Showing posts with label معاشرہ. Show all posts
Showing posts with label معاشرہ. Show all posts

Monday, October 1, 2012

ڈنگ ڈونگ

ہر اچھا اور برا وقت گذر جاتا ہے کل کا دن بھی گذر گیا۔ ایک اور چبھتی ہوئ یاد۔ فیس بک پہ اب تک اسکی  چبھن باقی ہے۔ جب بھی ہم روائیتی حریف کے سامنے ہوتے ہیں دنیا کو لگ پتہ جاتا ہے کہ آج  کیا ہونے والا ہے۔ کسی زمانے میں شیر کی آ٘د کا پتہ رن کے کانپنے سے چلتا تھا۔ کس شیر کی ٘آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے اب یہ کام میڈیا انجام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب روڈ پہ سے گذری تو حیران تھی کہ اتنا چھوٹا شامیانہ لگا کر اور اتنی ساری کرسیاں بچھا کر کس تقریب کا اہتمام ہو رہا ہے۔ نوجوان اب بھی ایم کیو ایم کے اتنے دیوانے ہیں۔ واپسی پہ معمہ حل ہوا،  شامیانے کا سائز اسکرین کے سائز جتنا تھا اور کرسیاں ہی کیا لوگ اسکے چاروں طرف کھڑے تھے۔ 
گھر واپس آکر دیکھا کہ لاءونج کا صوفہ ٹی وی سے ایک نامعقول فاصلے پہ رکھا ہوا ہے اور آگے پیر ٹکانے کے اسٹول رکھے ہوئے ہیں۔ آنکھیں جمی ہیں، میچ چل رہا ہے۔
مجھے تو ٹی ٹوئینٹی میچ  کرکٹ کا ساشے پیکٹ لگتا ہے۔ آخر اسکے لئے گیارہ کھلاڑیوں کی کیا ضرورت ہے؟ یعنی رومال بنانے کے لئے پورا تھان لیں۔ یہ اسی صورت نظر انداز کیا جا سکتا ہے جب فیس بک اور ٹوئٹر بھی ساتھ ساتھ رواں دواں ہوں۔ 
فیس بک سے اندازہ ہوا کہ میچ میں پاکستان کی ہار کا منظر ابھرتے ہوئے ہی کچھ کمزور دل حضرات ٹی وی کے آگے سے اٹھ گئے۔ کچھ نے جائے نماز سنبھالی لیکن میچ کے اختتام پہ کچھ دہرئیے والے کلمات کہتے پائے گئے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو سوچنا چاہئیے کہ انکی وجہ سے کچھ لوگ دعا اور رب دونوں سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ جسکا عذاب انکے سر پہ ہوگا۔ کچھ خواتین رونے لگ گئیں اور کچھ کے بچوں کی شامت آئ یعنی طویلے کی بلا بندر کے سر۔ اس دلچسپ صورت حال کی عکاسی کے لئے میں نے کچھ اسٹیٹس چوری کئے ہیں۔ حاضر ہیں۔
Feel like giving two chammats to the team

Kia game on hai? I didnot feel do :(

کوئ بات نہیں، بچہ سمجھ کر جیت دے دی، اگلی باری میں دیکھنا۔
پس ثابت ہوا کہ ٹُلّر ہر واری نہیں چل سکدا۔

اور جیسا کہ میں میچ شروع ہونے سے پہلے کہہ چکا تھا نتیجہ وہی نکلا
 
Chalo toss hu, jeetay or match tum! Baat baraber hoi :)
 
Lo Ji,
Pakistan har gaya.
Allah Hafiz
To boost the performance levels for time being, Pakistani team must presume for time being that they are working in a 3 hour long commercial
Prepare yourself for this song.

Tum Jeeto yaan haaroo
sunooooo
humain tum say piyar ha
 
Shahid Afridi didn't work, lets send Shakeel Afridi with polio drops, and then a drone attack + seal operation on top of that. All over!
 
اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہوگی فراز 
ہم جیتیں تو وارم اپ، وہ جیتیں تو سپر 8 

کس عقیدت سے آئوٹ ھوتے ھیں

واہ وا واہ

کس عقیدت سے آئوٹ ھوتے ھیں
ھار جانا ثواب ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ھو جیسے

کیا رحمان ملک پاک بھارت میچ کا سودا کرنے گیا؟ رقم بٹورنے کا اچھا موقع سمجھتے ہوے؟
پاکستانی ٹیم کو کسی کوچ کی نہیں، بلکہ ایک اچھے سائیکیٹریسٹ کی ضرورت ہے۔
اور قارئِن، اس دھلائ سے فارغ ہو کر لوگ ایک دفعہ پھر خداکی طرف رجوع کرتے ہیں۔ کیوں؟ یہ نہیں معلوم۔
I am watching Madni Tv now !!!
میری دلچسپی تو کرکٹ میں اس وقت سے ختم ہو گئ ہے جب سے پاکستان میں کرکٹ کرپشن اپنے عروج پہ پہنچا۔ لیکن اس دفعہ جس چیز کی وجہ سے مجھے بار بار اسکرین کو دیکھنا پڑا۔ وہ ڈنگ ڈونگ کا اشتہار ہے۔ میرے بچپن سے یہ اب میری بیٹی کے بچپن تک آپہنچا۔ جب اشتہار اختتام پہ پہنچتا ہے تو بلی چوہوں کی پٹائ لگانے کے بعد اپنا ڈنگ ڈونگ ببل کا ذخیرہ لیتی ہے اور وہی سونگ گاتی ہے۔ میں سوچتی تھی کہ یہ نہیں پتہ چلتا کہ کون سا سونگ گاتی ہے؟ کچھ عرصے بعد ایک خیال آیا کہ یہ ڈنگ ڈونگ گاتی ہے۔ اب بھی یقین نہیں کہ یہ خِال درست تھا یا غلط۔
 اس میچ کے دوران ڈنگ ڈونگ ببل کا اشتہار پاکستان کی مختلف زبانوں میں آتا رہا۔
اور میں ہر دفعہ کمپیوٹر اسکرین سے نظریں پھیر سنتی کہ یہ اب کون سی علاقائ زبان ہے اور اس میں کیا الفاظ استعمال ہوءے ہیں۔ لیکن کل سے پہلے شاید ہی کبھی شک ہوا ہو کہ یہ اشتہار یا تو یہودیوں نے بنایا ہے یا پھر را کے ایجنٹوں نے۔ ایک مبصر کا کہنا تھا کہ ہر کھلاڑی کے آءوٹ ہونے پہ یہ اشتہار آیا اور بلی خوشی سے ناچتی پھری۔ بعض حقائق بڑی دیر سے پتہ چلتے ہیں۔


اب پھر ایک سوال ذہن میں ہے۔ اگر بلی نے چوہوں کی پٹائ لگائ اور ڈنگ ڈونگ لے کر اس نے پھر وہی سونگ گایا۔ تو اس دفعہ اس نے کون سا سونگ گایا؟ جواب منتخب کریں۔
۱
ڈنگ ڈونگ
۲
تم جیتو یا ہارو
سنو
ہمیں تم سے پیار ہے
۳
لخ لعنت

