Showing posts with label استاد. Show all posts
Showing posts with label استاد. Show all posts

Sunday, October 14, 2012

مختار کا اسکول

مختار ، صفائ کرنے والی کا بیٹا ہے۔ وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے۔  ماسی کا کہنا تھا کہ اس کا بچہ خاصہ ذہین ہے کلاس میں ہمیشہ فرسٹ آتا ہے لیکن اسکول میں ٹیچر دو دو ہفتوں تک نہیں آتے اور بچے اسکول جا کر کھیل کود کر واپس آجاتے ہیں۔ بچہ اس وجہ سے اسکول جانے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ میں اسے پرائیویٹ اسکول میں داخل کرانا چاہتی ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم اسے پڑھنے کے لئے صبح میرے پاس چھوڑ دو۔ دوپہر میں وہ اسکول چلا جائے گا۔ لیکن پرائیویٹ اسکول میں داخل مت کرانا۔ اس وقت تم جوش میں کرادوگی۔ چند مہینے کے بعد تمہارے پاس پیسے نہیں ہونگے تو تم اسے وہاں ہٹا لوگی اور اس طرح اسکی تعلیم ختم ہوجائے گی۔
ویسے بھی غریب بستیوں میں کھلے پرائیویٹ اسکولوں میں ٹیچرز خود بمشکل میٹرک پاس ہوتے ہیں۔ انہیں برائے نام تنخواہ ملتی ہے وہاں پہ بھی یہی ہوگا جو یہاں ہوتا ہے، لوگ تمہاری جہالت کا فائدہ اٹھائیں گے۔  میرے اس مشورے کے دو مہینے بعد مختار میرے پاس پہلی دفعہ پڑھنے کے لئے آیا۔
گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوئے ایک مہینہ ہو چکا تھا لیکن اردو کی کتاب کے ابھی صرف تین سبق پڑھائے گئے تھے۔ حساب کا پہلا باب جیسے تیسے ہوا تھا۔ انگریزی کی حالت سب سے بری تھی۔ اس کے باوجود کہ اب گورمنمنٹ اسکولز میں انگریزی پہلی جماعت سے پڑھائ جاتی ہے۔ بچہ انگریزی کے سادہ ترین جملے مثلاً دز از آ ڈاگ اور دیٹ از ہر پینسل تک نہیں بول سکتا۔ یاد رہے مختار اپنی کلاس کا سب سے تیز بچہ ہے۔
ہفتہ بھر پڑھانے اور یہ جاننے کے بعد کہ دس دن سے انہیں کوئ استاد پڑھانے نہیں آیا۔ میں نے مختار کے اسکول جا کر خود صورت حال جاننے کا فیصلہ کیا۔ یہ اسکول میرے گھر کے نزدیک ہی ہے۔
اسکول کے باہر تو ایک اسکول کا نام لکھا تھا لیکن اندر داخل ہونے پہ چوکیدار نے استفسار کیا کہ کس اسکول جانا ہے اس احاطے کے اندر تین اسکول موجود ہیں۔ ایک عمارت میں تین مختلف اسکول، مجھے یہ سن کر اتنا ہی تعجب ہوا جتنا کہ یہ جان کر ہوتا ہے کہ ایک عورت نے ایک ساتھ پانچ  بچے جنم دئیے۔ ایسی کیا مصیبت ہے کہ گورنمنٹ ایک ہی علاقے میں ایک ہی عمارت میں تین مختلف اسکول چلا رہی ہے۔ یقیناً کچھ مال پانی کا چکر ہوگا۔
ان تینوں اسکولوں کے آفس اور اسٹاف الگ ہیں۔ وہاں کھڑے ہو کر میں نے اندازاً اشارہ کر دیا کہ اس اسکول جانا ہے لیکن آفس تک فاصلہ طے کرتے ہوئے میں یکسو ہو چکی تھی۔ پہلا آفس سیکنڈری اسکول کا تھا۔ اسکا نام کچھ اور تھا۔ وہاں سے میں دوسرے اسکول گئ جو کہ پرائمری تھا معلوم ہوا کہ یہی مختار کا اسکول ہے۔  ہیڈ مسٹریس صاحبہ سے ابتدائ معلومات لیں تو مزید معلوم ہوا کہ انکے اسٹاف میں پانچ اساتذہ ہیں۔ ہر استاد کے ذمے ایک کلاس ہے وہی سارے مضمون پڑھاتا ہے۔ ان میں سے بھی ایک استاد کا حال مہیں تبادلہ ہو گیا ہے اس لئے مختار کی کلاس باقاعدگی سے نہیں ہو پا رہی ہے۔ الیکشن متوقع ہیں اور الیکشن کے سلسلے میں اساتذہ کی ڈیوٹی لگتی ہے اس لئے بچے کھچے اساتذہ بھی اس کام میں لگنے کا امکان ہے۔ یعنی الیکشن کمیشن الگ سے اپنے لئے عارضی کارکن نہیں رکھ سکتا۔ اسکے لئے بچوں کی تعلیم قربان کی جاتی ہے۔
