Sunday, January 23, 2011

ازموں کی دھند یا دھندہ

ستمبر کی ستمگر گرمی کے دن، میں منی بس میں خواتین کے رش کے درمیان گھسی خدا سے اس دعا کی قبولیت کی منتظرکہ اپنا بس اسٹاپ جلدی سے آجائے۔ اچانک کانوں میں قرآن کی تلاوت کی آواز ٹکراتی ہے۔ دیکھتی ہوں ایک کونے میں ایک حجاب دار برقعے میں ملبوس خاتون  کے برابر ایک چھ سات سال کا بچہ سیپارہ کھولے بیٹھا ہے اور پڑھ رہا ہے وہ خاتون اسکی تصحیح کراتی جاتی ہیں۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد اس بچے کی چھٹی ہوتی ہے اور اسکے فوراً بعد وہ خاتون اپنے پڑوس میں بیٹھی ہوئ خاتون سے مخاطب ہوتی ہیں۔
کیا آپ مسلمان ہیں؟ وہ خاتون اس حملے کے لئےتیار نہ تھیں ایک شش و پنج میں انکے حجاب دار چہرے کو پڑھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ جی ہاں میں مسلمان ہوں۔ فرمایا، سچ سچ، پورے یقین سے بتائیے کیا آپ مسلمان ہیں؟ جی ہاں الحمد للہ میں مسلمان ہوں۔ تو پھر، حجاب والی خاتون نے کہا ، آپ نے ناخن کیوں بڑھائے ہوئے ہیں اور نیل پالش کیوں لگائ ہوئ ہے۔ مسلمان عورت کو اس طرح نہیں کرنا چاہئیے۔ وہ خاتون انہیں ہکا بکا دیکھتی رہیں۔ پھر انہوں نے ان سے کہا وعدہ کیجئیے کہ ابھی آپ گھر جا کر اپنے ناخن کاٹ کر نیل پالش صاف کر لیں گی۔
وہ کہنے لگیں لیکن آپ کا اس سے کیا تعلق؟ جواب،  دوسروں کو برائ سے روکنا چاہئیے۔ ایک مسلمان کو دوسروں کو برائ سے روکنا چاہئیے۔ وعدہ کریں، آپ مجھ سے وعدہ کریں۔ آپ میری بہت اچھی بہن ہیں میں آپکی بہت اچھی دوست ہوں مجھ سے اللہ کے نام پہ  وعدہ کریں کہ آپ گھر جا کر جو میں نے کہا وہی کریں گی۔ کہیئے ہاں ایسا ہی کریں گی۔ یہ بات انہوں نے اتنے تسلسل سے کہی کہ ان دوسری خاتون نے کہا اچھا، میں ایسا ہی کرونگی۔
بس رکی اور وہ حجاب دار خاتون اپنے بچے کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اتر گئیں۔ وہ دوسری خاتون میری دوست تھیں۔
اگلے دن انکے ناخن کٹے ہوئے اور صاف تھے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا چلیں آپ نہ صرف  مسلمان ہو گئیں بلکہ کاسمیٹکس کا خرچہ بھی بچا۔ انہوں نے مجھے حیرانی سے دیکھا۔ میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ گھر جاتے ہی کاٹ دونگی اور صاف کر لونگی۔ گھر آتے ہی میں نے پہلا کام یہی کیا۔ میں نے ان سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ اب ساری زندگی ناخن نہیں بڑھاءونگی یا نیل پالش نہیں لگاءونگی۔ میری مسکراہٹ معدوم ہو گئ۔
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان دونوں میں، مجھے کون بہتر لگا۔ اس نے جس نے وعدے کی پاسداری کی یا وہ حجاب دار خاتون جو نمود و نمائش کی دلدادہ نظر آئیں اور انہوں نے محض ایک معمولی چیز پہ اگلے شخص کا ایمان جانچنا شروع کر دیا۔ 
  ناخن بڑھانا یا اسے نیل پالش سے رنگنا، اس کا مسلمان ہونے سے کوئ تعلق نہیں۔  میراروشن خیال ذہن کہتا ہے کہ نیل پالش سے وضو نہیں ہوتا۔ اس لئے نماز ادا کرنے میں مسئلہ ہوگا۔ سو اگر کوئ خاتون اس حالت میں ہو کہ اس پہ نماز ساقط ہو جائے تو وہ نیل پالش لگا سکتی ہے۔ یا اگر وہ یہ اہتمام کر سکتی ہے کہ ہر نماز سے پہلے نیل پالش ہٹا لے تو کوئ قباحت نہیں۔ اسی طرح ناخن بڑھانا صحت اور صفائ کے اصولوں سے تعلق رکھتا ہے۔
میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ ایک چھ سات سال کے بچے کو دوران سفر اپنے ماحول اور ارد گرد کی دنیا میں دلچسپی لینے کے بجائے تلاوت قرآن میں مصروف رکھنا شدت پسندی کے سوا کچھ نہیں۔