Monday, September 17, 2012

توہین کا غم

جہاں تین سو لوگ ایک دن میں جل کر مرجائیں اور کوئ سنوائ نہ ہو کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ مزدوروں کے حق میں کوئ تحریک نہ چلے۔ محنت کشوں کے لئے موجود ہمارے پالیسی سازوں کے اونچے اونچے محلوں پہ پتھر مارنے کے لئے ایک ہاتھ حرکت میں نہ آئے۔  جہاں ایک فلم  بننے کے ایک سال بعد اااس وقت اس پہ احتجاج شروع ہو جس وقت اسکا عربی ورژن ریلیز ہو۔ یہی نہیں بلکہ لوگ  سوشل میڈیا پہ یہ پیغام شیئر کر رہے ہوں کہ توہین پیغمبر کی سزا ، بس سر سے تن جدا، بس سر سے تن جدا، بس سر سے تن جدا۔ جہاں اس بات پہ خوشی منائ جارہی ہو کہ کراچی میں سفارت خانے پہ حملے میں ضائع ہونے والی جان، دراصل بازی لے جانے والے شخص کی ہے۔
ایسے زمانے میں چھٹی کا دن اور اس سے منسلکہ تفریح اسکے علاوہ کیا رہ جاتی ہے کہ آپ گھر میں سوئیں اور سوتے ہی رہیں۔ مر جائیں مرنے سے پہلے۔
لیکن اس اتوار میں نے یہ نہیں کیا۔ میں کسی بھی اتوار کو یہ کرنا پسند نہیں  کرتی۔ جب سے مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ زندگی انسان کی وہ سب سے قیمتی شے ہے جو اسے دوبارہ نہیں ملے گی۔ صرف ایک بارملے گی۔ اس احساس کے بعد سونا کافی مشکل لگتا ہے۔ ذرا سوچیں اس ایک زندگی میں وہ کیا دلچسپ کام ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ جن سے کسی کو کوئ نقصان نہیں۔ جن سے کسی کی توہین نہیں ہوتی، جن سے دل تشکر کے احساس سے بھر جاتا ہے کہ خدا نے ہمیں زندگی جیسی نعمت سے نوازا۔ 
میں  کتابوں کی ایک دوکان پہ چلی گئ۔ یہاں نئ کتابیں کم اور پرانی زیادہ ہوتی ہیں۔ کتنی پرانی؟ اسکا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ علامہ راشد الخیری کے ایک رشتے دار کے ہمراہ اس دوکان پہ موجود تھے۔ وہاں انیس سو تیس میں چھپنے والی انکی سوانح عمری مل گئ۔ جس میں ان صاحب کے دادا کے بچپن کی تصویریں بھی شامل تھیں۔
کتابیں چھانتے ہوئے، ایک کتاب نظر آئ جس پہ مصنف کا نام لکھا تھا، مرزا غلام احمد۔ میں نے سوچا یہ تو کچھ سنا سنا سا نام لگتا ہے۔ ہاتھ میں اٹھا کر دیکھا تو یاد آیا کہ فیس بک پہ روزانہ ہی ان کے دین سے ہشیار کروایا جاتا ہے۔ اور میں انہی کا نام بھول گئ۔ مجھے یقین ہے کہ میں آخری عمر میں الزائمر کا شکار ہونگی۔ اسے اٹھا کر رکھ دیا۔ اپنے مذہب کی تفصیلات یاد نہیں رہتیں، انہیں پڑھ کر کیا کرونگی جبکہ دنیا میں ہر روز کے حساب سے دلچسپ باتیں علم میں آتی ہیں۔
اسی ڈھیر میں  میں ایک اور کتاب مرزا بشیر احمد کی تھی۔ یہ بھی ایک دم خستہ حال ہو رہی تھی۔ جسے ان کتابوں کے حوالے دینا ہوں وہ خریدے۔  یہ سوچ کر ہنسی آئ کہ  قادیانیوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کو معلوم نہیں انکا لٹریچر، لوگوں کی لا علمی کی وجہ سے ابھی تک دوکانوں پہ موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دوکاندار نے بھی کبھی ان کتابوں میں دلچسپی نہ لی ہوگی۔ شاید اسے معلوم ہی نہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کا لٹریچر رکھتا ہے۔ اور اگر معلوم ہوا بھی تو اس نے سوچا ہوگا کہ جیسے اور لوگ اپنا دینی لٹریچر خریدتے اور پڑھتے ہیں ایسے ہی کوئ قادیانی بھی خرید لے گا۔ اسے کیا، یہ اس کا کاروبار ہے۔ جیسے فیکٹری میں کام کرنے والوں کو اس علم سے کیا غرض تھی کہ اگر آگ لگی تو وہ وہاں سے زندہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہونگے یا نہیں۔  انہیں کام چاہئیے تھا اور اسکے بدلے میں پیسے۔
وہاں ایک اور کتاب موجود تھی جس میں بتایا گیا تھا کی آغا خان اسمعیلیوں کے خدا کیسے؟ میں نے ایک نظر اس پہ ڈالی۔ آغا خانی ہمارے یہاں کی امیر  ترین اقلیت ہیں۔ کوئ انکو کافر قرار دے کر مار سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا؟  اس میں بھی  آغا خانیوں کے دین پہ لعنت بھیجی گئ تھی۔ لیکن شاید ننانوے فی صد آغا خانیوں کو اردو لٹریچر پڑھنے سے کوئ شغف نہیں۔  
نئ کتابوں پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے میری نظر ایک کتاب پہ رکی۔ یہ خوشگوار اسلامی ازدواجی تعلقات پہ تھی۔ مجھے خیال آیا کہ ایک دوست کی شادی ہونے والی ہے انہیں تحفے میں دی جا سکتی ہے۔ لیکن پہلے اسے کھول کر تو دیکھوں کہ اس میں لکھا کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ایسی کتابوں میں اسلام کے حوالے سے کیا لکھا ہوتا ہے۔ اسلام کس طرح ازدواجی تعلقات کو خوشگوار بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔
میں نے کتاب درمیان سے کھول لی۔ کس قسم کی عورت سے شادی کرنی چاہئیے؟ یہ صفحہ میرے سامنے تھا۔ احادیث اور قرآنی آیات کے حوالے موجود۔  مصنف نے جو کوئ مولانا تھے حدیث سے ثابت کیا کہ ویسے تو رسول اللہ نے دیندار عورت کو ترجیح دینے کو کہا ہے لیکن عورت کا خوب صورت ہونا ضروری ہے اگر عورت خوب صورت نہ ہو تو شوہر کا دل دوسری عورتوں میں لگا رہے گا۔ جسے سفید رنگت اور خوب صورت آنکھوں والی عورت دنیا میں مل گئ جو اپنے شوہر کا خیال رکھتی ہو اسے گویا دنیا ہی میں حور مل گئ۔
ان کے نزدیک عورت کا کنوارہ ہونا ضروری ہے۔ بیوہ  یا طلاق یافتہ عورت کا دل اپنے پہلے شوہر کے خیال میں ڈوبا رہتا ہے اور وہ دوسرے شوہر کے حقوق خوشدلی سے پورے نہیں کر سکتی۔ بکواسو، میں نے سوچا۔ جس پیغمبر نے اپنے سے پندرہ سال بڑی ایک بیوہ عورت کے ساتھ اپنی نوجوانی کے پچیس سال گذارے ہوں اور جسکی صرف ایک بیوی کنواری اور باقی سب پہلے سے شادی شدہ ہوں اسکے نام پہ یہ بات کرنا جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔ آگے صفحے پلٹتی ہوں۔
بانجھ عورت سے شادی نہیں کرنی چاہئیے۔  رسول اللہ سے منسوب ایک حدیث کے حوالے سے بتایا گیا کہ اگر کسی عورت کے متعلق پہلے سے پتہ ہو کہ وہ بانجھ ہے تو اس سے شادی نہ کرو۔ میرا دل ٹوٹ  سا گیا۔ میں نے وہ کتاب بند کر کے وہیں واپس رکھ دی۔
میں ایک عورت ہونے کے ناطے سوچتی ہوں۔ کیا میں صرف بچے پیدا کرنے کا ایک آلہ ہوں۔ کیا میرے جذبات نہیں، خواہشات نہیں۔ کیا بانجھ عورت کو شادی کا حق نہیں جبکہ وہ جسمانی طور پہ ایک دم درست ہو؟
کیا یہ منسلکہ حدیث صحیح ہو سکتی ہے؟ آخر ہمیں کیوں تامل ہے کہ حدیثوں کے ذخیرے میں بہت غلطیاں ہیں جن سے لوگ اس ہستی کا مذاق اڑاتے ہیں جس کے لئے آپ  کو کسی کا سر تن سے جدا کرنے میں کوئ عار نہیں۔  
میں کتاب کی دوکان سے واپس آئ، اور اب میرے دماغ میں آگ سے پیچھا چھڑانے والے لوگوں کی چیخوں کے ساتھ اس عورت کا غم بھی شامل ہے جو بانجھ ہے، بچے پیدا نہیں کر سکتی اور کوئ اس سے شادی بھی نہیں کر سکتا۔ گو غم اور چیخ، سانجھے ہیں لیکن کچھ انسان اپنی توہین کروا کر غمزدہ رہنا کیوں پسند کرتے ہیں؟  

