Wednesday, August 19, 2009

دیدہ ء دل


اقبال کہتے ہیں کہ
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشہ کرے کوئ
ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا کرے کوئ
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئ
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پہ کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئ
اس سے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دیکھنا بھی کئ طرح کا ہوتا ہے۔ ظاہری آنکھ سے دیکھنا بس چیزوں کی ظاہریت پہ سے گذر جانے کا نام ہے یعنی تماشہ کرنے کے برابر ہے۔ ایسا دیکھنا جو کہ دکھائ دینے والی چیزکے اندر سے تعلق جوڑ دے اسے دل کی آنکھ سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اور اندر کو دیکھنے کے لئے بڑی طاقت اور برداشت ہونی چاہئیے۔اس میں ہماری عقل بصارت اور عشق بصارت بھی شامل ہے۔ محض اڑے رہنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا
آئنسٹائن نے انیس سو پانچ میں نظریہ اضافت مخصوصہ کے بارے میں اپنا نکتہ ء نظر پیش کرکے لفظ دیکھنے کو ایک نئ جہت دی۔ اس نظرئے کے سائنسی پس منظر سے ہٹ کر اسکی کئ فلسفیانہ اور سماجی تشریحات کی گئیں۔اضافیت مخصوصہ سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ تجربات، واقعات اور ثقافت کے کچھ عناصر کا انحصار دوسرے عناصر پر بھی ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک ہی واقعہ دو لوگ مختلف طرح سے دیکھتے ہیں۔
جیسے یہ ہمارے روزمرہ کے بیانات ہیں،
یہ آپکے لئے صحیح ہو سکتا ہے میرے لئے نہیں۔
خوبصورتی دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے۔
آپ دوسروں کی ثقافت کو اپنے معیار سے نہیں جانچ سکتے۔ اس لئے کبھی کبھی یہ بھی سنائ دیتا ہے کہ مطلق سچائ کوئ چیز نہیں۔ سچ بھی کچھ دوسری حقیقتوں کے تعلق سے جڑا ہوتا ہے۔ کیا سچ بھی ایک اکتسابی علم ہے۔ یہ ایک دلچسپ بحث ہو سکتی ہے۔
دنیا کی مختلف ثقافتوں کا ایک تقابلی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کسطرح ایک ثقافت میں رائج العام چیز دوسری ثقافت میں اپنے ماحول اور ضروریات کے حساب سے ایک بالکل تناظر میں لی جاتی ہے۔
ایک دلچسپ مثال اسکیمو ہیں جو دنیا کے سرد ترین مقام انٹارکٹیکا میں رہتے ہیں۔ یہ سارا سال برف سے ڈھکے رہنا والا وہ مشکل مقام ہے جہاں میلوں آبادی کے آثار نہیں ہوتے۔ اسکیمو برف کے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں جنہیں اگلو کہا جاتا ہے۔اگر انکے پاس کوئ مسافر بھٹکتا ہوا پہنچ جائے تو وہ اسے گرم کمرہ، کھانا پینا اور وقت گذارنے کے لئے اپنی بیوی بھی دیتے ہیں۔
یوں تو خواتین کے پردے کے بارے میں خاصی بحث ہوتی ہے مگر ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ افریقہ میں ایک قبیلہ ایسا بھی ہے جہاں مرد پردہ کرتے ہیں۔ خود ہماری داستانوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکے بے مثال حسن کی انسانی نظر تاب نہ لا سکتی تھی اس لئے وہ ہمہ وقت ایک نقاب پہنے رہتے تھے۔ اس لئے غالب نے فرمایا کہ
سب رقیبوں سے ہوں ناخوش پر زنان مصر سے
ہیں زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعا ں ہو گئیں
خیر اس تحریر کا مقصد اس وقت مختلف ثقافتی اختلافات اور انکی وجوہات پہ غور کرنا نہیں۔ یہ میں اپنے قاری کی صوابدید پر چھوڑتی ہوں کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا سے ایسی مثالیں نکالیں اور انکی ممکنہ وجوہات تلاش کریں۔
دانشوروں کا کہنا ہے کہ غیر جانبدار نظرایک امر محال ہے۔ لیکن اسکے ساتھ ہی ساتھ اگر انسان دنیا کو جیسی وہ ہے اسی طرح دریافت کرنا چاہتا ہے تو اسےہر قسم کےذہنی اور فکری تعصبات حتی کہ بعض جگہ اپنے آپ کو بھی الگ کر کے سوچنا پڑے گا۔ شاید اسے ہی مراقبہ کہتے ہیں۔ جس کے بعد گوتم بدھ کو نروان حاصل ہوا۔
ہم واپس اپنے موضوع یعنی دیکھنے کی طرف آتے ہیں۔ ایک چیز نظر بندی کہلاتی ہے۔ سامنے چیز موجود ہوتی ہے مگر نظر نہیں آتی۔ اسی کے لئے شاید یہ محاورہ بنایا گیا کہ
بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا۔ اسکی مثال دیکھنا ہو تو ایچا کی پینٹنگز دیکھنا پڑیں گی۔ میرا اندازہ ہے کہ اس ڈچ نژاد مصور کا نام اردو میں شاید اسی طرح لکھا جائے۔




آخری تصویر جسکا نام ہے بارہ گھڑسوار، اس میں اگر ہم میں سے کچھ لوگ پہلی نظر میں ایک طرف جاتے ہوئے گھوڑے دیکھتے ہیں اور کچھ دوسری طرف جاتے ہوئے۔ جبکہ کچھ پہلی ہی نظر میں دونوں طرح کے گھوڑے دیکھ لیتے ہیں۔ درمیانی تصویر کا نام ہے۔
Escher's relativity
اس تصویر میں مختلف جہتوں میں جاتی ہوئ سیڑھیاں نظر آ رہی ہیں۔ جن پر لوگ بھی موجود ہیں۔ مختلف جہتوں میں جانےوالے لوگوں کو ایک ہی فریم میں موجود چیزیں ایک جیسی نہیں نظر آئیں گی یہ تو ہم اندازہ کر سکتے ہیں۔ لیکن مشکل بات یہ ہوتی ہے کہ ہم ایک جہت کی سیڑھیاں چلنے کے بعد اگر دوسری جہت کی سیڑھی پہ قدم رکھیں تو ہمیں کتنا وقت لگے گا کہ ہم پچھلی جہت کے سمتی اثر سے باہر نکل پائیں اور اگر ہمیں دوسری جہت کی سمت کی سیڑھیاں چلنے کا طبعی موقع نہ مل پائے تو کیا ہم اتنی اہلیت رکھتے ہیں کہ محض اپنے تخیل سے اس دوسری جہت میں جاکر اسی فریم کو اس جہت کے حساب سے دیکھ سکیں۔
اس موضوع پر ایک اچھی بحث ممکن ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اپنی زندگی سے یا اپنے سنے ہوئے قصوں کو اس میں شامل کر سکتے ہیں۔ جب تک میں بلھے شاہ کی کافی سنتی ہوں۔ بلھے شاہ کی جاناں میں کون۔


ریفرنس؛

البرٹ آئنسٹائن
Albert Einstein (pronounced /ˈælbərt ˈaɪnstaɪn/; German: [ˈalbɐt ˈaɪ̯nʃtaɪ̯n] ; 14 March 1879 – 18 April 1955) was a theoretical physicist. He is best known for his theories of special relativity and general relativity. Einstein received the 1921 Nobel Prize in Physics "for his services to
Theoretical Physics, and especially for his discovery of the law of the photoelectric effect."


نظریہ ء اضافت مخصوصہ کے بارے میں مزید معلومات مندرجہ ذیل لنکس پہ مل سکتی ہے
The theory is termed "special" because it applies the principle of relativity only to frames in uniform relative motion. The term often refers to truth relativism, which is the doctrine that there are no absolute truths, i.e., that truth is always relative to some particular frame of reference, such as a language or a culture. Another widespread and contentious form is moral relativism.

