Sunday, August 23, 2009

کچھ پکائیں

میرے ایک سینیئر کولیگ کا خیال تھا کہ کچھ لوگ اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھودتے ہیں۔ پڑھنے میں تو یہ خاصہ مشکل کام لگتا ہے لیکن دانت سے قبر کھودنے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ جو الابلا سامنے آئے کھا لیں۔ خاص طور پر وہ اشیاء جو رنگین ہوں یا وہ جن میں خوب مرچ مصالحہ پڑا ہو۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگ لا علمی میں مارے جاتے ہیں۔ تو یہ چند ایک بصیحتیں انکے لئے ہیں۔ باقی جنہوں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ کچھ کھا کر ہی مرنا ہے تو وہ اپنی پرانی ستمگر مشقیں جاری رکھیں۔
بظاہر رنگین کھانے بڑے اشتہا انگیز لگتے ہیں۔ بریانی میں پیلے چاول، پیلا یا رنگ برنگا زردہ، رنگ برنگی آئسکریم اور اس طرح کی لا تعداد چیزیں جن کو مزید اشتہا انگیز بنانے کے لئیے ان میں خوشبوئیں مثلاً کیوڑہ کا ایسنس یا دیگر ایسنسن بھی ڈالے جاتے ہیں۔
یہ تمام رنگ اور خوشبوئیں مصنوعی طریقوں سے تیار کئے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر فوڈ کلر کے بجائے کپڑے رنگنے والے رنگ استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ کینسر پیدا کرنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ حتی کہ فوڈ کلرز اور ایسنس بھی انسانی صحت کے لئے بالکل محفوظ نہیں۔ ان سب سے آپکے جسم کینسر پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ بریانی اور زردہ پیلے رنگ کے بغیر بھی اچھے بنتے ہیں اور بہت دل چاہے تو زعفران استعمال کر لیں۔ بازار میں تیار کیچپ میں سرخ رنگ ملا ہوتا ہے۔ ہری چٹنی میں ہرا رنگ، ریسٹورنٹ میں تیار ہرے چکن میں ہرا رنگ۔ تو اس قماش کی تمام چیزِیں آپ خود عمومی ذہانت استعمال کرتے ہوئے نکال لیں۔ اور اپنی زندگی سے بھی نکال دیں۔ یا انکی مقدار بہت کم کر دیں۔
آج میں آپکو بغیر کسی لاگ لپٹ کے اصلی بڑے کے پائے بنانے کی ترکیب بتا رہی ہوں۔جسکو بنانا آتے ہیں وہ وقت ضائع نہ کرے۔ جنہیں پسند نہیں وہ اسکے فوائد ضرور جان لیں۔