Thursday, September 13, 2012

انا للہ

ٹورنٹو میں، میں کچن میں انڈہ فرائ کر رہی تھی۔ فرائ پین  سے دھواں اٹھا ہی تھا کہ ایک الارم بجنے کی آواز سارے گھر میں پھیل گئ۔ میں نے حیران ہو کر سوچا کہ یہ کس قسم کا الارم بجا اور کیوں؟ گھر کے ایک فرد کی آواز سنائ دی کہ کچن کے  باہر لاءونج میں چھت پہ سینسر موجود ہے اسکے پاس بٹن پہ ہاتھ مار دیں۔ الارم بند ہوجائے گا۔ دھویں سے بجا ہے اور بار بار بجے گا۔
کنیڈا میں جنگل اور یوں  لکڑی بہت ہے۔ گھر زیادہ تر لکڑی کے بنے ہوتے ہیں۔ اگر سیمنٹ اور اینٹ سے بنائے جائیں تو بھی اندرونی آرائش میں لکڑی استعمال ہوتی ۰ہے اس طرح شدید سردیوں میں یہ گرم رہتے ہیں۔ لکڑی جلدی آگ پکڑتی ہے اس پہ طرہ یہ کہ بجلی وافر مقدار میں دستیاب ہونے کی وجہ سے چولہے زیادہ تر بجلی کے ہوتے ہیں۔ روائیتی چولہوں سے الگ یہاں موجود جدید چولہوں پہ شیشے کی طرح کے مادے کی ایک تہہ موجود ہوتی ہے۔ یہ چولہے دیکھنے میں اور استعمال میں سادہ ہوتے ہیں  ان سے تپش بھی آسانی سے کنٹرول ہوتی ہے، آگ کے شعلے بھی نہیں ہوتے اس لئے نسبتاً محفوظ ہیں۔  لیکن سب سے بڑا خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب انہیں بند کرنا بھول جائیں۔ مسلسل جلتے رہنے کی صورت میں یہ آتشزدگی کا باعث بن سکتے ہیں اس لئے ہر گھر میں آگ کا الارم موجود ہوتا ہے۔
یہی نہیں، کثیر المنزلہ بلڈنگزمیں نہ صرف الارم موجود ہوتے ہیں بلکہ ہر تھوڑے عرصے بعد آگ لگنے کا مصنوعی ڈرامہ رچا کر مکینوں کو اپنے اپارٹمنٹس سے بھاگ کر کم وقت میں نیچے پہنچنے کی مشق بھی کرائ جاتی ہے۔ ابھی دو ہفتے پہلے میں اسکائپ پہ اپنی ایک کینیڈا میں مقیم دوست سے بات کر رہی تھی تو پھولی ہوئ سانسوں کے درمیان انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی آگ لگنے کی مشق سے واپس آرہی ہیں۔ انکا اپارٹمنٹ گیارہویں منزل پہ ہے۔ جہاں سے انہیں سیڑھیوں کے راستے بھاگنا پڑا۔

