Friday, March 12, 2010

جابر بن حیان، الکندی اور نالاں چچا جان

اس کے باوجود دورِ حاضر ميں تھوڑی سی موجود تاریخ کا ہی مطالعہ کيا جائے تو يہ حقيقت عياں ہو جاتی ہے کہ اعلٰی سطح کا پہلا مسلمان فلسفی يعقوب ابن اسحاق الکندی [800ء تا 873ء] نہيں تھے بلکہ ابو موسٰی جابر ابن حيّان تھے جو وسط آٹھويں صدی عيسوی ميں پيدا ہوئے اور 803ء ميں وفات پائی ۔ ان کا فلسفہ جديد علمِ کيمياء کی بنياد بنا ۔ دوسرے نامور فلسفی ابو عبداللہ محمد ابن موسٰی الخوازمی [780ء تا 850ء] ہيں جنہوں نے لوگرتھم اور ايلوگرتھم ۔ الجبراء اور عربی کے ہندسوں کا استعمال کرتے ہوئے اعشاریہ نظام کے نئے علم دريافت کئے ۔ مزيد يہ کہ صفر کو قيمت عطا کی ۔ يہی وہ فلسفہ اور عِلم ہے جو عصرِ حاضر کی کمپيوٹر اور ڈيجيٹل ٹيکنالوجی کی بنياد بنا ۔ اگر يہ علوم نہ ہوتے تو آج نہ کمپيوٹر ہوتا اور نہ ڈيجيٹل ٹيکنالوجی
يعقوب ابن اسحاق الکندی کا نام تيسرے نمبر پر آتا ہے
یہ ہے اس تحریر کا کچھ حصہ  جو غالباً میری اس تحریر کو غلط ثابت کرنے کے لئیے لکھی گئ ہے۔ جس میں، میں نے کندی کو دنیائے اسلام کا پہلا فلسفی لکھا۔ جذبات کے زور مِں جابر بن حیان کو کندی سے بڑھکر ثابت کرنے میں تین باتوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اول یہ کہ کسی بھی شخص کے پہلے پیدا ہوجانے کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ وہی اب ہر چیز میں پہلا کہلائے گا۔  دوسرے یہ کہ دنیا میں دھند میں لپٹی ہوئ جابر بن حیان کی شہرت  بنیادی طور پہ ایک فلاسفر کے نہیں بلکہ کیمیاداں کی حیثیت سے ہے۔ انہیں کیمیاء کی دنیا میں کئے گئے انکی عظیم خدمات کی وجہ سے بابائے کیمیا کہا گیا کیونکہ انہوں نے کیمیا میں تجرباتی سائینس کی بنیاد رکھی۔  یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ کیمیا کا شمار فطری  یا نیچرل سائینس میں ہوتا ہے ۔ تو تیسری بات یہ بنی کہ فلسفہ خالص بنیادوں میں سائینس نہیں ہوتا اور نہ علم ریاضی کہ ریاضی کی مہارت رکھنے والے شخص کو ایک بلند فلسفی تصور کر لیا جائے۔ فلسفے کا بنیادی تعلق انسان اور کائنات کے مابین رشتے کو انسان کی ماہیت، ذہن اور اسکی استعداد، انسانی اقدار اور انکی وجوہات اور زبان کی ماہیت سے معلوم کرنا ہے۔
