Saturday, April 3, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۹

بر صغیر پاک ہ ہند میں اسلام کی آمد واضح تبدیلیوں کی علامت بنی۔ اس سے پہلے بدھ مذہب اور جین مذہب یہاں سنسکرتی برتری کے خلاف تحریک بن کر ابھرے،  لیکن یہاں کے عام دھارے میں شامل ہو گئے۔ مسلمان اپنے ساتھ مذہب اور معاشرت کا مضبوط تصور لیکر آئے۔ ۔البیرونی لکھتا ہے کہ 'مذہبی لحاظ سے ہندوستانیوں کا آپس میں اختلاف بہت کم تھا اور وہ معمولی اختلافات پہ اپنے جسم ، مال اور روح کو قربان کرنے کو تیار نہ تھے۔' اسکے برخلاف مسلمانوں نے اس تصادم کو خارجی حیثیت دی۔  اونچی ذات کے ہندو اسے اپنے خلاف حملہ سمجھنے لگے اور صف آرائ پہ آمادہ ہوگئے۔ یوں مسلمانوں کی آمد نے ہندو مذہب کے صدیوں پرانے جامد تصورات کو ہلا دیا۔
مشہور زمانہ خیال کے برعکس مسلمان پہلی دفعہ محمد بن قاسم کیساتھ ہندوستان میں وارد نہیں ہوئے تھے  بلکہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں ہندوستان کے ساحلوں پہ انکے جنگی بیڑے  اترے۔ انکا یہ جنگی بیڑہ بلوچستان کے علاقے مکران تک پہنچا لیکن اس وقت کے سپہ سالار نے جب امیر المومنین کو اس علاقے کے سخت جغرافیائ حالات، پانی کی عدم دستیابی اور علاقے کے غیر آباد ہونے کی اطلاع دی تو حضرت عمر فاروق نے انہیں آگے نہ بڑھنے کا حکم دیا۔ سپہ سالار کا قاصد جب حضرت عمر کے سامنے حاضر ہوا تو اس نے اس طرح نقشہ کھینچا۔
“ 'O Commander of the faithful!
It's a land where the plains are stony; Where water is scanty; Where the fruits are unsavory Where men are known for treachery; Where plenty is unknown; Where virtue is held of little account; And where evil is dominant; A large army is less for there; And a less army is useless there; The land beyond it, is even worse .