ایسی بلڈنگز میں یہ الارم فائر بریگیڈ کے محکمے سے جڑے ہوتے ہیں۔ خطرے کی پہلی علامت کے چند منٹوں کے اندر یہ جائے واقعہ پہ موجود ہوتے ہیں۔ میرے ایک عزیز نے اپنے اپارٹمنٹ میں پوری پکانے کا واقعہ بتایا، جس کا دھواں اپارٹمنٹ سے نکل کر کوریڈور میں پھیل گیا تھا۔ گھر میں موجود کسی مہمان نے نادانستگی میں اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول دیا تھا۔  چند منٹ میں فائر بریگیڈ کی دو گاڑیاں اور ایک ایمبولینس موجود تھی جبکہ پوری بلڈنگ کے لوگ باہر نکال دئیے گئے تھے۔
اصل واقعہ پتہ چلنے کے بعد انہیں ان تینوں گاڑیوں کے آنے جانے کا خرچہ دینا پڑا۔
یہ واقعات بتانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ کراچی میں ایک فیکٹری میں تین سو سے زائد لوگ، فیکٹری میں آگ سے جل کر مر جائیں۔ تین سو انسان جن سے جڑے تین سو خاندان بھی تھے۔ ابھی بھی مرنے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ دماغ کو گھما دینے والے اس سانحے کے بعد مجھ جیسے لوگ جو بیرون ملک یہ سب دیکھ کر آتے ہیں انہیں کیا یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم کس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔
 ذرا چشم تصور سے اس انسان کی بے بسی دیکھئیے جو کہ ایک ایسی کھڑکی کے سامنے تین منزل اوپر سے کود کر جان بچانے کی فکر میں ہو جسکے آگے لوہے کا ایک جنگلہ اسے زندگی سے دور کرنے کے لئے موجود ہو۔ اور دنیا میں کوئ ایسی طاقت، کوئ ایسا نظام موجود نہ ہو جو اسے کھڑکی سے نظر آنے والی،  سامنے موجود کھلی فضا میں لے جا سکے۔
سچ پوچھیں تو مجھ سے اس پہ انا للہ و انا الیہ راجعون بھی نہیں پڑھا جاتا۔ کیا میں خدا کے پاس اس طرح واپس جانا چاہتی ہوں، ایسی بے کسی ، بے بسی اور تکلیف کی موت۔
ہم اس شہر کے مکین، ایک ہی محلے سے سترہ جنازے اٹھنے کے بعد، اپنی ہر قسم کی مصروفیت میں بھی مسلسل  یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا ہم کسی ایسے واقعے کے دوبارہ پیش آنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
جواب یہ ہے کہ محفوظ رہ سکتے ہیں اگر ہم یہ جان لیں کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا اور ان وجوہات کے تدارک کے لئے کام کریں۔
یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟
اسکی مختلف ممکنہ وجوہات بتائ جارہی ہیں۔
نمبر ایک، بجلی فراہم کرنے والے جنریٹر میں خرابی کی وجہ سے آگ لگی۔  بجلی کی شدید کمی اب ہمارے لئے کوئ راز کی بات نہیں۔  عوام نے اس کا حل جنریٹرز میں ڈھونڈھا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف جنریٹرز در آمد کرنے کے ایک نئے کاروبار کو وسعت ملی اور اس سلسلے میں ایک نئ مارکیٹ وجود میں آئ وہاں حکومت بھی کسی دباءو سے آزاد ہو گئ۔ جب لوگوں نے اپنی پریشانیوں کے حل نکال ہی لئے ہیں تو حکومت کو کیا ضرورت کے وہ بجلی پیدا کرنے کے نئے منصوبے بنا کر بجلی پیدا کرنے والے ان جنریٹرز کی در آمد کرنے والے لوگوں کے پیٹ پہ لات مارے۔ انکے روزگار کو بند کرنے کے امکان پیدا کرے۔ حکومت اس سلسلے میں خاصی عوام دوست واقع ہوئ ہے۔
کراچی میں ایسی درجنوں مارکیٹس ہیں جہاں بجلی کی عدم موجودگی میں دوکانوں میں موجود جنریٹرز کام کرتے ہیں ، یہ عمارتیں ایک دم بند ہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں یہاں حد سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہو سکتا ہے۔ مثلاً گل پلازہ، صدر یا رابی سینٹر، طارق روڈ۔ ایک عام دن میں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے وقت جب یہ جنریٹرز چلنا شروع ہوتے ہیں تو ان مارکیٹس کے اندر سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔
دوسری اہم وجہ یہ بتائ جاتی ہے کہ تنخواہ بانٹنے کا دن تھا اور سیکوریٹی کی وجہ سے تمام داخلی دروازے بند کر دئے گئے تھے اسکے علاوہ، سیکیوریٹی کی ہی وجہ سے کھڑکیوں پہ لوہے کے جنگلے موجود تھے۔
جانی و مالی سیکیوریٹی اس وقت ہمارے ملک کے سر فہرست مسائل میں سے ایک ہے۔ اسکی وجہ سے غیر ملکی تو دور ملکی سرمایہ کار کاروبار کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔ اور اسکی وجہ سیاسی اور معاشی دونوں ہیں۔ سیاسی سطح پہ لوٹ مار کرنے والے مجرمان کو نہ پکڑا جاتا ہے اور نہ انہیں سزا ہوتی ہے۔ یہ مجرمان جو ہر سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ معاشی سطح پہ ایسے ذرائع موجود نہیں جو لوگوں کو روزگار دیں نتیجتاً وہ لوٹ مار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اسکی وجہ معاشرتی بھی ہے۔ ایک ایسے نظام میں جہاں لوٹ مار ہر سطح پہ موجود ہو اور لوگ اخلاقی اصولوں کی پامالی کرے ذرا نہ گھبراتے ہوں۔ وہاں اندھیر نگری ہی جنم میں آتی ہے۔ یہ سب عوامل لوگوں میں انکے سرمائے کے لئے عدم تحفظ پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ نظام انہیں تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے اس لئے وہ اپنے تئیں اسی طرح کے حل نکالتے ہیں۔ یہ فیکٹری ہی کیا خود میرے گھر کی ہر کھڑکی پہ لوہے کا جنگلہ موجود ہے۔ 
یہاں مجھے ایک دفعہ پھر کینیڈا یاد آتا ہے جہاں گھروں کی کھڑکیوں پہ کسی بھی قسم کے جنگلے کا تصور نہیں۔ یہی نہیں بلکہ گھر کے باہر چہار دیواری کا تصور کوئ خاص نہیں۔ انہیں فکر نہیں کہ لوگ باہر سے انکا گھر اور گھر والی دیکھ لیں گے۔ اگر کوئ سڑک  دیکھے تو اندازہ تک نہ ہو کہ کون سا گھر کہاں ختم ہو رہا ہے۔ گھر کے اطراف میں جو کھلے صحن ، گیراج یا ڈرائیو وے موجود ہیں اس میں بچوں کے کھلونوں سے لے کر گاڑیاں تک سبھی چیزیں پھیلی رہتی ہیں لیکن کوئ چیزوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ لوگ  صرف وہی چیزیں اٹھا سکتے ہیں جو گھر کے باہر فٹ پاتھ پہ موجود ہوں۔
تیسری اہم وجہ اس قسم کی فیکٹریز کا فائر بریگیڈ سے کوئ ڈائریکٹ تعلق نہ ہونا ہے۔
چوتھی اہم وجہ فیکٹریز میں آگ بجھانے کے آلات کا نہ ہونا اور مزدروں کو اس بات کی تربیت نہ ہونا ہے کہ ان آلات کو بوقت ضرورت کیسے استعمال کیا جائے۔ اور نہ ہی انکی اس بات کی تربیت ہونا کہ ایمرجینسی کی صورت میں وہ کس طرح کم سے کم وقت میں فیکٹری کو خالی کر سکتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ فیکٹری مالکان مزدوروں کے تحفظ کی فکر نہیں کرتے اور اس پہ اپنا سرمایہ خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ اخباری اطلاع یہ بھی ہے کہ مشرف دور کے بعد سے سندھ میں ملز کی اس طرح کی انسپکشن نہیں ہوئیں جن میں مل کے مزدوروں کو دئے گئے ماحول پہ رپورٹ بنتی اور اسکے لئے وزیر اعلی قائم علی شاہ نے انکار کر دیا تھا۔
 اس نکتے سے اس واقعے کو دیکھئیے۔ اس فیکٹری سے زیادہ تر مصنوعات باہر کے ممالک جاتی تھیں۔ یہ خاصی بڑی فیکٹری تھی۔ آتشزدگی کے نتیجے میں یہ فیکٹری مکمل طور پہ تباہ ہو چکی ہے۔ اس میں موجود تمام مال ختم ہو چکا ہے۔ خود مل مالکان پہ چونکہ لاپرواہی کا مقدمہ دائر ہے اس لئے وہ اپنی جان بچانے کو فرار ہیں۔  اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر محنت کش کو یا مزدور کو تحفظ نہیں دیں گے تو سرمایہ اور سرمایہ کار دونوں ہی داءو پہ لگے رہیں گے۔ پھر مل مالکان، وقتی فائدے کے لئے دور کی کیوں نہیں سوچتے؟ اگر وہ یہ سوچتے کہ وزیر اعلی جائے بھاڑ میں ہم اپنی فیکٹری میں یہ انتظام رکھیں گے کہ مزدوروں کو پتہ ہو کہ آگ لگنے کی صورت میں انہیں آگ کیسے بجھانا ہے۔ ایمرجینسی میں نکلنے کے راستے کون سے ہونے چاہئیں۔ فیکٹری میں مختلف سامان کی اسٹوریج کیسی ہونی چاہئیے کہ کسی حادثے کے پیش آنے کی صورت میں کم سے کم نقصان ہو۔ تو یہ فیکٹری آج بھی چل رہی ہوتی۔
کیا اسکی وجہ یہ ہے کہ عام طور پہ لوگ کسی حادثے کے لئے نہ ذہنی طور پہ تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی اسکے لئے کوئ متوقع لائحہ ء عمل سوچ کر رکھتے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ بس ہر چیز اللہ کے کرم سے درست رہے گی۔ اس حادثے کی ایک اور وجہ کاروباری طرز فکر کی غیر موجودگی بھی نکلتی ہے۔ وہ طرز فکر جو یہ سمجھ دے کہ محض مال اور سیٹھ کا رشتہ ہی اہم نہیں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی اہمیت رکھتے ہیں جو مال اور سیٹھ کے درمیان تعلق قائم رکھتے ہیں۔ انہیں تحفظ دئیے بغیر کیسے کوئ اپنی جان اور اپنے مال کا تحفظ کر سکتا ہے۔
اس طرح،  اس واقعے کے پیش آنے کی کوئ ایک وجہ نہیں ہے۔ اس میں پورا نظام شامل ہے کیونکہ پورا نظام منفی طرز فکر پہ چل رہا ہے۔ اس لئے جب کوئ حادثہ ہوتا ہے تو اتنا ہی اندوہناک ہوتا ہے کہ ذہن اسے تسلیم کرنے میں بھی وقت لیتا ہے۔ نہیں معلوم کہ فکر کی اس نہج کو تبدیل ہونے کے لئے کتنی جانوں کی قربانی دینی ہوگی۔ بے شک ہمیں پلٹ کر اللہ ہی کی طرف جانا ہے۔ لیکن قتل کا سامان کرنے والوں کو جہنم رسید کرنے کے بعد یا خود جہنم کا ایندھن بننے کے بعد۔