  فلسفے کی دنیا میں، یونانی فلسفے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مسلمانوں نے یونانی فلسفے سے استفادہ حاصل کیا۔ فلسفہ لفظ بھی یونانی زبان سے ہی نکلا ہے۔  ارسطو کو اس میدان میں استاد تسلیم کیا جاتا ہے اور کتاب تاریخ فلاسفۃ الاسلام میں کندی کو  نہ صرف مسلمانوں میں پہلا فلسفی کہا گیا ہے بلکہ وہ پہلے مسلمان  عرب فلسفی ہیں جنہوں نے ارسطو کی تصنیفات پہ شرحیں لکھیں اور وہ پہلے عرب فلسفی ہیں جو اسکی تصنیفات کے شارح ہیں۔ لیکن ہمارے محترم بلاگر نے اس تمام چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بیک جنبش انگلی اس بات کو غلط کہہ دیا کیونکہ انکی خواہش صرف مجھ ناچیز کوغلط کہنے کی ہوتی  ہے اور اپنی اس تسکین میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو حوالے میں اپنی تحریروں کیساتھ دیتی ہوں انکی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ اب یہ کتاب تاریخ فلاسفۃ الاسلام بس یونہی سی کتاب نہیں جسکا ترجمہ کرنیکی صعوبت ایک پی ایچ ڈی استاد نے اٹھائ۔ لیکن بہر حال زمانہ ء ہذا کے پی ایچ ڈیز کس گنتی میں ہیں۔  محترم بلاگر صرف قرون وسطی کے مسلمان سائینسدانوں کو ہی اس سند کا حقدار سمجھتے ہیں جو اس زمانے کا رواج نہ تھا۔ یا ان لوگوں کو جو نظریاتی طور پہ ان جیسے ہیں جیسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ایک عظیم پی ایچ ڈی خاتون۔ اگر عافیہ نے یہ کہا ہوتا کہ کندی پہلا عرب فلسفی ہے تو پھر کوئ پریشانی نہ ہوتی، انکا کہا سر آنکھوں پہ۔ لیکن افسوس، وہ اس وقت تاریخ کے زیادہ اہم کام میں مصروف ہیں۔ اور اس طرح کے بے کار کے کام میرے جیسے نا ہنجار لوگ کر کےتاریخ کو ، خاص طور پہ مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ وقت کسی عظیم انسان کا انتظار نہیں کرتا، کہ وہ فارغ ہو توایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی وہی کرے۔
 خیر، اس کتاب  میں سلیمان ابن حسان کا بیان ہے کہ مسلمانوں میں کندی کے سوائے کوئ فلسفی نہ تھآ۔ اس سے مصنف نے یہ مراد لی کہ وہ مسلمان فلسفیوں میں پہلے تھے۔ یاد رہے کہ اس کتاب کے عرب مصنف ہمارے ان بلاگر ساتھی سے زیادہ استعداد اور مہارت رکھتے ہیں اس میدان میں اس لئیے انہوں نے اس پہ کتاب کو لکھنے کی جراءت کی اورانکی اس جراءت کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اسکا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔
اسی کتاب کے مطابق، ارسطو کا شارح ہونے کی حیثیت سے کندی کو شرف تقدم حاصل ہے۔ کندی کی تالیفات مختلف علوم مثلاً فلسفہ، علم، سیاسیات، اخلاق، ارثما طیقی، علم کرویات، موسیقی، فلکیات، جغرافیہ، ہندسہ، نظام الکون، نجوم، طب، نفسیات العادیات پہ مشتمل ہے۔ مزید حوالہ جات حاضر ہیں جن میں کندی کی پہلے عرب فلسفی کی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔ اور انہیں بابائے عرب فلاسفی بھی کہا گیا ہے۔


