Sunday, January 9, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات

ایک سو اڑتیس سالہ پرانی کتاب کا ایک اردو ترجمہ ہاتھ لگا۔  ایک سو اٹھاَئیس صفحات پہ مبنی  بالشت بھر کی اس کتاب کا انگریزی نام ہے۔
Pilgrimage to the Caaba  and Charing Cross

اسکا نام اردو میں روداد سفر حج اور زیارت لندن رکھا گیا ہے۔ یہ کتاب انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہوئ۔ کتاب کے مصنف حافظ احمد احسن صاحب ہیں اور اسکا اردو ترجمہ جناب مصطفی علی مارہروی نے کیا۔ کتاب کی اشاعت لندن کی ڈبلیو ایچ ایلن اینڈ کمپنی نے کی۔اردو ترجمہ، ورثہ والوں نے شائع کیا ہے۔
 مصنف ٹونک ریاست کے نواب کے معتمد و معاون تھے۔ قتل کے ایک مقد مے میں پھنسا کر نواب صاحب کو ریاست کی حکمرانی سے محروم کیا گیا۔ جلا وطن ہوئے۔ بعد ازاں انگریز حکومت سے اجازت حاصل کر کے حج کے سفر پہ روانہ ہوئے۔ نواب صاحب تو وطن لوٹ آئے لیکن مصنف حج کے بعد لندن  کے لئے روانہ ہوئے۔ تاکہ اپنے نواب صاحب پہ ہونےوالے ظلم کے خلاف توجہ انگریز حکومت کوتوجہ دلا سکیں۔ کتاب کاشروع کا حصہ اس سازش کے متعلق ہے جس کے ذریعے نواب صاحب کو ریاست سے محروم کیا گیا۔ مقدموں میں پھنسانا اور قانون سے اپنی مرضی کے فوائد حاصل کرنا، طاقت کے کھیل میں ایسی سازشیں ہمیشہ بروئے کاررہی ہیں۔
اٹھارہ سو ستّتر میں یہ سفراختیار کیا گیا۔ کتاب میں سے کچھ دلچسپ اقتباسات حاضر ہیں۔

سمندر کے عجائبات کا حال کانوں میں پڑا ہوا تھا۔ میرے دل و دماغ ان سے اتنے متائثر ہو چکے تھے کہ باوجود اپنی تکلیف کے جنکا نقشہ کھینچنے کی کوشش بے کار ہے۔ میں مسلسل اپنے چاروں طرف دیکھتا رہا کہ شاید سمندر کے دیوزاد اور عجیب و غریب شکل و صورت کی چیزیں نظر آجائیں۔ مجھے یقین دلایا گیا تھا کہ سمندر ایسی چیزوں سے آباد ہیں۔ مگر مجھے پردار مچھلیوں کے علاوہ کوئ عجیب چیز نظر نہیں آئ۔ یہ مچھلیاں اسی عرض البلد میں پائ جاتی ہیں اور ٹکریاں بنا کر سمندر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑتی دکھائ دیتی ہیں۔ انکی پرواز عام طور پہ سے بیس فٹ کے قریب ہوتی ہے۔ میں نے  ایک ایسی زندہ چیز بھی دیکھی جو سمندر میںپورے کھلے ہوئے گلاب کے پھول کی مانند ہوتی ہے۔ مگر جب نکالی گئ تو سفید رنگ کی نیم شفاف گودے دار چیز تھی۔ 

فوج ایک ترک افسر کے زیر کمان ہے جو مکہ کا پاشا کہلاتا ہے۔ انتظامی اور عدالتی امور شریف مکہ کے ہاتھ میں ہیں۔ شریف، سلطان ترکی کے مقرر کردہ مکہ کے والی اور حاکم ہیں۔ ان کا نام عبداللہ ہے۔ انتہائ مہذب، شائیستہ اور وجیہہ آدمی ہیں۔ عرب کے تمام بدو انکا احترام کرتے ہیں۔ اور انکے حکم کے سامنے سر جھکاتے ہیں اپنا سردار اور مذہبی پیشوا سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو عرب کا والی کہا جا سکتا ہے۔
مکہ کو پانی ایک نہر سے ملتا ہے۔ یہ نہر بغداد کے مشہور خلیفہ ہارون رشید کی بیوی زبیدہ نے بنوائ تھی۔ انہی کے نام موسوم ہے۔ یہاں کے آدمی ریشمی اور اونی بھڑکدار کپڑے پہننے کے شوقین ہیں۔ کپڑا فرانس اور انگلستان  سے آتا ہے۔ مگر یہاں کے نا واقف لوگ قسطنطنیہ کا سمجھتے ہیں۔ کپڑے پر ملک اور کارخانہ کے نام کے باوجود انہیں یقین نہیں آتا کہ دوسرے ملکوں کا بنا ہوا ہے۔
اور قارئین اسکے ساتھ ہی لائیٹ چلی گئ۔ باقی اقتباسات بعد میں۔

جاری ہے۔ 

1 comment:

  1. اتنے بڑے وسیع و عریض اور ضخیم سمندر میں یہ اتنی اقسام کی لاتعداد مچھلیاں ساری عمر نسل در نسل محض سمندر کی سطح کے قریب ہی منڈلاتی رہتی ہیں کہ ان کی وقعت و استعداد وہیں تک محدود ہے۔ سمندر کی گہرائی سے مکمل ناواقف ، سمندر میں رہ کر بھی سمندر کو سمجھنے اور کھوج لگانے سے قاصر۔ اللہ ان مچھلیوں پر رحم کرے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