افریقہ میں موجود قبائل جہاں مرد پردہ کرتے ہیں انکے بارے میں تفصیلات اس کتاب میں موجود ہیں۔

Veiled Men, Red Tents, and Black Mountains
The Lost Tomb of Queen Tin Hinan

Series: Adventure & Exploration - 70

ISBN: 1-58976-206-1

ایچا کا تعارف
http://www.math.wichita.edu/history/men/escher.html
Maurits Cornelis Escher (17 June 1898 – 27 March 1972), usually referred to as M.C. Escher (Dutch pronunciation: [ˈɛʃə] was a Dutch-Frisian graphic artist.



46 comments:

  1. مطلق سچائی یا مطلق حقیقت کا کوئی وجود نہیں ہے بالکل ویسے ہی جیسے مطلق سکون (ریسٹ) کا کوئی وجود نہیں ہے۔ سقراط یا در حقیقت افلاطون نے اس پر بہت بحث کی ہے لیکن افسوس نتیجہ وہ بھی اپنی مطلب کا نکالتا ہے کسی بھی شخص کی طرح۔

    ReplyDelete
  2. میرے تئیں تو مطلق سچائی کا وجود ہے لیکن اس بات کی اہلیت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ اسے پاسکیں۔ جب آپ اسے پا لیتے ہیں تو وہ تمام سچائیاں جن کی طرف ایچا نے اشارہ کیا ہے وہ اس کا حصہ نظر آتی ہیں۔ یوں سمجھئے کہ ایک بہت بڑا دائرہ ہے جسے ہم مطلق سچائی کہتے ہیں اور وہ تمام چھوٹی چھوٹی سچائیاں چھوٹے چھوٹے دائرے ہیں جو اس بڑے دائرے میں محیط ہیں۔

    ReplyDelete
  3. کسی بھی واضح سی بات کو دیدہ دانستہ بحث کا رنگ دینے میں آپ خاص ملکہ رکھتی ہیں ۔ جس کا آپ نے اپنی تحریر کے آخری پیرائے میں ذکر کیا ہے۔

    عقل سلیم کے مالک لوگ یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ان اشعار میں دل کی آنکھ کی بات کی ۔ جو اندر کا سفر ہے ۔ اپنے آپ کو جاننے کا سفر ہے تانکہ اپنے آپ کو جان کر ہم اپنے ماحول اور اس میں مختلف عوامل کے کردار کو سمجھ سکیں ۔ انکا مشاہدہ کر سکیں ۔ اس مشاہدے کے نتیجے میں مسائل کے حل کو سمجھ سکیں ۔اور فکری و عقلی پستی میں سے نکل کر پورے قد سے کھڑے ہو سکیں۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جب دیدہ ء دل کی بات ، تب ان کے مدنظر برف زاروں میں برف سے "اگلو" بنا کر رہنے والے اسکیمو نہیں تھے ۔ جو اپنے مہمان کو اپنی بیوی یہ کہہ کر پیش کرتے تھے کہ تم اس کے ساتھ "ہنسو" ، ۔ان کے نزدیک ، انکے مہمان کا انکی بیوی کے ساتھ "ہنسنے" سے مراد ، وہی ہوتا تھا جس کا آپ نے ذکر کیا ہے یعنی مہمان اس عورت کے ساتھ "شب بسری" کرے۔ مگر ایک بات یاد رہے کہ یہ پچھلی صدی کے شروع تک اکا دکا ایسی مثال مل جاتی تھی جبکہ اب اسکیمو یوں نہیں کرتے ۔

    ثقافتی اقدار مختلف علاقوں میں بدل جاتی ہیں بلکہ یہ ایک ہی علاقے میں وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں ۔یہ کبھی بھی سکہ بند اور ٹھوس نہیں رہتیں ۔

    آپ نے جو بین الثقافتی تقابلے کا ذکر کیا ہے ۔ کہ ہر کوئی ثقافتی اقدار کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے ۔اپنی ثقافت اسے جائزاور دوسروں کی ناجائز نطر آتی ہے۔ یہ ایک فطری بات اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دنیا جب سے دنیا ہے تب سے یو ں ہی ہوتا آیا ہے ۔

    اسلام کی انگنت خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کی علاقائی ثقافت پہ معترض نہیں ۔ بلکہ حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ اگر منع کرتا ہے تو صرف ان باتوں سے جن سے فرد ، افراد، اور مسلمانوں کو فائدے کی بجائے نقصان کا احتمال ہو ۔ اور فساد خلق خدا کا اندیشہ ہو ۔ اسلام نے اچھی اور صحت مندانہ ثقافتی سرگرمیوں کی نہ صرف اجازت دے رکھی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے ۔ اسلئیے دنیا کے مختلف ممالک میں ، مختلف خطوں میں مسلمان بہت سی مختلف ثقافتوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

    آپ رقم طراز ہیں "۔۔۔اگر انسان دنیا کو جیسی وہ ہے اسی طرح دریافت کرنا چاہتا ہے تو اسےہر قسم کےذہنی اور فکری تعصبات حتی کہ بعض جگہ اپنے آپ کو بھی الگ کر کے سوچنا پڑے گا۔ شاید اسے ہی مراقبہ کہتے ہیں۔۔۔"

    بی بی! اسے مراقبہ نہیں کہتے ۔اور مراقبے کا ثقافت سے کوئی لین دین نہیں ۔

    آپ نے جن تصاویر کا حوالہ دیا ہے ۔ مختلف اور بعج اوقات نامعلوم لوگوں کی بنائی ہوئی ایسی تصاویر یوروپ امریکہ میں عام ہیں ۔ اور اسکولوں میں بچے اسطرح کی چیزیں عام مشاہدہ کرتے ہیں جن کے کئی ایک رخ ہوتے ہیں ۔ ایک رخ سے وہ جو تصور پیش کرتی ہے دوسرے رخ سے دیکھنے سے تصویر میں وہ بلکل مختلف چیز آتی ہے۔اور پاکستان میں اسکی سادہ مثال چھ کے ہندسے سے دی جاتی ہے۔ آمنے سامنے بیٹھے افراد کو زمیں پہ لکھا چھ کا ہندسہ اس طرف سے چھ جب کہ مخالف سمت سے دیکھنے والوں کو نو نظر آئے گا۔

    ReplyDelete
  4. شمالی افریقہ کے مسلمان"طوارق" اپنا منہ پگڑی کے ڈھاٹے سے چھائے رکھتےہیں ۔ اور بطور خاص اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ خواتین ان کا منہ نہ دیکھ لیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ "طوارق " قبائل میں "ماں" خاندان کی رہنماء ہوتی ہے ۔ یاد رہے "طوارق" بہت اچھے جنگؤ بھی مانے جاتے ہیں اور نہائت پکے قسم کے مسلمان بھی ہیں۔

    بر سبیل تذکرہ افریقہ میں کچھ قبائل ایسے بھی ہیں جن میں ان کے مرد درجنوں شادیاں کرتے ہیں اور انکی بیویاں بڑے فخر سے اپنے مرد کی زیادہ تعداد کی شادیوں کا حوالہ دیتی ہیں اور کم تعداد والے مردوں کو "ایویں شیویں" سمجھا جاتا ہے۔

    تاریخ میں ایک نہیں سینکروں ایسی قوموں کا پتہ چلتا ہے جہاں جنسی اختلاط کو مذہب و ثقافت کا نام دیا گیا تھا مگر قانون قدرت ہے کہ ایسی تہذبیں اپنی انھی لغویات کی وجہ سے تباہ برباد ہو جاتی ہیں۔ جس طرح بابل و نینوا میں بیل کی پوجا( " بل مردوک" کی عبادات) جو تب تین دن اور راتیں جاری رہتی تھیں ۔ ایک بڑے میدان میں جاری رہتی تھیں۔ اور ہر خاص و عام مذہب اور ثقافت کے نام پہ جنسی اختلاط میں شامل ہوتے ۔

    آپ نے نیپال کا ذکر نہیں کیا ۔ جہاں دیہی علاقوں میں ایک ہی عورت سے دو بھائی شادی کر لیتے ہیں جس کے پیچھے یہ مقصد کرفرما ہوتا ہے کہ دونوں بھائیوں کی زرعی زمین تقسیم نہ ہو اور جائیداد کا بٹوارہ ان کی سماجی پوزیشن کم نہ کر دے۔

