارٹی سندھیوں کے نام پہ اور اے این پی پشتون کے نام پہ کرتی ہے تو جائز ہے۔ وہ اگر کہیں کہ اردو اسپیکنگ کا دماغ ٹھیک کر کے رکھو تو اوریا جان کو کوئ کالم لکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن اوریا جان کو اس پہ لکھنے کی ضرور محسوس ہو گی کہ امن کمیٹی کی بنیاد اتنی بری نہیں۔
    یہ تمام لکھنے والے بھی اس خوں ریزی کا حصہ ہیں۔ ہر وہ شخص جو اپنے لسانی بد معاش کے لئے تو خآموش رہے مگر دوسرے کے بد معاش کے نقصان پہ اپنے بدمعاش کو شیر کراچی کہے یااسے صحیح جانے وہ اس معاملے کو ہوا دینے والوں میں شامل ہے۔
    جب یہ کہا جائے کہ پٹھانوں کی تنظیمیں لینڈ مافیا کو کنٹرول کرتی ہیں تو تعصب ہو جاتا ہے ۔ مگر جب ایم کیو ایم شہری پارکس پہ فلیٹس بناتی ہے تو یہ اسکی بد معاشی ہوتی ہے۔
    جب تک انصاف کا پیمانہ ایک نہیں ہوگا۔ کسی نانصافی کا خاتمہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کیا اوریا جان نے اس موضوع پہ کوئ کالم لکھا ہے۔ مجھے بتائیے گا۔
    راشد کامران صاحب، فی الوقت تو یہ ہو رہا ہے کہ اندرون سندھ میں ایم کیو ایم کے کامیاب جلسے ہوئے ہیں۔
    میرا خیال ہے کہ اردو اسپیکنگ، باقی لوگوں کے مقابلے میں پھر مختلف چیزوں کو نظر میں رکھتے ہیں۔ اس لئے ایم کیو ایم کو اردو اسپیکنگ کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انکے بد معاش بھی بد معاشی کرتے ہیں۔
    یہ تو ہم بھِ سوچتے ہیں کہ ایم کیو ایم کو اس وقت حکومت سے علیحدہ ہو جانا چاہئیے۔ کیوں نہیں ہوتے، یہ ہمیں نہیں معلوم۔ کیا وہ دباءو نہیں لینا چہاتے،، تو اس قسم کے کاموں میں ایسا تو ہوتا ہے۔ جب وہ نوے کا آپریشن کلین اپ گذار چکے ہیں تو انہیں ایک دفعہ پھر رسک لینا چاہئیے۔
    کیا کوئ سیاسی پارٹی محض بد معاشی کی سیاست سے فتح حاصل کر سکتی ہے۔ کہیں نہ کہیں سیاسی پارٹیز کو کچھ ڈلیور کر کے دکھانا ہوتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر پائیں تو انہیں بڑے سے بڑے بد معاش بھی نہیں بچا سکتے۔
    دنیا کے موجودہ معاشی بحران نے بڑی بڑی حکومتوں کو ہلا دیا ہے۔ یہاں بھی لوگوں کے معاشی حالات بہت برے ہیں۔ وہ زندگی میں آسانیاں چاہتے ہیں۔ ہر وقت کی خوں ریزی نہیں۔ اگر سیاسی پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ چند ہزار بدمعاش اپنے اپنے پاس جمع کر کے حالات کو کنٹرول کئے رہیں گے تو یہ نا ممکن ہے۔
    یہ بات ہمارے سیاسی نظام کو چلانے والوں کوسمجھنے میں دشواری ہے۔

