Thursday, March 17, 2011

بھڑاس

قصہ تو تازہ ہے مگر الفاظ وہی پرانے۔ غیرت، شرم، بکاءو مال، پاکستانی۔ میں کوشش کروں بھی تو ان الفاظ سے اپنی اس تحریر کو محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ مگر میں یہ کوشش کروں بھی تو کیوں؟ جبکہ میری یہ تحریر ایک خالص پاکستانی دماغ اور پاکستانی پس منظر میں لکھی جارہی ہے۔
ملک کے زر مبادلہ میں تقریباً تئیس کروڑ کا ظاہری اضافہ ہوا ہے اور در پردہ کتنے، ہم نہیں جانتے اور لوگ اس پہ خوش ہونے کے بجائے ایک دوسرے کو بکاءو مال کہہ رہے ہیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس میں ہماری جیت ہوئ ہے۔ امریکہ کو پتہ چل گیا کہ ان کا جھوٹ ہم نے پکڑ لیا ۔ اور اس پہ ہمارا دباءو اتنا تھا کہ اسے دیت کی سطح پہ آنا پڑا۔ اس سے دنیا کو اسلامی قوانین کے فرینڈلی ہونے کا بھی پتہ چلا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
ادھر مولوی صاحبان تو تقریباً پھنس چکے ہیں۔ ایک طرف اینٹی امریکن نعرے بلند کرنے کا دل چاہ رہا ہے  اور دوسری طرف ستم ظریف نےانہی کی چال ان پہ واپس کر دی ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ کس لئے یوم مذمت اور یوم احتجاج منانا چاہتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ اسے بے غیرتی قرار دے رہے ہیں۔
حالانکہ غیرت کیا ہے؟ پاکستانی دماغ سے سوچیں۔ میں بحیثیت ایک عورت، لوگوں کے ہجوم میں اپنے شانوں پہ پڑا دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھ دوں تو بھی مجھے بے غیرتی کے طعنے ملیں گے۔ لیکن غیرت کیا ڈھائ گز کے دوپٹے میں موجود ہوتی ہے ۔ یہ تو ڈیڑھ دو سو میں کہیں بھی مل جائے گا۔ دوبارہ لوں، اور پھر سے سراور شانوں پہ سجا لوں، غیرت واپس۔
غیرت کیا ہے؟ اپنے سے بے بس اور کمزور شخص کو کاروکاری یا غیرت کے نام پہ قتل کر دینا اور ملک کی اسمبلی میں بیٹھ کر اس پہ فخر کرنا کہ ہم اپنی عورتوں کو غیرت کی وجہ سے قتل کر دیتے ہیں۔ لیجئیے، کسی جانور کو قتل کریں یا ذبح اس کا غیرت سے کیا تعلق۔ اس کا تعلق تو صرف ہارمونز سے بنتا ہے۔ کیا ہارمونز غیرت ہیں۔ یہ بھی آجکل لیبارٹریز میں تیار کئے جارہے ہیں جب دل چاہیں خرید لیں۔ غیرت حاصل۔
غیرت کیا ہے؟
یہ کہ ہم اپنے ہی ہم وطن، ہم مذہب شخص کو زندگی کی اس کمتر حالت میں رکھیں۔ جہاں وہ نالی کا کیڑا بنا رینگتا رہے۔ اور اپنی بقاء کے لئے ہر نالے میں گرنے کو تیار رہے۔ اور جب بھی وہ اس نالے سے باہر نکلنے کی کوشش کرے ہم اسے غیرت کے ڈنڈے سے دوبارہ اسی نالے میں گرادیں۔ کیا بے حسی غیرت کہلاتی ہے۔