 میری اس طرح کی تحاریر پڑھ کر ایک روایت پسند صاحب کسی اور فورم پہ جاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اس عورت کو جب چار شوہر کرنا پڑیں گے تو اسے پتہ چلے گا کہ روشن خیالی کیا ہوتی ہے۔ اُس روشن خیال مرد کی بیٹی جب ہر روز ایک نیا بوائے فرینڈ پکڑ کر گھر لائے گی تو پتہ چلے گا کہ روشن خیالی کیا ہوتی ہے۔ ہم خیال پیٹھ ٹھونکتے ہیں کیا اعلی ارشاد ہے۔
میں انکے اس روئیے کوبھی شدت پسندی میں ڈالتی ہوں۔ ایک ایسی شدت پسندی جو حقائق اور مسائل کو منطقی نظر سے دیکھنے کے بجائے اپنے ثقافتی پس منظر یا وراثتی پس منظر سے نہ صرف دیکھنا چاہتی ہے بلکہ اسکے خلاف کسی بھی خیال کو بزور طاقت یا زبان ایکدم ختم کر دینا چاہتی ہے۔ چاہے وہ اس شخص کو ذاتی سطح پہ جانتے بھی نہ ہوں۔ لیکن وہ اس سے ذاتی انتقام کے خواہش مند ہیں۔
   یہاں سے میں اس سوال کے جواب میں اپنا حصہ ڈلنا چاہونگی کہ روشن خیالی یا شدت پسندی کو میں کیسے لیتی ہوں۔
روشن خیالی کا الٹ روایت پسندی ہے۔ مگر مطلق روایت پسندی کوئ چیز نہیں اگر ایسا ہوتا تو ہم اب بھی غاروں میں رہتے۔ دنیا یوں نہیں ہوتی، جیسی اب ہے۔
ہمارے بزرگ لال اینٹوں کے پکے مکانات میں رہتے تھے ہم کنکریٹ اور سیمنٹ کے بنے مکانات میں رہتے ہیں۔ ہمارے پرکھ ہل چلاتے تھے ہم ٹریکٹر چلاتے ہِیں، ہمارے آبائ گھر ہوتے تھے جہاں نسلیں پلتی تھیں۔  آج ہم ٹک کر ایک ملک میں نہیں رہ پاتے، ہمارے گھروں میں صحن ضرور ہوتا تھا مگر آج صحن ہونا ایک عیاشی ہے۔ محض پچاس برس پہلے کی دنیا دیکھئیے اور آج کی،  روایات ہی نہیں رہن سہن ، طور طریقے اور اقدار سب تبدیل ہو گیا ہے۔
یہ تبدیلیاں یوں لگتا ہے کہ خاموشی سے آتی ہیں مگر دراصل یہ انسانوں کی ضرورت کی وجہ سے آتی ہیں۔ ضرورت اگر شدید ہو تو تبدیلی میں بھی شدت ہوتی ہے۔ 
تبدیلی مختلف الخیال گروہوں کے آپس میں ملنے سے بھی آتی ہے۔ ایک گروہ جب دوسرے گروہ کو زیادہ خوشحال یا آسان زندگی گذارتے دیکھتا ہے  تو شعوری یا لاشعوری طور پہ  تبدیلیوں کو اپنانے لگتا ہے۔
تبدیلی اگر خاموشی یا ہمواری سے آئے تو معاشرے کے بنیادی اجزاء اپنی جگہ باقی رہتے ہیں۔ لیکن یہی تبدیلی اگر اچانک آئے تو بہت ساری چیزیں کھو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے جیسے زلزلہ آجائےتو کیا ہوگا؟ بالخصوص اگر رات کے وقت آجائے تو ہم زیادہ نقصان سے دوچار ہونگے۔
اگر ایک معاشرہ لمبے عرصے تک آہستگی سے ہونے والی تبدیلوں کا خوگر نہ رہے تو پھر تبدیلی زلزلے کی صورت آتی ہے۔
جب بھی کوئ تبدیلی اپنا رستہ بناتی ہے تو اسے پہلے سے بے ہوئے رستے سے الگ ہونا پڑتا ہے چاہے یہ عمل آہستہ ہو یا تیز۔ اسی طرح لا شعوری تبدیلیاں تو بہت بعد میں پتہ چلتی ہیں مگر شعوری تبدیلیوں کے لئے معاشرے کو کڑے فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔
یوں انسانوں میں دو بنیادی گروہ پیدا ہو جاتے ہیں ایک وہ جو اسی پرانے طریقے پہ قائم رہنا چاہتا ہے کیونکہ اسے  نئے راستوں کا ڈر ہوتا ہے۔ وہ نئ چیلینجنگ صورت حال کے سامنے سے ڈرتا ہے۔ دوسری طرف وہ گروہ ہوتا ہے جو اس نئ صورت حال کو آزما کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔اور وہ اس کے لئے مختلف خطرات سے نبردآزما ہونے سے نہیں ڈرتا۔
مطلق روایت پسندی کوئ چیز نہیں۔ آپ میں سے بیشتر لوگ اپنی آبائ زمینوں کو چھوڑ کر نئ زمینوں پہ نئے آشیانے بنائے بیٹھے ہیں۔ آپ میں سے بیشتر لوگ اب اپنے پرکھوں کی زمینوں کو پلٹ کر نہیں جانا چاہتے۔ یہ کوئ بری بات نہیں ۔ انسانوں کو جامد نہیں رکھا گیا۔ یوں جمود کا تعلق روایت پسندی سے بنتا ہے۔
جب ہم  نئ چیزوں سے آشنا ہوتے ہیں تو ہمیں بہت احتیاط  اور تفکر سے کام لینا پڑتا ہے۔ کیونکہ اسی سے ہماری بقاء وابستہ ہوتی ہے۔ 