اس کتاب  تاریخ فلاسفۃ الاسلام میں جن اہم مسلمان فلسفیوں کا تذکرہ کیا گا ہے وہ مصنف کے نزدیک وہ نہیں جو ہمارے محترم بلاگر سمجھتے ہیں۔ اس میں ان عرب عالم کی ان علماء سے ذاتی بغض یا انکی کم علمی شامل ہوگی۔ جسے میں نے مستند جان کر اخذ کیا۔ یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی کہ میں نے اپنے محترم بلاگر سے اس تحریر کو اپنے بلاگ پہ ڈالنے سے پہلے انکی مستند  رائے نہ لی۔
اگر میں نے یہ لکھا کہ امام غزالی کے بعد زوال کا دور شروع ہوا تو یہ میری ذاتی رائے نہیں ہے۔ اس پہ مجھ سے پہلے اس میدان کے ماہرین نے یہ رائے دی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ امام غزالی تھے جنہوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کر کے تقلید پسندی کو رواج دیا۔ کوئ بھی تحریک یا نظریہ اچانک ہی زوال پذیر نہیں ہو جاتا ایسے ہی جیسے عروج اچانک حاصل نہیں ہوجاتا۔ امام غزالی نے اسلامی فکر پہ سے یونانی فلسفے کی چھاپ کو ختم کرنے کی کوشش کی اور فلسفے کو ناپسندیدہ بنا دیا۔ انکے مقلدین نے اس طرز کو جاری رکھا۔ ہر نظرئے کے اثرات کچھ عرصے بعد ہی سامنے آتے ہیں۔ ابن رشد نے انکی اس انتہا پسندی کی رد میں لکھا۔ لیکن بہر حال مختلف وجوہ کی بناء پہ ابن رشد کی کتابیں اس طرف نہیں بلکہ مغرب میں پہنچیں۔ امام غزالی کا اثر چلتا رہا اس دوران سائینس یعنی تجرباتی سائینس پہ لوگوں نے اپنے تئیں کام کیا لیکن یہ  اس رو کا اثر تھا جو ایک دفعہ شروع ہوئ تو حالات ناسازگار ہونے پہ بھی اپنے ثمرات دیتی رہی۔ ابن رشد کے تقریباً سو سال بعد ابن خلدون نے تاریخ کے سفر سے فلسفے کی طرف قدم رکھا اور فلسفہ ء تاریخ وجود میں آیا۔ یہ اس زمانے کے لحاظ سے ایک نئ سوچ تھی اس لئیے ابن خلدون کو زوال کے زمانے کا فلسفی کہا گیا۔ اور میرے محترم بلاگر ساتھی  یہ بھول گئے کہ یہ  بھی میری ذاتی رائے نہیں تھی بلکہ یہ نہ صرف تاریخ فلاسفۃ السلام کے عرب مصنف کا خیال ہے بلکہ ڈاکٹر انور سدید صاحب بھی اسی خیال کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے فاضل ساتھی کو تو پی ایچ ڈیز پسند نہیں تو اب ڈاکٹر انور سدید کا کیا کریں۔
 یہ کہنا کہ مسلمان سائینسدانوں نے یہ کیا اور وہ کیا۔ میں نے اپنی ان تحریروں میں یہی کہنے کی کوشش کی ہے کہ علم کسی کی جاگیر نہیں ہوتا اسی کا ہوتا ہے جو اسے حاصل کرتا ہے۔ مسلمانوں نے کسی وحی یا کرامت کے ذریعے یہ علم حاصل نہیں کیا تھا بلکہ اس وقت تمام اقوام عالم کے پاس جو بھی علم تھا پہلے اسے حاصل کیا اور پھر اس پہ کام شروع کیا۔ جیسےریاضی کا صفر ہندوءوں سے لیا گیا تھا۔
کاغذ، چینیوں نے تیار کیا تھآ، عرب پہنچا تو عربوں نے اسے بنانے کا طریقہ آسان کیا اور کوالٹی بہتر کی، گن پاءوڈر، چینیوں کی ایجاد ہے جسے مزید ترقی اور پھیلاءو عربوں کی وجہ سے ہوا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو چین، اپنے علمی ذخیرے کی بنیاد پہ دنیا کی سب سے قدیم تہذیبوں میں ہوگا۔
 فاضل مصنف نے ایک جگہ لکھا کہ بہادری اپنی غلطی تسلیم کرنے میں ہے کیا مجھے توقع رکھنی چاہئیے کہ وہ اس بہادری کا مظاہرہ کریں گے۔
 یہ تمام معلومات ان لوگوں کے لئیے ہیں جنکے ذہن مِں اس سلسلے میں شبہات پیدا کئیے گئے۔ باقی یہ کہ جو حوالے میں اپنی تحریروں کیساتھ دیتی ہوں اگر پڑھنے والے ان پہ سے ایک نظر گذر جائیں تو حقائق زیادہ واضح ہو جائیں گے۔ کیونکہ بلاگ جیسی محدود جگہ پہ بہت زیادہ تفصیل سے بات ممکن نہیں۔