سو ہندوستان میں اسلام اول جنوبی ہندوستان میں تاجروں کے ذریعے پھیلا پھر سندھ میں عربوں کی فتح اور آخر میں ترکوں کی فتح کے بعد شمالی ہندوستان میں آیا۔ 
مسلمان اپنے ساتھ تازہ فکر لائے تھے۔ وہ  تناسخ کے برعکس حیات بعد الموت کے قائل تھے اور ان کے دین میں ذات پات کو اہمیت حاص نہ تھی۔  یہ وہ نظریات تھے جو ہندوستان کے لئے نئے تھے۔ چنانچہ  ذات پات کے بندھنوں میں جکڑی، انسان کے تناسخ میں الجھی زندگی میں بار بار کے جنموں سے وابستہ ہندو تہذیب مغلوب ہوئ اور تبدیلی ء مذہب کا سلسلہ مختلف سطحوں پہ شروع ہوا۔
نچلی سطح کے لوگ اسلامی مساوت سے متائر ہوئے، اونچے طبقے کے لوگ اسلام کو ایک ترقی پسند مذہب سمجھ کر اس میں داخل ہوئے، بعض امرائے وقت مصلحت وقت کے تحت اس میں شامل ہوگئے۔ کچھ لوگ اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد خالص دینی جذبے سے اس میں شامل ہوئے۔بعض مسلمان سلاطین بالخصوص قطب الدین ایبک اور شمس الدین التمش کی فیاضی نے مقامی باشندوں کے دل جیت لئے اور وہ تبدیلی ء مذہب پہ آمادہ ہوگئے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اسلام نے انکے عقائد تو بدل دئیے لیکن انکے بنیادی ثقافتی اور سماجی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کی تھا۔ یوں ایک نئ ثقافت نے جنم لینا شروع کیا۔
  اگرچہ جن مسلمان سلاطین نے ہندوستان کو فتح کرنے کی غرض سے حملے کئے ان میں چاہے محمد بن قاسم ہو یا محمود غزنوی انکا مقصد اسلام کی تبلیغ اور ترویج نہیں تھا۔ لیکن بہرحال انہیں امور سلطنت کو مستحکم انداز میں چلانے کے لئے زیادہ مسلمان چاہئیے تھےاس لئے انہوں نے اس میں دلچسپی لی کہ مقامی لوگ مسلمان ہوں اور اس سلسلے میں لوگوں کو جاگیریں دی گئ اور انہیں مالی تحفظ فراہم کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ جب فتح سندھ کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ مقامی ہندءووں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تو حجاج بن یوسف نے علما ء و فقہاء سے مشورے کے بعد  حکم دیا کہ انکے ساتھ اہل کتاب کی طرح سلوک کیا جائے اور انہیں اپنی عبادت گاہوں کو جانے کی اوراپنی مورتیوں کی پوجا کی اجازت دی جائے۔
خود مسلمان فاتحین نے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے کہ مسلمان اقلیت میں ہیں اور ہندو اکثریت میں۔ اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے مذہبی تفریق کو کم رکھنے کی کوشش کی۔ اس طرح سے وہ خود بھی تبدیلی کے عمل سے گذرے۔علاءالدین خلجی نے پہلی مرتبہ اعلان کیا کہ حکومت کے انتظام ومیں وہ صرف ایک چیز کو مد نظر رکھتا ہے کہ رعایا کی فلاح و بہبود کے لئے کیا ضروری ہے۔ اس نے اپنے قاضی  مغیث کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ'میں یہ نہیں جانتا کہ میرے احکامات شرعی ہوتے ہیں یا غیر شرعی۔ جس چیز میں اصلاح دیکھتا ہوں اور جو کچھ بھی مصلحت وقت کے مطابق نظر آتا ہے اسکا میں حکم دے دیتا ہوں'۔ یہ مصلحت اندیشی اکبر کے زمانے میں اپنے عروج پہ پہنچی۔ جب اکبر کے دربار میں ہندءووں کو اعلی درباری عہدے ملے اور ان پہ  امتیازی ٹیکس ختم کئے گئے علاوہ ازیں انہیں فوج میں بھی شامل کیا گیا۔
تبلیغ اسلام  میں  صوفیاء اکرام کا بھی ایک اہم کردار رہا۔  جنہوں نے ہندو اور مسلمان کا امتیاز کئے بغیر سب لوگوں کو یکساں طور پر بلند تر روحانی زندگی کا پیغام دیا ان درویشوں نے عوامی دربار لگائے، عوام کی زبان میں شاعری کی اور محبت اور خلوص سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ
'اگر یہ کہنا صحیح ہے کہ ہندوستان کو غزنی اور غور کے بادشاہوں نے فتح کیا تو اس سے زیادہ یہ کہنا درست ہے کہ ہندوستان کی روح کو خانوادہ ء چشت کے روحانی سلاطین نے فتح کیا'۔
یہ صوفی ذہنی لحاظ سے وسیع المشرب تھے۔ چشتیہ، قادریہ، امدادیہ اور غوثیہ سلسلوں کے صوفیاء نے اس بات کی کوشش کی کہ تمام مذہبوں میں یک جہتی کے اصول تلاش کر کے ان میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔
  یہاں یہ پہلو بھی مد نظر رہنا چاہئیے کہ جن جگہوں پہ ذات پات کا نظام حاوی تھا وہاں اسلام زیادہ تیزی سے نہ پھیل سکا۔ جیسے شمالی ہندوستان، جہاں برہمن ازم شدت لیساتھ موجود تھا اور اس نے اسلام میں دلچسپی نہیں لی بلکہ مراعات یافتہ طبقہ ہونے کی وجہ سے محاذ آرائ اختیار کی۔ اسلام کو وہاں کامیابی ہوئ جہاں پہلے سے ہی بدھ مت اور جین مت کا رسوخ موجود تھا۔
اس طرح سے ہندوستان میں اشاعت اسلام میں حکومت کیساتھ ساتھ ہندوستان کے مذہبی، سیاسی، ثقافتی اور سماجی حالات کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔

جاری ہے

حوالہ جات؛
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید
المیہ تاریخ، مصنف، ڈاکٹر مبارک علی

13 comments:

  1. جی ہاں جبکہ آجکل کے مسلمان خواہ پاکستانی یا ہندوستانی، واپس میڈیا کی بدولت اپنے پرانے مذہب ہندو مت میں داخل ہو رہے ہیں

    ReplyDelete
  2. "چشتیہ، قادریہ، امدادیہ اور غوثیہ سلسلوں کے صوفیاء نے اس بات کی کوشش کی کہ تمام مذہبوں میں یک جہتی کے اصول تلاش کر کے ان میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔" یہ جملہ جن صاحب نے بھی لکھا ہے اپنی مرضی کا نظریہ تھوپنے کی کوشش میں لکھا ہے۔ صوفیاء کو تمام مذاہب میں یکجہتی پیدا کرنے کی نہ کوئی خواہش تھی اور نہ اس مقصد کے لئے وہ اپنے گھر بار، عزیز اقارب چھوڑ کر بے سروسامان اس خطہ میں وارد ہوئے تھے۔ ان کا صرف ایک مقصد تھا اور وہ تھا اسلام کا پیغام اس کی حقیقی روح کے ساتھ پھیلانا۔ صوفیاء کے ہاتھ میں تلوار نہ تھی بلکہ وہ خلق نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمشیر آبدار کے عکس سے دلوں کو فتح کرتے تھے۔ ان کے یہاں آنے والوں سے تخصیص اس لئے نہیں برتی جاتی تھی کہ ان کا مقصد انہی لوگوں کو، انہی غیر مسلموں کو اسلام کا پیغام پہنچانا تھا۔ ہاں صوفیاء مُلا نہ تھے اور بات بات پر قتل و سنگساری کے فتاوٰی نہ لگاتے تھے کہ دین اسلام کا مزاج یہ نہیں ہے۔ دین کا مقصد مخلوق کو خالق سے ملانا ہے اور صوفیاء اسی مقصد اور صرف اسی مقصد کے لئے سرگرم تھے اور ہیں۔ یہ کہنا کہ وہ مختلف مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنے آئے تھے یا چاہتے تھے، بہتان اور ایک جاہل کی بڑ ہے۔

    ReplyDelete
  3. خرم صاحب، یہ تو نہیں کہا گیا کہ انکا بنیادی مقصد ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔لیکن انہیں جو بھی نتائج ملے وہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی وجہ سے ملے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے اسلام قبول نہیں بھی کیا۔ مگر اسکے باجود وہ انکی محفلوں میں موجود ہوتے تھے۔ اور عالم یہ ہے کہ ابھی بھی بعض بزرگوں کے مزارات پہ ہندو اور مسلم دونوں ہی آتے ہیں۔
    یہاں ایک بات جاننی اور بھی ضروری ہے کہاسلام کی آمد کیساتھ ہی بھگتی تحریک جنم لیچکی تھی۔ جبکہ اسلام کی آمد سے قبل بدھ اور جین مذاہب اپنا اثر جما چکے تھے۔ اسی وجہ سے صوفیاء کے پیش کئے گئے نظریات اور انکی طرز زندگی سے لوگ متائثر ہوئے۔ کیونکہ بدھ مذہب کی تعلیمات اور تصوف کے بعض بنیادی نظریات میں کسی قدر قربت پائ جاتی ہے۔
    تصوف میں مختلف اسکول آف تھاٹ رہے ہیں۔ اور عال یہ ہے کہ ایک طرف سرمد بغیر لباس کے گلیوں میں پھرتا تآھ اور اور صوفی کہلاتا تھا اور دوری طرف داتا گنج بخش کہتے ہیں کہ
    'جو شخص توحید اور تحقیق کے خلاف چلتا ہے اسکو دین میں کچھ نصیب نہیں ہوتا اور جب دین جو اصل ہے مضبوط نہ ہو تو تصوف جو اسکی شاخ ہے کیسے مضبوط ہو سکتا ہے۔'۔
    شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں 'ایک ہندو کے قبول اسلام سے صوفیا کو جتنی خوشی ہوتی شاید اس سے زیادہ ایک مسلمان کے ترک گناہ سے ہوتی'۔
    ڈاکٹر انور سدید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
    'صوفیاء کی تحریک معنویت کے لحاظ سے بھگتی تحریک کے مقاصد سے ہم آہنگ نظر آتی ہے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ترک وطن کر کے آنیوالے صوفیاء اکرام کے پیش نظر ایک مقصد تبلیغ اسلام بھی تھا'۔ تو اب جبکہ دو مصنفین ایک ہی بات کہہ رہے ہیں تو اسے بہتان نہیں کہا جا سکتا۔ بس یہ کہ آپ راہ طریقت کی طرف زیادہ مائل ہیں تو آپ کو یہ بات صحیح نہیں لگ رہی۔