اگر ہم جنگل میں موجود ہوں اور کسی ایسی طرف موجود ہوں جہاں سے ہمیں اپنا راستہ خود متعین کرنے کی ضرورت پڑے تو ہم اپنے پچھلے تمام تجربات اور آگے پیش آنے والے امکانات کے ساتھ راستہ بناتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایک ایسی صورت میں، آپ اور میں ساتھ ہوں۔ آپ روایت پسند ہوں اور چاہتے ہوں کہ جو پگڈنڈی  ملی ہوئ ہے اسی پہ چل کر اگر کچھ ملے تو ملے ورنہ خالی ہاتھ رہنا بہتر ہے۔
میں اس چیز پہ راضی نہیں ہوتی اور سوچتی ہوں کہ اب تک زندگی میں جتنا علم اور تجربہ حاصل کیا ہے اسکو استعمال کرتے ہوئے اس سمت بھی دیکھناچاہئیے جسے نہیں دیکھا، لگتا ہے کہ اس طرح ہم پہلے سے بہتر حالت میں ہونگے۔ لیکن نہیں آپ میرے اس خیال کے مخالف ہو جاتے ہیں۔ پہلے مجھے  پیش آنے والے ممکنہ نتائیج سے ڈراتے ہیں، پھر زبانی کلامی برا بھلا کہتے ہیں،   ہو سکتا ہے کہ دل ہی دل میں دعا بھی کریں کہ ایسے برے حالات سے سابقہ پڑے کہ دماغ ٹھکانے آجائیں۔
اسکی الٹ ایک صورت حال  یہ ہوتی کہ میں  بھی آپکو ممکنہ نتائج  سے ڈراءوں،آپکو  سخت اور سست، ڈرپوک اور بزدل کہوں اور ضد پہ آءوں تو آپکو آپکی حالت پہ چھوڑوں اور خود قصد سفر کر لوں۔
سو خیالات کے اس بنیادی فرق سے آپ اور میں  ہم سفر نہیں رہتے بلکہ دو علیحدہ راہوں کے راہی بن جاتے ہیں۔
اگر صورت حال اتنی سادہ رہے تو کیا برائ ہے؟
لیکن یہاں  کہانی میں ٹوئسٹ آتا ہے اور کہانی لکھنے والا ہم دونوں کے بیچ ایک ایسی چیز ڈال دیتا ہے جس سے ہم دونوں کا مفاد یا زندگی کی بنیادی شرائط وابستہ ہوتی ہیں۔
 ہر چیز کہانی نہیں ہوتی اور فکشن کہانی سے زیادہ تلخ اور سنگین ہوتا ہے۔ یوں ہم دونوں کے بیچ ایک نہیں کئ جہتیں نکل آتی ہیں جس کی وجہ سے ہم ایکدوسرے کو دفع دور نہیں کر پاتے۔
جنگل میں ہم ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔
مطلق روایت پسندی کوئ چیز نہیں۔ کسی چیز کو پرانی عینک سے دیکھتے رہنے کے بجائے نئ عینکوں کا استعمال ہو سکتا ہے کہ وہ گوشے سامنے لے آئے جو ہم نے پہلے محسوس نہیں کیئے۔ ہمم، اس بات کا ڈرتو ہوتا ہے  کہ نئ عینکوں سے ہمیں جو نظر آئے گا ہو سکتا ہے وہ بہت مہلک ہو۔ لیکن نظر آنا اور چیز ہے اور اس  نظر آنے والی چیز کو ذہانت سے اپنے فائدے اپنے استحکام کے لئے استعمال کرنا اور چیز ہے۔ یہی میرے نزدیک روشن خیالی ہے۔ روشن خیالی صرف دیکھنے کے انداز کا نام ہے اس لئے یہ کہنا کہ مطلق روشن خیالی کیا ہوتی ہے لا یعنی بات ہے۔
ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ مطلق لبرلزم یا آزدی کیا ہوتی ہے؟
مطلق لبرلزم اپنا وجود نہیں رکھتا بالکل ایسے ہی جیسے مطلق روایت پسندی اپنا وجود نہیں رکھتی۔ اگر ایک انسان کسی دوسرے انسان کو جب اس کا دل چاہے قتل کر کے کھانا شروع کر دے تو  ایسی آزادی کوئ معنی نہیں رکھتی۔
چونکہ میرے اور آپکے بیچ کچھ ایسی چیزیں ہیں جو مشترکہ ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کے اثر سے آزاد نہیں ہونے دیتیں تو ہم مطلق آزادی کا تصور نہیں کر سکتے۔ اسی لئے انسانی معاشروں میں قانون نام کی چیز وجود میں آتی ہے۔ تاکہ ہر شخص آزادی کے مزے سے اس طرح آشنا ہو سکے کہ دوسرے کی آزادی متائثر نہ ہو۔
جب پاکستانی معاشرے میں بنیادی تبدیلیوں کی بات ہوتی ہے اسے کسی طرح لبرلزم سے جوڑ دیا جاتا ہے اور پھر مغرب کی مثالیں پیش کرنا آسان ہوتا ہے۔ پاکستان میں لبرلزم کا وجود نہیں ۔ یہاں معتدل یا موڈریٹ خیالات رکھنے والا طبقہ مٹنے کے مراحل میں ہے اس لئے لبرلزم کا شور مچانے والے اسے صرف فیشن کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔ ایک ڈراوا ، ایک وہم  کہ اگر آپ روایت پسندوں کی پسند پہ نہیں چلتے تو یہ ہے وہ المناک انجام جو سامنے آ ئے گا۔ یوں اصل مسائل مختلف ازموں کی دھند میں لپیٹ دئیے گئے ہیں۔ یہ دھند کچھ لوگوں کا دھندہ چلانے میں خاصی مددگار ہوتی ہے۔ اگر یہ دھند ہٹ جائے تو کچھ دھندے مندے ہو جائیں۔      

