اگر آپ عنوان دیکھ کر یہاں آئے ہیں تو مایوسی ہوگی۔ میں اس پہ کچھ نہیں لکھ رہی۔ محض دل پشوری ہے۔ جسٹ اے مارکیٹنگ ٹِرک۔ مجھ سے پہلے بھی کچھ لوگ یہ حرکت کر چکے ہیں۔ اس لئے اس میں کوئ تخیل کی پرواز نہیں ہے۔ کوئ وعظ بھی نہیں ہے۔
اور اگر اس عنوان کے سہارے کچھ بھی پڑھنے کے لئے تیار ہیں تو یقین رکھیں کہ آج آپکو کچھ مزے کا پڑھنے کو ملے گا۔ کیونکہ آج جن صفحات میں آپکو شریک کرنا چاہ رہی ہوں۔ وہ منٹو سے متعلق ہیں۔ لکھا ہے اسے منشا یاد صاحب نے ادبی سلسلے دنیا زاد کے بائیسویں شمارے ، سیاہ تارہ میں یہ شائع ہوا ہے۔ اسکے ایڈیٹر ہیں جناب ڈاکٹر آصف فرخی۔
اور اگر اس عنوان کے سہارے کچھ بھی پڑھنے کے لئے تیار ہیں تو یقین رکھیں کہ آج آپکو کچھ مزے کا پڑھنے کو ملے گا۔ کیونکہ آج جن صفحات میں آپکو شریک کرنا چاہ رہی ہوں۔ وہ منٹو سے متعلق ہیں۔ لکھا ہے اسے منشا یاد صاحب نے ادبی سلسلے دنیا زاد کے بائیسویں شمارے ، سیاہ تارہ میں یہ شائع ہوا ہے۔ اسکے ایڈیٹر ہیں جناب ڈاکٹر آصف فرخی۔
یہ مضمون اپنے اسلوب میں مزاح اور طنز رکھتا ہے۔ لیکن جس چیز کی طرف میری توجہ زیادہ گئ۔ وہ منٹو کی ایک معصوم سی فرمائیش ہے ایک چھوٹےسے ایٹم بم کی۔ کس واسطے؟
اب دیکھیں منٹو صاحب نے جس سلاست اور روانی سے یہ فرمائیش کی ہے۔ اگر میں لکھوں تو، زن آزاد، روشن خیال کافر اور پڑھی لکھی جاہل قرار پاءوں۔ اس سے اشارہ سمجھنے والے سمجھ جائیں گے کہ بڑا ادیب آخر کیسے جنم لیتا ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ انیس سو اسّی سے پہلے کا پاکستان کیا زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ ترقی یافتہ تھا یا نہیں، البتہ اس زمانے میں مرد لکھاریوں کا پسندیدہ موضوع خواتین کا پردہ اورانکے شرعی فرائض نہیں ہوتے تھے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ انیس سو اسّی سے پہلے کا پاکستان کیا زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ ترقی یافتہ تھا یا نہیں، البتہ اس زمانے میں مرد لکھاریوں کا پسندیدہ موضوع خواتین کا پردہ اورانکے شرعی فرائض نہیں ہوتے تھے۔
منٹو صاحب کا یہ خط اس میں انگریزی میں موجود ہے۔ اسکے مطابق انہیں ایک چھوٹا سا ایٹم بم چاہئیے ان مردوں کے لئے جو سڑک کے کنارے قدرتی ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں۔ اسکے لئے وہ کیا اہتمام کرتے ہیں اسے میں اردو میں ترجمہ نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن اپنے چند نامی گرامی بلاگرز سے جنہیں ان موضوعات سے دلچسپی ہے درخواست کرونگی کہ ایک نظر ادھر بھی۔ اس کا ترجمہ وہ اپنے بلاگ پہ شائع کر سکتے ہیں۔ اس سے حاصل ہونے والی شہرت پہ میں کوئ دعوی نہیں کرونگی۔ اس کا اعجاز منٹو صاحب کو جاتا ہے یا منشا یاد کو۔ میری حیثیت تو محض پیمبر کی سی ہے۔ وہ بھی وہ، جسکے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے