میں پارلر میں موجود تھی جب وہاں پہ کام کرنے والی ایک خاتون کا فون بجا۔ فون پہ بات کر کے اس نے بند کیا اور اپنی دوست کو بتایا کہ شہر کے فلاں حصے میں جہاں اس کا گھر ہے ہنگامہ ہو گیا ہے اور ان کے شوہرآفس نہیں جا سکتے اس لئے آج چھٹی کر کے گھر میں رہیں گے۔
اب کس نے کیا یہ ہنگامہ؟ کسی نے پوچھا۔ کراچی میں ہنگامے روز کے معمولات میں شامل ہیں۔
ہماری طرف کون کرے گا یہی ملّے۔ اس عورت نے ایک کراہیت سے جواب دیا۔
ہنگامے کراچی میں اور لوگ بھی کرتے ہیں کراہیت مولانا صاحب کے حصے میں کیوں آئ؟
آخر خواتین ملّاءوں سے اتنا کیوں چڑتی ہیں؟
اس کے لئے دماغ پہ زور ڈالنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ایک گھر میں بچے فاقوں سے گذر رہے ہوں، شوہر کی آمدنی گھر کے اخراجات پورے کرنے کے قابل نہ ہو اور ان حالات میں اگر کوئ عورت یہ سوچے کہ وہ گھر سے باہر نکل کر کچھ پیسے محنت کر کے کما لے تو اس خیال سے ہی مولانا صاحب کا دین اسی وقت خطرے میں پڑ جائے گا۔ انکے خیال میں ایک عورت ایک حرم سے بس دوسرے حرم کا ہی سفر کر سکتی ہے یہی اس کا مقدر ہے۔ اور وہ فوراً فتوی دیں گے کہ نیک عورت وہ ہے جو گھر کے اندر بند رہے سوائے مرض الموت کے اسے گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں۔
جو تھوڑے سے بہتر ہونگے وہ فتوی دیں گے کہ باہر نکلنے کے لئے برقعہ پہننا ضروری ہے لیکن یاد رہے روزی روزگار کی ذمہ داری اسلام نے عورت پہ نہیں ڈالی۔
کیوں مولانا صاحب میں کیوں برقعہ پہنوں؟
چالیس ڈگری سینٹی گریڈ پہ برقعے کے تصور سے مجھے اپنا آپ برا لگتا ہے، مولانا صاحب سے نفرت ہو جاتی ہے اور خدا سے بیر۔ جو انتہائ قدرت رکھنے کے باوجود اتنا بے بس تھا کہ مجھے آزادی سے کھلی فضا میں سانس لینے کے لائق نہیں بنا سکا۔ اگر اسے مجھےکپڑوں کے باوجود کوکون کی طرح برقعہ میں ہی لپیٹ کر رکھنا منظور تھا تو اسے کم سے کم میرا جسمانی نظام ہی اسکے مطابق بنانا چاہئیے تھا۔ وہ قادر مطلق ہے پھر اسے آزمائش کے سارے سخت مرحلوں سے مجھے ہی کیوں گذارنا مقصود تھا اور ان سخت مراحل کے باوجود مزے کی زندگی دنیاوی اور دنیا کے بعد مردوں کے حصے میں۔ خدا کس قدر امتیازی سلوک رکھتا ہے اپنی مخلوقات میں۔
اسلام پہ قائم رہنے کے لئے میں سوچتی ہوں کہ ایسا عقل سے عاری خدا مولانا صاحب کو ہی مبارک ہو۔ مجھے اکیسویں صدی میں ایک جینیئس خدا چاہئیے۔ ساتھ ہی مجھے خیال آتا ہے کہ مولانا صاحب کے بند دماغ سے اپنے خدا کو کیوں دیکھوں۔ میرے خدا کو میرے شایان شاں ہونا چاہئیے۔ اگر میں زمین ہوں تو اسے آسمان ہونا چاہئیے میں جتنی زبردست ہوں اسے مہا زبردست ہونا چاہئیے۔
