Saturday, August 22, 2009

کم بخت شہرت

میں گاڑی میں بیٹھی ڈرائیور کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ کم بخت سموسے خرید رہا ہے کہ بیچنے لگا۔ اچانک ایک دبلا پتلا لڑکا عینک پہنے ہوئے اچھے خاصے حلئیے میں میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ باجی، اس نے مسکین بھرے لہجے میں آواز نکالی۔ اسے دیکھ کر مجھے اور غصہ آیا۔ ایسے حلئیے میں بھی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ان معاملات میں، میں خاصی روائیتی ہوں۔ میں نے منہ پھیر لیا ، باجی وہ دوسری طرف آگیا۔ مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہئیے۔ بس تھوڑی سی۔ کیا تھوڑی سی۔ میں نے دانت پیسے۔ ایک دفعہ پھر اس ڈرائیور کو کمبخت کہا۔ بس باجی تھوڑی سی۔ ارے کیا تھوڑی سی، تھوڑی سی ہیروئین دیدوں۔ نہیں ہے میرے پاس۔ میں نے منہ بائیں طرف پھیر لیا پھر کچھ خیال آیا۔ میں ہیروئین نہیں بیچتی، ایک لحظہ اور سوچا اور مزید کہا اور خریدتی بھی نہیں۔ بھاگو یہاں سے۔ باجی ہیروئین نہیں چاہئیے۔ بس تھوڑی سی مشہوری چاہئیے۔ہائیں ۔ میں نے اسے ابھی حیرانی میں صحیح سے گھورا بھی نہ تھا کہ اتنی دیر میں ڈرائیور سموسے بیچ اور خرید کرواپس آگیا۔ گاڑی چل پڑی، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اس نے اپنا منحنی ہاتھ ہلایا۔ مجھے یقین ہو گیا اگر اسی استقامت سے وہ یہ کرتا رہے اور دو تین گھنٹے روزانہ اس میں لگا دے تو کوئ شک نہیں کہ آئندہ دو تین مہینوں میں وہ مشہور نہ ہوجائے۔
آخر شہرت کیا ہے؟ ایسے لوگوں کا آپکو جاننا جنہیں آپ بالکل نہیں جانتے اور جن کا آپ کو خیال بھی نہیں آتا۔ لیکن پھر بھی لوگ اسکی خواہش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ پیدائشی مشہور ہوتے ہیں جیسے بلاول بھٹو زرداری اور شہزادہ چارلس، کچھ کو شہرت بڑی محنت اور منصوبہ بندی کے بعد ملتی ہے جیسے زرداری صاحب، کچھ لوگوں کے اوپر شہرت ٹھونس دی جاتی ہے جیسے آپکا نواز شریف۔ اتنے پپو لگتے ہیں، انکو دیکھکر خیال آتا تھا کہ خدا گنجے کو اگر ناخن دیتا ہے تو اسے ایک مشرف بھی عنایت فرما دیتا ہے۔ مگر اباجی کے مرحوم ہو جانے کی وجہ سے اب پھر صرف ناخن رہ گئے ہیں۔ اچھا خیر، معذرت، آپ لوگوں کو اندازہ تو ہے کہ میں کتنی جلدی پھسل جاتی ہوں۔ ہمارے غالب ٹھونسی ہوئ شہرت کے بہت خلاف تھے۔
انکی موت کسی اور کے لئے باعث شہرت نہ بن جائے تو احتیاطاً انہوں نے اپنے انتقال پر ملال کے بعد کے لئے ایک وصیت بھی کر دی تھی،
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
ویسے تو ہمارے یہاں ہر طرح کے شوقینوں کی کچھ کمی نہیں تھی۔ لیکن یہ شہرت کا انفیکشن شاید ٹیکنالوجی کے پھیلاءو کی وجہ سے ایکدم پھیل گیا ہے۔ یہاں شوقین ہر طریقہ آزما رہے ہیں۔۔کوئ گا بجا کر، کوئ تعلیم حاصل کر کے، کوئ کاروبار میں، کوئ افئیر چلاکر، کوئ ظلم کے نئے باب رقم کر کے، کوئ مظلومیت کے اعلی درجوں پہ پہنچ کر، کوئ حسین نظر آکر ، کوئ ذہین ثابت کر وا کے، کوئ بہت مذہبی بن کر اور کوئ بالکل آزاد ہوکر۔ اور ہاں کوئ لکھ کر، کمپیوٹر پر، اخباروں میں، دیواروں پر، لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ، ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے ۔۔