معزز قارئین، میں غیرت کو بحیثیت پاکستانی، انہی معنوں میں جانتی ہوں۔
سو دوبارہ اپنے اسی قصے کی طرف لوٹتی ہوں۔ پاکستانی ذہن کہتا ہے کہ اگر اس سے مجھے فائدہ نہیں پہنچا تو یہ دیکھو کہ  کہ اس سے فائدہ کس کس کو پہنچا۔ سب سے پہلے اوپر سے شروع کریں۔ چونکہ ورثاء نے خون بہا لینے کا فیصلہ کیا ہے تووفاقی حکومت، صوبائ حکومت اور عدالت اس قصے سے شرعی طور پہ خارج ہو جاتے ہیں۔ یوں ان میں کا ہر فریق دینی اور دنیاوی اعتبار سے حالت سکون میں ہے۔ مسلم لیگ نون کے ایک رہ نما نے تو رات ایک ٹی وی شو میں کہہ بھی دیا کہ جب ہم توہین رسالت کے قانون کی حفاظت پہ کمر بستہ ہیں تو ہمیں دیت کے قانون کی بھی حفاظت کرنی چاہئیے۔ ابھی دو تین روز میں یہ شریعت باقی لوگوں کو بھی سمجھ میں آجائے گی کہ امیر آدمی کا قاتل کیسے بچ سکتا ہے اور قوانین میں کیسے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ غریب شیطان بچ کر نہ نکلنے پائے۔
نواز شریف  نے تو سیدھے لندن کے ہسپتال میں پناہ لی۔ شہباز شریف انکی عیادت کو گئے۔ باقی کچھ لوگوں نے نوافل ادا کئیے ہونگے کہ ریمنڈ ڈیوس نامی گرہ 'کامیابی' سے کھلی۔ کچھ لوگوں نے اسکے نام کا ٹوسٹ کر کے محفل ناءو نوش سجائ ہوگی۔  
فیضان اور فہیم اب واپس نہیں آ سکتے۔ زندگی کے حیلے ہوتے ہیں اور موت کے بہانے۔ انکی موت اسی طرح لکھی تھی جیسے سلمان تاثیر کی موت اس طرح لکھی تھی اور شہباز بھٹی کو اس طرح مرنا تھا۔ یہ بات انکے ورثاء کو سمجھ آگئ۔ کروڑوں روپیہ ایسے شخص کے سامنے رکھا ہو جس نے کبھی لاکھوں روپیہ اکٹھا نہ دیکھا ہو تو سمجھ ایک دم راکٹ کی طرح کام کرنے لگتی ہے۔ اگر شک ہو تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ مگر آپ کریں گے نہیں۔  میں بھی نہیں کر سکتی۔ اس میں اخلاقیات کی مضبوطی نہیں ہماری معاشیات کی کمزوری ایک بڑی وجہ ہے۔
لوگ مرنے کے بعد کی زندگی کا تذکرہ کرتے ہیں،  جنت کی بات کرتے ہیں کیا وہاں ہوائ جہاز ہونگے، کیا اعلی برانڈز کے کپڑے اور جوتے ملیں گے، کیا ہوم تھیٹر ہوگا، کیا مرسڈیز ہوگی۔ یہ سب امریکہ میں ملے گا۔ اسکے لئے رضوان جنت کی اجازت نہیں چاہئیے۔ امریکن پاسپورٹ چاہئیں۔ بابر نے صحیح تو کہا تھا۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ خدا دنیا کو دوبارہ نہیں بنائے گا۔ جنت بنائ تو کیا۔ سو ڈیل طے کرنے والوں نے بڑے خلوص سے کام کیا اور ورثاء کو امریکن پاسپورٹ بھی دلائے۔ اللہ انکے عمل میں برکت دے۔ حق بحقدار رسید۔