اچھا اب آگے بتاتی ہوں کہ دنیا کے واقعات کیسے پیش آتے ہیں۔ جن سے مولانا صاحب کا خدا لا علم معلوم ہوتا ہے۔
فرض کریں کہ کوئ عورت سات بچوں کی ماں ہے اور اسکے شوہر کا انتقال ہوجاتا ہے۔ لیکن مولانا صاحب کے دین کے مطابق ایک نیک عورت ہے یعنی تمام زندگی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا تو صحیح اسلامی حل یہ ہوگا کہ عدت ختم ہونے پہ ایک اور شوہر کرے۔ اس شوہر سے بھی اس کے پانچ بچے ہو جاتے ہیں لیکن وہ شوہر ، پہلے شوہر کے بچوں کو نہ اپنے ساتھ رکھنے کو تیار ہے اور نہ ہی انکی کسی بھی قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔ اسلامی تعلیمات میں سوتیلا باپ انکا ذمہ دار ہے بھی نہیں۔ ان بچوں کے رشتے دار بھی اس قابل نہیں کہ انہیں سپورٹ کر سکیں۔ ان میں سے جو بچیاں ہیں چاہے وہ چھ برس کی ہوں انکی تو فوراً شادی کر دینی چاہئیے کیونکہ اسلامی تعلیمات کی جو روشنی مولانا صاحب کے طفیل ملتی ہے اس میں ایک عورت کی پیدائش کا مقصد شادی اور بچوں کی پیدائیش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اب عورت جھلا کر مولانا صاحب سے پوچھ سکتی ہے کہ آخر ساری زندگی گھر کی چہار دیواری میں بند رہنے اور مسلسل بچے پیدا کرنے کے بعد میرے ہی حصے میں دوزخ کیوں زیادہ آئے گی۔ مولانا صاحب فرمائیں گے بد بخت تیری اسی زبان درازی کی وجہ سے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ دوسرا شوہر چند سالوں بعد ایک دن ناراض ہو کر تین دفعہ طلاق کہتا ہے اور اب اس گھر میں اس عورت کے لئے کوئ جگہ نہیں۔ اسکے حصے میں خوش قسمتی سے معمولی سی مہر کی رقم آجائے تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے۔ اسکے علاوہ کچھ نہیں۔
اب ان پانچ بچوں کاکیا ہوگا؟
ایک دفعہ پھر مولانا صحاب کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو بچیاں ہیں انکی فی الفور شادی کر دی جائے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ چھ سال کی لڑکی کی پچاس سال کے مرد سے کر دیں۔ آپ جانتے ہیں پھر اسلامی تاریخ بیان کی جائے گی جو دراصل عرب ثقافت اور تاریخ ہوگی۔ وہ بھی ڈیڑھ ہزار سالہ پرانی۔
اب یہ عورت تیسرا شوہر تلاش کرے گی۔ لیکن جو کام وہ نہیں کر سکتی، وہ یہ کہ خود کام کرے پیسے کمائے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو زیادہ محفوظ بنائے تاکہ یہ سب بچے اسکے قریب رہیں اور بہتر اور کار آمد انسان بنیں۔
کیوں؟