Saturday, September 8, 2012

شاعر کا پروگرام

شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی نے ایک نہایت غیر انقلابی حرکت کی یعنی کہ مر گئے۔ یہ جملہ پڑھ کر ایک زیر لب مسکراہٹ ابھری اور نظر آگے بڑھ گئ۔  خواجہ احمد عباس نے یہ تحریر جوش صاحب کے متلعق لکھی اور مزے کی تحریر ہے۔  لکھتے ہیں کہ انکی شاعری  اور انکی ذات میں اتنا جوش، جوانی اور تازگی تھی کہ لگتا تھا کہ وہ اپنا برا چاہنے والوں کو مار کر مریں گے۔
شاید اس لئے کہ جوش صاحب نے ایک دفعہ دعا مانگی کی کہ
معشوق کہے کہ آپ ہمارے ہیں بزرگ
وہ دن ہمیں یارب نہ دکھانا ہر گز
بڑے لوگوں کی باتیں بڑی۔ انکا تذکرہ بھی کریں تو بات میں خود بخود گلاب کھلتے ہیں۔ اپنی شعر گوئ کے بارے میں جوش کا خیال تھا کہ شاعری نے خود میرا پیچھا کیا اور نو برس کی عمر میں پکڑ لیا۔ عاشق تھے لیکن انسان دوست زیادہ تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
کہتا ہے کون پھول سے رغبت نہ چاہئیے
کانٹے سے بھی مگر تجھے نفرت نہ چاہئیے
نثر میں اس خیال کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ ' ایک مدت سے میرے سینے میں انسان کے باپ یعنی حضرت آدم کا دل دھڑک رہا ہے'۔ ویسے سنتے ہیں کہ جناب مولانا مودودی انکے ہم نشیں  رہے ہیں۔
:)
یہ ساری تمہید، جوش صاحب کی ایک نظم پڑھانے کے لئے باندھی۔ میں نے یہ نظم اس وقت پڑھی جب آنرز فرسٹ ایئر کی طالب علم تھی۔ شعبہ ء کیمیاء سے ایک سالانہ رسالہ نکلا جس میں یہ شامل تھی۔ اسکے بعد وہ رسالہ شاید دوبارہ نہیں نکلا۔
نظم کا نام ہے 'پروگرام'۔ آئیے پڑھتے ہیں۔
 
پروگرام
اے شخص ، اگر جوش کو تو ڈھونڈھنا چاہے
وہ پچھلے پہر حلقہ ء عرفاں میں ملے گا
اور صبح کو وہ ناظر نظارہ قدرت
طرف چمن و صحن بیاباں میں ملے گا
اور دن کو وہ سرگشتہ ء اسرار و معانی
شہرِ ہنر و کوئے ادیباں میں ملے گا
اور شام کو وہ مرد خدا رند خرابات
رحمت کدہ ء بادہ فروشاں میں ملے گا
اور رات کو وہ خلوتی ء کاکل و رخسار
بزم طرب و کوچہ ء خوباں میں ملے گا
اور ہوگا کوئ جبر تووہ بندہ ء مجبور
مردے کی طرح کلبہ ء احزاں میں ملے گا