ادھر ہلیری کلنٹن نے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اس سلسلے میں کوئ پیسے نہیں دئیے۔ لیجئیے اگر معاملہ ظاہری طور پہ نظر آنے والے بیس بائیس کروڑ کا ہے تو یہ ایسی کون سی بڑی رقم ہے کہ ہم امریکہ  کے مشکل وقت میں کام آنے پہ خرچ نہ کر سکیں۔ ہم ان سے کھربوں روپے لے کر کھا چکے ہیں۔ اب اس حقیر رقم کے لئے امریکہ ادائیگی کرے یہ تو ہماری 'غیرت' کے منافی ہے۔ مجھے یقین ہے وہ سچ کہہ رہی ہیں۔
نقصان میں کون رہا؟
عبادالرحمن۔ کاش لوگ اپنی موت کا انداز چننے کے لئے ہی آزاد ہوتے تو عباد الرحمن گاڑی کے نیچے کچل کر مرنے کے بجائے، ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دیتا۔ مگر یوں نہ ہوا۔ اور وہ بے چارہ تو جیسے تاریک راہوں میں مارا گیا۔ کہاں لوگوں کو کروڑوں مل گئے اور کہاں عبادالرحمن کسی کو یاد بھی نہیں رہتا۔ وہ بھی تو امریکنوں کی وجہ سے مارا گیا۔ کل کا دن اسکے ورثاء پہ بھی بھاری رہا ہوگا۔  ورنہ آجکے اخبار میں اسکے ورثاء کا بھی سرٹیفیکیٹ چھپتا کہ ہم اتنے کروڑکا یہ معاوضہ بغیر کسی لالچ اور دباء کے لے رہے ہیں۔
سب سے زیادہ بے وقوف تو شمائلہ نکلی۔ اس نے اپنے شوہر فہیم کے مرنے کے بعد دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔ کسی نے کہا اسکی موت کا ذمہ دار میڑیا ہے۔ میڈیا نے اس قصے کو اس جذباتی سطح پر کر دیا کہ وہ اسکی تاب نہ لا سکی۔ اسی کو سائینس کی زبان میں سروائیول فار دا فٹسٹ کہتے ہیں۔
اسکے ورثاء سے بھی ایک پاکستانی دماغ کو ہمدردی ہے۔ قبر کی مٹی میں مل کر مٹی ہوجانا اور پھر روز محشر کے انصاف کا انتظار کرنا یہ بہتر تھا یا ایک امیر کبیر بیوہ بن کر دوسرے لوگوں کی آنکھ میں کھٹکنا۔ پاکستانی دماغ، شمائلہ کو جھٹک کر ایک طرف کر دیتا ہے۔ حرام موت میں برکت کیسے ہو سکتی ہے۔
اور کسے نقصان ہوا؟ شاہ محمود قریشی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ نادیدہ ہاتھوں کے لئے استعمال ہوئے۔ انکی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ کچھ قوتوں کو دباءو بڑھا کر ایک بہتر ڈیل لینے میں آسانی ہوئ ہو۔ لیکن آخر میں تو شاہ صاحب دھوبی کا کتا بن گئے۔ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ بے نظیر کے مزار پہ ہاتھ جوڑنا بھی کام نہ آیا۔ لگتا ہے بے نظیر کو مرنے کے بعد سیاسی قوت تو ملی مگر زیادہ روحانی قوت حاصل نہ ہوئ۔
امریکہ کو بھی کچھ نقصان ہوا۔ افغانستان میں امریکیوں کی لاپرواہی سے مرنے والوں افغانیوں کو خون بہا میں دو بھیڑیں ملیں۔ جبکہ ہمارے یہاں کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ اسکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ امریکی افغانیوں کے مقابلے میں ہماری زیادہ عزت کرتے ہیں۔
 