22 comments:

  1. محترمہ، آپ کے مضمون کا آدھا حصہ جو سمجھ آیا اس میں دو باتیں غلط لگیں، جو نیچے لکھی ہیں۔ باقی جو آپ نے خاتون کی طرز تبلیغ پر تنقید کی وہ کسی حد تک درست ہے لیکن بات خلوص نیت پر ہی آ جاتی ہے۔

    نمبر 1
    "وہ حجاب دار خاتون جو نمود و نمائش کی دلدادہ نظر آئیں"
    یہ آپ نے کس بنیاد پر لکھا؟ کیا سب کے سامنے بچے کو سیپارہ پڑھانا نمود و نمائش ہے؟ یا تبلیغ کرنا؟

    نمبر 2
    "ایک چھ سات سال کے بچے کو دوران سفر اپنے ماحول اور ارد گرد کی دنیا میں دلچسپی لینے کے بجائے تلاوت قرآن میں مصروف رکھنا شدت پسندی کے سوا کچھ نہیں"
    اس میں شدت پسندی کہاں سے آ گئی؟ بچے کو کسی کام میں مصروف رکھنا تو اپنے اپنے طریقے کی بات ہے۔

    تنقید کا برا مت منائیے گا، اسے سے بندے کو بہتری کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    ReplyDelete
  2. کئی اہم نقاط بڑی سلاست سے بیان کئے ہیں کہ رائے دیتے وقت
    Overwhelmed
    محسوس کررہا ہوں۔ تغیر اور ارتقاء ہر چیز میں ہے۔ نفسیاتی اور معاشرتی طور پر بھی ہم میں پایا جاتا ہے۔ صرف یہ ہے کہ کچھ لوگوں اور کچھ جگہوں پر یہ سست رو ہوسکتا ہے اور کچھ کے ہاں نسبتا تیز رفتار۔ میرے خیال سے لبرلزم اور رجعت پسندی کے درمیان بنیادی لکیر یہیں کھینچتی ہے۔ اگرچہ یہ لکیر کوئی اتنی واضح اور مستقل بھی نہیں۔ وہی لوگ جو زندگی کے کچھ معاملات میں لبرل ہوں کچھ دوسرے معاملات میں کسی حد تک رجعت پسند ہوں گے۔ اور کچھ رجعت پسند وہاں کسی حد لبرل ہوسکتے ہیں۔ بات یہاں تغیر پہ آجاتی ہے۔ ذاتی طور پر میں لبرل ازم کو
    Pragmatism
    سے تعبیر کرتا ہوں۔ جس میں روایتی آلائشوں سے بالاتر ہوکر گذرتے وقت اور بدلتے حالات میں درپیش مسائل کا کثیر الجہتی حل دیکھا جاسکے۔
    لبرل اور رجعت پسند کے چکر میں پڑے بغیر بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی قوم بڑی حد تک کنفیوژ ہے۔ ان الفاظ کے آرکیٹائپ بنا کر اسے مولوی اور امیر ایلیٹ طبقے پر چپکا دیا گیا ہے۔ ہر مولوی کلی طور پر رجعت پسند اور ہر ایلیٹ کلی طور پر لبرل قرار دیا جاتا ہے۔ "مغربیت" (اور اس کی تعریف بھی پاکستانیوں کے ہاں خود ساختہ ہے) سے قربت کو لبرلزم اور اس سے دوری کو رجعت پسندی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ ثقیل الفاظ کے پیچھے چھپے معنی کیا ہیں لوگ انھیں محض چند علامتوں کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
    سیاسی ، ثقافتی ، مذہبی ، سماجی اور حتی کے انٹلیکچوئل سطح پر لبرل سوچ کا فقدان ہے اس لئے کہ بنیادی طور پر سوچ ہی کا فقدان ہے۔کہ کسی بھی معاملے میں نئی بات سوچنے یا نیا قدم اٹھانے کی بجائے چلے آئے "اثاثے" میں سے ہی تریاق ڈھونڈتے ہیں یا پھر مجبور ہو کر مستعار لیتے ہیں جو کہ ظاہر ہے ان کے حالات اور ماحول اور مسائل سے پوری طرح میل نہ کھانے کی وجہ سے مزید مسائل کا باعث بنتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ رجعت پسندی کے دعویدار بھی ایک جھٹکے سے اپنی زندگی کے تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ لیکن کیا ہو۔۔کس ذریعے سے ہو۔۔کس صورت میں۔۔خود اس میں انھیں ہمہ وقت کنفیوژن ہے۔

    رہا نیل پالش کا ایشو تو آپ سے متفق نہیں۔ لیجئے میں تو اور بھی "لبرل" نکلا۔
    :)
    ایک حجابی کلاس فیلو نے بتایا تھا کہ ایسے کاسمیٹکس آچکے ہیں کہ جن سے پانی رس کر ناخنوں تک پہنچ جاتا ہے۔ خیر یہ خواتین جانیں اور ان کے میاؤں جی۔
    باقی باتاں فالو اپ میں۔۔

    ReplyDelete
  3. روائت وہ ہے جو دين کا حصہ نہيں مگر لوگوں نے بنا لی ہے ۔ مثال کے طور پر ميلاد النبی کا جلوس ۔ محفلِ ميلاد ۔ گيارہويں شريف کا ختم ۔ تازيہ نکالنا ۔ شادی سے قبل تيل يا مہندی کی رسم ۔ وہ حق مہر جو لکھنا ہے اپنی بڑھائی جتانے کيلئے اللہ کا حکم ماننے کيلئے نہي يعنی ادا نہيں کرتے