    پاکستان کے ہمسائے میں بسنے والے سکھوں میں یہ رسم عام ہے کہ وہ شادی سے پہلے اپنی بڑی بھاوج کے ساتھ منہ کالا کرتے ہیں۔ اور اس "منہ کالا" کرنے کو ایک طرح کا ثقافتی اور سماجی تحفظ حاصل ہے۔ یہ بے پر کی نہیں بلکہ تصدیق شدہ بات ہے۔ پڑھے لکھے سکھوں سے بات ہونے پہ پہلے تو اس بات سے انکار کر دیتے ہیں ۔ مگر جب ٹھوس بنیادوں اور شہادتوں کے ساتھ بات کی جائے تو قدرے شرمساری سے مان جاتے ہیں مگر ساتھ یہ ضرور کہتے ہیں کہ اسطرح دیہات میں ہوتا ہے اور اب تو یوں بہت کم ہوتا ہے۔ جبکہ عام سکھ شراب پی کر اسطرح کے واقعات بمع جملہ تٖضیلات کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ سننے والے کو گھن آجاتی ہے ۔

    مگر ان تمام زکر بالا چیزوں کو ثقافت کی بجائے جنسی حیوانیت کہا جاتا ہے ۔ ایسی لغویات کا ثقافت سے کوئی لین دین نہیں ہے۔

    ReplyDelete
  5. باجی جی ہتھ ہولا رکھا کریں
    بڑی کوشش کی کہ کسی طرح چھلانگیں مار کر ہی سہی لیکن اس پوسٹ کے لیول تک پہنچ جاؤں لیکن ندارد :( ۔

    ReplyDelete
  6. شاید اسی لیے سیانے کہتے تھے کہ متوازی سچائی کو مان لینا ہی اصل سچ ہے کہ بعض‌ اوقات میرا سچ اور تیرا سچ ایک دوسرے کے متوازی رہتے ہوئے بھی سچ ہوسکتے ہیں۔۔ خیر جی سیانوں کی سنتا کون ہے۔ سیڑھیاں کمال کی ہیں۔ جب دیکھو برابر کا لطف آتا ہے۔

    ReplyDelete
  7. جاوید صاحب، اقبال کہتے ہیں،
    اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
    لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

    میں نے شاید اسلام اور اسکے معتقدین کا اس ساری پوسٹ میں کہیں ذکر نہیں کیا۔ ثقافتی مثالوں کی بابت میں نے یہ بات شاید صاف طور پر لکھی کہ یہ اس وقت ہمارا مسئلہ نہیں ہیں۔ چند نیپالی میرے بہت اچھے دوست رہے انکے طفیل مجھے یہ بات پتہ ہے کہ صرف دو بہنیں نہیں بلکہ جتنی بہنیں بھی ہوں سب ایک مرد کے حصے میں جاتی ہیں۔ اسی پدری نظام کی بناء پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ عورت کو جائداد سمجھا جاتا ہے تو اس سے بھی آپناراض ہو جاتے ہیں۔ ہندءووں کی رامائن میں پانڈءووں کا تذکرہ ملتا ہے جن میں پانچ بھائیوں کی ایک ہی بیوی تھی۔
    اول تو یہ کہ ہر چیز میں اسلام لے آنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ مجھے اافسوس ہے کہ آپ دیگریات میں الجھ گئے۔ وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا وہ بات انکو بہت ناگوار گذری ہے۔
    ایچا کے فنپاروں کو آپ نے بس ایویں ہی قرار دے دیا جبکہ پچھلی پوری صدی حسابداں اسکی پینٹینغز سے اتنے مسحور رہے کہ سوال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ تصویریں آرٹ میوزیم کے بجائے سائنسی میوزیم کا حصہ کیوں ہیں۔ میرا بنیادی مضمون کیمسٹری ہے اور اس میں ایک چیز کہلاتی ہے۔
    symmetry
    اسے بالکل ایک علیحدہ مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اس مضمون کو پرھنے اور کے لئے تصور کرنے کی صلاحیت کا بہترین ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ سے کہا جائے کہ ایک ماڈل کو اتنے زاوئیے پر موڑ دیں پھر اسکا عکس جو شیشے میں نظر آرہا ہے اسےاسے پھر اتنے زاوئے پر موڑ دیں اور نتیجتاً ماڈل کی شکل حاصل ہوتی ہے اسے کاغذ پر لکھیں یا وہ ماڈل بنا کر دکھائیں تو دماغ گھوم جاتا ہے۔ ایچا کی تصویریں دیکھکر مجھے یہی لگتا ہے کہوہ اپنے تصور کو کس قدر ہلانے جلانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
    مراقبے کا بنیادی تصور یوگا سے لیا گیا ہے۔ اور یوگا کی اپنی تاریخ ہزاروں سال سے کم نہیں۔ یہ کوئ جادوئ چیز نہیں بلکہ انسان اپنی ذہنی اور جسمانی طاقتوں کو ایک جگہ پر مرتکز کر کے استعمال کرنا سیکھتا ہے۔ جی ہاں آپ نے بجا فرمایا مراقبہ اور ثقافت میں فرق ہے۔ برائے مہربانی ان تمام چیزوں کو پھر سے پڑھیں۔ میرے خیال میں آپکو خاصہ افاقہ ہوگا۔
    ڈفر، ایسی چیزوں پر سے بس یونہی گذر جاتے ہیں۔ میں جب نویں کلاس میں تھی تو غالب کے ان اشعار کے علاوہ جو ٹیچر نے سمجھائے ہوتے تھے کچھ ایسا خاص سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اس وقت بس ایسے ہی انہیں دیکھ لیتے تھے۔ بڑے ہونے پر انکے علاوہ کسی پر دل نہیں آتا کہنا صرف یہ ہے کہ سب ہوتے ہیں آپ بھی کبھی بڑے ہوجائیں گے۔ اس وقت چھلانگیں مارنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
    :)
    وارث صاحب، ارسطو اور افلاطون جس زمانے کے سیانے ہیں اس وقت تجربات کی کوئ اہمیت نہ تھی۔ ارسطو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس زمانے کے مروجہ تصورات کے تحت وہ بھی یہ خیال کرتے تھے کہ عورتوں کے منہ میں مردوں سے کم دانت ہوتے ہیں۔ لیکن انہوں نے کبھی اپنی بیوی کے دانت گن کر نہیں دیکھ تھے۔ اس بات کی صحت کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ کسی نظرءیے کو ثابت کرنے کے لئے تجربے کی اہمیت سے واقف نہ تھے۔ وہ سے میری مراد اس وقت کا یونانی طرز فکر ہے۔

    خرم صاحب، شاید یہی وہ مطلق سچائ ہے جس کے لئے گوتم بدھ نے اپنا راج پاٹ چھوڑا اور جس کے لئے ابن منصور نے انا الحق کا نعرہ بلند کیا۔ اس سچ کی سرمستی جسے گوتم نروان کا نام دیتا ہے اور جس میں ہم تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا لوگوں کو جھومتے دیکھتے ہیں اسکے بعد ہی سکون کا وہ لمحہ ہوتا ہوگا جسے نفس مطمئنہ کہتے ہیں۔ یہ سب میرے خیالات ہیں۔ جو لمحہ حیرت سے گذرتے وقت ذہن میں آتے ہیں۔
    راشد کامران صاحب آپکو یہ تصویر دلچسپ لگی۔ مجھے بھ بہت لگتی ہے۔ جب میں ہر سیڑھی کے اوپر موجود رہ کر تمام پس منظر کو پھر سے دیکھنا چاہتی ہوں اور اس میں جو تبدیلیاں نظر آتی ہیں وہ کافی مزے کی ہوتی ہیں۔ میں نے ایلس ان تحع ونڈر لینڈ نہیں پڑھی۔ فرصت ملے تو بہت ساری کتابیں پڑھنی ہیں۔ اس میں ایلس ایسی جگہ پہنچ جاتی ہے۔ جہاں اس طرح کی سیڑھیاں اور سمٹری موجود ہوتی ہے۔ ابھی تھوڑے دنوں پہلے میں ایک انگلش فلم دیکھ رہی تھی۔ اس میں انہوں نے یہی خیال استعمال کیا ہے۔ میں اسکا نام بھول گئ ہوں۔ حالانکہ میں نے سوچا بھی تھا کہ یہ خرید لونگی۔ اب اسکا نام تلاش کرنا پڑیگا۔