درکار اشِاء؛

بڑے کے پائے دو عدد۔ جتنے بڑے جانور کے ہوں زیادہ مزے کے بنتے ہیں۔ اگر بھینس کے نہ ملیں تو بڑی گائے کے اور دیکھ کر موٹے اور بڑے لیں۔ قصائ سے صاف کروا لیں۔ جان چھٹے گی اور وقت بچے گا۔
ایک پریشر ککر میں اچھی طرح دھو کر ڈال دیں۔ دو چائے کے چمچ ہلدی اور دو چائے کے چمچ نمک بھی ڈالدیں۔ اب اس میں تین گنا پانی پائے کے مقابلے میں وہ بھی جمع کر دیں۔ اور اپنے ککر کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے گوشت کے مقابلے میں دگنے وقت کے لئے چولہے پر رکھدیں۔ یہ گوشت جس سے مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ نہاری کا یا بونگ کا گوشت ہے۔۔ بیچ میں شبہ ہو کہ پانی کم نہ ہو رہا ہو تو اسےبند کر کے چیک کر لیں۔ پائے اتنے گل جانے چاہئیں کہ نہ صرف گوشت، ہڈی سے بآسانی علیحدہ ہو جائے بلکہ شوربے میں چپچپاہٹ اچھی طرح محسوس ہو جب آپ اسے اپنی دو انگلیوں کے درمیان دبا کر کھولیں۔ یاد رہے اچھی طرح گلے ہوئے پائے کامیاب ڈش کی طرف ضروری قدم ہے۔
گل جانے کے بعد شوربے کو چھلنی سے الگ کر لیں۔ گودے والی نلیوں میں سے گودا نکال کر ان نلیوں کو پھینک دیں۔ باقی جو زیادہ بڑی ہڈیاں ہیں ان پر سے بھی گوشت صاف کرکے ، ان ہڈیوں کو بھی ڈسٹ بن میں ڈال دیں۔
تین پاءو پیاز باریک لمبی کاٹ کر تل لیں اور اسے براءون ہونے سے پہلے نکال لیں۔ براءون ہوجانے کی صورت میں شوربے میں کڑواہٹ سی آجاتی ہے اس لئے جیسیے ہی براءون ہونا شروع ہو اتار لیجیئیے۔ایک بڑی گٹھی لہسن کی لے لیں، ڈیڑھ انچ ادرک۔ پیاز لہسن اور ادرک کو ایکساتھ پیس لیں۔ اب اس میں دو کھانے کے چمچ پسا دھنیا، دو کھانے کے چمچ پسی مرچ اور آدھ چائے کا چمچ ہلدی ڈالدیں۔
ایک پتیلی میں آدھ کپ تیل لے لیں اور جب یہ ہلکا سا گرم ہو جائے تو اس میں تیز پتہ کڑ کڑا لیں۔ پسے ہوئے مصالحوں کا پیسٹ اس میں ڈالدیں احتیاط سے۔ اور ہلکی آنچ پہ اسے بھون لیں حتی کہ یہ تیل چھوڑ دے۔ ہلکی آنچ پہ بھوننے سے مصالحے بہترین مزہ دیتے ہیں۔ اب اس میں صاف کیا ہوا پایوں کا گوشت ڈالکر کچھ دیر بھونیں اور پھر جو شوربہ الگ کر کے رکھا تھا اسے بھی شامل کر دیں۔ اگر زیادہ گاڑھا لگے تو پانی کو ابال کر حسب ضرورت ڈالدیں۔ اور تیز آنچ پہ پکنے دیں۔
جب خوب کھد بد کرنے لگے تو آنچ بالکل ہلکی کردیں یعنی دم والی۔ اب اسمیں ایک کھانے کا چمچ پسا گرم مصالحہ ڈالدیں ۔ تین چار ہری مرچ کاٹ کر ڈالدیں۔ نمک دیکھ لیں کم ہو تو اور ڈال لیں۔ اگر دن میں پکا کر رات میں کھانے کا ارادہ ہوتو۔ نمک کم رکھیں۔ پائے رکھے رہنے پر نمک چھوڑتے ہیں رات کو گرم کرتے وقت نمک پھر دیکھ لیجئے گا۔ اور دھیمی آنچ ہپر کم ازکم آدھ گھنٹہ پڑا رہنے دیں۔چولہا بند کر کے مزید پندرہ بیس منٹ پڑا رہنے دیں۔ ڈش میں نکال کر ہرے دھنئیے سے سجا لیں۔ ایک الگ پلیٹ میں کٹا ہوا ہرا دھنیا، ہری مرچ اور لیموں کے ساتھ پیش کریں۔ نان کے ساتھ کھائیں۔ پائے ختم ہوجائیں اور شوربہ پھر بھی باقی ہو تو اس میںابلے ہوئے سفید چھولے شامل کرلیں۔ اور کچھ دیر دم پر ہلکی آنچ پہ رکھدیں۔ یہ ڈش گریبی میں تیار ہو جائے گی۔
زیادہ بولنے والے مردوں کے لئے اکسیر ہے۔ زبان تالو سے اور ہاتھ پلیٹ سے چپک جاتے ہیں۔

ریفرنس؛
فوڈ کلرز





8 comments:

  1. محترمہ آپ کی ڈش کس موسم میں نازل ہوئی ہے کہ کھانے والا یقینا بعد میں خارش کرتا پھرے گا ۔اگر ڈش کی تعریف کریں تو اسکی افادیت کا آپ نے ذکر نہیں کیا حالاں کہ اسکی خصوصیات بیان فرمادیں ہیں ۔میں کہوں تو کھانے والا بعد میں بے قرارری محسوس کرے گا ۔