    ReplyDelete
  19. اوریا مقبول جان کی بھی خوب کہی،
    ابھی مہینہ پہلے آج ٹی وی کے پروگرام بولتا پاکستان میں وہ الطاف حسین پر واری صدقے ہورہے تھے،الطاف حسین کا انٹرویو لیتے ہوئے!
    عنیقہ ،
    دانیال دانش ہو، وقار اعظم ہو،کاشف نصیر ہو،جواد خان ہویہ سب یا تو ایک ہیں یا ایک ہی تھالی کےچٹے بٹے ہیں،مگر جو بھی ہیں اپنی اصل خوب چھپا رکھی ہے کہ کس کے حب علی میں بغض معاویہ کرتے رہتے ہیں،
    ایم کیوایم کومافیا کہہ کہہ کر یہ جلے دل کے پھپھولے تو پھوڑ سکتے ہیں مگر اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو کم نہیں کرسکتے،
    بے چارے
    :)
    Abdullah

    ReplyDelete
  20. آپ اس کو جیسے ڈیفنڈ کرتی ہیں ، میرا دل بھی کبھی کبھی بارہ سنگھا بننے کو کرنے لگتا ہے۔۔ کوئی پتھر سے نہ مارے مریے بارہ سنگھے کو

    ReplyDelete
  21. بھتہ مافیا کے دہشت گردوں کو اسلحہ سپلائی کرنے والے پانچ افراد گرفتار
    ایم کیو ایم اورامن کمیٹی سے تعلق بتا کر بھتہ وصول کرتے تھے بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد
    http://ejang.jang.com.pk/3-14-2011/Karachi/pic.asp?picname=1024.gif

    ایسے نہ جانے کتنے کرمنلز کراچی میں موجود ہیں اور ان کے مدد گار پولس کی کالی بھیڑیں بھی
    Abdullah

    ReplyDelete
  22. افتخار اجمل کے رونے گانے پر کسی محمد نعمان نے تبصرہ کردیا اور پھر جو وہ اس پر گرجے برسے کہ نہ پوچھیں
    http://www.theajmals.com/blog/2011/03/%d8%af%d9%90%d9%84-%da%a9%db%92-%d9%be%da%be%d9%be%da%be%d9%88%d9%84%db%92-%d8%ac%d9%84-%d8%a7%d9%8f%d9%b9%da%be%db%92-%db%94-%db%94-%db%94-%db%94/comment-page-1/#comment-23573

    سوچا دوسروں کو تو جگاتے رہتے ہیں تھوڑا انہیں بھی جگایا جائے سو یہ تبصرہ لکھا ہے ان کی پوسٹ پر لیکن شائد اپنی عادت کے مطابق اسے بھی وہ گول ہی کر جائیں گے،
    اس لیئے یہاں بھی کیئے دے رہا ہوں کہ آپ کی پوسٹ سے بھی متعلق ہے اور ان کے یہاں کیئے تبصرے کا مزید جواب بھی،

    افتخار اجمل بھوپال ،آپ کب تک لوگوں کو بے وقوف بناتے رہیں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    اس خط میں جو کچھ لکھا گیا ہے کیا وہ سچ نہیں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    http://dosrarukh.com/2011/03/14/george-ka-khuda-hafiz-2/

    اب یہ مت کہہ دیجیئے گا کہ جارج ایک غیر ملکی ہے ،پاکستان کا دشمن ہے،بلا بلا بلا
    چلیئے ایک پاکستانی کی درد غم سن لیجیئے وہ بھی آپکے جنت نظیر علاقے کے فرشتہ صفت لوگوں کے بارے میں

    ہمارے موٹر وے بھی محفوظ نہیں،فیصل خان
    http://dosrarukh.com/2011/03/15/hamaray-motorway-bhi-mehfoz-nahi/

    یہ موٹر وے کراچی میں تو نہیں ہے نا،اور یہ پولس بھی کراچی والوں پر مشتمل نہیں،اور یہ اغوا کنندگان ،اسلحہ ڈیلر انکا تعلق بھی ایم کیو ایم سے تو نہیں ہے نا، یا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    Abdullah

    ReplyDelete
  23. گمنام،
    :)
    اوروں کی چھوڑیں، آپ اس بلاگ کے دیوانوں میں نہیں۔ یہ بات قابل تشویش ہے۔

