Monday, January 10, 2011

ایک کتاب اور کچھ اقتباسات-۲


اگلے دن دوپہر کو نائب الشریف، دس بہت بد شکل، بد ہیئت آدمی جنکی صورت پر بدمعاشی ٹپکتی تھی میرے پاس لائے۔ یہ آدمی پرانے کمبل یا پرانے قالین کے ٹکروں کے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے تھا۔ انکے پاس توڑے دار بندوقیں اور خنجر تھے۔ اس اس ہیئت میں خطرناک غنڈے معلوم ہوتے تھے۔ مجھے انکے لٹیرے ہونے میں ذرا شک نہ تھا۔ میں سمجھا کہ نائب الشریف نے انہیں واردات کرتے ہوئے پکڑا ہے اور ہمیں دکھانے کے لئے لائے ہیں۔ میں نے ان سے اپنے شبہے کی تصدیق چاہی، انہوں نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ میرا شبہ غلط ہے یہ لٹیرے نہیں اسکے بر عکس اونچی حیثیت کے آدمی ہیں۔

میں نے ان سے پھر پوچھا کہ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کے سب لٹیرے اور خونی نہیں ہیں؟ تو انہوں نے خدا اور رسول کی قسم کھا کر کہا کہ میرا شبہ غلط ہے، یہ وہ حفاظتی دستہ ہے جسے محترم شریف مکہ نے بھیجا ہے۔ انکو حکم ہے کہ آپ کی ہر طرح کی خدمت انجام دیں۔ یہ ابھی مکہ سے آئے ہیں اور اونتوں کے چارے کے لئے دام مانگتے ہیں

مجھے اپنی غلطی پہ تعجب ہوا ، انکی ڈاکوءوں ایسی ہیئت پر۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے بہت سے ساتھی انہیں ڈاکو سمجھ کر گھبرا گئے۔

مکے سے مدینہ جاتے ہوئے؛
کبھی کبھی ریگستان کے نیم وحشی، ننگی پہاڑیوں پہ کھڑے یا گھومتے نظر آجاتے۔ مجھے تعجب ہوتا تھا کہ ایسے ملک میں جہاں پتھروں اور ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ لوگ اپنے نیم سیر اونٹوں اور بھیڑوں کے لئے چارہ کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ریگستان کے یہ سپوت ان سر سبز مقامات کو جانتے ہیں جہاں انکے جانوروں کے لئے تازہ پانی اور ہریالی مل سکتی ہے۔ کبھی یہ بد نصیب پڑاءو اٹھ جانے کے بعد آتے اور جو بچی کھچی چیزیں ہم پھینک دیتے انہیں بین لیتے، خواہ حلال کئے ہوئے جانوروں کے فضلات ہوتے یا ہڈیاں اور چھیچھڑے یا روٹی اور سبزی کے ٹکڑے۔ میں نے دیکھا کہ جو کچھ ملتا اسے اٹھا لیتے اور ایسے شوق سے کھاتے کہ معلوم ہوتا کہ مہینوں سے انکے منہ میں کوئ چیز نہیں گئ۔ حقیقت میں یہ ریگستان کے مہتر تھے اور وہی کام کرتے جو گدھ مردہ جانوروں کو کھا کر کرتے ہیں۔

گھٹنوں تک لنگوٹی کے سوا انکے جسم پہ کوئ کپڑا نہ ہوتا، عورتیں بھی یہی پہنتی تھیں البتہ اسکے علاوہ سینے کو سہارا دینے کے لئےایک دوسرا چیتھڑا سینہ پر بھی باندھ لیتیں۔ یہ دھجّی اسی کام کے لئے باندھی جاتی تھی۔ انکے لباس کا جُز نہ تھی۔ انکے سر کے بال گرد میں اٹے اور الجھے ہوئے ہونگے۔ ایسے بال بجائے آرائیش اور سنگھار کے انکے لئے وبال ہوتے ہونگے۔ انکو سر پر جمائے رکھنے کے لئے کیچڑ تھوپ لیتیں یا کپڑے کی دھجّی سے باندھ لیتیں۔ یہ دھجّی کہاں اور کس طرح حاصل کرتیں یہ نہیں بتایا جا سکتا۔

یہ نیم وحشی جو اس خوفناک ملک کے ریگستانی علاقے میں آباد ہیں،حبشی نسل کے معلوم ہوتے ہیں۔ جو کسی طرح عرب میں آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ انکی زبان بدءووں سے مختلف ہے۔ بدو خالص عربی بولتے ہیں اور نسبتاً ان سے زیادہ شریف ، خوش رو اور صاف رنگ کے ہیں۔

5 comments:

  1. Orientalism of the orient.

    ReplyDelete
  2. بی بی جی کیا یه کتاب مل سکتی هے؟
    بازار میں ؟
    اگر نهیں تو اپ یه کتاب مجھے مستعار دے سکتی هیں
    که میں اس کی پی ڈی ایف بنا کر انٹر نیٹ پر لگا دوں
    میرا ای میل کا ایڈریس ہے
    gm@jpn.co
    ،مہربانی

    ReplyDelete
  3. توڑ نہيں توڑے دار بندوق ۔ اس انگريزی ميں مَزَل لَوڈَر کہتے يں ۔ خنجر جسے کہا گيا وہ شايد اس بندوق کی مَزَل پر لگانے کی سنگين ہو گی ۔