لیکن میں زیادہ دیر تک پاکستانی دماغ سے سوچ نہیں پاتی اور واپس اپنی جون میں آتی ہوں۔ یہاں لوگ اکثر دعا اور بد دعا کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ ہر دوسرا شخص پہلے شخص سے کہتا ہے دعاءووں میں یاد رکھئیے گا۔ کیا یہ سب کچھ اس لئے تو نہیں ہوا کہ یہ کچھ بد دعائیں ہیں پاکستانیوں پہ بحیثیت قوم۔ تو اب اکیسویں صدی میں جبکہ ہم ایک غریب قوم ہیں اور ہمارے دشمن امیر قوم ہیں۔ اب کیا ہوگا؟
 امیر اقوام، اپنے لوگوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل و خوں پہ ہمارے ہاتھوں پہ کچھ پیسے رکھیں گے اور ہمارے جنگل سے اپنے گھر واپس جا کر دنیا کی عمدہ شراب سے ٹوسٹ کریں گے۔
کیا آپ اور میں ایسا کر سکتے ہیں؟ نہیں، اس میں ہماری معیشت کی کمزوری نہیں اخلاقیات کی مضبوطی ہے۔ شراب اسلام میں حرام ہے۔

12 comments:

  1. کیا بھڑاس نکالی ہے اس سے زیادہ اور کوئی کیا ذلیل کر - ہو سکتا ہے؟!

    ReplyDelete
  2. دو چار کو پھڑکانے کو دل کر رہا ہے ۔۔۔ لیکن شرط پیسہ ہے موٹی رقم چایے ۔۔بیٹھے بٹھائے نام ہو گا ،،، امریکہ جانے کا ویزہ مل گیا ۔۔۔ لیکن میں سوچ رہی ہوں یہ لوگ امریکہ تو چلے جاہیں گے ۔ وہاں کریں گے کیا ۔۔۔ یہ بات ہماری حکومت نے ہمیں ابھی تک نہیں بتائی۔۔مجھے اب اس خبر کا انتظار ہے ۔۔۔۔ یہ تو پکا یقین تھا ، کہ ڈیوس کو جانا ہی جانا ہے ۔۔ اتنے بڑی رقم کے عوض یہ نہیں سوچا تھا ۔ چلو اب بیٹھ کر غور و غوص کرتی ہوں ۔ شاہد کچھ ہاتھ لگ جائے ۔۔۔

    ReplyDelete
  3. کیا آپ اور میں ایسا کر سکتے ہیں؟ نہیں، اس میں ہماری معیشت کی کمزوری نہیں اخلاقیات کی مضبوطی ہے۔ شراب اسلام میں حرام ہے۔

    ہاں شراب اسلام میں حرام ہے،باقی سب حلال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
    Abdullah

    ReplyDelete
  4. پاکستانی قوم کی مثال اس راستہ بھول جانے والے کتے کی طرح ہو گئی ھے جو منزل کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے بے کار گھومتا رہتا ھے اور جب تنگ آ جاتا ھے تو بھونکنا شروع کر دیتا ھے اور لوگ اسے پتھر مار کر بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ بات تلخ ھے مگر ہے سچی۔ بری لگی ہو تو معذرت

    ReplyDelete
  5. عمران بھائی کا تبصرہ پڑھہ کے بہت دل دکھا کے ہر سچے اور مخلص پاکستانی کی یہ ہی جذباتی کیفیت ہوگی، میرا کونسیپٹ اس قوم اس ملک کے سیاستدانوں اس ملک کی عدلیہ اس ملک کی فوج اس ملک کے حساس اداروں اس ملک کے مذہبی رہنماوں، ان سب کے بارے میں میرا کونسیپٹ بہت پہلے سے ہی کلئیر ہے اسلئیے میں نے کبھی بھی اس قوم کو بے وجہ گلیمرائیز نہیں کیا میری تمام تحریریں شاہد ہیں کہ میری شروع سے ہی کیا رائے رہی ہے ان سب کے بارے میں، آج ہر آدمی وہ باتیں کر رہا ہے جو میں اپنے بلاگ پر پہلے روز سے کر رہا تھا، یاسر صاحب نے میرے لئیے فرمایا کہ آپ کے پاکستانی قوم کے بارے میں جو جذبات ہیں وہ میں نے ابھی تک محفوظ رکھے ہوئے ہیں، اور اب یاسر صاحب خود پاکستانیوں کے لئیے وہ ہی زبان استعمال کررہے ہیں جو کہ میں پہلے روز سے کرتا آیا ہوں۔ مجھے کسی سے گلہ نہیں ہے یہ فطری بات ہے یاسر بھائی ہوں یا عمران ہوں یا اور کوئی ہو جو بھی پاکستان سے محبت کرتا ہے درد رکھتا ہے اسکی یہ ہی کیفیت ہوگی جو عمران بھائی یاسر بھائی یا ہم سب کی ہے، میرا عرض کرنا بس آج بھی یہ ہی ھے کہ اللہ کے واسطے اب تو ان سب کی حمایت کرنا بند کر دو، اب تو واضع ہوگیا کے چاہے عدلیہ ہو فوج ہو مذہبی جماعتیں ہوں سیاسی جماعتیں ہوں حساس ادارے ہوں یہ سب کے سب غلام ہیں یہ سب کے سب ہماری بربادی میں برابر کے شریک ہیں کوئی بھی مخلص نہیں ہم سے کوئی بھی نہیں بہت دور دور تک کوئی بھی نہیں۔