    ReplyDelete
  8. میری سچائی تو یہ ہے کہ
    خالی پیٹ ، بھوک کو ہی مطلق سچائی ‌مانتا ہے
    اس کے علاوہ اسے سب جھوٹ لگتا ہے
    باقی سب بحثیں ، فلسفے اور سچائیاں ، پیٹ بھرنے کے بعد ہی دماغ میں جلوہ افروز ہوتی ہیں

    ReplyDelete
  9. جی جعفر، خالی پیٹ انسان کو چاند سورج بھی روٹیاں نظر آتے ہیں۔ ایک مہینہ پہلےشائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کم خوراک کھانے والے زیادہ عرصہ جیتے ہیں۔ اتنا زیادہ عرصہ جینے میں کچھ اور شغل بھی تلاش کر لینے چاہئیں۔ آپ کو تو پتہ ہوگا کہ دنیا کا زبردست آرٹ، نظریات اور فلسفے زیادہ تر خالی پیٹ لوگوں نے تشکیل دیا ہے۔ بھرے پیٹ تو انکی باتیں دہراتے ہیں۔ اس لئیے کہ وہ خریدنے کی استظاعت رکھتے ہیں۔ اور اسی خوشی میں مگن رہتے ہیں کہ ہم تو ہر چیز خرید سکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  10. راشد کامران صاحب، اس انگریزی فلم کا نام تھا
    labyrinth
    باکس آفس پر یہ فلم فیل ہو گئ تھی۔ اسکا مرکزی خیال ایلس ان ونڈر لینڈ سے لیا گیا تھا۔ لیکن اس میں ایچا کی سیڑھیاں اچھی ہیں۔

    ReplyDelete
  11. ! مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ ثقافت کو صرف physics symmetryکی نظر سے دیکھنا پسند کریں گی۔
    آپ رقم طراز ہیں۔۔۔۔میں نے شاید اسلام اور اسکے معتقدین کا اس ساری پوسٹ میں کہیں ذکر نہیں کیا۔۔۔۔۔۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔اول تو یہ کہ ہر چیز میں اسلام لے آنا کہاں کی دانشمندی ہے۔

    بی بی!
    دنیا میں ہوتی سیاسی اتھل پتھل کے پس منظر میں پاکستان اور خطے پہ ہونے اثر انداز ہونے والے اثرات کو جس طرح پاکستان کیے تناظر میں کسی بھی پاکستانی کو دیکھنے اور سوچنے میں کوئی حرج نہیں ۔ بعین اسی طرح ایک مسلمان ہونے کے ناطے مجھے یا کسی بھی مسلمان کو کسی خاص موضوع پہ اسے اسلام کے حوالے سے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جبکہ آپکی تحریر میں موضوع کا زیادہ تر زور ثقافت پہ ہے ۔

    بی بی ! ذیل میں، یہ آپ کی تحریر سے چند جملے پیش کر رہا ہوں ۔
    ۔۔۔ دنیا کی مختلف ثقافتوں کا ایک تقابلی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کسطرح ایک ثقافت میں رائج العام چیز دوسری ثقافت میں اپنے ماحول اور ضروریات کے حساب سے ایک بالکل تناظر میں لی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔
    ۔۔۔۔۔ یوں تو خواتین کے پردے کے بارے میں خاصی بحث ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ میں اپنے قاری کی صوابدید پر چھوڑتی ہوں کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا سے ایسی مثالیں نکالیں اور انکی ممکنہ وجوہات تلاش کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    بی بی! آپ کی اطلاع کے لئیے عرض کروں صرف میں ہی نہیں میرے جیسے لاکھوں لوگ جو یوروپ امریکہ جیسے ممالک میں مقیم ہیں بلکہ پاکستان اور دنیا بھر میں وہ لوگ جو اسلام پہ بہ حیثیت ایک مذہب کے ساتھ ساتھ بہ حیثیت ضابطہ حیات یقین رکھتے ہیں۔ وہ فطری طور پہ زندگی کے ہمہ گیر معاملات کو اسلام کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اپنا ایک وژن رکھتے ہیں۔ جس میں اس بات کی گنجائش تو ہوتی ہے کہ اس وژن کے درست یا صحیح نہ ہونے پہ بحث کی جاسکتی ہے کہ بہرحال یہ ایک فرد کی رائے ہوتی ہے ۔ لیکن یہ کہنا کہ اسلامی نقظۂ نظر سے کوئی رائے دینی دانشمندی نہیں۔ چہ معنی دارد؟ ۔ میں سمجھتا ہوں ایسا کہنا غیر مناسب بات ہوگی۔ جبکہ اسلام ثقافت سمیت زندگی اور بعد زندگی ہر شئے کا احاطہ کرتا ہے۔ آپ نے اسلامی ثقافت کا نام تو سن ہی رکھا ہوگا یہ بھی ثقافت کے حوالے سے کوئی چیز ہے جسے اسلامی ثقافت کا نام دیا گیا ہے اور مغربی ماہرین اسے تسلیم کرتے ہیں جس کا تعلق اسلام سے بنتا ہے ۔ بی بی! آپ کے اپنے الفاظ سے ۔ خواتین کے پردے کی بحث کا ذکر کریں تو اسکا ثقافت سے تعلق بنتا ہے ۔ کوئی اسلام میں ثقافتی آزادی کی بات کرے تو یہ آپ کو غیر دانشمندانہ بات لگتی ہے۔۔ ۔ ۔۔ یہ آخر اسلام سے اسقدر الرجی کیوں ۔؟ یا پھر آپ اپنی تحریر پہ ایک نوٹس آویزاں کر دیں کہ فلاں فلاں موضوع پہ اسلامی نقطۂ نظر سے بات کرنا غیر دانشمندانہ سمجھا جائے گا۔

    رمضان کریم کی آمد آمد ہے میری طرف سے آپ کو اور تمام قارئین اکرام کو ماہ صیام کی خوشیاں مبارک ہوں۔