میرے سوال پہ کہ استاد تو حال ہی میں گئے ہیں جبکہ یہی حالت گرمیوں کی چھٹی سے پہلے بھی تھی۔ انکے پاس کوئ جواب نہ تھا۔ جب میں نے کہا کہ نئے سیشن کو شروع ہوئے دو مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں اور ایک ڈیڑھ مہینے بعد ششماہی امتحان شروع ہونگے جبکہ سلیبس اپنی ابتدائ حالت میں ہے تو جواب ملا کہ آپ کو اطلاع غلط ہے۔ ہم تو انیس سبق پڑھا چکے ہیں۔ یہ کہہ کر ایک استانی جی اٹھیں اور باہر چلی گئیں پھر اردو کی کتاب لےکر واپس داخل ہوئیں۔ اس میں کتاب کے فہرست والے صفحے پہ انیس اسباق میں نشان لگے ہوئے تھے۔ میں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا۔ میں ان نشانات کو تسلیم نہیں کر سکتی۔ اگر پڑھایا ہوتا تو اس بچے کو تین سبق کے علاوہ کچھ تو آتا جبکہ وہ فرسٹ آتا ہے۔ جن تائثرات کے ساتھ اس گیارہ سال کے بچے نے مجھے سب بتایا وہ جھوٹ نہیں ہو سکتے۔
 جناب، اسکے بعد بیانات کا سلسلہ چلا۔ یہ لوگ تو اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا اس لئے کہ وہ جاہل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ اسکول میں تو پڑھائ ہوتی نہیں اس لئے محلے کے پرائیویٹ اسکول میں داخل کرا دیں۔ ورنہ خود سوچیں جس کے پاس کحانے کو پیسے نہیں وہ پرائیویٹ اسکول میں کیسے پڑھائے گا۔ پھر آپ نے اپنے اسکول میں بچوں کے لئے کوئ تحرک نہیں رکھا وہ یہاں آکر کیا کریں۔ استاد تک تو انہیں ملتا نہیں۔
ایک استاد نے کہا کہ بچے اتنے گندے حلئیے میں آتے ہیں۔ اتنے گندے بچوں کو کیسے پڑھایا جائے۔ اور میں صفائ دیتی ہوں کہ یہ کچی بستی میں نالے کے کنارے رہنے والے، جنکے ماں باپ گھروں صفائ کا کام کر کے بمشکل اپنا کھانے پینے کا خرچہ اٹھاتے ہیں وہ کیسے انہیں صاف ستھرے یونیفارمز اور جوتوں میں بھیج سکتے ہیں۔
او جی آپکو نہیں معلوم یہاں تو کسی بچے کو ایک تھپڑ مار دو تو انکے ماں باپ یہاں ہنگامہ کرنے کو کھڑے ہوتے ہیں ۔ اس پہ میں کہتی ہوں ، وہ بیچارے ویسے ہی ماں باپ سے بری طرح پٹتے رہتے ہیں اب انکو مار کر کیا کرنا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ انہیں یتیم بچے سمجھ کر پڑھا لیا کریں۔ یہی سوچ کر پڑھا لیا کریں کہ کل آقپکا معاشرہ آجکے مقابلے میں اس لئے بہتر ہوگا کہ یہ بچے سمجھدار ہونگے۔لیکن آپ دیکھیں اتنے بچوں کو کوئ کب تک پیار سے پڑھا سکتا ہے؟ ایک اور بہانہ سامنے آتا ہے۔