    ReplyDelete
  4. عارف کریم، میڈیا بوتل کا جن ہے، اسے واپس بند نہیں کیا جا سکتا۔ اصل مسئلہ علم کی کمی ہے۔ ہمارا علم جیسے جیسے بہتر ہوگا ہم اپنے نظریات کی زیادہ بہتر طریقے سے حفاظت کر سکیں گے۔ اس سے پہلے یہ ممکن نہیں۔ یہ یاد رہنا چاہئیے کہ اب سے باسٹھ سال پہلے ہم ہندءووں کے ساتھ مل جل کر کئ سو سال تک رہے۔ انہوں نے ہمارے نظریات کو قبول کیا اور ہمارے اندر شامل ہو گئے تو تقسیم کے بعد ایسی کیا مصیبت آگئ کہ ہم انکے اطوار سے متائثر ہونے لگے۔

    ReplyDelete
  5. ایک تو یہ کہ بدھ مت اور ھین مت ہندوستان میں اسلام کی طرح کہیں باہر سے نہیں آئے تھے، جیسا کہ آپ کے پہلے جملے سے ظاہر ہو رہا ہے، بلکہ ہندوستان کے اندر ہی سے یہ تحریکیں اٹھیں تھیں اور دوسرے ممالک میں پھیل گئیں۔
    دوسرا یہ کہ ہندوستان میں اسلام کی اشاعت میں سہروردیہ سلسلے نے بھی عظیم الشان کام کیا جن کا حصہ کسی بھی طرح چشتیہ سے کم نہیں ہے، یہ لکھنا اس لیے ضروری ہے کہ آپ کی پوسٹ میں ان کا ذکر نہیں، چشتیہ سلسلہ اگر شمالی ہندوستان میں کامیاب تھا مغربی و جنوبی پنچاب، بلوچستان، سندھ، صوبہ گجرات اور بنگال میں اسلام سہروردیہ سلسلے کی کوششوں سے پھیلا۔ ہندوستان میں اشاعتِ اسلام اور یہاں کی اسلامی، روحانی اور مذہبی تاریخ پر سب سے گراں قدر کام شیخ اکرام الحق کا ہے، جنہوں نے آبِ کوثر، رودِ کوثر اور موجِ کوثر میں محمد بن قاسم سے لیکر سرسید احمد تک کی تاریخ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

    ReplyDelete
  6. عنیقہ بہنا ڈاکٹر صاحبان موصوف نے کبھی نہ تو کسی صوفی کی صحبت کی ہوگی اور نہ کبھی کسی سے پوچھا ہوگا کہ صوفی ہوتا کیا ہے؟ ایسے میں تحقیقی مقالہ جڑ دینا چہ معنی دارد؟ صوفیاء کے اگر اپنے کسی قول سے، کسی کتاب سے یہ ثابت ہو یا کوئی اور مستند حوالہ ہو کہ ان کی ہندوستان آمد کا مقصد مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنا تھا تو پھر بات بنتی بھی ہے اور جمتی ببھی وگرنہ صرف خیالی پلاؤ ہے اور یہ ایک سچے محقق کی شان نہیں۔ جہاں تک بات سرمد کی ہے تو جب انسان خرد سے بیگانہ ہوجائے تو پھر اس پر شریعت کی قید نہیں رہتی لیکن اس کے حواس و قوٰی کی ظاہری و باطنی قوتیں جنون سے زائل نہیں ہوجاتیں یہ روز کا مشاہدہ ہے۔ اسی لئے کسی ایسے کی اتباع کرنے سے روکا گیا ہے جو حالت جنون میں ہو۔