حوالہ جات؛
جابر بن حیان


14 comments:

  1. آپ اپنے مفروضوں کو دوسروں پر تھوپ کر پھر اُنہيں انہی کی بنياد پر رگيدنے کی عادی ہيں ۔ اپنی بڑھائی اور حسد کی آگ نے آپ کی عقل سلب کر لی ہے ۔ ميں آپ کے لئے صرف دوا ہی کر سکتا ہوں

    ReplyDelete
  2. میرے حسد کے بھی مقامات ہیں۔ مجھے ریاض شاہد صاحب سے حسد ہوا جب انہوں نےاسلامی شریعت کے ماخذ نامی تحریر کا ترجمہ لکھا۔ میں اتنا اچھا ترجمہ نہیں کر سکتی۔ مجھے جاوید گوندل صاحب سے حسد محسوس ہوا کہ وہ اسپین میں رہتے ہیں اور ساری دنیا میں وہ ایسی جگہ ہے جہان میں جانا چاہتی ہون مگر نہیں جا سکی۔ آج ہی مجھے عبدالقدیر جنجوعہ سے حسد محسوس ہوا۔ میں اس موضوع پہ لکھنا چاہتی تھی مگر انہوں نے لکھا، مجھ سے پہلے اور اسی طرح جیسا میں لکھنا چاہتی تھی۔
    آپکے اور میرے درمیان کچھ ایسا نہیں جو میرے لئیے باعث حسد ہو۔ بلاگ سے تو پیسے بھی بنتے کہ آپکو زیادہ مل رہے ہوں اور مجھے کم۔ اگر آپ میرے لئیے دوا کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح کی بے سرو پا باتیں میرے لئے لکھنا بند کر دیں۔ آپ اپنے وقت کو زیادہ بہتر طور پہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
    آپ کو اگر گمان تھا کہ میں نے غلط لکھا ہے تو آپکے مرتبے کا تقاضہ تھا کہ آپ مجھ سے بالکل سیدھا سوال کر لیتے کہ میرے علم میں تو یہ بات ہے آپ نے ایسا کیوں لکھا ہے، یہ آپ نے کہاں پڑھا ہے، جہاں سے پڑھا ہے اس جگہ کی کوئ علمی حیثیت ہے یا نہیں۔۔ یہ بات صحیح نہیں لگتی۔ پھر میں یہی سب باتیں آپکو پوری سنجیدگی سے بتا دیتی۔
    لیکن آپ نے اسکے بجائے کیکر کے بیج ڈالنا پسند کیا۔ وہ تمام اخلاقی پند و نصائح جو آپ لکھتے ہیں اگر میری جگہ سے آپ دیکھیں تو حیران ہوں کہ اس پہ لکھنے والا خود کیوں عمل نہیں کرتا۔
    صرف میرے لئیے نہیں اپنے لئے بھی دوا کیجئیے گا اسی سے بھلائ کی امید بندھ سکتی ہے۔

    ReplyDelete
  3. بہت خوب،
    میں جواب شکوہ کے انتظار ہی میں تھا:)
    ایک بات پھر معلوماتی پوسٹ کے لیئے شکریہ!
    جو لوگ خود کو اندھوں میں کانا راجا سمجھتے ہوں انہیں کوئی دو آنکھوں والا چیلنج کرنے پہنچ جائے تو انکا کیا رد عمل ہونا چاہیئے؟؟؟

    ReplyDelete
  4. میرے خیال میں اجمل صاحب کے لئے یہ اچھا موقع ہے کہ وہ اپنے موقف کو دلائل و براہین کے ساتھ ثابت کریں تاکہ ہم جیسے قارئین بھی بحث سے لطف اٹھا سکیں ۔