شہرت کی خواہش رکھنا جوان ہونے کی علامت ہے۔ ابھی میں نوجوانوں کے ایک فورم سے گذری ہوںجن کی عمرین پندرہ سولہ سال کے لگ بھگ ہونگیں ۔ سب کے اندر ایک قدر مشترک تھی۔ سب مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ یہ شاید فیشن میں ہے آجکل اور نوجوانوں سے زیادہ کس کو فیشن کی فکر رہتی ہے۔ ابھی ایک نوجوان شکوہ کر رہے تھے۔ میری کوئ گرل فرینڈ نہیں۔ میرے سارے جاننے والوں کی ایک نہیں کئ ہیں یہ آجکل فیشن میں ہے۔ سب میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ میں شدید قسم کے احساس کمتری کا شکار ہوں کیا کروں۔ اب اگر ایسے فیشن آرہے ہیں تو میرے جیسی نیک اولادیں کیا مشورہ دے سکتی ہیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ پائنچے چھوٹے بڑے ہونا اور قمیضیں اونچی نیچی ہونا ہی فیشن ہے۔ہماری ایک انگریزی بلاگر بھی حیران ہیں کہ یہ اتنے سارے لوگ کیوں مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ اب نفسیات داں اسکی کچھ اوٹ پٹانگ وجوہات بتاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ بھی مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں، ابھی اسکی کوئ ٹھوس وجہ نہیں نکالی جا سکی۔ کیونکہ وہ ابھی کسی ایک بات پر متفق نہیں ہیں۔ ادھر حیاتیاتداں ڈی این اے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔لیکن ابھی تک وہ بھی شہرت کی جین دریافت کرنے سے قاصر ہیں۔اس لئیے شہرت کے خواہشمند وں کو ہٹ اینڈ ٹرائ پر ہی کام چلانا پڑیگا۔
شہرت حاصل کرنا ہی کچھ کم جان جوکھم کا کام نہیں اسے برقرار رکھنے کے لئے بھی ہر وقت جلتے توے پر کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ بالخصوص وہ جنہوں نے شہرت توے پر کھڑے رہ کر حاصل کی ہو۔ ایسے ہی کسی دل جلے نے کہا، شہرت شہد کی مکھی کی طرح ہے، یہ ایک گیت گاتی ہے ایک سہانا گیت، اسکے ڈنک بھی ہوتا ہے۔ لیکن سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ اسکے پر بھی ہوتے ہیں۔ اگر آپ مشہور ہونا چاہتے ہیں تو ایسے دل جلوں کی باتوں پر بالکل دھیان نہ دین۔ تندیء باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب، یہ تو چلتی ہیں تجھے اونچا اڑانے کے لئے۔ جیسے جیسے شہرت بڑھتی ہےدل میں ہزار وسوسے بھی جنم لینے لگتے ہیں۔ جہاں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں جان لیں کہ شہرت اور دولت آنی جانی اشیاء ہیں۔ ہمیشہ قائم رہنے والی چیز حماقت ہے۔ اگر آپ نے شہرت اپنی کسی حماقت کی وجہ سے حاصل کی ہے تو قیاس ہے کہ یہ لوٹ گھوم کر آپکے پاس آتی رہے گی۔
اب جب تک لوگ اس تحریر میں سے کچھ غیر اسلامی نکات کو دریافت کرتے ہیں۔ میں بازار جا کر ایک کتاب تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اسکا نام ہے مشہور ہونے کے ایک سو ایک طریقے۔ ہمارے ایک  ساتھی کو مشہور ہونے کا بڑا شوق ہے اور مجھے کچھ سوشل ورک کرنے کا۔ اگر  انہیں حسب خواہش شہرت نہ ملی تو ہو سکتا ہے کوئ اور طریقہ کارگر ہو جائے۔ ویسے بھی ہیں لوگ جہاں میں وہی اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔

ریفرنس؛

ہماری ایک انگریزی بلاگر




6 comments:

  1. مجھے اور ”مشہور“ کرنے کا شکریہ
    :grin:

    ReplyDelete
  2. مزیدار تحریر ہے، اہم بات یہ کہ آپ کی تحریروں کی طوالت میں خاطر خواہ اور خوبصورت کمی آ رہی ہے، ایجاز ان کو اوّل درجے کی تحاریر بنانے کی طرف گامزن ہے۔

    ReplyDelete
  3. ہمیشہ قائم رہنے والی چیز حماقت ہے۔ اگر آپ نے شہرت اپنی کسی حماقت کی وجہ سے حاصل کی ہے تو قیاس ہے کہ یہ لوٹ گھوم کر آپکے پاس آتی رہے گی۔
    ٹووووووووو گڈ
    یعنی ہماری شہرت ہمیشہ قائم رہنے کا یا بار بار قائم ہونے کی سند دے رہیہیں آپ ہمیں
    :D
    تحریر مزیدار ہے ، معاف کیجئے گا جعفر کی بیستی مزیدار ہے
    :D
    لیکن گنجوں کی فل ٹوس بیستی نا ہونے کی وجہ سے مزہ کرکرا ہو گیا
    :(

    ReplyDelete
  4. جیسے آپکا نواز شریف۔ اتنے پپو لگتے ہیں، انکو دیکھکر خیال آتا تھا کہ خدا گنجے کو اگر ناخن دیتا ہے تو اسے ایک مشرف بھی عنایت فرما دیتا ہے۔ مگر اباجی کے مرحوم ہو جانے کی وجہ سے اب پھر صرف ناخن رہ گئے ہیں۔
    ہا ہا ہا انیقہ ایسا ظلم نہ کیا کریں لوگوں کو بری امیدیں ہیں اپنے ہیرو سے ،
    اوہ معاف کیجیئے گابڑی لکھ رہا تھا مگر کی پیڈ نے ساتھ نہیں دیا:)

    ReplyDelete
  5. جعفر کوئ بات نہیں یہ تو میرا فرض تھا
    وارث صاحب آپکا شکریہ،
    ڈفر، اگر آپنے استقامت سے اپنی حماقت کی حفاظت کی تو یہ پیشن گوئ ہمیشہ صحیح ثابت ہوتی رہے گی۔
    عبداللہ، کوئ امید بر نہیں آتی، کوئ صورت نظر نہیں آتی۔ویسے آپ نے صحیح جملہ لکھا تھا۔ نا حق اسکی تصحیح کی۔

    ReplyDelete
  6. آج آپ کے بلاگ کا دیدار ہوا ۔ ماشاءاللہ آپ بہت اچھا اور بے ساختہ لکھتیں ہیں ۔ اندازِ تحریر پر وارث بھائی کی طرف سے سند تو مل ہی چکی ہے ۔ اب میں کیا کہوں ۔

    شہرت کے بارے میں میرا نکتہِ نظر یہ ہے کہ یہ بلندی سے پستی کی جانب سفر کرتی ہے ۔ یعنی آپ کو اس وقت تک کوئی نہیں پہچانے گا جب تک آپ مشہور نہ ہوجائیں ۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ کامیابی کی کسی بلندی کو چھو بیٹھے ہوں ۔ ( کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ نیچے سے بلندی کا سفر آپ نے کیسے کیا ، آپ سب کو تب ہی نظر آئیں گے جب آپ اس شہرت کی مسند پر بیٹھے ہوئے ہوں ) لہذا آپ کی شہرت کا دارومدار آپ کی شہرت کی انتہا پر ہے ۔ اس کے بعد صرف تنزلی کا سفر رہ جاتا ہے ۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس انتہا پر اپنی شہرت قائم رکھ پاتے ہیں ۔ عموماً لوگ یہیں سے نیچے کی طرف سفر کرتے ہیں ۔ یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی سرکس میں رسی پر چل کر دکھاتا ہے ۔

    شہرت کی خواہش دراصل خود پسندی کی ایک شکل ہے ۔جس کا شکار تقریباً ہر دوسرا شخص ہے ۔ کچھ لوگ شہرت کے لیئے کام کرتے ہیں اور کچھ لوگ کام کرکے شہرت پالیتے ہیں ۔ ایک ارادی عمل ہے جوکہ منفی رحجان ظاہر کرتا ہے ۔ دوسرا مثبت رویہ ہے جو غیر ارادی ہوتا ہے ۔ شہرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    میرا خیال ہے آج کے لیئے اتنا کافی ہے ۔ باقی پھر کبھی سہی ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