    ReplyDelete
  2. یعنی زیادہ بولنے والے مردوں کے لئے ہی نہیں زیادہ لکھنے والے مردوں کے لئے بھی اکسیر ہے
    اتنی مشکل اور زنانہ ترکیب ہے کہ میرے جیسا پھرن ٹرن والا بندہ تو بنانے کا سوچ ہی نہیں سکتا
    ہمیں تو یہی سوچتے رہنا پڑتا ہے کہ نوڈلز بھی جو رکھی ہیں یہ حلال ہیں کہ حرام کجا کہ بھینس اور بڑی گائے کے پائے ڈھونڈتے پھریں
    ہاں کافی ساری خواتین بلاگروں نے یقینا یہ ڈش جلدی تیار کر لینی ہے
    لیکن اکثریت کو یقینا یہ علم بھی ہو گا کہ موسم بدلنے کا انتطار کرنا بہتر رہے گا
    :D

    ReplyDelete
  3. رنگ کے بارے میں آپ کی بیان کردہ باتیں سو فیصد درست ہیں۔ کسی نے تو تردد کیا ۔ لوگوں کو پتہ چلنا چاہئیے کہ وہ کیا کھاتے ہیں اور نتائج بھگتتے ہیں۔ جس طرح آپ نے رنگوں اور جعلی خوشبؤیات کی بات کی ہے اسی طرح تقریبا تمام بازاری بند اشیاء میں انہیں محفوظ رکھنے کے لئیے کچھ خاص قسم کے اجزاء شامل کئیے جاتے ہیں ۔ جو انتہائی مضر صحت ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان میں تو خیر ہر معاملے کا باوا آدم باقی دنیا سے نرالا ہے لیکن وہ ممالک جہاں اپنے عوام کے بارے میں حکمران اور سیاسی پارٹیز فکرمند رہتی ہیں وہاں نہ صرف ملکی سطح بلکہ صوبائی اور علاقائی سطح پہ اسطرح کی کئی لیباٹریز ہمہ وقت صرف اس بات کی جانچ کرتی ہیں کہ پیکینگ اور بغیر پیکنگ کے استعمال ہونے والی اشیاء میں جو اجزاء ڈالے جاتے ہیں کیا وہ وہی ہیں جو مینو فیکچرز ان پہ لکھتے ہیں اور کیا آیا ۔ انکے ثانوی اثرات صحت کے لئیے مضر تو نہیں۔ اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں پہلے سے اجازت شدہ کو ئی اجزاء انسانی صحت کے لئیے نقصان دہ نکل آئے تو اسی وقت ہو پروڈاکٹ مارکیٹ سے واپس لے لیا جاتا ہے اور میڈیا پہ اسکے بارے فوری تشہیر کی جاتی ہے تا کہ لوگ اسے استعمال نہ کریں ۔ خواہ اس سارے معاملے میں مالکان کا کتنا اور کسقدر ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔ اشیاء کے بارے میں یہ تحقیق اور نگرانی ہمہ وقت رہتی ہے۔ امریکہ اور یوروپ کی ریاستیں اپنے لوگوں کی صحت و غزا کے بارے میں اس قدر سنجیدہ ہیں کہ انہوں نے ملاوٹ وغیرہ پہ لمبی سزائیں مقرر کر رکھی ہیں۔ عوامی صحت کے خلاف کیس ثابت ہوجانے پہ اسپین میں عدلیہ بائیس سال تک سزائے قید سنا سکتی ہے۔ اسکے باجود ٹی وی ، میڈیا پہ اور حکومت کے علاج و معالجہ کے سوشل سیکورٹی سسٹم کے تحت ڈاکٹرز حضرات لوگوں کو بازار میں ملنے والی پیک چیزوں کے کثرت استعمال سے منع کرتے ہیں۔جبکہ پاکستان میں کسی مریض کے لواحقین کی خرید کردہ قیمتی دوائیں (مالی اور بعض اوقات ان سے کسی کی جان بچنے کے حوالے سے اور بھی ناگزیر اور قیمتی ہوجاتی ہیں) تک جعلی ثابت ہوتی ہیں۔ ایسےواقعات بھی ہوئے ہیں کہ ایک مریض کے لواحقین نے ایک ہی دوا تین مرتبہ مختلف میڈیکل اسٹور سے خریدی مگر ڈاکٹر ز نے اسے جعلی قرار دے دی۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسے میڈیکل اسٹور کے خلاف کبھی کاروائی نہیں کی جاتی۔ دوا بناے والوں کو پکڑنا تو بہت بعد کی بات ہے۔

    کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ہم پاکستانی کس قسم کے مسلمان ہیں کہ خدا کے نام مرنے مارنے سے گریز نہیں کرتے ۔ مگر خدائی مخلوق کے ساتھ ذیادتی یا جرم کرتے ہوئے ہمیں نہ خدا یاد آتا ہے نہ خدا کے احکامات ۔ اکثریت کے حالات پتلے ہیں ۔ جبکہ اللہ اپنے گناہ تو شاید معاف کردے ۔ مگر اسکی مخلوق پہ کئیے گئے ستم کو وہی مخلوق جب تک معاف نہ کرے تب تک خدا بھی بندے کو معاف نہیں کر ے گا۔ جبکہ ملاوٹ ، اور مضر صحت اشیاء کا دیدہ دانستہ اشیاء میں ملا کر بیچنا نہ صرف اخلاقی اور قانونی جرم ہے ۔ بلکہ اللہ تعالٰی کے نزدیک بھی یہ اسکی مخلوق کے ساتھ بہت بڑا جرم ہے۔

    آپ نے بہت اچھے طریقے سے رنگوں کے نقصانات کے بارے میں بتایا ہے ۔ مجھے پاکستان جانے کا اتفاق اکثر بیشتر ہوتا رہتا ہے ۔ اسی بارے میں عرض ہے۔پاکستان میں فروٹ جوس مثلا جیسے مینگو اور سیب کے جوس کے نام پہ بند ڈبوں اور بوتلوں میں جو کچھ بیچا جارہا ہے وہ صحت کے انتہائی نقصان دہ اور عوام کے ساتھ بہت بڑا فراڈ ہے کیونکہ میں نے ایک نہیں درجنوں مختلف برانڈ ز دیکھے ہیں جن میں اصلی آم یا سب کا رس یا جوس کا آیک قطرہ بھی اس میں شامل نہیں ہوتا ۔ بعض کم علم لوگ اسے بچوں اور مریضوں تک کو یہ کہہ کر پلواتے ہیں کہ فروٹ کا جوس ہے اس سے صحت بہتر ہوگی۔ چلیں عوام تو نہیں جانتے ہونگے کیا حکومتی اہلکار ، فوڈ انسپکٹر اور بڑے شہروں کی غذا سے متعلق چھان بین کرنے والی لیبارٹیز کیا سب نے ہی اپنے لوگوں کی صحت کے ساتھ فراڈ اور دہوکہ دہی کرنے والے چند لوگوں کو ہر قسم کے جعلی جوس بنانے اور بیچنے کی اجازت دے رکھی ہے؟۔

    یہ موضوع اٹھا کرآپ نے بہت اچھا کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو بتایا جائے سکھایا جائے کہ وہ کسقدر مضر صحت غذا اور ادویات استعمال کر رہے ہیں ۔ اور ایسا کرنے والوں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں جو صرف ذاتی اور ناجائز منافع کے لئیے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل جاتے ہیں۔

    آپکی تجویز کردہ کردہ ڈش اور اسکے بنانے کے طریقے پہفی الحال میں اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں کہ ابھی نمازپڑھنی ہے۔