    اسلام ميں ناخن پڑھانا اور برسرِ عام بناؤ سنگار سے جانا منع ہے اور اس بناؤ سنگار ميں ناخنوں پر جوبصورتی کرنا بھی شامل ہے ۔

    پردہ پوش اور وقتی طور پر وعدہ پورا کرنے والی عورتوں کو آپ بہتر جانتی ہوں گی ۔ البتہ اگر پردہ پوش ميں ظاہريت تھی عمل نہ تھا تو وعدہ پورا کرنے والی نے پردہ پوش سے وعدہ وقتی طور پر نبھايا مگر مقصد کو نہ پا سکی اور اللہ کا وعدہ اسے ياد نہ آيا ۔ گويا آدمی آدمی سے ڈرتا ہے اللہ سے نہيں

    ReplyDelete
  4. عنیقہ سیدھی سی بات ہے ۔ سب کو آزاد خیالی پسند ہے ۔۔۔کام وہی کرنا چاہتے ہیں جو باقی لوگ کرتے ہیں ۔ لیکن دو چہرے رکھنے والوں کو سمجھنا مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے ۔ جس نے وعدہ کیا ۔۔ میرے نزدیک اس حجاب والی سے کئی گنا زیادہ بہتر ہے ۔ جو دکھاوا کرکے اسلام نہیں دل آزاری کر رہی ہے ۔ ہم وہ قوم ہیں کہ رات کو ناچ گانا بھی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ بھی منی بدنام ہوئی کا ۔ لیکن دن میں لوگوں کو منع بھی کرتے ہیں کہ توبہ توبہ ۔ ہم نے اپنی عادت بنا لی ہے ۔ کہ دوسرے بات نہیں مانتے تو قلم کر دو سر انکے ۔ اعتدال نام کی کوئی چیز ہمارے اندر موجود ہی نہیں ہے ۔

    ReplyDelete
  5. عامر شہزاد صاحب، فرض کریں کہ وہ عورت قرآن پاک پڑھانے کے بجائے انگریزی کا قاعدہ بس میں بیٹھ کر اپنے چھ سات سال کے بچے کو پڑھا رہی ہوتی تو کیا تب بھی آپ اسی طرح سوچتے؟
    افتخار اجمل صاحب، باقی ملک کا مجھے نہیں معلوم یہاں کراچی میں ناخن رنگنے کے عرق دستایب ہیں جو مہندی سے تیار کئے جاتے ہیں کافی عرصے ناخن پہ رہتے ہیں اور جماعت اسلامی سمیت تمام مذہبی جماعتوں کی خواتین اسے انتہائ شوق سے استعمال کرتی ہیں۔ کیونکہ اس سے ناخنوں کے اوپر وہ مصنوعی تہہ نہیں آتی جس سے پانی ناخن تک نہ پہنچ جائے۔کیا انہیں نہیں معلوم کہ برقعوں میں سے رنگین ناخنوں کا نظر آنا بناءو سجاءو کو ظاہر کرنے میں آتا ہے یا نہیں؟

    ReplyDelete
  6. عثمان، یہ تو میں بھی کہتی ہوں کہ قوم کنفیوز ہے۔ لیکن اس پہ لوگ اور ناراض ہو کر زیادہ فصاحت سے روشن خیالی پہ اپنے خیالات قلم بند کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  7. جیسے کسی جگہ ہوا کم ہوجائے تو ارد گرد کی ہوا جھکڑوں کی صورت میں وہاں جگہ گھیرتی ہے .. جیسے مائع اپنی سطح برابر رکھنے کے لئے نشیب کی طرف زبردستی بڑھتے ہیں ...کچھ ایسے ہی اصول غیرمادی و غیر مرئی پر بھی لاگو ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ جب انفرادی اور اجتماعی طور پر آپ کے پاس تخلیق اور پیداوار کا فقدان ہو جائے جب آپ کے سماجی و معاشرتی عناصر جامد ہوکر رہ جائیں تو لا محالہ ترقی یافتہ حصوں کی طرف سے تخلیق اور فکر کا بہاؤ آپ کا رخ کرے گا۔ جب آپ کچھ بنائیں گے نہیں تو زبردستی مستعار لینا ہوگا۔ یہ یکطرفہ بہاؤ لازماَ تلاطم اور اور سابقہ جامد عناصر کی توڑ پھوڑ کا باعث ہوگا۔ یکطرفہ بہاؤ کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ بھی کچھ بنائیں اور درآمد کریں۔ اور بنانے کے لئے سابقہ "اثاثے" سے آگے بڑھ کر کچھ دیکھنا ہوگا...
    لوگوں کو خوف ہے ...اپنے ارد گرد رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ..جو بڑی حد تک درآمد شدہ ہیں..اور آپ کے پہلے سے جامد معاشرے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو زبردست تلپٹ کرنے کے درپے ہیں۔ خوف ہے کہ آپ کی زبان ، آپ کے رواج ، تہذیب ، مسائل پر غیروں کی تخلیقات اثر انداز ہورہی ہیں۔ خوف ہے کہ یہ سب آپ کی پہچان اور حثیت کو جیسے چاٹتا جارہا ہے۔
    یہی خوف آگے چل کر دوسروں سے حسد، بغض ، چڑچڑاہٹ اور نفرت پیدا کرتا ہے۔ جب ہم خود سےکچھ بنائیں گے نہیں اور جو ہے اسے بھی کھوتے جائیں گے تو باہر سے آتے بہاؤ کے بدلے میں ہمارے پاس انھیں اور خود کو دینے کو یہی کچھ رہ جائے گا۔ اور یہی ہم دے رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. عنیقہ آنٹی چلیں میں یہ بات مان لیتا ہوں کہ بس میں بچے کو قرآن پڑھانا انتہا پسندی ہے ویسے تو گھر میں بھی پڑھانا آپ کے نزدیک انتہا پسندی ہو گی لیکن مجھے یہ بتائیں کہ بچے کو وہ ارد گرد کے ماحول میں کیا سکھائیں گی ؟؟؟ کہ بس میں لڑکی کیسے پٹانی ہے ؟؟؟ یا وہ انکل جو بس میں ہنینڈل پکڑ کر کھڑے ہیں میرے برقعے کو نظر انداز کیے گھورے جا رہے ہیں ؟؟ یا پھر وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے انکل جو پان تھوکنے کے ساتھ ساتھ اپنے دوست سے گفتگو میں گندی گالیوں کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں ؟؟؟