    ReplyDelete
  5. بی بی! مسلمانوں کی تاریخ میں دو کردار ایسے ہیں جنہوں نے بلا شبہ تاریخ کا رُخ بدلنے کی قوت اور صلاحیت سے مالا مال تھے اور عجب اور مسلمانوں کے نقطعہ نظر سے عجب اتفاق ہے کہ وہ دونوں کردار آپس میں ٹکرائے اور یوں تاریخ میں ایک سنہرا موقع مسلمان دنیا کے لئیے ضائع ہوا اور تاریخ دان آج بھی ان کے کارنامے اور فتوحات پڑھ کر حیرت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ اگر انکی توانائی آپس میں صرف نہ ہوتی تو آج دنیا کا نقشہ اور اس پہ بستی اقوام کی ھئیت کذائی کس قدر مختلف ہوتی ۔ میں تذکرہ کر رہا ہوں منگول فاتح تیمور لنگ اور اسکے ہم عصر ترک فاتح سلطان بایزید یلدرم کا، جن کے آپس کے ٹکراؤ نے مسلمان تاریخ کو دو بڑئے فاتحین کی توانائی کو آپس کی جنگوں کی وجہ سے ضائع کیا۔

    ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم آپس میں الجھ پڑتے ہیں اور اصل مقصد ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ باوجود کچھ اختلافات کے آپ کا معلوماتی سلسلہ عام قاری کے لئیے بہت اچھا چل رہا تھا اور وہ پہلو ان تحاریر میں اجاگر ہورہے تھے جن پہ عام قاری بہت کم توجہ دیتا ہے۔ جس کے لئیے آپ کی محنت بجا طور پہ لائقِ تحسین ہے۔ جسکی داد دینا اس لئیے بھی ضروری ہے کہ کم از کم اردو بلاگنگ پہ اس پہلو سے بہت کم مواد ملتا ہے ۔ اور وہ لوگ جنھیں روزمرہ زندگی کی مصروفیات کسی اور طرف توجہ نہیں دینے دیتیں انکے علم میں بہت اضافہ ہوتا۔

    اسی طرح جناب افتخار اجمل صاحب سے بھی کچھ موضوعات پہ مختلف نقطہ نظراور اختلاف رائے کے باوجود انٹر نیٹ پہ انکے بلاگ پہ بلاشبہ بہت سی نہائت کارآمد اور مفید تحریریں ہوتی ہیں۔ جن سے خلقَ خدا خاصکر نوجون نسل کو بہت سی نئی باتوں کا پتہ چلتا ہے۔

    جہاں تک اختلاف رائے کا تعلق ہے ۔ اسکے ہونے کو نعمت اور اختلاف برائے بہتری سمجھا جاتا ہے جس سے مختلف ویوز رکھنے والے افراد کی آپس کی مباحثت سے ذہنوں میں پڑی بہت سی گھتیاں سلجھتی ہیں اور کسی خاص بات کو مختلف انداز میں سمجھنے کا بے بہا فائدہ ہوتاہے اور اہلِ علم ایسے اختلاف کو نعمت خداوندی سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کی بے حد عزت کرتے ہیں۔

    آپ نے کچھ عرصہ پہلے مشہور متنازعہ فرانسیسی فلاسفر فرانسس وولٹئیر کا حوالہ دیا تھا ۔ اسی فرانسس وولٹئیر کا ایک قول ہے کہ "کسی کی بات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اسکی بات کرنے کے حق سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا" یعنی ہر انسان کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا حق ہے ہم اسکی بات سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر اسکے بات کرنے کے حق اختلاف نہیں کیا جانا چاہئیے۔آپ ماشاءاللہ ڈاکٹر ہیں آپ کو چاہئیے کہ دل کو فراخ رکھیں کہ اجمل صاحب کے کچھ کہنے سے آپ کی علمیت یا قابلیت کو کچھ فرق نہیں پڑھتا ۔ اجمل صاحب اگر کسی بات کو کسی اور طرح سے سمجھتے ہیں یا کوئی اور بلاگر بعض معاملات کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا اور بیان کرتا ہے اور جس کا بلاشبہ اسے اور ہر ایک کو حق حاصل ہے۔ تو انھیں کرنے دیں اور مندرجہ بالا تحریر میں انھیں مخاطب کئیے بغیر بھی آپ اپنا نقطہ نظر کی وضاحت کر سکتیں تھیں۔