    ReplyDelete
  6. ميں نے اس سلسلہ ميں تحارير اور تبصرے سب پڑھے ہيں اور ايک فقرے ۔ ہاں صرف ايک فقرے ۔ کی تلاش ميں رہا مگر وہ نہيں ملا ۔ وہ فقرہ ہے

    "ان حکمرانوں [پی پی پی ۔ پی ايم ايل اين ۔ ايم کيو ايم] کو حکمران کس نے بنايا تھا ؟ "۔
    جواب ہے
    "اُن عوام نے جو ہر دم ان سے بےزار رہتے ہيں"۔

    ReplyDelete
  7. اب تو واضع ہوگیا کے چاہے عدلیہ ہو فوج ہو مذہبی جماعتیں ہوں سیاسی جماعتیں ہوں حساس ادارے ہوں یہ سب کے سب غلام ہیں یہ سب کے سب ہماری بربادی میں برابر کے شریک ہیں کوئی بھی مخلص نہیں ہم سے کوئی بھی نہیں بہت دور دور تک کوئی بھی نہیں۔

    فکر پاکستان آپ نے تو سب کو ایک ہی لاٹھی سےہانک دیا ہے!
    اگر سب ایسے ہی ہیں تو پھر آپکے خیال میں کیا کرنا چاہیئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    ان عذابوں سے نکلنے کے لیئے کوئی حل بھی توہونا چاہیئے یا نہیں؟
    Abdullah

    ReplyDelete
  8. فیض نے شاید اسی عوام کے لئے کہا تھا


    کتے
    یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
    کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
    زمانے کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
    جہاں بھر کی دھتکار کمائی ان کی
    نہ آرام شب کو ، نہ راحت سویرے
    غلاظت میں گھر ، نالیوں میں بسیرے
    جو بگڑیں تو ایک دوسرے سے لڑا دو
    ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
    ہر ایک کی ٹھوکر کھانے والے
    یہ فاقوں سے اکتا کر مر جانے والے

    ReplyDelete
  9. میں نے تو یہ پڑھا ہے کہ مرنے والوں کے خاندان کے لوکوں کو اغوا کیا گیا جو اب تک لاپتہ ہیں ، اور پیسا بھی نہیں ملا اب تک ہاں رسیدیں مل گئ ہیں جنکے بارے میں بھی یہ ہی آیا ہے کہ زبردستی دستخط وغیرہ کروا دیے ۔ اب پتا نہیں پیسے ملتے بھی ہیں یا نہیں ،، یہاں تو پینشن کے لیے بڈھے جن سے چلا نہیں جا رہا ہوتا دھکے کھاتے پھر رہے ہوتے ہیں ۔ میرے خیال سے چند لوگوں کو افسوس ہو رہا ہو گا کہ بھٹی کو مارنے میں جلدی کی ۔

    ویسے دیت کی علاوہ بھی اس پر اور مقدمے بنتے تھے میں نے ایک جگہ پڑھا ہے کہ اسلحہ رکھنے پر ۷ سال کی سزا ہے ۔