    دوغلے پن کی کوی حد ہوتی ہے ۔۔ میرے خیال سے بچے کو بس میں قرآن پڑھا کر نہ صرف اسکو اس بات کی تربیت دی جا رہی ہے کہ سفر میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہونا بلکہ ساتھ میں ان لوگوں کو بھی بتایا جا رہا ہے کہ دیکھو تم اتنے بڑے ہو کر گھر میں بھی قرآن نہیں پڑھتے یہ بچا بس میں بھی پڑھ رہا ہے ۔

    اگر آپکو یہ دکھلاوا لگ رہا ہے تو پھر آپکو وہ فیشن ایبل آنٹی دکھلاوا کیوں نہیں لگیں ؟؟؟ کیا انہوں نے میک اپ اور نیل پالش دنیا کو دکھانے کے لیے نہیں کیا تھا ؟؟؟؟ میرے خیال سے ہر چیز کی ایک ایکسٹریم ہوتی ہے اور اپنی روشن خیالی میں دین پر چلنے کی کوشش کرنے والے لوگوں پر تنقید کرتے کرتے آپ اتنا آگے بڑھ چکی ہیں کہ جہالت سے بھرے بے معنی اعتراضات کرتے ہوے بھی آپکو محسوس نہیں ہوتا کہ جو اعتراض میں کر رہی ہوں اسکی کوی حقیقت نہیں ۔

    بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ وہ بچا قرآن پڑھ رہا تھا اس پر تنقید ہو رہی ہے لیکن اگر اسی طرح وہ بچا سکول کا قائدہ پڑھ رہا ہوتا تو بس میں موجود ہر شخص گھر جا کر دوسروں کو سناتا کہ میں نے اتنا محنتی بچا دیکھا آج جو بس میں بھی پڑھ رہا تھا ۔

    آپ جیسے لوگوں کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے

    شیشے کے سامنے کس منہ سے جاو گی عنقیقہ
    شرم تم کو مگر نہیں آگی ۔

    انکل ٹام

    ReplyDelete
  9. انکل ٹام، اگر اس عالم میں جو مقشہ میں نے کھینچا ہے کوئ خاتون اپنے بچے کو اردو، انگریزی یا فرناسیسی قاعدہ بھی پڑھا رہی ہوتی تو میں یہی کہتی۔ اگر وہ خاتون اردو یا انگریزی کا قاعدہ پڑھا رہی ہوتیں تو میں ان سے انکے منہ پہ کہہ دیتی کہ دنیا کے تمام بچے جب سفر کی حالت میں ہوتے ہیں تو کھڑکی کے پاس بیٹھنا پسند کرتے ہیں اور باہر کے بھاگتے ہوئَ مناظر میں دلچسپی لیتے ہیں۔ آپ کو اگر اسے پڑھانے کا شوق ہے تو گھر پہ ایک وقت مقرر کر کے پڑھائیں لیکن چونکہ وہ قراں کی پڑھآئ کر وا رہی تھیں اس لئے انہیں یہ نصیحت نہیں کی جا سکتی تی کہ یہ توہین میں آتا۔
    محترم ہر چیز کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے۔ بس میں بیٹھ کر آپ اپنے میٹرک کی کتابیں پڑھ سکتے ہیں مگر ایک چھ سات سال کے بچے پہ یہ زبردستی شدت سپندی ہے اور دکھاوا ہے کہ ہم اپنے بچے کی تعلیم پہ کتنا زور دیتے ہیں کہ اسے بس کے اس سفر میں بھی اس میں مصروف رکھا ہوا ہے۔
    لیکن چونکہ آپ خود اس شدت پسندی کی طرف مائیل ہیں اس لئے آپ کو یہ ساری تقریر لکھنے کی ضرورت پیش آئ۔ اگر آپ نے میری بچوں کی تعلیم کے حوالے سے پہلے کوئ تحریر پڑھی ہو تو آپ اتنی زیادہ دروغ گوئ یعنی جھوٹ سے کام نہیں لیتے۔
    میں ہمیشہ والدین سے یہ کہتی ہوں کہ جب اپنے بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں اور سفر کے دوران ان سے نظر آنے والی چیزوں کے متعلق باتیں کیا کریں۔
    اگر آپ اپنی ذہنی بیماری سے نکل آئیں تو آپکو اندازہ ہو گا کہ سفر کرتے ہوئے پٹائ کھاتے ہوئے مرد اتنے نظر نہیں آتے جتنے راستے میں رنگ بگنے بل بورڈز، ٹھیلے والے، مختلف رنگوں اور ساختوں کی سواریاں، ہر عمر کے بچے بڑے، سگنل کے کھلنے اور بند ہونے کے قاعدے، ایکسیڈنٹ سے بچنے کے طریقے، کھانے پینے کی اشیاء اور انکے خراب یا اچھا ہونے کا اندازہ۔
    مگر ایک بند گلی میں پھنسے رہنے کی وجہ سے آپکو سرف ان باتوں کا خیال آیا جس پہ مجھے نشانہ بنا سکیں۔
    خیر ایک شدت پسند کی طرف سے یہی تبصرہ آ سکتا تھا۔