    يہ صرف اس وقت کی بات نہيں آج بھی اُمراء کو مُفلس لوگ غُنڈے بدمعاش ہی لگتے ہيں

    ميرے دادا اور دادی اُنيسويں صدی کے آخری عشرہ ميں حج کرنے گئے تھے ۔ ميرے دادا ساڑھے پچپن سال قبل فوت ہوئ جب ميں گيارہويں جماعت ميں پڑھتا تھا ۔ وفات سے قبل وہ اپنی زندگی ک تجربات يعنی دنيا کے سفروں کے حالا مجھے سنايا کرتے تھے ۔ اُن کے طرزِ بيان اور ان صاحب کے طرزِ بيان ميں بہت فرق ہے ۔ ميرے دادا دادی نے عدن سے مکہ اور پھر مدينہ کا فر اُونٹوں پر کيا تھا اور منٰی عرفہ اور واپسی پيدل ۔ عدن سے مکہ اور مکہ سے مدينہ ان کے قافلہ ے ساتھ آگے ۔ داہنے ۔ بائيں اور پيچھے مسلحہ محافظ چلتے تھے کيونکہ ان دنوں راست ميں لوٹ مار کا ڈر ہوتا تھا

    ReplyDelete
  4. عرب کے جدید لکھنے والے اس کو نہیں مانتے ، اس سلسلے میں کچھ عرصہ پہلے دبئی میں عرب دنیا پر ایک کتاب کی رونمائی ہوئی تھی ان دنوں میں وہیں تھا ، اس کتاب میں عرب کے بدؤں کو جدید دنیا سے زیادہ سمجھدار کہا گیا اور اسی لئے عرب خود کو عرب کہتے تھے ، مگر سچی بات یہ ہے کہ شارجہ کے لوگ بحری قذاق تھے اور راس الخیمہ اور فجیرہ جیسی ریاستیں بہت امیر ریاستیں تھیں ، مکہ اور مدینہ کے درمیان جس قبیلے کا ذکر کیا گیا ہے وہ قبیلہ آج بھی موجود ہے سعودیہ کے قارئین شاید اس پر مزید تفصیل دے سکیں مگر کچھ اور کتابوں میں بھی ایسے قبائیل کا ذکر ملتا ہے

    ایک کتاب میں میں نے پڑھا ہے کہ عرب حج کے موسم میں ہندوستانیوں کا انتظار کرتے تھے کہ وہ بہت ہی فراخ تھے بنسبت ترکوں کے

    شاید آج کی عرب دنیا کو دیکھ کر ہم سوچ بھی نہ سکیں کہ یہ دنیا ایسی بھی تھی ، مگر نیٹ پر مکہ اور مدینہ کی سو سال سے زیادہ پرانی تصاویر بتاتیں ہیں کہ ہم اس زمانے میں کتنے جدید تھے اور عرب کیسے تھے ۔ ۔ ۔

    مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں ، کہ حجاز کا علاقہ کبھی بھی بدحالی کا شکار نہیں ہوا ۔ ۔ ۔ ہاں باقی عرب کے قبائیل کی قسمتیں بدلتی رہیں ، جنگیں ہوتیں رہیں ، مگر تیل نے سب کچھ بدل دیا ہے ، تاریخ بھی اور تاریخ لکھنے والے بھی

    ایسی ہی تاریخ سے پتہ چلتا ہے ، کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا ، قومیں ہر طرح کے حالات سے گزرتیں ہیں ۔۔ ۔ ۔ اور جنہیں اللہ چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور جنہیں چاہتا ہے نست و نابود کر دیتا ہے

    ReplyDelete
  5. خاور صاحب، یہ کتاب آپکو اس پتے سے مل سکتی ہے
    ورثہ
    پوسٹ بکس 11002کراچی 75230پاکستان
    ای میل،
    imsalami@yahoo.com

    اچھا یہ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میں جاپان میں رہنے والے کو کتاب کیسے مستعار دے سکتی ہوں۔ ایک حل یہ ہے کہ کہاں سے مجھے ملی ہے ان سے معلوم کروں کہ کیا وہ مجھے ایک اور کاپی دے سکتے ہیں پھر اس کتاب کو بذریعہ پوسٹ آپکو روانہ کردوں۔ لیکن،،،،،،،،،،،،،،،اسکے لئے مجھے آپکا پتہ چاہئیے ہوگا۔ اور تھوڑا وقت۔
    افتخار اجمل صاحب، ٹائپنگ کی غلطی درست کر دی ہے۔ کتاب میں بھی توڑے دار لکھا ہے۔
    اظہر الحق صاحب، اس کتاب میں مکے سے مدینے تک ڈاکوءووں اور چوروں کا بھی دلچسپ منظر کھینچا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ حدیدہ اور جدہ کی بھی کھال کھینچنے والی تاریخ درج ہے۔
    مکے کے اندر انہوں نے لکھا ہے کہ نواب صاحب کی فراخدلی کی وجہ سے مقامی مانگنے والوں کا رش رہتا تھا بلکہ میلوں دور سے لوگ انکی فراخدلی کا قصہ سن کر آتے تھے کہ انکی مدد ہو جائے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