    باقی آپ کا دوپٹے پر ظنز بہت اچھا تھا ، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آپ یہ نہیں سمجھتیں کہ کلچر میں اور مذہب میں کچھ باتیں ملتی ہیں اور دوپٹہ ان میں سے ایک ہے مجھے نہیں پتا کوی اسکو مذہب کی وجہ سے لیتا ہو گا یہ سب کلچر کی وجہ سے ہے اور غیرت کے نام پر قتل بھی جسکی اسلام اجازت نہیں دیتا ۔۔

    مذہب پر تو آپ اچھی خاصی تنقید کرتی ہیں کلچر پر کب کریں گی ؟؟؟ ویسے کلچر کو بنیاد بنا کر مذہب کو رولنا بھی ایک کلچر بن چکا ہے ۔

    ReplyDelete
  10. انکل ٹام، جب مرنے والوں کے خاندان کا اب تک پتہ نہیں چلا تو آپکو کیسے معلوم ہوا کہ پیسے نہیں ملے اور بس رسیدیں ہی ہیں۔ یہ تو ہم بہت پہلے تسلیم کر چکے ہیں کہ آپ کچھ ماورائ قوتیں رکحتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ماورائ قوتوں کی باتوں کو دیوانے کی بڑ کہتے ہیں۔
    میں مذہب کو نہیں ہمیشہ اسی مذہب کو روندتی ہوں جو کلچر اور مذہب کو ملا کر وجود میں لایا گیا ہے۔ یہی مکسچر، توہین رسالت نامی قانون پہ کسی بھی غریب شخص کی جان لینے کو تڑپپ رہا ہوتا ہے اور یہی کلچر دیت کے نام پہ امریکی ایجنٹ کو چھوڑ کر کہتا ہے کہ جیت ہماری ہوئ ہے۔
    پیسوں کا تو یہ سنا ہے کہ ہمارے سعودی مسلمان آقاءوں نے ادا کئیے۔ کیا آپکو شک ہے کہ ہمارے مسل آقا اپنے اس وعدے سے پھر جائیں گے جو انہوں نے امریکن ایجنٹ کو چھڑانے کے لئے کیا۔ سعودیوں کے لئے اتنے کروڑ کوئ اہمیت نہیں رکھتے۔ اللہ کا ان پہ بڑا فضل ہے۔
    کلچر، مذہب کو استعمال کرتا ہے اور مذہب کے نام پہ بالا دستی چاہنے والے کلچر کو اپنے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان دونوں میں ایسا کون سا فرق اب نظر آتا ہے۔
    دوپٹے کے ساتھ دلچسپ بات یہ ہے برصغیر میں ہندو عورتیں یا بدھسٹ یا عیسائ سب دوپٹہ پہنتی ہیں۔ دوپٹہ اور پردہ یہاں اسلام کی آمد سے پہلے موجود تھا۔
    دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف عرب ریاستوں بلکی اسلامی ممالک کی بڑی تعداد میں اسکارف کا تو تصور ہے دوپٹے کا نہیں۔ یہ صرف پاکستانی خواتین کا ثقافتی لباس کا جزو ہے۔ پاکستان سے باہر کسی مسلم ثقافت کے لباس میں نہیں پایا جاتا۔

    ReplyDelete
  11. حسن ظن ایک چیز کا نام ہے اور میرے اندر وہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوی ہے ، جیسے آپ کے اندر کافروں کے لیے حسن ظن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ آپ ہمیشہ انہی معاملات پر قلم اٹھاتی ہیں جہاں آپکو مذہب پر تنقید کرنے کا موقع ملے ، اگر توہین رسالت نامی قانون کو استعمال کر کے غریب پر ظلم ہو رہا ہے تو اس میں قانون کی کوی خرابی نہیں استعمال کی خرابی ہے کسی بھی قانون کو کہیں بھی غلط استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

    ReplyDelete
  12. حسن ظن ایک چیز کا نام ہے اور میرے اندر وہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوی ہے

    لگتا تو نہیں ہے!
    لیکن شائد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    :)
    Abdullah

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