کیونکہ مولانا صاحب کے قائم کردہ معاشرے میں وہ ایک جانور کی طرح نہ کوئ قابلیت رکھتی ہے نہ ہنر، نہ مرتبہ۔ مولانا صاحب اگر اسے کبھی مثال کے لئے پیش بھی کرتے ہیں تو کھلے ہوئے گوشت کی صورت یا بغیر ریپر کی وہ ٹافی جس پہ مکھیاں بھنبھنا رہی ہو۔ اس سے زیادہ دیکھنے اور سوچنے کی سکت مولانا صاحب میں نہیں ہے۔ وہ اگر چاہے بھی تو کیا کرے گی۔ مولانا صاحب سے بغاوت کرے گی تو زیادہ سے زیادہ بغیر مذہبی تعلقات کے اپنے آپکو فروخت کے لئے پیش کرے گی۔ ایک بے ہنر اور ان پڑھ عورت اسکے علاوہ کیا کرے گی۔
واضح کر دوں کہ فرض کرنے کے علاوہ یہ ایک سچا واقعہ ہے۔
اس صورت حال پہ مولانا صاحب یا انکے چیلوں کو ذرا شرم نہیں آئے گی۔ دنیا تو ہے ہی آزمائش کی جگہ۔ وہ ایک اور فتوی جاری کرتے وقت فرما دیں گے۔ یہ ہم نہیں جانتے کہ یہ آزمائش واقعی خدا کی طرف سے ہے یا مولانا صاحب کی طرف سے۔ وہ کہتے ہیں قرآن یہ کہتا ہے اور حدیث یہ کہتی ہے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں مولانا صاحب کہ عہد نبوی میں صحابہ متع کرتے تھے اور عورتیں غربت کی وجہ اناج کے ایک پیالے پہ متع کرتی تھیں۔ یہ نکاح چند دن یا چند مہینے رہتا اور پھر ختم ہوجاتا۔ متع کرنے والی یہ عورتیں نکاح سے پہلے مردوں کو دیکھتیں اور ان سےپورا معاملہ طے کرتیں۔ یقین نہ ہو تو سیرت النبی میں یہ واقعہ پڑھ لیجئیے۔
آج بھی اسلام میں متع کے بارے میں دو مخلف فرقے موجود ہیں ۔ سنیوں کے نزدیک جائز نہیں شیعوں کے نزدیک جائز ہے۔ آج شیعوں کے ایران میں جسم فروشی کی صنعت کو متع کی وجہ سے تحفظ حاصل ہے۔ لیکن آج کے ایران میں خواتین بغیر اسکارف کے نہیں رہ سکتیں۔ ہے نا، مذاق۔
نیک عورت کے پیمانے بھی کتنے مختلف ہیں۔ وہ اس تصویر سے واضح ہیں۔
اس تصویر سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے نیک مسلمان عورت وہ ہوگی جو مافوق الفطرت مخلوق کی طرح کسی کو نظر نہیں آئے گی۔ اس سے ہم مندرجہ ذیل نتائج اخذ کرتے ہیں۔
نیک عورت وہ ہے جس کی نہ آواز سنائ دے اور جو اپنے گھر میں ایسے بند رہے کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو کہ وہ پیدا بھی ہوئ تھی ایسے گھروں سے شادی کارڈ ملے گا تو اس پہ دلہن کا نام موجود نہیں ہوگا۔ یعنی یہ عورتیں عہد نبوی کی عورتوں بلکہ رسول کی بیویوں سے بھی زیادہ نیک ہوئیں۔ اگر نیکی کے اس ورژن کی مزید تفصیل میں گھسا جائے تو سب سے نیک عورت وہ ہوئ جسے خدا دنیا میں جانے کی نوید دے مگر وہ دنیا میں آنے سے انکار کر دے یعنی پیدا ہونے سے انکاری ہوجائے۔
نیکی کا اگلا ہلکا معیار یہ ہے کہ برقعہ پہن کر گھر سے نکل سکتی ہے وہ بھی محرم کے ساتھ لیکن جسم کا کوئ حصہ نظر نہ آئے۔ ہاتھوں میں دستانے، پیروں میں موزے اور آنکھوں پہ نقاب میں جالیاں۔ سوچتی ہوں عہد نبوی میں رفع حاجت کے لئے جنگل میں جانا پڑتا تھا۔ اس وقت گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہوتے تھے۔ خواتین پہلے سے برقعہ پہن کر بیٹھ جاتی ہونگیں یا فوری ضرورت پیش آجائے تو برقعے کی طرف بھاگتی ہونگیں۔ پیٹ خراب ہونے کی صورت میں مقام ضرورت پہ ایک خیمہ گاڑ دیا جاتا ہو گا۔