واہ واہ، بہت خوب۔

Monday, September 3, 2012

چار ستمبر، یوم حجاب

ایک ساٹھ سالہ خاتون انتہائ غصے میں بتا رہی تھیں کہ وہ کسی مجبوری کی بناء پہ بس سے سفر کر رہی تھیں۔ بس والا اتنی تیز بس چلا رہا تھا اور مسافروں کو اتارنے کے لئے بھی بس آہستہ کرتا لیکن روک نہیں رہا تھا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اس سے کہا دیکھ بھال کر چلاءو۔ کیونکہ کچھ سال پہلے وہ چلتی بس سے گر کر اپنا ہاتھ تڑوا بیٹھی تھیں۔  اس پٹھان ڈرائیور نے انکی نصیحت پہ عمل کرنے کے بجائے ان سے کہا دوپٹہ سر سے اوڑھ کر بیٹھو۔ طیش میں انہوں نے بس ڈرائیور کو کہا  کہ تو کیا میرا باپ لگتا ہے۔ تیرا قصور نہیں، تیری ماں کا قصور ہے نہ اس نے اپنی عزت کرائ ہو گی نہ تجھے اسکی تربیت دی کہ تو کسی اور عورت کی عزت کرے۔ شاید اور کچھ بھی کہا ہوگا۔ خیر اسی وقت اس سے بس رکوائ اور اتر گئیں۔
یہاں ڈرائیور کی لسانی شناخت بتانی ضروری ہو گئ کہ اگر اردو اسپیکنگ ہوتا تو غصے میں کہتا' جاءو جاءو، ایسی نوابی ہے تو بس کے بجائے ٹیکسی سے سفر کیا کرو'۔ یہ ابھی ایک ہفتے پہلے کراچی میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔
مجھے اس وقت کیوں یاد آیا؟
ابھی تفصیل سے بتاتی ہوں۔  چند دن پہلے میں ایک دفعہ پھر گوادر گئ تقریباً دس مہینے بعد۔ اس دفعہ مجھے ماحول میں ایک واضح تبدیلی محسوس ہوئ۔ اول تو ہری پگڑی والے لوگ دیکھے جو کہ موٹر سائکلوں پہ پھر رہے تھے۔ یہ تو میں پچھلی ایک پوسٹ میں بتا چکی ہوں کہ یہ جو گوادر کی دیواروں پہ مذہبی اجتماعات کی دعوتیں لکھی نظر آرہی ہیں۔ یہ کسی نئ سمت کا اشارہ کر رہی ہیں جو یقیناً مکران کے ماحول کو تبدیل کرے گا۔ اور اس دفعہ یہ تبدیلی واضح نظر آرہی تھی۔
کیونکہ پھر میرے ساتھ دو واقعات ہوئے۔
پہلا واقعہ دلچسپ ہے۔ ہوا کچھ یوں  کہ جس جگہ ہم رہائش پذیر تھے وہ جگہ سمندر سے چند قدم کے فاصلے پہ تھی۔
ساتھ ہی ایک پہاڑ ہے۔ میں جب بھی یہاں جاتی تھی تو اس پہاڑ کے ساتھ سمندر کنارے ضرور تنہا بیٹھتی کہ ایک دم مراقبے کا مزہ آجاتا۔ یوں معلوم ہوتا کہ میں زمین پہ نہیں بلکہ کائینات کے کسی لامتناہی نکتے سے زمین کو دیکھ رہی ہوں۔ پھر یہاں سے پتھرلیے فوسلز جمع کرتی اور گھر واپس آجاتی۔ گوادر میں یہ میری سب سے اہم اور بڑی عیاشی ہوتی۔ اسکے لئے میں ساڑھے سات سو کلومیٹر کا پر مشقت سفر کر کے یہاں آتی ہوں۔ اب یہ مشغلہ میری بیٹی کو بھی پسند آتا ہے۔
اس دن میرے ساتھ میری بچی، پالتو کتا اور مقامی بچے درجن بھر موجود تھے۔ ہم جلوس کی شکل میں پہاڑ کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اگرچہ میری خواہش تو یہ تھی کہ یہ بچے ساتھ میں نہ ہوتے تاکہ تھوڑی دیر اپنے مراقبے کا مزہ لیتی۔  لیکن بہر حال بچے بہت زیادہ مشتاق تھے ساتھ چلنے کے۔ شاید اسکی ایک وجہ کتے کا ہمارے ساتھ ہونا بھی تھا۔ کتا بھی خوش تھا۔ بار بار تھوڑی دور تک دوڑ کر جاتا۔ اپنے پیشاب کی بو چھوڑتا اور پھر خوشی سے اچھلتا کودتا واپس آتا۔ پیشاب کی بو سے اسکے حصے کی زمین میں اضافہ جو ہو رہا تھا۔
راستے میں ایک صاحب نے قریب سے گذرتے ہوئے موٹر سائیکل روکی اور کہنے لگے۔ آپ اس طرح اکیلے نہ پھریں آجکل سیکیوریٹی کا مسئلہ ہے۔ میں نے اسکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا میں صرف پہاڑ کے ساتھ جا کر سامنے والی جگہ پر جا کر واپس آجاءونگی۔ نہ بستی کی طرف جاءونگی اور نہ یہاں سے زیادہ دور۔ مجھے بھی اس بات کا احساس ہے۔  وہ خاموش ہو کر واپس پلٹ  گیا۔
ابھی چند ہی گز طے کئے ہونگے کہ ایک صاحب موٹر سائیکل پہ آئے انکے پیچھے ایک گن بردار شخص بیٹھا ہوا تھا۔ میں ٹھٹھک کر رک گئ۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہیں۔ میں نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ بس وہاں تک جا رہی ہوں۔ پھرمزید سوالات کے جواب دینے سے پہلے میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔  پتہ چلا کہ وہ پولیس سے تعلق رکھتا ہے۔ کس کے ساتھ آئ ہیں، کس جگہ رہ  رہی ہیں قسم کے سوالات کے بعد اس نے کہا کہ ہمیں اطلاع ملی کہ ایک انگریز عورت ادھر اکیلے پھر رہی ہے۔ مجھے ہلکی سی ہنسی آئ۔ آپ نے دیکھ لیا میں انگریز نہیں ہوں۔ ہاں وہ اس نے آپکے حلئے کو دیکھ کر کہا ہوگا۔ حلئے سے شاید اس کی مراد پیروں کے جاگرز اور سر کی ٹوپی ہوگی۔ دراصل یہ پسماندہ علاقہ ہے یہاں اس حلئے کو ہی انگریز سمجھ لیتے ہیں۔  بات یہ ہے کہ سیکوریٹی کا مسئلہ ہے آپ زیادہ دور تک نہ جائیں۔ میں نے اسے تسلی دی۔ میں بس سامنے ہی سے پتھرلے کر واپس آجاءونگی۔ یہاں کراچی میں پڑھنے لکھنے والے بچوں کو تحفے میں مجھے یہ پتھر دینا پسند ہیں۔
پھراس جگہ پہنچ کر ان بچوں کے ساتھ چند منٹ رک کر پتھر ڈھونڈھے اور جلدی ہی واپسی کا راستہ لیا کیونکہ میں نے دیکھا کہ وہ دونوں ایک چٹان پہ بیٹھے ہم لوگوں کی نگرانی کر رہے تھے۔ ایسے میں میرے دل دھڑکا بھی کم ہوگا اور انکی ڈیوٹی بھی ختم ہوگی۔
اگلے دن گھر کے سامنے ساحل پہ بچی کے ساتھ چلی گئ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ماضی میں یعنی تین چار سال پہلے میں ایک ڈیڑھ میل تک تنہا چہل قدمی کر چکی ہوں۔ مقامی لوگوں سے گپ شپ کی اور کبھی کوئ مسئلہ نہیں ہوا۔ اس دن جب میں اپنی بچی اور محلے کے دیگر بلوچی بچوں کے ساتھ اپنے گھر واپس آنے لگی تو ایک موٹر سائیکل قریب سے گذری جس پہ دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے موٹر سائیکل کو آہستہ کیا۔ میں کچھ ہوشیار ہوئ۔ پھر ان میں سے ایک نے نفرت بھری نظر مجھ پہ ڈال کر کہا جاءو جا کر کچھ پہنو۔
قارئین کی تسلی کے لئے میں اس وقت تیراکی کے مغربی لباس میں نہیں تھی۔ بلکہ پاکستانی سوتی شلوار قمیض پوری آستین کا پہنے ہوئے تھی اور دھوپ سے بچنے کے لئے ڈھائ گز کے سوتی دوپٹے کو سر سے لپیٹ کر منہ بھی اطراف سے ڈھکا ہوا تھا۔ سو میں نے حیرانی سے انکی طرف دیکھا اور پھر غور کیا کہ وہ کچھ کیا ہو سکتا ہے جو میں پہنوں۔ سمجھ آیا کہ برقعہ قسم کی چیز ہی اب اس کے بعد بچ جاتی ہے۔
  دس سال سے یہاں آرہی ہوں اور اتنے لمبے عرصے کے تجربے کے بعد میں اس علاقے کو کافی بہتر سمجھتی تھی۔ مقامی لوگ مچھیرے ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ وہ خود کیسے بھی رہیں دوسروں کے کام میں مداخلت نہیں کرتے۔ حتی کہ عین اس وقت جب کراچی میں کسی ہوٹل میں بیٹھ کر سر عام شراب نہیں پی جا سکتی تھی یہاں ایسی کوئ منادی نہ تھی۔  اس وقت میں ساحل پہ تنہا بیٹھ کر گھنٹوں سمندر کی آتی جاتی لہریں دیکھا کرتی تھی۔ کراچی  کی مٹی سے جنم لینے کے باعث سمندر کی محبت میرے اندر ہمیشہ مءوجزن رہی ہے۔