    میری آپ دونوں سے استدعا ہے کہ آپ دونوں اپنے اپنے مقام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسی تنقید سے گریز کریں جس ہم جیسے قاری اردو بلاگز کی دنیا کو خیر باد کہہ دیں۔ اور وہ بلاگر جو آپ دونوں سے کچھ سیکھنے کی غرض سے آپ دونوں کے بلاگ کا وزٹ کرتے ہیں وہ اس بحث سے کیا نتیجہ نکالیں؟۔

    میری ذاتی رائے میں اختلاف رائے میں باہمی عزت احترام کا رشتہ ہر صورت قائم رہنا چاہئیے ۔ کیا ہم پاکستان میں جن چیزوں کے خلاف صبحُ شام لکھتے ہیں انھیں اپنے آپ پہ لاگُو کرتے ہوئے اپنے قد کاٹھ و مرتبے میں اضافہ کرتے ہوئے دوسروں کے لئیے مثال قائم کر سکتے ہیں۔

    ہمیں تو بس دیکھنا یہ ہے کہ باہمی صلح کے اس نیک عمل میں پہل کس طرف سے ہوتی ہے؟۔

    ReplyDelete
  6. گوندل صا حب آپکو یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ اس سارے معاملے میں پہل کس نے کی تھی اور کس کے جھوٹے زعم کو دھچکوں پر دھچکے لگ رہے ہیں!

    ReplyDelete
  7. افتخار اجمل کو چاہیئے کہ ریاض شاہد کے مشورے پر عمل کریں اور اپنی بات کو دلائل سے ثابت کریں
    بجائے خود کو عقل کل سمجھنے کے!!!!

    ReplyDelete
  8. جاوید گوندل صاحب، مجھے اختلاف رائے سے کوئ اختلاف نہیں۔ در حقیقت ان تمام تبصروں سے موضوع کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ اگر ایک شخص پانی سے بھرے آدھے گلاس کو آدھا خالی کہہ رہا ہے اور دوسرا اسے آدھا بھرا ہوا کہہ رہا ہے تو یہ ان دو مختلف افراد کی سوچ کی انفرادیت کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ رویہ کسی کو زیب دیتا ہے کہ وہ یہ کہدے کہ اس میں تو سرے سے پانی نہیں ہے اور مقصد محض یہ ہو کہ اب بتاءو کیا آتا ہے تمہیں۔۔ چلیں اسے بھی اہمیت نہیں دینی چاہئیے کہ یہ بھی ایک عمومی رویہ ہے۔ لیکن یہ کونسا رویہ ہے کہ آپ کسی شخص کے خلاف محاذ بنا کر اسے طعنے دینے کا کوئ موقع ضائع نہ جانے دیں۔ چاہے وہ ان مواقع پہ حصہ بھی نہ لے رہا ہو۔ اور جب کسی علمی بات پہ اعترض بھی کریں تو اسے اپنے اسی قسم کے طعنوں تشنیع سے شروع کریں۔
    آپ انکی اس تحریر فلسفہ اور فلسفی کو پڑھیں اور بتائیں کہ اس سے کسی بھی شخص کو کیا فائدہ ہوا۔ سوائے اسکے کہ جس نے میری تحریر پہلے پڑھی تھی اور اگر وہ اسکے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھتا تو اسے لگا ہوگا کہ میں نے کس قدر غلط معلومات فراہم کی تھیں۔یہاں پہ میں کہتی ہوں کہ نظریات کی جنگ نظریات سے لڑیں۔ اس طرح سے کسی کے اوپر سے لوگوں کا اعتماد ختم کر کے نہیں۔
    میں اپنی تحریروں میں دی جانیوالی تمام معلومات کی صحت کا خیال رکھنے کی حتی المقدور کوشش کرتی ہوں۔ اور اسکے لئے اس موضوع کے حق اور خلاف میں جانیوالی تمام چیزوں کو اپنی نظر میں رکھنے کی بھی کوشش کرتی ہوں اور ان تمام کوششوں کو اس طرح اڑا دینے کے عمل کو کیا کہنا چاہئیے۔
    کسی بھی اردو بلاگر کو اپنا اتنا وقت اردو بلاگنگ کو دینے کا کیا فائدہ ہے۔ میں تو ابھی عمر کے اس حصے میں نہیں کہ یہ کہدوں کہ بونس میں زندگی گذار رہی ہوں۔ اور وقت گذاری کرتی ہوں۔ بہت ساری ذمہ داریوں کے ساتھ اسے بھی وقت دیتی ہوں۔ کوئ مادی منفعت بھی اردو بلاگنگ میں نہیں۔ میں نے تو اس لئے اردو میں بلاگنگ کو چنا کہ اپنی معلومات کو لوگوں کیساتھ شیئر کروں۔ کیونکہ بحیثیت استاد مجھے لوگوں میں علم دوستی کی شدید کمی نظر آئ۔ لیکن ایک طبقہ ہر وقت اس بات کو دہراتا رہے کہ میں بڑائ میں مبتلا ہوں ، مجھے حسد ہے۔ اس بڑائ سے مجھے کیا مل رہا ہے۔ گنتی کے چند لوگوں میں معروف ہو جانا، کیا شہرت ہے۔ اتنی شہرت تو بحیثیت استاد کما چکی ہوں۔ کون سی بڑائ، اس معاملے میں، میں انتہائ عملی ہوں اور بالکل تصوارتی دنیا میں نہیں رہتی۔
    لیکن ایک بزرگ شخص ایسی باتیں کرے مجھے افسوس ہوتا ہے۔ اردو بلاگنگ کی دنیا میں بھی سینیاریٹی سنڈروم آیا ہوا ہے۔

    ReplyDelete
  9. عنیقہ صاحبہ میں آپ کے آخری تبصرے سے پوری طرح متفق ہوں۔۔ نظریاتی فرق نظریوں تک محدود رہنا چاہیے۔۔ دو جمع دو پانچ ماننا نظریاتی فرق نہیں ہے بلکہ مکمل غلطی ہے اور ہمیں یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔

    بلاگنگ میں سنیارٹی سنڈروم موجود ہے؟ میرا نہیں خیال ایسا ہے اردو میں کم از کم جتنی آزادانہ طریقے سے رائے دہی بلاگنگ میں کی جاتی ہے شاید ہی کہیں اور ممکن ہو اور جس طرح ہر پلٹ فارم پر مختلف ذہنی سطح کے لوگ موجود ہوتے ہیں ویسے ہی بلاگنگ میں بھی ہیں۔ آہستہ آہستہ بہتری پیدا ہوگی اور آج حالات یقین کریں کے چار سال پہلے سے بہت بہتر ہیں البتہ اکثر اوقات حفظ مراتب کو ملحوظ رکھتے ہوئے غلط چیز کے خلاف آواز بلند نہیں جاتی جو بذات خود غلط ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں خاموشی نیم رضامندی سمجھی جاتی ہے۔

    ReplyDelete
  10. باقی باتاں چھڈو جی
    لیکن یه زیرو کو قیمت دینے والی بات جو که میرے علم میں هو وھ که ھند میں دریافت هوا اور دریافت کرنے والے سنیاسی کے بہت بعد مہا ویر بھائی نے اس کو قیمت یعنی زیرو جمع زیروبرابر ہے زیرو
    اور اس طرح کی ولیوز مقرر کی تھیں
    کہیں هم مسلمان یه تو نہیں کر رهے اس پٹھان کی طرح جس سے کسی نے پوچھا که هرقوم میں نبی پیغمبر هوئے هیں
    تم میں کیوں نهیں ، تو اس نے ترت جواب دیا او خو یه عیسی خان موسی خان کیا تمہارے باپ کی نسل کا تھا؟؟
    میرو خیال مين اکر ھیروز کی بات کرنی ہی هے تو کیوں ناں برصغیر کے ہیروز کی بھی بات کی جائے ناں که عربی ترک اور کرد افغانوں کی
    که پاکستان میں اسلام اباد کی سڑکوں کے نام بھی دوسری قوموں کے ہیروز کے نام پر هیں
    سب قوموں کے اسلام کی ابتدا سے پہلے کے هیرو اج بھی ہیرو هیں لیکن هم پاکستانیوں کے اسلام سے پہلے کے هیرو، کافر هو گئے هیں ـ