میں نے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا، میری اطلاع کے مطابق مختار کی کلاس میں کل سات بچے ہیں جن میں سے دو تین تو روز غیر حاضر ہوتے ہیں۔  آپکے اسکول میں شاید کل سو بچے ہیں۔ ایک کلاس میں چار بچوں کو ہینڈل کرنا کیا مشکل ہے۔ میں یونیورسٹی میں ایک وقت میں سوا سو بچوں کو پڑھاتی رہی ہوں یہی نہیں میں نے خود گورنمنٹ اسکول سے پڑھا ہے اور ہماری کلاس میں پچاس اسٹوڈنٹس تھے۔ حتی کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک استاد کے پاس پندرہ سے بیس اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں اس لحاظ سے آپ کے پاس تو کافی گنجائش ہے جبکہ اگر آپ یہ دیکھیں کہ اس اسکول کے ساتھ ایک اتنی بڑی کچی آبادی ہے۔ غریب لوگ ہیں گورنمنٹ اسکول کی کوئ فیس ہی نہیں، آپکے پاس تو کافی بچے ہونے چاہئیں لیکن ایسا ہے نہیں۔ آپ کو تو کوشش کرنی چاہئیے کہ آپکے اسکول میں زیادہ سے زیادہ بچے آئیں۔ دل میں سوچا کہ کوشش کرنی چاہئیے کہ اپنی تنخواہ کو حلال کریں۔
اس پہ ایک کھسیانی مسکراہٹ۔
معاملے کا اہم پہلو یہ ہے کہ گورنمنٹ پرائمری اسکول کے ایک استاد کی تنخواہ سولہ سترہ ہزار ہوتی ہے۔ جبکہ ادھر سٹی یا بیکن ہاءوس جیسے پرائیویٹ اسکولز میں بھی تقریباً  اتنی ہی تنخواہ ہوتی ہے۔ وہ اپنے اساتذہ سے خوب کام لیتے ہیں۔ دن کا ایک لمحہ ضائع نہیں جانے دیتے۔ کلاس رومز میں کیمرے تک موجود ہوتے ہیں تاکہ پرنسپل اپنے کمرے سے تمام کلاس رومز کو چیک کرتی رہے کہ اساتذہ آرام سے بیٹھے ہیں یا پڑھا رہے ہیں۔ ان اسکولوں کے مقابلے میں گورنمنٹ اساتذہ پہ کام کا سرے سے کوئ دباءو ہی نہیں۔ ان اساتذہ  سے  نتیجہ خیز کام لینے والا کوئ نہیں۔ کوئ اس چیز کا ذمہ دار نہیں کہ یہ اساتذہ اسکول کی چار دیواری میں کیا کر رہے ہی  
قارئین ، اب یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پورے تعلیمی نظام میں کون کتنا سنجیدہ ہے۔ 
میرے وہاں جانے سے یہ ہوا کہ مختار کی کلاس کو ایک استاد نے توجہ دینا شروع کی۔ انگریزی میں اسے دو مضامین لکھوائے گئے۔ یہ دونوں مضامین نہ صرف ناقص تھے بلکہ استاد نے اسکول کے موضوع پہ جو مضمون لکھوایا اس کے لئے یہ بھی زحمت نہ کی کہ لفظ سیکنڈری کی جگہ پرائمری ہی کر دیتا کہ مختار پرائمری اسکول میں پڑھتا ہے۔  ناءون، پروناءون اور ایجیکٹو کی تعریفیں اور مثالیں لکھوائ گئیں البتہ انکی کسی بھی قسم کی مشق ندارد۔ حالانکہ یہ سب اساتذہ، ایجوکیشن میں بیچلرز کی اضافی ڈگری رکھتے ہیں۔ میتھس کی کتاب کچھ آگے بڑھی۔
چند دنوں بعد میں پھر جاءونگی۔ اور اب میں سوچتی ہوں کہ اگر ہم صرف اتنا کر لیں کہ اپنے علاقے میں موجود گورنمنٹ اسکولز کو جا کر چیک کریں اور انکے اساتذہ سے گفتگو کریں تو ان پہ دباءو پڑتا ہے کہ وہ اپنے کام کے معیار کو بہتر کریں۔ اس تحریر کا مقصد بھی یہی ہے کہ آپ بھی اس مہم میں شامل ہو جائیں۔  اس بات سے قطع نظر کہ آپکے خاندان کے بچے اس میں ہیں یا نہیں۔  اپنے علاقے  کے گورنمنٹ اسکول کےا ساتذہ  سے ملیں، کلاسز کو دیکھیں اور اگر موقع ملے تو یہ سب کام کسی بچے سے پہلے سے معلومات حاصل کر کے کریں۔ آپ میں سے جسے موقع ملتا ہے وہ جائے یا پھر علاقے میں نوجوانوں کی ایک ٹیم بنا لیں جو اسکولوں کا جائزہ لے۔