    عثمان، ہمم معاشرہ میں زلزلہ اس وقت اسی وجہ سے آیا ہوا ہے۔ ایک طرف تیزی سے بدلتے ہوئے معاشی حالات ہیں، ٹیکنالوجی کی یلغار ہے اور دوسری طرف اسکی کوئ تیاری نہیں۔ لازماً اب پریشانی ہے کہ کیا چھوڑیں اور کیا پکڑیں۔

    ReplyDelete
  10. انکل ٹآم، یہ جھوٹ آپ نے کیوں لکھا کہ وہ میک اپ کئیے ہوئے تھیں۔ نیل پالش لگانا اگر دکھاوا ہو سکتا ہے تو باولں میں صحیح سے کنگھا کرنا یا حجامت بنانا بھی دکھاوا ہو سکتا ہے۔
    یہ بھی دکھاوا ہو سکتا ہے کہ آپ بات بات پہ الحمد للہ کہیں یا اردو بولتے بولتے انگریزی بولنے لگیں۔ یہ بی دکھاوا ہو سکتا ہے کہ آپ کسی سے ملنے جائیں تو سب سے پہلے اسکے آگے اپنا موبائیل فون رکھ دیں یا کار کی چابی۔ اسکا انحصار تو اس بات پہ ہے کہ متعلقہ شخص کا رویہ کیا ہے۔۔

    ReplyDelete
  11. افتخار اجمل صاحب، میں یہ کہنا بھول گئ تھی کہ اگر آدمی صرف آدمی سے ڈرتا یوتا تو اسکے سامنے سے ہٹ جانے کے بعد بالکل اس چیز کی کوشش نہ کرتا کہ وہ اپنے کہے الفاظ پورے کرے۔ جبکہ اسے یہ علم تھا کہ اب ان خاتون سے شاید ہی دوبارہ ملاقات ہو۔

    ReplyDelete
  12. Punjab Province is the ‘Extreme Center’ of Blasphemy Cases in Pakistan

    PUNJAB, PAKISTAN (ANS) -- An analysis of the reported blasphemy cases in Pakistan since 1986 (the year when this controversial law (295-C) was made part of the Pakistan Penal Code (PPC) by General Muhammad Zia-ul-Haq, who was the sixth President of Pakistan from July 1977 to his death in August 1988), reveals that the majority of these cases occurred in a few districts in central Punjab.

    ...

    According to Rizwan Paul, Executive Director of LFA, “Around 80 per cent of all these cases have been registered in only eight districts of central Punjab -- Lahore, Faisalabad, Toba Tek Singh, Gujranwala, Sheikhupura, Sialkot, Gujrat and Kasur”.

    http://www.assistnews.net/Stories/2011/s11010165.htm

    hun daso jee

    ReplyDelete
  13. بچے کو کو ارد گرد میں نظر آنے والے مناظر پر گفتگو کرنا آپکا طریقہ کار ہو سکتا ہے جو آپکے اپنے تجربے کی بنیاد پر ہے اور بس میں قرآن پڑھانا ان آنٹی کا طریقہ کار ہے جو انکے تجربے کی بنیاد پر ہے ، چونکہ خود آپ ایک بند گلی میں رہتی ہیں اسی لیے آپ نے برقعے والی آنٹی پر تنقید کی ، میں دونوں طریقے آزما چکا ہوں اور وہ بھی اپنے اوپر اور میرا زاتی تجربہ ہے کہ سفر میں دنیا سے غافل رہ کر اللہ کا زکر کرنے سے انسان کے ایمان میں بہت زیادی ترقی ہوتی ہے ۔ ویسے بھی بس سے باہر دیکھ کر وہ بھی کراچی کی گلیوں میں سب جانتے ہیں کیا نظر آے گا۔۔ آپ نے پہلے بھی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ کس
    طرح آپ اپنی بیٹی کے ساتھ نظر آنے والے مناظر پر بات چیت کرتی ہیں میں نے تب کوی تنقید نہیں کی تھی وجہ ظاہر ہے ۔ لیکن میرے خیال سے آپکو ان آنٹی کے طریقہ کار پر تنقید کرنے کا کوی حق نہیں۔ آپکو کیا معلوم کہ وہ کس وجہ کی بناد پر بچے کو قرآن پڑھا رہی ہیں ؟؟ بغیر کسی بات کے معلوم ہونے کے باوجود تنقید کر رہی ہیں اور بند گلی میں رہنے کے طعنے مجھے دیے جا رہے ہیں ۔
    اور دکھاوے والی بات میں نے الزامی طور پر کی تھی کیوں کہ بچے کو قرآن پڑھانے کو آپ نے دکھلاوا کہا تھا اور کونسا کام دکھلاوا ہے یا نہیں یہ انسان کی نیت پر منحصر ہے ، اور آپ نے یہ بات آنٹی کی نیت جانے بغیر کی تھی ۔
    انکل ٹام

    ReplyDelete
  14. انکل ٹام، میرے خیال سے آپ نے ایمان میں جو ترقی حاص کی ہے وہ آپکے بیانات میں موجود ہے۔