    ReplyDelete
  7. محترم خرم صاحب
    اسلام علیکم
    مسلمانوں کے اندر یہ روایت شروع سے موجود رہی ہے کہ وہ مفتوحہ سرزمینوں پر مذہب کی تبدیلی کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے ۔ اپنی ابتدائی تاریخ میں اسلام نے جن علاقوں کو فتح کیا اس میں مذہب تبدیل کرنے والوں کو فوری ایسی مراعات سے نوازا نہیں جاتا تھا جو تبدیلی مذہب کی ترغیب کا باعث ہوں بلکہ غیر مسلموں سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر اسلام کو اختیار کریں ۔
    ہندومت بھی اپنی ابتدا سے خداکو واحد ماننے والوں کا مذہب تھا ۔ چنانچہ جب آریا ہندوستان میں وارد ہوئے تو ان کا " اندرا" نامی ایک ہی خدا تھا جس کی صفات کا اظہار وہ بجلیوں کی کڑک اور بارش میں مانتے تھے ۔ اگر صفاتی نام ذی الجلال والاکرام کا ترجمہ کیا جائے تو کافی قریب لگتا ہے ۔ پھر جب ان کا ٹکراو یہاں کی بت پرست تہذیب کے ساتھ ہوا تو آریا نے بھی مزید نئے خدا تخلیق کر لئے ۔
    صوفیا کا طریق کار بھی سب سے پہلے ہندووں کو خائے واحد کے وجود اور اس کی تعلیمات کا احساس دلانا تھا جو ان کی اپنی مذہبی کتابوں کے اندر پہلے ہی موجود ہیں ۔ جب خدائے واحد کا درست احساس ہو جائے تو اسلام زیادہ دور نہیں رہتا ۔

    سورہ آل عمران کی آیت چونسٹھ میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ اھل کتاب سے گفتگو کريں اور بحث کا اصلی محور بھی معین کردیاگیا ہے
    ارشاد ہوتا ہے
    قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بینا و بینکم الا نعبد الا اللہ ولانشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون"
    اے رسول تم اھل کتاب سے کہہ دو کہ تم ایسی ٹھکانے کی بات پرتو آؤکہ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیزکو اس کا شریک قرارنہ دیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئي کسی کو اپنا پروردگارنہ بناے پھر اگر اس سے بھی منہ موڑیں تو کہہ دوکہ تم گواہ رہنا کہ ہم خداکے فرمانبردارہیں ۔