نیکی کا اگلا معیارچہرہ ، ہتھیلی اور پیر کھلے رہ سکتے ہیں۔ مردوں سے ضرورت کے لئے بات کی جا سکتی ہے فیس بک پہ تبلیغی چیٹنگ شاید کی جا سکتی ہے کیونکہ جادو صرف آواز میں ہوتا ہے تحریر میں نہیں۔ اور مذہبی گفتگو کے وقت تو شیطان کوسوں دور رہتا ہے۔ حالانکہ جدید تحقیق کہتی ہے کہ خواتین کی تحریر میں بھی راغب ہوجانے والے مردوں کے لئے جادو ہوتا ہے۔ اس لئے بعض خواتین کو دیکھتی ہوں کہ برقعہ پہن کر کلائیوں پہ موزے کی طرح کے ٹائیٹس پہن لیتی ہیں کیوں کہ اگر کسی وجہ سے برقعہ کھسک جائے تو کلائ نہ نظر آ سکے یہ ستر میں شامل ہے۔
عہد نبوی میں جبکہ کپڑا ہی بمشکل ملتا تھا وہ بھی عام لوگ نہیں خرید پاتے تھے اس وجہ سے نبوت سے پہلے غریب لوگ حرم کا طواف ننگے ہو کرکرتے تھے۔ خیر، جب عرب میں کپاس نہیں پیدا ہوتی تھِی تو یہ ٹائیٹس کیسے بنائ جاتی ہونگیں؟
چاہے گھٹنوں تک اسکرٹ پہنیں، شراب پیئیں یا ایک کے بعد ایک طلاق اور شادیاں کرتی رہیں لیکن سر پہ اسکارف ضرور ہونا چاہئیے۔ عورت کے بال میں جادو ہے۔ بال نہیں نظر آنا چاہئیے۔ اس پہ تو صرف ایک ہی خیال آتا ہے کہ کوئ عورت اگر ساری زندگی گنجا رہنے کا فیصلہ کر لے تو کیا اسکارف کی پابندی اس پہ سے ہٹ جائے گی۔ کیا گنجی عورت بال والی عورت سے زیادہ نیک ہوگی ؟ کیا ایک گنجی عورت، ایک مسلمان عورت کی علامت نہیں بن سکتی؟ کیا خدا عورت کو گنجا نہیں پیدا کر سکتا تھا؟
قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں اگر خواتین کی حالت کا موازنہ کیا جائے تو اسلامی ممالک کی خواتین سب سے زیادہ بد حال نکلیں گی معاشی اور سماجی حساب سے۔ معیشت کے لئے وہ اپنے شوہر یا باپ کی محتاج ہوتی ہیں۔ شوہر علاج کرانے سے انکار کر دے تو معمولی بیماری میں بھی جان دے سکتی ہے۔ اگر شوہر نکال باہر کرے یا باپ کا سایہ نہ رہے تو یہ عورت دربدر ہوجاتی ہے لیکن اپنے آپ کو بچا نہیں سکتی۔ معاشی اور سماجی دباءو ایسا ہے کہ اپنی صحت کے بارے میں نہیں سوچ سکتی ۔ کیا یہ توقع کی جانی چاہئیے کہ یہ عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر بچوں کی بہترین تربیت کرے گی ایک لا علم عورت جس طرح کی تربیت کر سکتی ہے وہ ویسی ہی کر پاتی ہے سو آبادی میں نکمے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کی غلط تربیت کا الزام بھی اسی پہ ڈالا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو شاید آئ کیو کی سطح پہ بھی مسلمان عورت دنیا کی دیگر عورتوں میں سب سے زیادہ پسماندہ ہوگی کیونکہ آئ کیو محض خدا کی دین نہیں ماحول اور دماغی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے بھی تشکیل پاتا ہے۔ جبکہ سب سے بہتر مسلمان عورت وہ ہوتی ہے جو اپنی عقل ہرگز استعمال نہ کرے۔