 یہ وہ وقت تھا جب  یہاں کوئ مدرسہ  نہ تھا۔ پھر کوسٹل ہائ وے کی تعمیر کے ساتھ ہی زمین کے ایک بڑے رقبے پہ ایک بڑا مدرسہ وجود میں آگیا۔ اور اب جیسے جیسے یہاں مذہبی ماحول کو شہہ مل رہی ہے ویسے ویسے یہ شدت پسندی ماحول کا حصہ بن رہی ہے۔ معاشرے کے کمزور طبقات ہمیشہ شدت پسندی کا پہلا نشانہ ہوتے ہیں۔ تاکہ دوسرے لوگ ان سے سبق سیکھیں۔ خواتین اس لئے سب سے پہلا نشانہ بنتی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گوادر میں یہ مذہبی شدت پسندی کون متعارف کرا رہا ہے؟ کیا بلوچستان کے مسائل کا حل مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینے میں ڈھونڈھاجا رہا ہے؟
حیرت ہوتی ہے کہ گوادر میں ایک اچھا ہسپتال موجود نہیں ہے۔ اسکی وجہ سے عورتوں کو کس قدر مصائب کا سامنا ہے اسکا اندازہ اس عورت سے لگائیں جس نے بتایا کہ ابھی چند مہینے پہلے اسکی بچی پیدائیش کے دوران مر گئ۔ کوئ ماہر ڈاکٹر نہ تھا کہ وہ زندہ پیدا ہو پاتی۔ کسی ماہر ڈاکٹر کے موجود نہ ہونے سے وہ لیبر میں اتنا زیادہ عرصہ رہی کہ  اسے فسچولا ہو گیا۔ شوہر بھائ کے پاس چھوڑ گیا وہاں سے وہ کراچی کے جناح ہسپتال پہنچی جہاں ایک مہینہ علاج میں ناکامی کے بعد اسے کراچی کے مضافات میں واقع، کوہی گوٹھ کے فسچولا  ہسپتال بھیجا گیا وہاں وہ تین مہینے رہی اسکے تین آپریشن ہوئے  اور ابھی بھی بالکل تندرست نہیں ڈاکٹر نے اسے تین مہینے بعد پھر بلایا ہے۔
حیرانی ہوتی ہے ناں کے جس شہر میں عورتیں محفوظ طریقے سے بچہ نہ پیدا کر سکیں وہاں عورتوں کو پردے کی تبلیغ کرنے والے پیدا کئے جائیں۔ ایک بڑا مدرسہ بنانے والے تو موجود ہوں لیکن ہسپتال کا کوئ انتظام نہ ہو۔ یہی نہیں یہاں کوئ ڈھنگ کا اسکول موجود نہیں ہے۔ لیکن کوسٹل ہائ وے پہ جاتے ہوئے سنسان پہاڑوں پر خوبصورت ٹائلز کی بنی ہوئ بڑی مساجد نظر آئیں گی جو کہ پچھلے دو سالوں میں عرب بھائیوں کی فیاضی سے تعمیر ہوئ ہیں۔ اتنے سنسان علاقوں میں ان مساجد کا کیا کام؟
 ایک صاحب کا کہنا ہے کہ عرب اسکول کی تعمیر کے لئے پیسے خرچ نہیں کرتے وہ مسجدیں اور مدرسے بناتے ہیں بہت زیادہ فیاضی اگر کبھی دکھائ تو شاید ہسپتال بنا دیں لیکن اسکول، نو وے۔
عرب ہمارے ملک میں اسکے علاوہ کس چیز پہ پیسہ خرچ کرتے ہیں؟
اس کا اندازہ اس خبر سے ہوگا کہ ایک عرب شیخ ایک بلوچ کو پیسے دے رہے ہیں کہ وہ سو بچوں کو پیدا کرنے کا ریکارڈ قائم کر کے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام ڈال لے۔ اس سلسلے میں وہ بلوچ تیئیس شادیاں کر چکا ہے اسکے ترانوے بچے پیدا ہو چکے ہیں۔ ہر تھوڑے دنوں بعد ایک بیوی کو طلاق دے کر ایک اور شادی کر لیتا ہے۔ طلاق یافتہ بیوی کو وہ عرب پیسہ دیتا ہے کہ وہ اپنی باقی زندگی عسرت میں نہ گذارے۔
  اس بلوچ کو یہ یاد نہیں کہ اسکا کون سا بچہ کس بیوی سے ہے اسکے لئے اسے اپنی ڈائری دیکھنی پڑتی ہے۔ اور نہ اسے یہ معلوم ہوگا کہ اسکا کوئ بچہ پڑھتا لکھتا بھی ہے یا نہیں۔ یہ شخص پہلے فوج میں رہ چکا ہے اور ٹانگ سے معذور ہونے کے بعد وہاں سے نکل آیا۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ کو اس سے کراہیئت آئے اور کچھ ہنس دیں ۔ لیکن ایک دفعہ پھر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ مسلمان مرد ، اپنی عورتوں کو کیا سمجھتے ہیں؟
خیر ہم موضوع کی طرف واپس پلٹتے ہیں۔ کراچی میں آجکل جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چار ستمبر کو یوم حجاب منانے کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ شہر میں ہر جگہ خواتین کو حجاب کی تلقین کے بینرز ملیں گے۔ یہی نہیں روزنامہ جنگ کے اس  دفعہ کے اتوار میگزین میں بھی، میں نے دیکھا کہ یوم حجاب کے حوالے سے چار مضامین موجود ہیں۔ گوادر میں میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ آپ پڑھ چکے۔ ملک ہی نہیں باقی دنیا میں بھی مسلمان مردوں کی شدت پسندی کو ہوا دینے والی یہ مذہبی جماعتیں ہیں اور کوئ نہیں۔ شاید اسی لئے بنگلہ دیش میں سیاسی جماعتوں پہ پابندی لگا دی گئ ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ کوئ مذہبی نام استعمال نہیں کریں گی۔
اس بات کو خآطر میں لائے بغیر کہ ہمارے ملک میں عورتوں کی حالت کتنی دگرگوں ہیں۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس طرح کے یوم مجھے تو مردوں کو مزید شدت پسندی کی ترغیب دیتے ہوئے ہی لگتے ہیں۔ جس وقت وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ حجاب عورت کی عزت کا ضامن ہے اس وت وہ مردوں کو بین السطور یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ اگر کوئ عورت بے حجاب ہے تو اسکی عزت پہ حملہ کوئ بری بات نہیں۔ اسکے ساتھ یہی ہوگا، کیونکہ مذہب اسکے بارے میں یہ پیشن گوئ کر چکا ہو۔ چاہے مذہب نے اس بات کو نکتہ بھی نہ بنایا ہو۔
بالکل ایسے ہی وہ انفوگرافکس جس میں مردوں سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو کس لباس میں دیکھنا پسند کریں گے۔ اور انتخاب میں شدید برقعے سے لیکر جینز ٹی شرٹ میں ملبوس خواتین دکھا دی جاتی ہیں۔ ایسے جیسے بازار میں آپ مختلف برانڈز کے کیچپ دیکھ رہے ہوں۔ پھر انہیں غیرت کے طعنے دے کر کہا جاتا ہے کہ دراصل تمہاری بیوی کو کس قدر حجاب میں ہونا چاہئیے۔ چاہے وہ اسکی اہلیت نہ رکھتے ہوں کہ اپنے خاندان کے معاشی مسائل حل کر سکیں لیکن ان میں یہ اہلیت ضرور پیدا کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لباس پہ غضب کی نظر رکھیں۔  
جماعت اسلامی سمیت، ہر مذہب کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی جماعت سے ایک ہی سوال ہے کہ وہ کبھی خواتین کے حالات میں بہتری کے لئے بھی کچھ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا مردوں کو خواتین کے نام پہ ہی غیرت دلاتے رہیں گے۔  معاشرے کو خواتین کے لئے مزید غیر محفوظ بنانے کے فول پروف انتظامات کرتے رہیں گے۔ یہ ملک جو پہلے ہی مسائلستان بنا ہوا ہے کیا اسکے مسائل میں وہ مثبت طریقے سے کوئ کمی لا سکتے ہیں۔ کیونکہ فلسفہ ء جہاد سے لے کر مرد و خواتین کی جہالت تک ہر ایک میں  وہ برابر کے حصے دار ہیں۔ 
آخری اہم سوال لوگوں کو خدا کے قہر اور عذاب سے ڈرانے والے کیا خود خدا کے عذاب اور قہر سے ڈرتے ہیں؟
 کیونکہ انکی پھیلائ ہوئ شدت پسندی کی وجہ سے جتنی انسانی جانیں جاتی ہیں اسکے ذمہ دار وہ ہوتے ہیں۔ جب کسی عورت پہ تیزاب پھینکا جاتا ہے، جب کوئ عورت کاروکاری کا شکار ہوتی ہے، جب کسی عورت کو اس لئے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ انکے متعارف کرائے گئے فلسفہ ء حجاب پہ یقین نہیں رکھتی۔ ہر  ہر صورت میں وہ عذاب کے مستحق ہوتے ہیں اور ہونگے۔  خدا کے عذاب سے بچنے کے لئے وہ خود کیا کریں گے؟ کیونکہ جو تم کروگے وہ ہم کریں گے۔ 