    دعا گو
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    ReplyDelete
  12. اگر میں سائنس کے ایک مضمون پر کوئ کتاب لکھوں اور اس میں سائنسی معلومات کو جوڑ کر ایک نتیجہ نکالنے کے بجائے اس میں اپنے مذہب کے غیر ضروری حوالے دینے لگوں اور اپنے مذہب کی تفصیلات بیان کرنے لگوں تو پھر وہ سائنس کی کتاب نہیں رہے گی۔ دراصل کسی بھی موضوع پر اگر ہم لکھنا چاہ رہے ہیں جسکا مذہبیات سے تعلق نہیں ہے وہاں آپ ہر طریقے سے اسے درمیان میں لے آئیں تو آپکا یہ طرز عمل کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ آپ بہتر جانتے ہیں
    میری تحریر صرف مسلمان نہیں غیر مسلم بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اور میں بہرحال تبلیغ نہیں کر رہی کسی بھی چیز کی۔ اب اس تحریر کی بات لیں۔ اس میں میں نے صرف اس طرف اشارہ دینا چاہا کہ اپنے اطراف کو دیکھنے کے لئے ہم کیا کیا سمتیں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن آپ فوراً ہی اسلام کے دفاع کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ بتائیے گا کہ دوسروں کہ رہن سہن کے طریقے بتانے کا یہ مقصد تو نہیں ہوتا کہ ہم آپ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ اسلام چھوڑ کر اسے اختیار کر لیں۔ یہ دوسرے آپکی دنای میں ہر قدم پہ موجود ہیں اور انکے متعلق جاننے یا بتانے کی مذہباً بھی کوئ منادی نہیں۔ جب کہ ہم خود ایسا نہیں کر رہے۔
    میں آپکو کھانا پکانے کی ترکیب بتاءووں اور پھر یہ بتاءووں کہ اسی کھانے کو ہندو، سکھ یا عیسائ کیسے بناتے ہیں تو آپ کو فوراً یہ لگے گا کہ اب اسلام کا دفاع ضروری ہے۔حالانکہ کھانا پکانے میں اس بات کا حوالہ دینا کی قطعاً ضرورت نہیں کہ اسلام کتنا افضل مذہب ہے۔
    میں آپ کو یہ بتادوں کہ میں اپنی مرضی اور رضا و رغبت سے مسلمان ہوں۔ یہ آپکے معاشرے کی میرے اوپر زبردستی نہیں ہے۔
    میرا خیال ہے کہ آپ کو یہ بات دھیان میں رکھنا چاہئیے کہ یہ تحریریں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے کے لئے ہیں جبتک ان میں صرف مسلمانوں کے کسی مخصوص مسئلے پر اظہار خیال نہ ہو رہا ہو۔ اسوقت بھی چونکہ نیٹ کی دنیا سب کے لئے کھلی ہے۔ ہمیں چیزوں کو ایسے انداز میں رکھنا چاہئیے کہ باقی کے لوگوں کو بھی ان میں دلچسپی محسوس ہو۔
    بحث سے میری مراد یا کسی بھی علمی کتاب میں لفظ بحث آستینیں چڑھا کر اپنے حق میں دلیلیں دینے کا ہی نام نہیں۔ بلکہ اس موضوع پر اگر آپ کے پاس کچھ اور معلومات ہیں تو انہیں بتائیے۔کوئ واقعہ یا کوئ اور تصویر۔ ہماری ساری دلچسپی اس میں ہے۔ ایسی باتیں جس میں آپکے معاشرے کا ہر فرد حصہ لے سکے، بغیر کسی جحجھک کے اور وہ ہمارے لئے تعمیری ہوں۔ ان سے ہمیں یہ سوچ ملے کہ انسانی دماغ سے اور بھی کام لئیے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ تحریریں ہر عمر اور تعلیمی سطح کے لوگ پڑھنے کا حق رکھتے ہیں۔

    ReplyDelete
  13. اردو بلاگنگ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہے اور نہ ہی اردو زبان۔ اگر آپ واقعی اردو زبان کی ترویج چاہتے ہیں تو اسے سب کے لئے کّھولنا پڑیگا۔ ورنہ آپکے ان خیالات سے صرف ایک کمیونٹی کے لوگ ہی مستفید ہوتے رہیں گے۔ کیا مسلمانون کو اپنے آپکو ہندءءوں یا یہودیوں کی طرح ایک جگہ پر بند کرلینا چاہئیے۔ اور ہر وقت صرف یہ بحث کرنی چاہئیے کہ کیا اسلامی ہے اور کیا نہیں۔ مجھے اپنی زندگی میں، سری لنکا، نیپال، ترکی، سینٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں، آسٹریلیا، بنگلہ دیش، جاپان، تھائ لینڈ، ملیشیا، کیمرون، سوڈان، اور دیگر کچھ اور ممالک کے کے مسلمانوں، عیسائیون، ہندءوون اور بدھسٹ لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اسکے علاوہ پاکستان میں تقریباً ہر طرھ کے پاکستانیوں سے ملنے کا موقع ملا۔ اب مجھے کیا ہر وقت ان سب لوگوں سے اسلام کے ہی متعلق گفتگو کرنی چاہئیے۔ میرا یہ طرز عمل کیسے مثالی طرز عمل قرار پائے گا۔ ان میں سے بیشتر لوگ بہت ساری چیزوں میں مجھ سے کہیں بہتر علم رکھتے تھے تو کیا میں انکے غیر مسلم ہونے کو اپنے دل سے لگا کر پھرتی رہوں۔ ایسا نہیں ہوا ان سب لوگوں سے ملنے کے بعد میں نے ہمیشہ اپنے رشتے داروں اور ملنے جلنے والوں کو انکی دلچسپ اور مختلف باتیں بتائ ہیں۔ اور میں نے کبھی نہیں سوچا کہ کیا اسلامی ہے اور کیا غیر اسلامی۔ جب ایک دفعہ ایک بنیادی لائن کھنچ گئ تو اسے باربار جتانے کاجو فائدہ ہے۔ میں اس سے بالکل نا واقف ہوں۔

    ReplyDelete
  14. شاید اسی لیے سیانے کہتے تھے کہ متوازی سچائی کو مان لینا ہی اصل سچ ہے کہ بعض‌ اوقات میرا سچ اور تیرا سچ ایک دوسرے کے متوازی رہتے ہوئے بھی سچ ہوسکتے ہیں۔۔ خیر جی سیانوں کی سنتا کون ہے۔
    راشد کامران صاحب سوچ کی تبدیلی مبارک ہو اندازاتو مجھے پہلے بھی ہورہا تھا مگر اب یقین ہوگیا،ایک بار پھر دلی مبارک باد بالغ النظری کی :)

    ReplyDelete
  15. ڈفر، ایسی چیزوں پر سے بس یونہی گذر جاتے ہیں۔ میں جب نویں کلاس میں تھی تو غالب کے ان اشعار کے علاوہ جو ٹیچر نے سمجھائے ہوتے تھے کچھ ایسا خاص سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اس وقت بس ایسے ہی انہیں دیکھ لیتے تھے۔ بڑے ہونے پر انکے علاوہ کسی پر دل نہیں آتا کہنا صرف یہ ہے کہ سب ہوتے ہیں آپ بھی کبھی بڑے ہوجائیں گے۔ اس وقت چھلانگیں مارنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
    ہا ہا ہا ،وہ جنہیں بات بات میں لسانیت اور تعصب نظر آتا ہے اور پھر وہ ایسی تحریروں کے لیئے بے قرار بھی رہتے ہیں ،اور خود وہی کچھ کرتے بھی ہیں انہین کہ رہی ہین آپ :)

    ReplyDelete
  16. اب کیا بڑے ہوں گے اس عمر میں :)
    ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو کبھی بڑے نہیں ہوتے :)

    ReplyDelete
  17. گوندل صاحب بھی خاصے کی چیز ہیں بلکل اپنے اجمل صاحب کی طرح،ویسے جب جواب نہ بن پڑے تو دانت بہت اچھے نکالتے ہیں میں ان کے دانتوں کا منتطر ہوں اپکی اس پوسٹ پر :)

    ReplyDelete
  18. تحریر ہمیشہ کی طرح زبردست ہے اور ذہن کے دریچوں کو وا کرنے والی بس ذہن کا ہونا شرط ہے :)

    ReplyDelete
  19. ۔۔۔۔۔ یوں تو خواتین کے پردے کے بارے میں خاصی بحث ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔

    بی بی!مندرجہ بالا پردے کے بارے الفاظ ، آپ نے جو مقاصد اپنے آخری دو تبصروں میں بیان کیئے ہیں ۔ اُن سے میل نہیں کھاتے اور بقول آپکے "میری تحریر صرف مسلمان نہیں غیر مسلم بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اور میں بہرحال تبلیغ نہیں کر رہی کسی بھی چیز کی۔۔تو کیا اوپر والا فقرہ آپ نے غیر مسلموں کے لئیے لکھا تھا۔گویااُن میں پاکستان میں پردہ کرنا اور نہ کرنا کی بحث ہوتی ہے۔بصد احترام عرض ہے یہ بھی بتا دیجئیے گا ۔کہ اسمیں سائینس کا ذکر کہاں سے آگیا۔؟ اور آپ نے جو اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار لکھے ہیں ۔ آپ کے آخری دو عدد تبصر وں میں آپکی دی گئی رائے انکی منفی کر رہی ہے۔ تو پھر آپ کی کونسی رائے درست تسلیم کی جائے پوسٹ والی یا تبصروں میں دی گئی رائے درست مانی جائے۔؟