کہتے ہیں کہ پردہ ایک عورت کو محفوظ کرتا ہے اس کا مذاق پاکستان ہی میں وہ ثقافتیں اڑاتی ہیں جہاں خواتین سب سے زیادہ پردے میں رہتی ہیں اور جہاں سب سے زیادہ جرائم خواتین کے خلاف ہوتے ہیں۔
ادھرپردے کے لئے ایسی مہم چلی ہوئ ہے کہ لوگ ہر آڑی ترچھی دلیل لانے کو بے قرار۔ جیسے ہر عورت اگر حجاب پہن لے تو بس سارے مسائل حل۔ دنیا ایک دم جنت کا نمونہ بن جائے گی۔ ہر مولوی لڑکا چند حسین آنکھوں پہ عشقیہ اشعار لکھ کر ایک خوبصرت لڑکی کو پس منظر میں رکھ کر ایک تصویر بناتا ہے اور اسے اپنے اسٹیٹس پہ ڈالتا ہے اور اسکے بعد اگلے اسٹیٹس میں مسلمان بہنوں کو اس قسم کے پغام دیتا ہے۔
نوبل پرائز ملنے پہ کسی نے توکل کرمان کو جھوٹے منہ بھی نہ پوچھا ہمارے ملک میں لیکن ہلیری کلنٹن سے ایوارڈ وصول کرتے وقت جب توکل کرمان نے حجاب پہ فخر کیا تو ماشاء اللہ کی صداءووں کے ساتھ انکی تصویر سوشل میڈیا پہ موجود تھی۔
حالانکہ اس سے پہلے یہ ماشاء اللہ ان حسین خواتین کی تصاویر کے ساتھ ہوتا جو میک اپ سے مزین چہرے پہ خوبصورت ریشم کا اسکارف باندھے ہوتیں۔ یعنی بس اسکارف یا دوپٹہ سر پہ ہونا چاہئیے اسکے بعد مولوی لڑکوں کا دل پھینکنا بالکل جائز اور اسلامی ہوتا ہے۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوگ دین کو کس قدر سطحی طور پہ سمجھتے ہیں۔
اب اس تفصیل سے گذرنے کے بعد یہ تو یقین ہو جاتا ہے کہ مولانا صاحب بھی جدید ٹییکنالوجی کے دلدادہ ہیں۔ فیس بک پہ اپنی ہم خیال، با حجاب خواتین کے اسٹیٹس پہ ہی جزاک اللہ، ماشاء اللہ نہیں کہتے بلکہ انکی فرینڈز کی لسٹ میں بے شمار نامحرم خواتین کی بے حجاب تصاویر اور نام محض یاد دہانی کے لئے ہوتے ہیں کہ انکو راہ راست پہ لانا ہے۔ اس طرح آپ صرف انکے فرینڈز کی لسٹ دیکھ کر ہی انکی زندگی کے اعلی مقاصد نہ صرف گن سکتے ہیں بلکہ یوم آخرت میں انکو حاصل ہونے والی نیکیوں کو بھی آڈٹ کر سکتے ہیں اس کو کہتے ہیں چپڑی وہ بھی دو دو۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسا معاشرہ ممکن ہے جہاں عورت اور مرد دو ایک دم الگ دنیاءووں کے باسی ہوں ایسے کہ وہ ایک دوسرے سے کوئ کمیونیکیشن نہ کر سکیں سوائے اپنے محرموں کے؟