    ReplyDelete
  24. افتخار اجمل بھوپال کا کہنا ہے کہ:
    Mar 16 2011 بوقت 9:23 AM
    عبداللہ صاحب
    بات وہی ہے کہ آپ بے سُری اور بے وقتی بانسری بجانے سے باز نہيں رہ سکتے
    اور ہاں آپ کی معلومات کيلئے لکھ دوں کہ موٹر وے شہروں کے بيچ ميں نہيں بنتے اسلئے کراچی ميں نہيں بن سکتا ۔ نہ موٹر وے کراچی کا نہ پوليس کراچی کی اور نہ برطانوی شہری الطاف حسين کراچی کا ۔ کراچی کی قسمت ميں عبداللہ اور اس کے ہم خيال رہ گئے ہيں
    قتل ہو تو قصور نہ اسلحہ کا ہوتا ہے نہ اسلحہ بيچنے والے کا بلکہ اسے غلط استعمال کرنے والے کا قصور ہوتا ہے ۔ جرائم پورے پاکستان ميں ہو رہے ہيں مگر جو کچھ کراچی ميں ہو رہا ہے وہ کہيں نہيں ہو رہا ۔ ديگر باقی جگہوں کے لوگ اپنے علاقے کے جرائم کراچی والوں پر نہيں تھوپتے مگر آپ کراچی کے جرائم کو کراچی سے باہر والوں پر بلاجواز تھوپنے سے باز نہيں رہتے ۔ يہ چھوٹی چھوٹی باتيں بھی آپ کی باريک عقل ميں داخل نہيں ہو سکتيں تو اس ميں کسی کا کيا قصور

    یہ میرے اوپر کیئے گئے تبصرہ کا جواب تھا جو انہوں نے دیا

    اور جیسا کہ مجھے یقین تھا کہ دوسروں کو حقائق کا سامنا کرنے کی تلقین کرنے والے خود حقائق کا سامنا نہ کرسکیں گے سو باتوں سے لوگوں کو بے وقوف بنانے والے میرا تبصرہ ایک بار پھر ہضم کر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    میرا جواب

    باتوں کو گھمانے کے علاوہ آپ کر بھی کیا سکتے ہیں،میں نے کب کہا کہ موٹر وے کراچی میں بنے؟؟؟؟؟
    نہیں نہیں بھئی آپکے علاقے کے لوگ تو معصوم ہیں، ان سے کہاں کوئی جرم سرزد ہوسکتا ہے، قصور نہ تو اسلحہ ڈیلر کا ہے نہ ہی اسلحہ چلانے والے کا اصل قصور تو اس اسلحہ کا ہے کہ وہ غلط استعمال ہی کیوں ہوا،کیوں ٹھیک ہے نا؟؟؟؟؟؟

    باقی جگہوں کے لوگوں کو اپنے جرائم دوسروں پرتھوپنے بھی نہیں چاہیئے، جب کہ وہ خود گٹے گوڈوں تک جرائم کی دلدل میں پھنسے ہوں،مگر آپکی غلط بیانیوں کی تو انتہاء ہوچکی ہے،ساری زندگی دوسرے صوبے کے لوگوں اور حکمرانوں کو ہر بات کا الزام دیتے رہے ہیں،آپ سمیت سب کے بلاگس بھرے ہوئے ہیں اس گند سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ جو جارج نے کتھا سنائی ہے یہ ان جرائم کو پالنے والوں کے ہی بارے میں تو ہے نا یا نہیں؟
    ناانصافی کے پیٹ سے ظلم اور جرم کے درندے ہی جنم لیتے ہیں،
    یاد رکھیئے گا کہ ظالم کا ساتھ دینے والا یا ا س کے جرائم کی پردہ پوشی کرنے والا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان ہی میں شمار ہوگا!