    بی بی! (دو تبصرے بھی اس لئیے کہ آپ کی پوسٹ پہ الفاظ کی ایک خاص تعداد سے زیادہ لکھے گئے الفاظ کو دوبارہ سے پوسٹ کرنا پڑتا ہے اور ایک دفعہ لکھی گئی بات کو کاٹنے چھانٹنے کی سردردی کا وقت میرے پاس نہیں ہوتا) آپ سے گزارش ہے ۔کہ آپ میرے پہلے والے دو تبصرے پھر سے غور سے پڑھیں اور بتائیے گا کہ اُن تین ہزار تین سو تراسی الفاظ میں سے ایک سو پانچ الفاظ موضوع سے متعلق ثقافت پہ اسلامی نقطۂ نظر کو بیان کرنے سے آپ کو کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسلام کا دفاع ہے۔؟ اسلام ایک لافانی حقیقت ہے اسے میرے یا کسی اور کے دفاع کی ضرورت نہیں۔ وہ ایک رائے تھی آپ دوبارہ غور کی جئیے گا ۔ اور چونکہ اردو پڑھنے لکھنے والوں میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ما شاءاللہ آپ ایک مسلمان ملک سے بلاگنگ کر رہی ہیں تو ایسے میں مسلمانوں کا اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کسی خاص موضوع پہ اسلامی نقطۂ بیان کر دینا اتنا اچنھپے کی بات نہیں کہ آپ کے غیر مسلم اردو قاری اس پہ اعتراض کریں ۔ میری رائے میں اتنی چھوٹی سی بات وہ بھی سمجھتے ہونگے۔ بعین اسی طرح جس طرح یوروپ و امریکہ کے ممالک میں بسنے والے مسلمان کرسمس اور دوسرے مواقع پہ ریڈیو ٹی وی پہ رات دن نشر کی گئیں چرچ کی خصوصی سروسز (عبادات ) کو ان ممالک کے عوام کا حق سمجھتے ہیں اور انھیں ہمیشہ خلوص نیت سے میری کرسمس کہا کرتے ہیں۔اعتراض کی بجائے انکی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔

    آپ کو تو خوشی ہونی چاہئیے کہ آپ کے قاری اتنی دلچسپی سے آپ کے چھیڑے گئے موضوعات اور "چِھڑ" پہ آپ کو اتنا وقت دیتے ہیں ۔ واللہ آپ تو الٹا ناراض ہوجاتی ہیں۔ امید کافی ہے ، آپکی رائے سے اتفاق نہ کرنے واکے قارئین کی مختلف آراء پہ رفتہ رفتہ ،دل گرفتہ ہونا چھوڑ دیں گی۔ بلاگ اب پبلک پراپرٹی بن چکے ہیں ۔کسی بھی لکھنے والے کی تحریر پہ قاری جائز حدود میں رہ کر کوئی بھی رائے دے سکتا ہے وہ کیا کسی شاعر نے بہت خوب کہا تھا ۔یاد آیا شاید جگر مراد آبادی مرحوم نے کہا تھا ۔
    یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجے
    اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

    مدت کے بعد ،ادرک ملی چائے (قہوہ) پی رہا ہوں بڑے مزے کی ہے۔





    آ

    ReplyDelete
  20. اچھا تو یہ ھیڈ ماسٹر عبداللہ کی کلاس تھی۔ ویسے آپس کی بات ہے۔ یارا ۔ یہ تُسی ہیڈماسٹر کب سے ہو گئے ہو۔؟
    اتنے دن کہاں رہے؟ مبارک ہو، وہاں۔۔۔۔ سے کب چُھوٹے؟
    جاوید گوندل

    ReplyDelete
  21. آپ نے لکھا ہے ۔۔۔چند نیپالی میرے بہت اچھے دوست رہے انکے طفیل مجھے یہ بات پتہ ہے کہ صرف دو بہنیں نہیں بلکہ جتنی بہنیں بھی ہوں سب ایک مرد کے حصے میں جاتی ہیں۔ اسی پدری نظام کی بناء پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ عورت کو جائداد سمجھا جاتا ہے تو اس سے بھی آپناراض ہو جاتے ہیں۔۔۔۔

    نیپال میں مرد دو یا اس سے زیادہ بہنوں سے شادی نہیں کرتا بلکہ کوئی ایک عورت دو بھائیوں یا کی بیوی ہوتی ہے۔ الفاظ دیگر ایک عورت سے دو مرد شادی کرتے ہیں۔ تصحیح فرما لی جئیے۔

    ReplyDelete
  22. ایک دفعہ لکھا اور سب اڑ گیا، ایک چیز کو دوبارہ لکھنا بڑا بوریت کا کام ہے۔
    جاوید صاحب، ایک شعر آپکے لئے ایا ہے۔
    کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تونے اے مجنوں
    کہ لیلی کی طرح خود بھی ہے محمل نشینوں میں
    خواتین کا پردہ صرف ہمارے یہاں رائج نہیں۔ راجستھان یا تھر کی طرف چلے جائیں۔ ہندو خواتین بھی بہت سخت پردہ کرتی ہیں۔ بلکہ ایک زمانے میں زیادہ تر ہندو خواتین بہت شدید پردہ کیا کرتی تھیں۔ خاص طور پر اعلی طبقات سے تعلق رکھنے والی۔ کٹر یہودی بھی خاصی حد تک اس چیز پہ عمل کرتے ہیں۔میں نے یہ جملہ محض حضرت یوسف کے پردے کو بیان کرنے کے لئے ڈالا تھا۔ اول تو میں اس متنازع مسئلے میں نہیں پڑنا چاہتی۔اور اگر کبھی دنیا سے جی بہت بےزار ہوا اور اس موضوع پہ ہاتھ ڈالا تو اس میں یہ پوری طرح واضح ہو گا کہ آئیے اس پہ بات کریں۔
    آپ اپنے دل سے یہ وہم نکال دیں کہ میں کسی سے ناراض ہوتی ہوں اور وہ بھی اس بات پہ کہ اسے میری تحریروں پر اعتراض ہے۔ چونکہ میں کسی چیز کی تبلیغ نہیں کر رہی اس لئے ہر ایک کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بات بیان کرے۔۔ مجھے ذاتی طور پہ اس بات سے کوشی ہوتی ہے کہ لوگ اتنے بااعتماد ہوں یا مجھ پر اعتماد کریں کہ بلا کھٹکے اپنی بات کہیں۔کبھی میں سوچتی ہوں اپنے بلاگ کا نام تبدیل کرکے اوطاق یا چوبارہ رکھدوں۔ معترض ہونے کے علاوہ بھی ناراض ہونے کے اور لوازمات ہوا کرتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر میں بہت سارے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں، بڑی برداشت ہے اس وجہ سے۔
    ہمارے انسٹیٹیوٹ میںسارک سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس خاصے آیا کرتے ہیں۔ میری اپنی لیب میں جہاں ہمیشہ دس گیارہ لوگ ہوتے ہیں۔ ایک سال تک دو نیپالی بھی تھے۔ ایک لڑکا اور لڑکی۔ دونوں شادی شدہ تھے۔ اس وقت میری شادی نہیں ہوئ تھی۔تو اس نیپالی لڑکے کو دیگر صاحبان خاصہ چھیڑا کرتے تھے کہ انک تو مزے ہیں۔ شادی ایک سے کرو ملتی سب بہنیں ہیں۔ اس بات پہ ان نیپالی صاحب نے کبھی اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی اسکی تصحیح کی۔ اب میں کیا کہوں۔
    آپکا بہت شکریہ کہ آپ اس بلاگ پر تشریف لاتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ اس تسلسل کو قائم رکھیں گے تاکہ اسکے طفیل لوگ آپکے خیالات سے مزید مستفید ہوں۔
    ڈفر، میں نے میرا بچپن پر لکھا تو تھا۔ آجکل مصروفیت بہت زیادہ ہے بھئ۔ اور تعلیم پہ میں لکھنا چاہ رہی ہوں کیونکہ میرا بحیثیت استاد بھی کچھ تجربہ ہے۔مگر وقت نہیں مل پارہا۔ لیکن بے فکر رہیں لکھونگی ضرور۔
    عبداللہ، امید پہ دنیا قائم ہے
    :)