گورنمنٹ اسکول میں پڑھنے والے بچے بھی ہمارے ہی بچے ہیں اگر غریب بچوں کو بہتر تعلیم ملے تو ہی ہم معاشرے میں تبدیلی کی امید رکھ سکتے ہیں۔  

Friday, May 11, 2012

جامعہ کراچی کے گدھ

بچے اگر ماں باپ کا نام روشن کریں تو یہ والدین کے لئے قابل فخر بات ہوتی ہے لیکن اگر والدین بھی کوئ قابل فخر کارنامہ انجام دیں تو کیا اولاد کا سر بھی فخر سے بلند نہیں ہو جاتا ہے؟
  یہی تعلق ان جگہوں سے ہوتا ہے جہاں سے ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں سے ہم اپنے ہونے کا مطلب سمجھتے ہیں۔ بقول سکندر اعظم، میرا جسمانی باپ مجھے اس دنیا میں لایا اور استاد یعنی میرا روحانی باپ مجھے واپس آسمانوں پہ لے گیا۔ ہماری مادر علمی اگر ترقی کے زینوں پہ نظر آئے تو ہم بھی فخریہ کہتے  ہیں کہ یہ ہے وہ ادارہ جہاں سے ہم نے تعلیم حاصل کی۔ 

اورمیرا نہیں نجانے کتنے افراد کا یہ احساس اس وقت چکنا چور ہوا جب جامعہ کراچی ایچ ای سی کی ملک کی دس بہترین تعلیمی اداروں کی فہرست میں جگہ نہ پا سکی۔
ایک بار پھروہی سوال کیا وہ اسکی حقدار ہے؟
کسی بھی تعلیمی ادارے میں تدریسی عمل ریڑھ کی ہڈی کی حیثیئت رکھتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے تدریسی عملے میں زیادہ تر تعداد ان اساتذہ کی ہے جو نہ صرف پی ایچ ڈی  نہیں ہیں بلکہ جنہیں مستقل ہونے کا اعزاز بھی حاصل نہیں۔ یہ کو آپریٹو ٹیچرز کہلاتے ہیں۔  ایک مستقل استاد کی نسبت انہیں برائے نام  تنخواہ ملتی ہے اور کسی قسم کے  دوسرے فوائد حاصل نہیں ہوتے، مثلاً سالانہ چھٹیاں۔ انہیں جس وقت چاہے نکال کر باہر کیا جا سکتا ہے۔
ان کو آپریٹو اساتذہ کا انتخاب کیسے عمل میں لایا جاتا ہے؟
ضرورت مند ڈپارٹمنٹ کے نوٹس بورڈ پہ ایک نوٹس لگا دیا جاتا ہے۔ ظاہرسی بات ہے کہ اسے وہی جان پاتے ہیں جو روزانہ اس ڈپارٹمنٹ سے گذرتے ہیں۔ ڈپارٹمنٹ سے تعلق نہ رکھنے والے اس سے آگاہ نہیں ہو پاتے۔ اس طرح اسکی اطلاع بہت محدود لوگوں کو ہوتی ہے اور ان کی بڑی تعداد وہ ہوتے ہیں جو اس وقت ڈپارٹمنٹ میں موجود ہوتے ہیں۔
انتخاب ، ڈپارٹمنٹ کا چیئر مین سینیئر اساتذہ کے مشورے سے کرتا ہے۔ اس طرح کو آپریٹو ٹیچرز کا انتخاب سینیئر اساتذہ کی پسند نا پسند پہ ہوتا ہے۔ کیونکہ بہر حال ان ٹیچرز کو سینیئر اساتذہ کے ماتحت کام کرنا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات یہ سینیئر اساتذہ کے زیر نگرانی نام نہاد ایم فل یا پی ایچ ڈی کے طالب علم ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹس میں کی جانے والی  پی ایچ ڈی کی کوالٹی پہ پھر کبھی بات ہوگی۔
  انکی صورت میں سینیئر اساتذہ کو ایک غلام مل جاتا ہے جو اپنی نوکری پکی کروانے کے چکر میں انکے ہر اشارے پہ ناچتا رہتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ بد ترین بات یہ ہوتی ہے کہ ان  کو آپریٹو  ٹیچرز کی تعلیمی استطاعت عموماً ماسٹرز ہوتی ہے۔