    اس آيت میں مندرجہ ذیل نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے ۔

    قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیناو بینکم
    آیت کے اس حصے میں خدا صریحا حکم دیے رہا ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اھل کتاب کے ساتھہ باب گفتگو کھولیں اور گفتگو کا اصل محور توحید ہو جوکہ تمام انبیاء کی تعلیمات میں سرفہرست ہے ۔
    خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی بحث سے گفتگو کا آغازنہ کریں بلکہ غیر خدا کی پرستش نہ کرنے سے بحث شروع کی جاۓ اس آيت میں نفی شریک خدا کی بات کی گئي ہے نہ کہ اثبات وجود خدا کی کیونکہ قرآن کریم کی نگاہ میں اثبات وجود خدا اور اس کاحق ہونا فطری امر ہے اور بنیادی طور سے قرآن کی نظر میں انسان(کچہ شرپسند معاندیں کے علاوہ ) خدا کی پرستش کے سلسلے میں شک وشبہ کا شکار نہیں ہوتے یہانتک کہ جب بت پرستوں کی بات ہوتی ہے انہیں بھی خدا شناس بتاتا ہے
    وما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی
    ( بت پرستوں کے حوالے سے بیان ہورہا ہےکہ )ہم بتوں کی عبادت نہیں کرتے مگریہ کہ وہ ہمیں خدا سے قریب کرتے ہیں ، ہمیشہ مشکل یہ رہی ہےکہ انسان شرک کوپہچاننے میں ناکام رہا ہے انسان گرچہ شرک میں گرفتار ہوتارہا ہےلیکن اس سے غافل رہا ہے قرآن کے مطابق
    مایومن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون 18۔
    وہ خدا پر ایمان تو نہیں لاتے مگر شرک کۓ جاتے ہیں
    چناچہ صوفیا کی یہی تکنیک تھی جس کی بنا پر وہ ہندووں کو ان کے مذہب کے اندر خدائے واحد کی موجودگی کا احساس دلاتے تھے اور ان کو دعوت غور و فکر دیتے تھے کہ اگر غیر مسلم خدائے واحد پر اعتقاد رکھتے ہیں تو اسلام خدائے واحد کی پرستش کی خالص ترین شکل ہے ۔ اس سلسلے میں صوفیا نے کچھ حکمت سے کام بھی لیا مثلا موسیقی ہندو کی روح کے اندر تک گڑی ہوئی تھی اس لئے قوالی کو فروغ دیا گیا ۔ دوسروں کی ثقافت کا احترام بھی ان کے احترام کا باعث بنا ۔ سکھ جب اپنے مقدس مقام دربار کو تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو حضرت میاں میر کو سنگ بنیاد رکھنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ اسی طرح لنگر کی رسم کا کا اجرا کیا گیا کیونکہ صوفیا جانتے تھے کہ روحانی بھوک اس وقت تک بیدار نہیں ہو سکتی جب تک جسمانی بھوک کا علاج نہ کیا جائے ۔ اسی طرح ان کے در پر آنے والے ہر مذاہب کے لوگ تھے اور ان میں کسی طرح کی تخصیص نہیں تھی ۔ مسلمان صوفیا کی روایت کا عکس سکھ مت میں بھی نظر آتا ہے جن کی مذہبی کتابیں اور کڑاہ پرشاد کی رسم آج بھی مسلمان صوفیا کے اثر کی گواہی دیتی ہے ۔

    ReplyDelete
  8. انیقہ صاحبہ
    آپ اپنے میل باکس کو چیک کریں

    ReplyDelete
  9. وارث صاحب، بدھ مذہب کے سلسلے میں ، میں نے تصحیح کر دی ہے آپ نے بجا فرمایا۔ بس بے دھیانی میں ایسا لکھ گیا۔ شیخ اکرام کی دو کتابین رود کوثر اور موج کوثر میرے پاس ہیں۔ مگر پچھلے کئ سال سے کئ دفعہ چھاننے پھٹکنے کے باوجود مجھے انکی تیسری کتاب نہِں مل سکی۔ اس طرح میرا یہ سیٹ نا مکمل ہے۔ اکثر جگہوں پہ بنگال کے بارے میں زیادہ معلومات دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ رود کوثر میں بنگال میں اسلام ک کا تذکرہ ہے مگر اس میں سہروردیہہ سلسلے کا تذکرہ نہیں ہے۔