    ReplyDelete
  23. اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے۔

    ایک بات کہتا چلوں ۔ یقین مانیں یہ میرا اندازِ تحریر نہیں۔ صرف انھی لوگوں کو چبھتی باتیں لکھتا ہوں ۔ جن پہ مجھے بہت اعتماد ہوتا ہے۔ جن کی" اہلیت" (صرف اسناد والی قابلیت کی بات نہیں کر رہا) میں دل سے تسلیم کرتا ہوں۔ یا ان لوگوں سے جن سے مجھے دلچسپی ہوتی ہے۔ جہاں اعتماد یا دلچسپی ہو وہاں ، روز مرہ زندگی میں بھی، میں اور میرے کچھ احباب کچھ ایسا ہی طریقہ اپناتے ہیں۔ وہ اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ سچا ہمدرد وہی ہوتا ہے جو سچ بیان کر جائے خواہ وقتی طور پہ وہ سچ کس قدر دشوار یا کروا لگے ورنہ ذہنی بالیدگی کا سفر رک جاتا ہے ۔ میں آپ کی تعریف یونہی نہیں کررہا بلکہ میں آپکا دلی احترام کرتا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ میری کڑوی کسیلی رائے پہ بھی آپ نے سنی بلکہ پڑھی۔

    اس مشق کے نتیجے میں ایک بات یقینی طور پہ کر سکتا ہوں ، آپ میں تحمل اور بردباری بتدریج بڑھی ہے۔ حالانکہ میں نے ایک آدھ دفعہ لکھتے ہوئے سوچا تھا کہ شاید اس بار آپ کے صبر کا پیمانۂ لبریز ہوجائے۔

    خوش رہیں۔

    ReplyDelete
  24. گوندل صاحب مبارکاں جی مبارکاں!
    کہ آپکو ہیڈماسٹر عبداللہ کے سمجھائے بغیر بات سمجھ میں آگئی :)

    ReplyDelete
  25. معذرت کہ اسکیمو انٹارکٹیکا یعنی بحر منجمد جنوبی کی بجائے آرکٹک یعنی بحر منجمد شمالی پر پائے جاتے ہیں :) لیکن شاید بحث اتنی اچھی چلی کہ اس پر کسی کی نگاہ ہی نہیں پڑی :)

    ReplyDelete
  26. بحر منجمد شمالی بھی اس لئے کہا کہ دراصل کینیڈا کے انوئت، گرین لینڈ، آئس لینڈ اور دیگر ممالک میں آباد ہیں اسکیمو۔ یعنی جنوبی کی بجائے شمالی :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. منصور احمد صاحب، تصحیح کرانے کا شکریہ۔ حیرت ہے کہ آپ میری تحاریر میں اتنی دلچسپی لے رہے ہیں کہ پرانی تحاریر نہ صرف پرھی ہیں بلکہ ان پہ تبصرہ بھی کر رہے ہیں۔

      Delete
    2. جی، اردو بلاگرز کو میں اکثر پڑھتا رہتا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ تبصرہ کبھی کبھار ہی کہیں کرتا ہوں۔ دوسرا ایک جگہ پڑھا تھا کہ آپ پاکستان میں جنگلی حیات کی ریجنل ڈائریکٹر بھی ہیں۔ تو یہ جنگلی حیات سے آپ کا تعلق میرے لئے زیادہ توجہ کا سبب بن گیا۔ اگرچہ ابھی تک ایسی کوئی تحریر تو نہیں دیکھی، پھر بھی اسی امید پر پڑھے اور تبصرہ کئے جا رہا ہوں کہ شاید ایسی تحریر مل جائے :)

      ایک اور اصلاح کہ میرا نام منصور "احمد" نہیں ہے

      Delete
    3. منصور محمد صاحب، جنگلی حیات پہ کوئ تحریر ملنا مشکل ہے۔ کیونکہ میں پاکستان میں جنگلی حیات کی ریجنل ڈائریکٹر نہیں۔ میں صرف اپنے بلاگ کی ڈائریکٹر ہوں۔ جہاں پہ حیات کے جنگلی پن کے قصے آپکو مل جائیں گے۔
      :)
      کسی نے طنزاً کہا ہوگا آپ سچ سمجھ بیٹھے۔
      نام غلط لکھنے کے لئے معذرت۔ ہمارے ایک دوست کا نام بیھی منصور احمد ہے اسی روانی میں لکھ دیا۔

      Delete
  27. عزیز امین سے بات کے دوران بات چلی کہ پاکستان میں جنگلی حیات کے بارے کوئی بلاگ ہے یا نہیں۔ سرچ کیا گوگل پر درج ذیل لنک دکھائی دیا جسے میں سچ سمجھ بیٹھا

    http://funadamentalist.wordpress.com/tag/%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%81-%D8%B3%D9%86%DA%AF%DA%BE%D8%A7-%D8%8C-%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%B1-%D8%AE%D9%88%D8%A7%DB%81-%D9%85%D8%AE%D9%88%D8%A7%DB%81-%D8%AC%D8%A7%D9%BE%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%8C-%DA%88%D9%81/

    اب مسئلہ یہ ہے کہ جب میں کسی ویب سائٹ یا بلاگ پر جاتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ سب کچھ ہی پڑھ لوں۔ آپ کی تحاریر حروف تہجی کی ترتیب سے موجود ہیں۔ دلچسپ لگیں تو میں نے باقاعدہ پڑھنا اور تبصرہ کرنا شروع کر دیا۔ تاہم آپ انہیں اگنور کر دیا کریں کہ میری عادت ہے کہ دوسروں کی سننے کے علاوہ اپنی بھی کہنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ بعض اوقات کوئی سوال پیدا ہو ذہن میں تو وہ بھی پوچھ لیتا ہوں۔ تاہم جواب کی توقع کم ہی ہوتی ہے اس لئے جواب ملے یا نہ ملے، فرق نہیں پڑتا۔ کہیں نا کہیں سے جواب مل ہی جاتا ہے :)

    حیات کے جنگلی پن کی بات ہو یا جنگلی حیات کے بارے، آپ کا بلاگ دلچسپ لگا تو پڑھنے اور تبصرہ کرنے لگ گیا ہوں :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. شکریہ منصور صاحب۔ امید ہے آپ آءیندہ بھی اپنی رائے سے نوازتے رہیں گے۔

      Delete
    2. آپ کا بلاگ تو کافی سلیس زبان میں ہوتا ہے۔ کمنٹس میں کافی نستعلیق ہو جاتی ہیں، کوئی خاص وجہ؟

      Delete
  28. لازماً کسی ستم ظریف نے آپ کے پالتو ڈوگی سے ہراساں ہو کر یہ ہوائی اڑائی ہوگی۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. حالانکہ وہ بے چارہ جانور ہونے کے باوجود بالکل جنگلی نہیں۔ خاصی تمیز کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اور جب تمیز کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتا ہے تو خاموشی سے ڈانٹ کھاتا ہے۔ یہ تو غلط بات ہے کہ کوئ اسے جنگلی کہے۔ ایک نوٹس جاری کرنا پڑے گا کہ ہمارے ڈوگی کو جنگلی کہنے سے پیچتر اپنے بارے میں مہذب ہونے کا سرٹیفیکیٹ ضرور لیا جائے۔۔

      Delete
    2. آپ کے پاس کون سا ڈاگی ہے؟ اس کا نام، اتہ پتہ؟ مجھے بھی تین ڈاگیز نے مالک رکھا ہوا :)

      Delete
    3. جی ڈاگی کا نام شہزادہ ہے۔ درحقیقت جب ہم نے اسے لیا تو اسکا نام رکھا جا چکا تھا۔ ہم نے تو سوچا کہ اس کا نما بدل دیا جائے لیکن عوام نے کہا کہ اسے اسکی عادت ہے رہنے دیں۔
      نسلاً یہ بیلجیئن شیفرڈ کی کچھ مکس بریڈ ہے۔ کچھ اس لئے کہہ رہی ہوں کہ جب کان اٹھاتا ہے تو وہ پورے نہیں اٹھتے بلکہ آدھے گرے رہتے ہیں۔ اگرچہ مجھے اس کے کانوں کا یہ انداز اصل سے زیادہ پسند ہے۔ اب یہ کوئ دس مہینے کا ہو چلا ہے۔
      گڈ آپکے پاس بھی تین کتے ہیں یہ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں؟