    پنجابی طالبان کی حقیقت جاننے کے لیئے کل سب لوگ شام سات بجے جیو کا پروگرام جرگہ ضرور دیکھیں،حالانکہ مجھے یقین ہے کہ بہت سے حقائق سامنے نہیں لائے جائیں گے پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    Abdullah

    ReplyDelete
  25. یہ باغیرت لوگ اور مومن ہونے کا دعوی کرنے والے لوگ،
    کس قدرکنفیوز ہیں اس کی ایک بڑی مثال عمران اقبال جیسے لوگ ہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ یہ کولہو کے بیل اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی سے خوش ہیں اگر کوئی اس پٹی کو اتارنے کی کوشش کرے توسچ کے سورج کی تیز روشنی سے گھبرا کر یہ اس کے خلاف ہی واویلا شروع کردیتے ہیں اور تعصب تعصب کا رونا رونے لگتے ہیں،
    "اپنے بزرگوں کی طرح ان کی سوئی اسی پر اٹکی رہتی ہے کہ پچھلے اکیس سالوں میں نواز کے دور کو چھوڑ کر حکومت زیادہ تر سندھی حضرات کے پاس ہی رہی ہے۔۔۔ تو زیادہ قصور کس کا ہوا۔۔۔۔"

    کوئی ان کم عقلوں کو بتائے کہ کٹھ پتلیوں کی بھی کوئی حکومت ہوتی ہے اصل حکمراں تو پیچھے بیٹھی ڈوریاں ہلاتی اسٹیبلشمنٹ تھی اور اس کا تعلق کہاں سے تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    زرداری کو کرپشن کا بادشاہ کہنے والوں کا تعلق کہاں سے تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    اور ان کی خود کی کرپشن کب بے نقاب ہوگی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    باچا خان ،جی ایم سید ،مینگل،الطاف حسین ،بے نظیر ،اور بھٹو کو غدار وطن کا لقب دینے والے کہاں سے تعلق رکھتے تھے؟؟؟؟؟؟
    لیاقت علی خان ،بھٹو ،بے نظیرکا مقتل کہاں بنا اور قاتلوں کا تعلق کہاں سے تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    چند لوگوں کو نواز کر پورے پنجاب کا بجٹ کھاجانے اور پنجاب کی ستر فیصد آبادی کو پسماندگی و جہالت کی دلدل میں دھکیل دینے والوں کا تعلق کہاں سے تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    پاکستان نے میرے ساتھ برا نہیں کیا اس پر قابض اشرافیہ نے کیا،صرف میرے ساتھ ہی نہیں اس ملک کی بانوے فیصد عوام کے ساتھ برا کیا،اللہ تمھاری آنکھیں کھولے اور تمھیں عقل سلیم عطا فرمائے کہ تم ان اسٹیبلشمینٹ کے کارندوں کے بہکاوے سے باہر نکل سکو،
    کراچی میں ٹارگٹ کلنگ نہیں دہشت گردی ہورہی ہے اور یہ تمھارے آقاؤں کے تریسٹھ سالہ کارناموں کا بھگتان ہے جو کراچی سمیت پورے ملک کو بھگتنا پڑرہا ہے
    سعودیہ میں کمائی کرنے کے لیئے بھیجنے والا میرا رب ہے اور میں صرف اسی کا بندہ ہوں کسی بادشاہ کا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    Abdullah

    ReplyDelete
  26. افتخار اجمل نے حسب توقع میرا یہ تبصرہ بھی چھپنے سے روک دیا!
    Abdullah

    ReplyDelete
  27. عبداللہ۔۔۔عزت افزائی کا بہت بہت شکریہ۔۔۔ تو یہاں آ کر ہی کیوں روتا ہے بھائی۔۔۔ یہ تو بتا دے۔۔۔؟

    ReplyDelete
  28. ایسا ہے کہ وہ جو عقل تم نے کہیں فرج وغیرہ میں رکھ دی ہے اسے بھیجے میں ڈال کر استعمال کرو تو تمھیں اس سوال کا جواب مل جائے گا!
    Abdullah

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