    یہ بات بھی بہت عجیب لگتی ہے کہ کیوں برصغیر میں مسلامنوں کی آمد کو محمد بن قاسم کی آمد سے جوڑا جاتا ہے جبکہ مسلمان اس سے کہیں پہلے یہاں آثکے تھے بلکہ انکی بستیاں جنوبی ہندوستان میں آباد تھیں جہاں نو مسلم ہندو رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن ہمارے مءورخ محمد بن قاسم کی آمد کو ہی اہمیت دیتے ہے اسکی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔
    خرم صاحب، چونکہ میں نے آپکی مختلف تحریروں سے یہ اندازہ لگایا ہے کہ آپ صوفیت کی طرف طبیعتاً زیادہ مائل ہیں تو اب جو لوگ اسے ذرا حقیقت کی نظر سے دیکھتے ہیں تو آپ کو وہ سمجھ میں نہیں آئیں گے۔ ایک زمانے میں ، میں بھی خاصی مسحور تھی۔ مگر یہ عرصہ کافی دیر نہیں رہا۔ اسکی وجوہات میں میری تجزیاتی طبیعت اور حقائق کو تقابلی نظر سے دیکھنا شامل ہے۔ میں توہم پرستی سے بچنا چاہتی ہوں۔ اور ہر واقعے کے بعد اسے غیر جانبدار ہو کر دیکھنے کی کوشش ضرور کرتی ہوں۔ یہاں واقعات سے مراد میری اپنی زندگی کے واقعات ہیں۔ اور ہنیشہ یہ بھی کر کے دیکھنا چاہتی ہوں کہ اگر مروجہ وہم کے مطابق چیزیں نہ کریں تو دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ اگر آپ عملیت پسند ہیں تو خدا آپکے راستے عمل کے ذریعے کھول دیتا ہے۔ وتایو فقیر کی طرح میں بھی اس نتیجے پہ پہنچی ہوں کہ امور زندگی کی لگامیں خدا نے انسان کے ہاتھ میں دی ہیں اور ہوتا وہی ہے جو انسان چاہتا ہے۔ اسی لئے جزا اور سزا کا دن مقرر کیا گیا ہے۔
    آپ نے یہ سب باتیں لکھیں کہ ڈاکٹر صاحبان کو دراصل کسی صوفی سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ میں بھی یہی سمجھتی ہوں کہ انکا اصل مقصد محض تبلیغ اسلام نہیں تھا۔ ورنہ پھر دیکھا جائے تو اس تبلیغ کے نتیجے میں اتنے لوگ مسلمان نہیں ہوئے اور کامیابی کی شرح خاصی کم رہی جو لوگ مسلمان ہوئے وہ اس پائے کے مسلمان نہ تھے جتنا کہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان توقع رکھتا ہے کہ انہیں ہونا چاہئیے تھا۔۔
    جیسا کہ ہم اس تحریر میں کہہ چکے ہیں کہ یہ صرف صوفیاء کا کمال نہ تھا بلکہ اس میں مسلمان حکومتوں کا تعاون اور ہندوستان کے اپنے ماحولیاتی عناصر بھی شامل تھے۔ ورنہ صوفیاء یہ کمال کسی اور سرزمین پہ کیوں نہیں دکھا سکے۔ مثلاً چین ہندوستان سے زیادہ دور نہیں لیکن وہاں اسلام خاصی دیر سے پہنچا اور اس وقت نہیں پہنچا جب ہندوستان میں آیا تھا۔ انکے یہاں آنیوالے لوگوں کی مرضی ہوتی تھی کہ وہ مسلمان ہو جائیں یا نہ ہوں۔ انہیں اتنی آزادی ہوتی تھی کہ وہ مسلمان نہ ہوں تب بھی انکی خانقاہوں میں آجا سکتے تھے۔
    دلچسپ امر یہ ہے کہ اپنی راسخ العقیدگی کی وجہ سے مشہور بادشاہ اورنگزیب نے نہ صرف اپنے بھائ داراشکوہ کو مروایا ۔ بلکہ سرمد جو کہ اسکے حامیوں نیں سے تھے ان پہ بھی کفر کا فتوی لگا کر سزائے موت دی۔ وہ صوفیوں کے سخت خلاف تھا اور کئ اولیا اللہ کے مزارات کو اس نے صاف کرایا۔ اب اس مرحلے پہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے کسی صوفی کی صحبت میسر نہ آئ تھی۔ اسکی بڑی بہن جہاں آرا بیگم اور بڑا بھائ داراشکوہ سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے۔ بس وہ طبیعتاً اس طرف مائل نہ تھا۔
    شاذل میں نے اپنا اکاءونٹ چیک کیا ہے۔ مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ میں بینک جاءوں تو مجھے کیا کرنا ہوگا۔ اس قسم کے بینکاری کے معاملات میں، میں خاصی کمزور ہوں۔ مجھے صرف پیسے جمع کرانا اور نکالنا آتا ہے۔اسکی بھی خاصے دنوں سے ضرورت نہیں پڑی۔

