ان لوگوں سے معذرت کے ساتھ جو یہودیوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ میں کیا کروں، مراقبے کی یہ جگہ میں نے تھائ لینڈ کے شہر پھوکٹ میں ایک یہودی کے ریسٹورنٹ میں دیکھی۔ اور یہ تصویر اپنے بیان کی صحت کو ثابت کرنے کے لئیے دے رہی ہوں۔
میرے اپنے گھر میں کچھ لوگ کتابیں اور اخبار لیکر اس راہ پہ روانہ ہوتے ہیں۔ اور اکثر غسل خانہ میں تولیے کے ہینگر پہ اخبار ٹنگا ملتا ہے۔ شاید ایسے لوگوں کی ہڑک کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ریسٹورنٹ کے مالک نے اسے ایک نئ جدت کے ساتھ سجایا ہے۔ جب میں نے یہ دروازہ کھولا تو اندر کی طرف جانیوالے تنگ راستے کی دیواروں پہ قد آدم تصویروں کے چسپاں پرنٹ دیکھ کر ششدر رہ گئ۔ آگے چلکر ان میں سے کچھ شخصیات کے اقوال بھی ساتھ لکھے نظر آئے۔ خود پڑھے اور ان میں سے کچھ آپکے لئیے جمع کر لئیے۔ واضح رہے کہ اس میں کچھ توبہ شکن تصاویر بھی شامل ہونے سے رہ گئیں۔ مثلاً الزبتھ ٹیلر کی مسکراتی اور میڈونا کی جھلملاتی تصاویر وغیرہ۔

یہ لینن صاحب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ
اگر آپ چند لوگوں کو نہیں مار سکتے تو انقلاب کس لئیے بھئ۔ لینن کو کچھ قدرتی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہمارے سیاستدانوں سے سیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ تو بغیر انقلاب کے بھی چند لوگوں کو مارنا خاطر میں نہیں لاتے۔

یہ آسکر وائلڈ صاحب ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ
ہم بہت ساری چیزیں پھینکنا چاہتے ہیں مگر اس لئیے نہیں پھینکتے کہ کوئ اور نہ انہیں اٹھا لے۔ یہ پڑھ کر مجھے وہ ادیب یاد آگئے جو بہت کچھ لکھنا چاہتے ہیں مگر نہیں لکھتے کہ کوئ اور انہیں سرقہ نہ کر لے۔ اور یوں بہت ساری تحریروں کا بوجھ اپنے دل پہ لئیے رخصت ہوجاتے ہیں۔

یہ صاحب، تصویر میں آنے سے رہ گئے ہیں بہر حال انکا مقولہ ہے کہ
سب سے بڑا گناہ دوسروں کو خوش کرنے کے لئیے خود کو بگاڑنا ہے۔ پڑھنے میں تو کچھ بہت گہری بات لگ رہی ہے لیکن کوئ مثال اگر ذہن میں آرہی ہے تو اسکا کوئ نہ کوئ تعلق ہماری خارجہ پالیسی سے جا ملتا ہے۔ جس سے موضوع کے متنازع ہوجانے کا اندیشہ ہے۔

یہ شاید عام پاکستانیوں کے موجودہ حالات کے بارے میں کہا گیا ہے۔
کل کے بارے میں پریشان نہ ہوں وہ بہرحال آ کر رہے گا۔ آج کے بارے میں پریشان ہوں۔ یہ اگر بغیر سوچے سمجھے آجائے تو بڑا لمبا ہو جاتا ہے اور پھر کل نہیں آپاتا۔

ہر عظیم آدمی کچھ نہ کچھ کہہ کر جاتا ہے۔ آئنسٹائن نے بھی فرمایا
۔ دو چیزوں کی کوئ حد نہیں ہے۔ پہلی چیز کائنات ہے اور دوسری چیز حماقت۔ اور پھر انہوں نے مزید فرمایا۔ مجھے پہلی چیز کے بارے میں پھر بھی شبہ ہے۔ بادی النظر میں یہ لگتا ہے کہ جیسے اس وقت سارے طبیعیات داں کائنات کا مطالعہ اسی لئیے اتنی باریک بینی سے کر رہے ہیں کہ دوسری چیز کو صحیح ثابت کیا جا سکے۔
اس مقولے کے مطابق ہر انسان کے اندر دو بھیڑئیے رہتے ہیں۔ ایک اچھا ہے اور دوسرا برا۔ ان میں سے جیتتا وہی ہے جسے آپ کھانا کھلاتے ہیں۔ لیکن کہیں ضیا الحق قاسمی کی طرح یہ نہ ہو کہ میں شکار ہوں کسی اور کا، مجھے مارتا کوئ اور ہے،،، مجھے جس نے بکری بنا دیا وہ تو بھیڑیا کوئ اور ہے۔

اس بادبانی کشتی کے ساتھ یہ نصیحت ہے کہ
اگرآپکو یہ نہیں معلوم کہ کہاں جانا ہے تو بہترین ہوا بھی آپکی کچھ مدد نہیں کر سکتی۔ شاید اسی کو سن کر سید ضمیر جعفری نے کہا کہ ساگر کے سر شناس اگر ناخدا نہ ہوں،،بنتے ہیں کشتیوں کے کفن بادبان میں۔ واہ
امن کی ثالثی کرنیوالا مگرمچھ کو یہ سوچ کر کھلاتا ہے کہ مگر مچھ اسے سب سے آخر میں کھائے گا۔ اس پہ مجھے ایک شبہ ہے کہ بعض اوقات امن کی ثالثی کرنےوالے جسے مگر مچھ سمجھ کر کھلا رہے ہوتے ہیں وہ اصل میں کوئ سیل ہوتی ہے اور مگر مچھ کسی وقت اچانک پیچھے سے یہ کہکر حملہ کر دیتا ہے کہ مجھے کیوں نہیں کھلایا۔
زندگی میں اس چیز کی اہمیت نہیں ہوتی کہ آپ کتنی زور سے گھونسا مارتے ہیں۔ بلکہ اس چیز کی اہمیت ہوتی ہے کہ آپ کتنی تیزی سے ٹکڑے سمیٹ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس میں ، میں صرف یہ جمع کرنا چاہتی ہوں کہ کتنی جلدی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، مزید گھونسے مارنے کے لئیے۔ اسکی اہمیت ہوتی ہے چندا۔
یہ جو نیچے تصویر آرہی ہے۔ یہ تو بنیادی طور پہ آپ سب کے تبصرے کے لئیے چھوڑ دی ہے۔ بس نجانے کیوں غالب کا یہ شعر یاد آگیا۔
شوق، ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
نوٹ؛ ان تمام تبصروں سے آپکا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اختلاف کی صورت میں اپنا کوئ تبصرہ جمع کرائیے۔ آپکے نام کے ساتھ اس پوسٹ میں ڈال دیا جائےگا۔
تبصرہ، ریاض شاہد؛
رہے صاحب نقش ونگار تو وہ غالبا تصویر یار آئینہ دل کی بجائے اس جگہ زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں اور مقاصد کے علاوہ اس کا مقصد شاید یہ بھی ہو کہ اگر جنگ یا کسی حادثے میں بازو کٹ کر گم ہو جائے تو جس صاحب کو ملے اسے اس کی محبوبہ تک پہنچانے میں آسانی رہے ۔