    ReplyDelete
  11. خاور آپ بھی تو ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی کافر سمجھتے ہیں؟

    ReplyDelete
  12. خاور صاحب، آپکی بات ایک الگ تفصیلی موضوع ہے۔ ایک وقت تھا کہ کتابوں تک عام لوگوں کی رسائ نہ تھی۔ پھر کتابیں چھپنے لگیں، مگر پھر بھی مسئلہ تھا ک ہخریدا کیسے جائے کہاں ملیں گی۔ اور اب تو ایک بٹن دبانے کی دیر ہے اور ایک عالم آپکے سامنے ہوتا ہے۔ اب اگر ہم علمی تعصب سے اپنے ذہن کو صاف کر لیں تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ کون سی بات صحیح ہوگی اور مختلف باتوں کاآپس میں کیا ربط بنتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہماری نفسیات یہ ہوتی جارہی ہے کہ جتنا ہم عقلی یا ذہنی یا عملی بنیادوں پہ کمزور ہو ہرہے ہیں اتنا ہمارا ماضی شاندار ہو رہا ہے۔
    آپ نے جو باتیں صفر کے متعلق کہیں یہی آجکا علم ہے اور تحقیق یہی کہتی ہے۔ اگرچہ کہ میں نے اپنے بچپن میں سنا کہ صفر، موسی الخوازمی نے متعارف کرایا۔ پڑھا تو تب بھی میں نے کہیں نہیں تھا۔ لیکن اب یہ اطلاع صحیح نہیں رہی۔
    راشد کامران صاحب، مجھے اس چیز کا احساس ہے کہ ہمارے یہاں حفظ مراتب کا خیال رکھنے کی عادت ہر جگہ تو نہیں کچح جگہوں پہ انتہا پہ ہے اور اس سلسلے میں یہ بھی خیال نہیں رکھا جاتا کہ بات جب علم شیئر کرنے کی ہو رہی ہے وہ بھی بلاگنگ کے پلیٹ فارم پہ تو کیا اس وجہ سے کسی چیز کو نہیں، نہ کہا جائے۔

    ReplyDelete
  13. SANA.
    Aniqa jee ap nay teek likah hay.

    ReplyDelete
  14. یہ بات سو فیصد غلط ہے کہ غزالی نے اجتہاد کا دروازہ بند کیا۔ ان کی کتب بالخصوص احیا ء العلوم پڑھیے تو وہ خود اندھی تقلید کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔

    غزالی نے سائنس کی مخالفت نہیں کی بلکہ الہیاتی فلسفہ کی مخالفت کی۔ مگر ان کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ مگر آپ نے بات کو خلط ملط کر دیا ہے۔ الہیاتی فلسفہ اور چیز ہے اور سائنس اور چیز۔ غزالی اور ابن رشد کا مناقشہ الہیاتی فلسفہ پر ہے۔ اس کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں۔

    اور دراصل الہیاتی فلسفہ میں انہماک ہی مسلمانوں کے زوال کا سبب بنا کیونکہ ان کی توجہ زیادہ اہم علوم جیسے سائنس اور سوشل سائنسز سے ہٹ گئی۔

    ابن رشد اور ابن خلدون کی کُتب کی وجہ سے یورپ کے ہاں جو کچھ ہوا، یہ الہیاتی فلسفہ سے سائنس کو الگ کرنے کے نتیجے میں ہوا۔ مگر مسلمان ایسا کرنے میں ناکام رہے جو کہ ان کے جمود کا باعث بنا۔

    غزالی کے بعد مسلمان سات سو برس تک سائنس کے میدان میں جمود کا شکار رہے جس کا سبب اندھی تقلید کا فروغ پا جانا تھا۔ دوسری طرف یورپی اقوام کو ان کے مقام تک آنے میں بہت وقت درکار تھا اور اس کام میں انہیں کم از کم پانچ سو سال (1300-1800)لگے۔ اس کے بعد وہی ہوا، جو منطقی طور پر ہونا چاہیے تھا۔ مگر اس میں غزالی کا کوئی قصور نہیں ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