      Delete
  29. ڈاگی کا نام تو بہت اچھا ہے۔ ویسے ڈاگیز کو اپنے نئے نام سے واقفیت پیدا کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوتی۔ شیفرڈ نسل کے کتے تو ویسے بھی زیادہ عقلمند ہوتے ہیں۔ کان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ڈاگی تو ڈاگی ہوتا ہے :) دس ماہ کا اس نسل کا ڈاگی تو کم از کم پچیس تیس کلو وزنی ہوگا؟ اس کے کھانے پینے میں آپ وہ غلطی تو نہیں کرتیں جو عام طور پر کی جاتی ہے، یعنی اپنے کھانے کا بچا کھچا ڈال دیا جاتا ہے؟

    میرے پاس جو تین ہیں، وہ Coton de Tulear قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ سفید رنگ کا لمبا کوٹ ہوتا ہے جس کی دیکھ بھال البتہ کچھ وقت لے جاتی ہے۔ اگر نیٹ پر مناسب تصویر نہ ملے تو میں ایک تصویر شیئر کر دوں گا ادھر

    ReplyDelete
  30. جی ہاں پچیس کلو وزن تو ہوگا۔ اتنا بڑا کتا تو میرا خیال ہے اسی گھر کے بچے کھچے کھانے پہ رہ سکتا ہے جہاں ایک بڑا خاندان ہو یا پھر کھانا پھینکنے کے لئے پکایا جاتا ہو۔ شہزادے کے لئے روزانہ علیحدہ کھانا تیار ہوتا ہے۔ گوشت چاول کے ساتھ۔ اسے ہم لوگ شہزادے کا پلاءو کہتے ہیں۔ جس میں میں کبھی کبھی کچا انڈا ملا دیتی ہوں یا پھر فش آئل۔ کتے کا کھانا، میرے بجٹ پہ ایک اضافی بوجھ ہے۔ لیکن اسے لینے کے چار دن میں ہی یہ حالت ہو گئ تھی کہ ہم اسے کسی اور کو دینے کا سوچ بھی نہ سکے۔ اسکے علاوہ ہفتے میں ایک آدھ بار آئس کریم اور دودھ میں انڈہ ملا کر دیا جاتا ہے۔ ڈاگی کے لئے میں نمک پارے بنا کر رکھ دیتی ہوں یہ بازار کے بسکتس سے سستے پڑتے ہیں اور وہ شوق سے کھاتا ہے۔ یہ اسکی تربیتی پروگرام میں بھی مددگار ہوتے ہیں۔
    کان کا مسئلہ اسکے علاوہ کچھ نہیں کہ اگر کسی ڈاگ شو میں جائے تو کانوں کی وجہ سے اصل بریڈ کے ساتھ شامل نہیں ہوگا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اپنے ڈاگیز کی تصاویر ضرور شیئر کیجیئے گا۔ لمبے بالوں والے کتے دیکھنے میں بڑے خوبصورت لگتے ہیں۔ ادھر ہمارے شہزادے کے بال بھی بڑے ہیں بالخصوص اسکی بالوں سے بھری دم لہراتی ہوئ بڑی اچھی لگتی ہے۔

      Delete
  31. ڈاگ شوز میں تو پیڈیگری ڈاگز ہوتے ہیں صرف اور وہ بھی ہر طرح سے خالص النسل۔ دوسرا عام طور پر ڈاگ شوز میں جج کے پاس دو یا تین منٹ ہوتے ہیں آپ کے ڈاگی کو دیکھ بھال کر اس کے بارے فیصلہ کرنے کے لئے جو آپ کی ساری زندگی کی محنت پر پانی پھیر سکتے ہیں۔

    عام طور پر کہا جاتا ہے کہ کتے کو لہسن، پیاز، چاکلیٹ وغیرہ سے بچایا جائے۔ کیونکہ وہ اسے ہضم نہیں کر سکتے ہیں اور مسئلہ ہو سکتا ہے۔ دوسرا ڈاگیز کو نمک بہت کم دیا کریں۔

    پاکستان میں کون سی امیج شیئرنگ سائٹس کھلتی ہیں تاکہ میں ادھر شئیر کر دوں؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. مجھے امیج شیئرنگ سائیٹ کا نہیں معلوم۔ اسکے لئے ہم عام طور پہ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔
      ڈاگ شوز کے متعلق میں نے صرف ایک خیال ظاہر کیا تھا۔ ہمارا ایسا کوئ ارادہ نہیں۔
      کتے کو لہسن بھی نہیں کھلانا چاہئیے۔ میں ایک جگہ پڑھ رہی تھی کہ کچا لہسن بلیاں پسند نہیں کرتیں۔ البتہ لہسن کے بسکٹ بنا کر کتے کو دئیے جا سکتے ہیں ۔ ان سے فلیز نہیں ہوتیں اور دیگر امراض سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ کیا یہ درست نہیں ہے؟

      Delete
    2. فیس بک پر میرے پاس کافی تصاویر موجود ہیں لیکن پبلک انٹرفیس پر میں اپنا فیس بک شئیر نہیں کر سکتا کہ بلاگز کو پڑھنے والے بہت سارے افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اگر کمنٹس پسند نہ آئیں تو فی سبیل اللہ پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اپنی فیملی اور اپنے دوستوں کو میں اس طرح کے افراد سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں :)

      لہسن کے اس Extra curricular استعمال کے بارے کبھی پڑھا کیونکہ یہاں عام طور پر فارمیسی سے ایسی ادویات ملتی ہیں جو چھوٹی سی ٹیوب کی شکل میں ہوتی ہیں۔ اسے کھول کر اس میں موجود ساری دوا (جو چند قطروں پر ہی مشتمل ہوتی ہے) ڈاگی کے کان کے نیچے یا ایسی جگہ بال ہٹا کر براہ راست کھال پر لگا دی جاتی ہے جہاں ڈاگی کی زبان نہ پہنچ سکے اور نہ ہی پنجوں سے اس جگہ کو سکریچ کر سکے۔ عام طور پر ایک بار سے دو یا تین ماہ کے لئے ڈاگی کی جان چھوٹ جاتی ہے۔ دیسی نسخے تو ہوتے ہیں کہ جیسا کہ ڈاگی کو سوڈا کاربونیٹ ملے پانی سے نہلا دیا جائے یا اسی طرح دیگر باتیں کہی جاتی ہیں لیکن ان کا کچھ کنفرم نہیں ہوتا

      آپ نے کہیں پڑھا ہوگا کہ لومڑی فلیز وغیرہ سے کیسے نجات پاتی ہے؟ وہ نسخہ بھی کافی کارآمد ہوتا ہے

      لہسن کے بارے جو میں نے Breeding Course میں پڑھا تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ لہسن، پیاز اور چاکلیٹ سے اپنے ڈاگی کو بچائیں۔ حتیٰ کہ چاکلیٹ کی سو گرام سے کم مقدار بھی ایک بڑے ڈاگی کو ہلاک کرنے کے لئے کافی ہو سکتی ہے۔ تاہم میں نے بہت سارے ڈاگیز کو روز چاکلیٹ کھاتے بھی دیکھا ہے۔ شاید ان ڈاگیز نے کبھی Owner's manual نہیں پڑھا ہوگا :)

      ڈاگ شوز سے اگر اپنے ڈاگی کو بچائے رکھیں تو بہت بہتر ہے۔ ورنہ آر یا پار والا کام ہوتا ہے

      Delete
  32. خواتین و حضرات !
    تصحیح فرما لیجیے۔ یہ ڈاگی نہیں ، ڈوگی ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. :)
      تصحیح فرمانے کا شکریہ۔ آئندہ خیال رکھا جائے گا کہ ڈوگیز کی اس طرح کی ہتک عزت نہ ہو۔

      Delete
  33. گوگل پر درج ذیل سرچ کیجئے گا

    Coton de tulear

    میرے ڈاگیز سے ملتے جلتے بہت سارے دکھائی دیں گے۔ اگر ان کی فر کی دیکھ بھال اچھی کی گئی ہو تو بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم گوگل کی سرچ میں جو زیادہ تر دکھائی دیں گے وہ پالتو کتے ہیں جن کی فر کی دیکھ بھال عام طور پر نہیں کی جاتی

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