    ReplyDelete
  15. محترمہ بات دراصل یہ ہے کہ فدوی عرصہ دراز سے کراچی میں سفر کے مزے لوٹتا رہا ہے۔ کیا زبردست تجربہ ہوتا ہے کسی مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی بس میں اپنے لیے صرف ایک پیر رکھنے کا آسرا اور پھر دروازے پر لٹک جانا یا لپک کر چھت پر چڑھ جانا اور شہر کراچی کے سہانے راستوں کا لطف اٹھانا۔ کیا زبردست سما ہوتا ہے، اپنی عمر پوری کرجانے والے انجن کا شور، مسافروں کی چیخ و پکار اور اس پر مستزاد کنڈیکٹر کی آوازیں۔
    ان تمام عوامل کے باوجود بہت سے لوگوں کو ان سب سے بے نیاز اپنے رب کا ذکر کرتے تو دیکھا ہے لیکن شدید شوروغوغا میں قرآن کھول کر بچے کو پڑھانے کے بارے میں پہلی بار پتہ چلا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ایسا کرنا شدت پسندی ہے یا نہیں، میرے نزدیک تو یہ پسندیدہ فعل ہے لیکن نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ سفرنامہ انٹارکٹیکا کی طرح یہ بھی لمبی چھوڑی ہوئی کہانی ہے۔۔۔

    ReplyDelete
  16. وقار اعظم صاحب، جب آپکے نزدیک یہ پسندیدہ فعل ہے تو تعجب ہے کہ آپکو یہ چھوڑا ہوا کیوں لگ رہا ہے۔ محترم، میں آپ لوگوں سے زیادہ اس بات کا خیال رکھتی ہوں کہ اخلاقی بیماریوں کا مظاہرہ نہ کروں۔ یعنی جھوٹ، منافقت، ریاکاری اور بد گمانی۔
    آپ کا اور کچھ اور لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ مجھے آنٹی کہنے سے تو نہیں چوکیں گے مگر یہ نہیں سوچیں گے کہ میں جب آپکی عمر کی نہیں تو میرے تجربے کی مدت آپ سے الگ ہے۔ آپ میری ڈگری کا حوالہ دیتے نہیں تھکیں گے مگر یہ خیال نہیں آئے گا کہ اس وجہ سے میرے اور آپکے مشاہدے میں فرق آئے گا میں آپکے مقابلے میں زیادہ دنیا دیکھ چکی ہوں۔ آپکو میرے مالی اسٹیٹس کی فکر رہے گی مگر یہ نہیں فکر ہوگی کہ مجھے اس وجہ سے کچھ اور ایسی ترجیحات حاصل ہو سکتی ہیں جو آپکو ابھی نہ مل پائیں۔
    تو آپ یہ سوچ کر اپنے آپکو تسلی دیتے رہیں کہ ججھوٹ تھا جو کچھ پڑھا جو لکھا افسانہ تھا۔ کیا اس سے مجھے فرق پڑتا ہے، کیا اس سے بیان کئے گئے حقائق پہ فرق پڑتا ہے۔ نہیں۔ خوش رہیں اپنے خرچے پہ۔

    ReplyDelete
  17. انکل ٹام، میرے خیال سے آپ نے ایمان میں جو ترقی حاص کی ہے وہ آپکے بیانات میں موجود ہے۔
    ====
    آپ نے میری بات پر طنز کیا ہے حالانکہ میں نے اپنی پوسٹ میں تجربہ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ آپ مجھے اس وقت طعنہ دیتی اچھی لگتیں جب میں مسلسل اس کام کو کرنے کا دعویٰ کرتا ۔ اور انسان شناس لوگ جانتے ہیں کہ انسان کس قسم کی نفسیاتی صورت حال کا شکار ہوتا ہے جب ایسی حرکت کرتا ہے ۔

    ReplyDelete
  18. انکل ٹام، ترقی آگے بڑھنے کا نام ہے۔ اور ایک جگہ پہ موجود رہنا نہ ترقی ہے نہ تنزلی۔ ظاہری عبادات سے الگ ایمان پہ جمے رہنا اور اس پہ ترقی کی خواہش رکھنا کسی بھی انسان میں اخلاقی خوبیاں پیدا کرتا ہے۔ اگر وہ ان اخلاقی خوبیوں سے عاری ہے تو ان تجربات کی کوئ حیثیت نہیں جو اس نے کئے۔

    ReplyDelete
  19. اور محفل کے اختتام پر استاد بڑے بلاگستاں والے اپنا ٹانگ توڑ کلام پیش کرتے ہیں۔
    عرض کیا ہے ے ے ے۔۔۔۔

    غزل مذہب پرستاں

    پرمغز وعمیق موضوع پہ یہ سوچیں کیسی ہیں
    ہٹ دھرمی میں غرق یہ آوازیں کیسی ہیں
    فخر باطل کے کھونے پہ یہ چیخیں کیسی ہیں
    مشاہدہ سے قطعاً عاری یہ نگاہیں کیسی ہیں
    اوپر موضوع کچھ نیچے یہ بحثیں کیسی ہیں
    انکی عمریں کتنی ہیں انکی باتیں کیسی ہیں
    اگر عقلیں ایسی ہیں تو حرکتیں کیسی ہیں
    در فٹے منہ کہ ان کی یہ چولیں کیسی ہیں
    بلاگراعظم کی بے وزن یہ غزلیں کیسی ہیں
    مذہب پرستوں کے ان تبصروں جیسی ہیں

    ReplyDelete
  20. عثمان،
    :)
    :)
    :)
    یہ مخول پن کا کورس آپ نے کہاں سے کیا ہے؟ آپ کا دیوان کب آرہا ہے؟

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