اگرڈپارٹمنٹ سے باہر کا کوئ پی ایچ ڈی کو آپریٹو ٹیچر کے طور پہ کام کرنے کے لئے آ بھی جائے تو سینیئر اساتذہ اپنی سازشی ذہانت کے وہ کرشمے دکھاتے ہیں کہ وہ بھاگ لینے میں ہی عافیت جانے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جامعہ میں سینیئر اساتذہ کی زیادہ تر کھیپ اوسط سے نیچے کی صلاحیتوں پہ مبنی اشخاص کی ہے جو ذرا بھی با صلاحیت شخص سے ڈر جاتے ہیں۔
تو ان بےچارے کوآپریٹو اساتذہ یا طالب علموں کو سینیئرٹیچر کے آگے دم مارنے کی بھی مجال نہیں ہوتی کیونکہ اوّل انکی تعلیمی استطاعت ہی نہیں ہوتی  دوئم یہ کہ باہر کی دنیا کا کچھ تجربہ بھی نہیں ہوتا سوئم یہ کہ اپنے استاد کے آگے کوئ کیسے  دم مار سکتا ہے لازماً اسے انکے کرپشن میں شامل ہونا پڑتا ہے۔
سمسٹر کے شروع میں ہر سینیئرٹیچر اپنی مرضی کا کورس لیتا ہے اور اپنی مرضی کا کو آپریٹو ٹیچر تاکہ اس کارسوخ مضبوط رہے۔  اور وہ ایک ہی رٹے ہوئے کورس کو سالوں پڑھاتا رہے، اپنی کاہلی اور کم علمی کی وجہ سے زیادہ محنت نہ کرے۔  یہ سینیئر اساتذہ جس سیاسی پارٹی کی لابنگ کرتے ہیں کو آپریٹو ٹیچر کو بھی اسکی کرنی پڑتی ہے۔ اوریہی چیز سیاسی پارٹیوں کی مضبوطی کا باعث بھی بنتی ہے۔ اگر نہ کریں تو ہر برے نتائج کا الزام اس پہ جائے۔  اس لئے اس امر پہ حیرت نہیں ہونی چاہئیے کہ اتنی بڑی یونیورسٹی میں کو آپریٹو ٹیچرز ، مستقل اساتذہ سے تعداد میں زیادہ رہتے ہیں۔
انہی کو آپریٹو ٹیچرز کی وجہ سے سلیکشن بورڈ میں تاخیر ہوئ چلی جاتی ہے۔ کیونکہ اس طرح کو آپریٹو ٹیچر کا مدت تجربہ بڑھتا رہتا ہے اور سینیئر اساتذہ چالاک عقابوں کی طرح اس پہ نظر رکھے رہتے ہیں کہ انکے امیدوار کو لانے کے لئے کون سا موقع مناسب ہے اس وقت سلیکشن بورڈ بٹھایا یا یہ کہ اس دوران انکا امیدوار ہر جائز نا جائز طریقے سے ایم فل یا پی ایچ ڈی کر لے تاکہ اس کا سی وی بہتر ہو جائے۔ 
ادھر کو آپریٹو ٹیچر بھی امید کے سہارے دن گذارے جاتا ہے۔ حالانکہ یونیورسٹی کے قواعد کی رو سے جیسے ہی کسی ٹیچر کی جگہ خالی ہو اس کے لئے سیلیکشن بورڈ ہونا چاہئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دس  دس سال تک ایک کو آپریٹو ٹیچر کام کئے جاتا ہے۔
پانچ ، چھ سال تک سلیکشن بورڈ کا نہ بیٹھنا ایک معمول کی کارروائ ہے۔ اس سال جو سلیکشن بورڈ بیٹھا وہ چھ سال کے بعد بیٹھا تھا۔  دلچسپ امر یہ ہے کہ زیادہ تر کو آپریٹو ٹیچرز فیل ہو گئے۔ یہ فیل ہونے والے کو آپریٹو ٹیچرز گذشتہ چھ سال سے پڑھا رہے تھے اور ہم امید کر رہے تھے کہ جامعہ کراچی پاکستان کے دس بہترین تعلیمی اداوں میں آئے گی۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ فیل ہوجانے والے یہ امیدوار پھر بھی کو آپریٹو ٹیچر کے طور پہ اپنا کیریئر جاری رکھتے ہیں۔ 
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے، تاریکی  کی وجہ ، وہ اجتماعی شعور  ہے جو تمام خود غرض اور مفاد پرست لوگوں کے اتحاد کا نتیجہ ہے اور نظام پہ حاوی ہے۔