    ReplyDelete
  10. آپ نے درست کہا، محمد بن قاسم سے پہلے جنوبی ہندوستان و لنکا میں مسلمان موجود تھے، مثلاً جس واقعہ کی بنا پر محمد بن قاسم کا حملہ ہوا اس میں مسلمان مظلوم تھے یعنی حملے سے پہلے ان علاقوں میں موجود تھے۔

    آبِ کوثر دراصل شیخ صاحب کی لڑی کا پہلا حصہ ہے اور اس میں عرب و ہند کے قدیم قبل از اسلام تعلقات سے لیکر مغلوں کے دور تک کا زمانہ ہے، یہ انتہائی اہم حصہ ہے کیونکہ برصغیر میں جن صوفیا نے ہزاروں لاکھوں کے حساب سے لوگوں کو مسلمان کیا ان سب اور دیگر اہم اور ابتدائی صوفیا کا تذکرہ اسی حصے میں ہے جن میں شیخ علی ہجویری، خواجہ معین الدین، شیخ کبیر بابا فرید الدین گنج شکر، شیخ بہا الدین زکریا سہروردی وغیرہ شامل ہیں، اسی حصے میں انہوں نے سہروردی سلسلے کی کاوشیں تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ سندھ اور بنگال میں اشاعتِ اسلام اور افغانی مشائخ پر بھی تفصیل سے لکھا ہے۔

    میں دعا گو ہوں کہ آپ کو "آبِ کوثر" مل جائے۔

    والسلام

    ReplyDelete
  11. اسلام کا سنہرا دور خلفہء راشدین تک ہی تھا-- اسکے بعد اسلام کا زوال شروع ہوا جو اج تک جاری ہے-- خلفہء راشدین کے بعد بادشاہت شروع ہوتی ہے یعنی مسلمانون کے عروج کا دور-- سرے سے اسلام کی آمد کا سوال ہی پیدا نہی ہوتا-- مسلمان ہندوستان مین اسلام نہی لائے-- بلکہ دربار، وزیر، حاجب، حرم لائے کیا ان چیزون سے اسلام پھلتا؟ جب بادشاہ تبدیل ہوتا لوٹ ہوتی کئی شہزادے قتل ہوتے-- کیا ہندو ان چیزون سھے انکھ موند کر بیٹھا تھا--



    ایام جہالت سے جنوبی عرب کے تاجر جنوبی ہندوستان سے تجارت کرتے تھے-- عہد نامہ عتیق مین اسکا ذکر ہھے-- انہی کے اوصاف سے اسلام جنوبی ہند مین پنپا-- ہندو بخوسی اپنی لڑکی بیاہ کرتے--



    مسلمان ہندوستان سے علم ادویات، ریاضی، علم الفلکیات اور ادب لئے-- سب سے بڑی بات وحدہ الوجود کا فلسفہ بھی انیہی کی دین ہے-- زوال پزیر اسلام کے حامل کیا دیتے؟ انکے ہر ورق پر خون حرابہ-- رہی سہی کثر غزنوی کے حملے ایک خلیج قائم کردئے-- ورنہ جین اپنی لڑکیون کو مسلمان سے بیاہ نے سے ارنہ سمچھتے تھے جسکا تذکرا ابولحسن ندوی اور نہرو تلاش ہند مین کئے ہین

    shalz ka comments informative oy

    ReplyDelete
  12. شیخ محمد اکرم کی اپ کوثر، رود کوثر اور موج کوثر ---- مسلمانون کے دربار سے متوازی وقت کے عوام وقت کے ساتھ اساتھ مسلم لیگ تک مسلمہ کتاب ہے

    ReplyDelete
  13. آپ بینک میں جو پتہ آپ کو مہیا کیا گیا ہے انہیں یہ پتہ دیں اور پیسے جمع کرادیں باقی کا کام آٹو میٹک طریقے سے ہو جائے گا بس جلدی کریں اگر کہیں تو میں آپ کو ماجد بھائی کا فون نمبر دے سکتا ہوں وہ آپ کو اس سلسلہ میں گائیڈ کردیں گے

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