یہاں کراچی میں ایک مینا بازار ہے جہاں خواتین دوکاندار اور خواتین ہی خریدار ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین کے اس بازار میں زیادہ تر خواتین کے زیر جامہ فروخت ہوتے ہیں۔ اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ یہ زیر جامے مرد سیلز مین انہیں سپلائ کرتے ہیں اور وہ اپنی دوکان پہ بیٹھےان سے کاروباری ڈیل کرتی ہیں۔ ایک کلف لگے ہوئے کپڑے پہن کر بنے ٹھنے مولانا صاحب کو وہاں خواتین سے دوکان کا کرایہ وصول کرتے دیکھا۔ جو ان خواتین سے حسب مرتبہ مذاق بھی کرتے جا رہے تھے۔
اسکی داستان الگ ہے کہ ان زیر جاموں کو کون مرد سیتے ہیں۔ یعنی مولانا صاحب کے حرم کی خواتین بھی مردوں کے ہاتھ کے سلے ہوئے زیر جامہ پہنتی ہیں۔ اس لئے کہ خواتین ماہر کاریگر اس مقصد کے لئے اتنی تعداد میں دستیاب نہیں ہیں۔ پھر کس حجاب کا پروپیگینڈہ ہوتا ہے، کس حیاء کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور کون سے پردے کا اہتمام ہوتا ہے۔
تو مولانا صاحب،کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ پاکستانی عورتوں کی اکثریت کیوں آپ سے نفرت کرتی ہیں اس لئے نہیں کہ آپ ٹام کروز کی طرح اسمارٹ نہیں یا رانجھے کی طرح بانسری نہیں بجا سکتے یا ہٹلر کی طرح دنیا پہ چھا جانا چاہتے ہیں اس لئے بھی نہیں کہ آپ انہیں کھلے بازءووں والی قمیض نہیں پہننے دیتے یا آپ انہیں اپنی مرضی کا مرد منتخب نہیں کرنے دیتے، مرضی کی شادی نہیں کرنے دیتے یا آپ انہیں تعلیم نہیں حاصل کرنے دیتے یا پھر آپ انہیں پیسہ کما کر خوشحال نہیں ہونے دیتے۔
صرف اس لئے مائ ڈیئر مولانا صاحب کہ آپ انکے کے ہر سنگین سے سنگین مسئلے سے نظر چرا کر ان کے نظر آنے والے بال اور گوشت پہ نظر گاڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ جیسے وہ بس بال اور گوشت کا مجموعہ ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ آپکی ساری تبلیغ، خدا اور قیامت کے سارے ڈراوے، دوزخ کی آگ اور عذاب کے تمام اعلانات کے باوجود آپکو اشتہاروں میں کھلے گلے پہنے عورتیں نظر آتی ہیں ، اسکول بم سےاڑا دینے کے باوجود آپکو تعلیمی اداروں میں زیادہ سے زیادہ عورتیں نظر آتی ہیں، گھر میں رکے رہنے اور محرم کو ساتھ رکھنے کی ہمہ وقت تلقین کے باوجودعورتیں اکیلے ایک ملک سے دوسرے ملک ، ہوائ جہاز کے سفر کر رہی ہیں۔ عورتیں گاڑیاں چلا رہی ہیں، عورتیں جہاز اڑا رہی ہیں، عورتیں شیمپو کے اشتہاروں میں اپنے جادو بھرے بال اڑارہی ہیں، عورتیں ڈیٹنگ کر رہی ہیں، عورتیں اپنے سینیٹری پیڈز بیچ رہی ہیں وہ بھی ٹی وی پہ۔
کیا یہ سب مرتد ہو چکی ہیں یا یہ سب آپکے خلاف بغاوت ہے یا خدا کے خلاف بغاوت ہے؟ کیا جدید طرز زندگی کو تسلیم کئے بغیر آپ انہیں اپنے خدائ فتووں سے روک سکتے ہیں؟ یااااااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا عورتوں کا خدا کوئ اور ہے اور آپکا کوئ اور؟