    ReplyDelete
  4. کامی اور ڈفر، سلسلہ اتنا لمبا ہوتا جا رہا تھا کہ اسے مختصر رکھنا پڑا۔ میرے گھر میں کچھ ایسے شوقین ہیں جو جون میں پائے پکوا کر کھا چکے ہیں۔ شوق کا مول نہیں۔ اور پھر میں بار بار تو کھانے کی ترکیبیں لکھونگی نہیں۔ اس لئے سوچا ایک دفعہ کام کی ترکیب بتا دوں۔ایک ارادہ یہ ہے کہ عید پر سب کو کسی میٹھے کی بھِ ایک ترکیب تحفتاً دیدوں۔ پھر لمبی مدت کے لئے بس۔
    پائے عام طور پر لوگ سردیوں میں شوق سے کھاتے ہیں کہ انکی تاثیر گرم بتائی جاتی ہے۔۔ مجھے یہ پکانے میں بریانی اور قورمے کے مقابلے میں آسان لگتے ہیں۔ہمہ وقت کچن میں نہیں گھسے رہنا پڑتا۔ اگر مہمانوں کو بلانا ہو تو ایک پائے کی ڈش ہی کافی رہتی ہے۔ کہ زیادہ تر لوگوں کو پائے کے آگے کچھ نہیں بھاتا۔
    جہاں تک پائے کی گرمی کا تعلق ہے۔ یوسفی نے اپنے ایک مضمون میں نہاری کی گرمی یا دف مارنے کا طریقہ بیان کیا ہے۔ آپکو ضرور پڑھنا چاہئیے۔
    گوندل صاھب، ہماری حکومتوں کو تو اپنے اہم مسائل سے فرصت نہیں ملتی لیکن لوگ بھی اپنے طور پر کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ابھی کچھ عرصے پہلے گھر میں ایک شادی ہوئ۔ جہاں کھانے کا مینو طے ہو رہا تھا ۔وہاں میں نے لقمہ دیا کہ بریانی میں رنگ ڈالنے سے منع کر دیجئیے گا تو سب لوگ دنگ رہ گئے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ بہر حال بحث کے بعد یہ طے پایا کہبہت کم رنگ ڈالا جائےگا۔
    پڑھے لکھے والدین بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کو بازارکے جوسز، رنگین ٹافیاں، کیک پیسٹری، اور دیگر جنک فوڈ بالکل اطمینان سے خرید دیتے ہیں۔ دراصل یہ چیز بھی سوچل اسٹیٹس میں شامل ہو گئ ہے۔ مائیں اپنے اسکول جانےوالے بچون کو لنچ خود تیار کر کے دینے کے بجائے یہی اشیاء لنچ باکس میں ڈالدیتی ہیں۔ چلو بھئ چھٹی ہوئ۔ اور پھر جب صحت کے متعلق کوئ مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو سب صدمے میں اجاتے ہیں۔ میری ایک دوست نے پوچھا کہ یہ بچوں میں کینسر اتنی تیزی سے پھیلنے کی کیا وجوہات ہیں۔ تو اس میں ہماری بے توجہی بھی شامل ہے۔
    صحتمند کھانا سادہ کھانا ہوتا ہے۔ آپکی بات صحیح ہے، ڈبے میں بند جن کھانوں کے اجزاء نہیں معلوم، انہیں مت کھائیں۔ اسکے بجائے کوئ بھی سادہ سا کھانا بنا کر کھالیں۔

    ReplyDelete
  5. بہت اچھی ڈش ہے اگرچہ فدوی پریشر ککر کی بجائے مٹی کی ہنڈیا میں دھیمی آنچ پر پائے پکانے کا رسیا ہے۔

    ReplyDelete
  6. خرم بھائی آپ یورپ میں اتنی بڑی مٹی کی ہانڈی کہاں سے مہیا کرتے ہیں کہ جس مین پائے پکتے ہیں :0

    ReplyDelete
  7. پچھلے دنون پنجاب میں نقلی دودھ بنانے کی کئی فیکٹریاں پکڑی گئیں جن میں وہ نہ جانے کون کون سے کیمیکل ملا کر دودھ تیار کیا جارہا تھا اور غریبوں کے بچے اسے پی کر موت کے منہ میں جارہے تھے،تو یہ ہین ہم من حیث القوم!

    ReplyDelete
  8. ہلکی آنچ پر گلے ہوئے پایوں کی کیا بات ہے۔ اس میں ایک آسانی یہ بھی رہتی ہے کہ پائے گلتے رہتے ہیں اور آپ جو چاہے کام کرتے رہیں۔ اس طرح سے اسے پکانے میں بہت زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔
    جی عبداللہ، پیکٹ دودھ میں ایسی کون سی چیز ہے جس کی ملاوٹ نہیں کی جاتی۔ خدا جانے لوگ انسانی جانوں سے کھیلنا کب بند کریں گے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