Monday, August 27, 2012

مسیار نکاح

اپنے پہلے شوہر کے انتقال کے فوراً بعد وہ سعودی عرب میں ایک طویل عرصہ گذار کر پاکستان واپس آگئیں۔ جب گفتگو کے دوران مجھے پتہ چلا کہ انکی دوسری شادی کو بھی پانچ چھ سال کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن انکے شوہر انکے ساتھ نہیں رہتے بلکہ اپنی پہلی مرحوم بیوی کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتے ہیں اور وہ اپنے پہلے شوہر کے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتی ہیں تو مجھے نہایت اچنبھا ہوا۔
 یہ کیسا میاں بیوی کا تعلق ہے؟ میں نے بالکل پاکستانی ذہن سے سوچا۔ ایک تو یہی بات قابل اعتراض ہے کہ پچاس سال سے اوپر کی خاتون دوسری شادی کرے وہ بھی وہ جسکے پانچ بچے ہوں۔ بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی ہو۔  اور دونوں ساتھ بھی نہ رہیں۔ کیونکہ اگرہمارے  یہاں کوئ خاتون دوسری شادی کرتی ہے تو بنیادی مقصد تحفظ اور پیسہ ہوتا ہے۔
لیکن گھر واپس آ کر میں نے سوچا، کیا شادی محض معاشرتی تحفظ اور معاشی حالات کو مستحکم رکھنے کے لئے کی جاتی ہے؟
 اسکے چند دنوں بعد ایک محفل میں ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں کہ کسی نے تذکرہ چھیڑ دیا کہ یہ جو سنّی، شیعوں کو متعہ نکاح پہ اتنا برا بھلا کہتے ہیں  یہ اپنے سنّی مسیار نکاح کی بابت کیوں نہیں بات کرتے۔ ایک دفعہ پھر میں نے ہونّق ہو کر پوچھا کہ یہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے؟
 جواب ملا یہ بھی متعہ سے ملتی جلتی چیز ہوتی ہے آپ جا کر نیٹ پہ دیکھ لیں یا اپنے کسی اسکالر سے پوچھیں۔ تس پہ کسی اور نے بتایا کہ ایک صاحب نے کئ اسلامی مدرسوں کو مسیار نکاح کی بابت لکھا کہ انہیں معلومات بہم پہنچائ جائیں لیکن انہیں کہیں سے جواب نہیں ملا۔ اس لئے وہ نہیں جانتے کہ مسیار نکاح کیا ہوتا ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ یہ سنّی نکاح کی ایک قسم ہے جو کچھ شیعہ متعہ نکاح سے مشابہت رکھتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس سارے کے بعد میں نے رات گھر واپس آکر نیٹ گردی کی۔ جناب، تو یہ اسلامی نکاح کی ایک قسم ہے۔
 تمام تر مطالعے کے بعد یہ بات سامنے آئ کہ مسیار نکاح اسلام میں حلال ہے۔ نہ صرف مسلمان آپس میں بلکہ اہل کتاب سے بھی کر سکتے ہیں۔ یہ عام نکاح سے کس طرح مختلف ہوتا ہے؟ یہ متعہ نکاح سے کیسے مختلف ہوتا ہے؟
نکاح مسیار، ایسا اسلامی معاہدہء نکاح ہے جس میں ایک خاتون اپنی مرضی سے اپنے بہت سارے حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ مثلاً شوہر کے ساتھ رہنا، اگر اسکی ایک سے زائد بیویاں ہیں تو اوقات کی برابر تقسیم، نان نفقہ یعنی شوہر اسے گذر بسر کے لئے کوئ خرچہ نہیں دے گا اگرچہ کہ اسے بھی دونوں فریقین کی مرضی سے معاہدے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی وہ رہائش مہیا کرے گا۔ 
 مہر کی رقم فریقین کی مرضی سے طے کی جاتی ہے۔ مہر اسلامی نکاح میں وہ رقم ہے جو لڑکی کو ادا کی جاتی ہے چاہے نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد کسی بھی وقت لڑکی کے طلب کرنے پہ۔
یعنی عورت، اپنے والدین کے گھر یا اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہے۔ شوہر اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے جیسا وقت دونوں فریقین چاہیں منتخب کریں۔
شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے عام طور پہ عورت پالتی ہے۔ مجھے یہ نہیں پتہ چل سکا کہ آیا ان بچوں کا باپ کی وراثت پہ حق ہوتا ہے یا نہیں۔
 نکاح کے بعد بیوی اگر ان سب چیزوں کے لئے دعوی کرے تو اسکا دعوی صحیح ہوگا۔ اب اسکا انحصار شوہر پہ ہے کہ وہ اسے نتیجے میں یہ تمام اشیاء دے یا طلاق دے کر چھٹی پائے۔
اس ضمن میں اسلامی علماء کے درمیان اختلاف ہے کچھ اسے اخلاقی طور پہ اچھا نہیں سمجھتے اگرچہ حلال سمجھتے ہیں۔ الالبانی کے نزدیک یہ نکاح اسلامی روح سے متصادم ہے اس لئے ناجائز ہے۔ اسلامی شادی کی روح یہ بیان کی جاتی ہے کہ فریقین ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایکدوسرے سے روحانی خوشی حاصل کریں۔  اگرچہ عملی سطح پہ ہم دیکھتے ہیں کہ محبت کی شادی ہمارے یہاں ایک لعنت سے کم نہیں اور ہم بنیادی طور پہ یہی سمجھتے ہیں کہ اسلامی شادی کا مقصد ایک مرد کی جنسی ضروریات کا حلال طریقے سے پورا ہونا ہے اور عورت محض جنس کا ایک ذریعہ ہے۔ 
 الالبانی کے نزدیک اسکے نتیجے میں ایک خاندان تشکیل نہیں پاتا اور نہ ہی عورت کو تحفظ مل پاتا ہے اور نہ ہی بچے ایک مستحکم خاندان سے آگاہ ہو پاتے ہیں۔ 
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ شادیاں طلاق پہ ختم ہوتی ہیں کیونکہ مرد عام طور پہ یہ شادی اپنی جنسی ضرورت کے لئے کرتا ہے۔
متعہ اور مسیار نکاح میں صرف ایک فرق نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ متعہ ایک مقررہ مدت کے لئے کیا جاتا ہے مدت کے اختتام پہ معاہدے کی تجدید کی جا سکتی ہے۔
 اب فقہے سے ہٹ کر ہم دیکھنا چاہیں گے مسیار نکاح کی ضرورت کیسے وجود میں آئ۔ آج کے زمانے میں یہ عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور مصر میں عام ہے۔ جہاں امیر مرد وقت گذاری کے لئے یہ شادیاں کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ بتائ جاتی ہے کہ یہاں عام اسلامی نکاح کے لئے مرد پہ بہت زیادہ معاشی دباءو ہوتا ہے۔
وہ عورتیں جنکی  شادی اس وجہ سے نہیں ہو پارہی ہو کہ کوئ مرد انکی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں مثلاً  بوڑھی یا بیوہ عورتیں یا وہ عورتیں جن پہ اپنے والدین یا بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ سب مسیار نکاح سے مستفید ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ اس بات کے امکان زیادہ ہیں کہ یہ مردوں کی زیادہ جنسی آزادی کا باعث بنیں گی اور معاشرے میں خآندانی استحکام کو نقصان پہنچائیں گی۔
یہ عین ممکن ہے کہ یہ نکاح اسلام سے پہلے بھی رائج ہو۔ اسلامی قوانین کی اکثریت عرب کے قبائلی معاشرے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں سے بیشتر کو اصطلاحی طور پہ تبدیل کیا گیا ہے۔ 
 پاکستان، ہندوستان کے بر عکس عرب میں شادی کے بعد بیوی کو الگ گھر میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں مشترکہ خاندانی نظام ہندءووں کے زرعی معاشرے کی وجہ سے آیا جسکا عرب میں کوئ خاص تصور نہیں۔ اگر کوئ پاکستانی، مشترکہ خاندانی نظام کو بہتر سمجھتا ہے تو اسے جان لینا چاہئیے کہ یہ عرب میں نہیں ہوتا۔ اس لئے اسلامی ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔
چونکہ اس نکاح کا بنیادی مقصد صرف جنسی ضرورت کو پورا کرنا ہی نظر آتا ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جنس کی بڑی اہمیت ہے اور اسے بنیادی انسانی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ یوں عام اسلامی نکاح کے ساتھ اس قسم کے نکاح کی بھی گنجائش رکھی گئ ہے۔   یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ عرب معاشرہ جنس کے معاملے میں اتنا ہی کھلا ہے جتنا کہ مغربی معاشرہ جس کی بے حیائ پہ ہم ہر وقت لعن طعن کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عرب میں یہ باہر گلیوں میں نظر نہِں آتا۔ لیکن گھروں میں یہ اس سے کہیں زیادہ شدید حالت میں موجود ہے۔
قرآن پڑھتے ہوئے بھی میں اکثر سوچتی ہوں کہ جب ایک چھ سال کا عرب بچہ اسے پڑھتا ہوگا تو کیا وہ اسکے معنی نہیں سمجھتا ہوگا قرآن ایک ایسی کتاب جس میں جنس اور شادی کے معاملات کو کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
اسکے ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ جب بھی ہمارے یہاں یہ مسئلہ سر اٹھاتا ہے کہ ہائ اسکول یا کالج کی سطح پہ بچوں کو جنس سے آگہی دینا ضروری ہے تو سب سے زیادہ مذہبی حلقے اسکے خلاف شور مچاتے ہیں۔ آخر یہ تضاد کیوں؟
آخر ایسا کیوں ہے کہ ویسے تو ہمارے یہاں عرب معاشرتی اقدار کو اسلامی معاشرتی اقدار کہہ کر پیش کیا جاتا ہے۔ عرب ثقافت کو اسلامی ثقافت کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔  لیکن جب ان اقدار کی باری آتی ہے جو عرب کے ایک کھلے معاشرے کو پیش کرتے ہیں تو ہم صم بکم ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت ہم عرب معاشرے کو پاکستانی معاشرے سے الگ کیوں سمجھتے ہیں؟

Tuesday, August 21, 2012

دلیل کے دشمن

انہیں اور ہیں کون  بہکانے والے
یہی آنے والے، یہی جانے والے
 لیکن بات جب اندیشے کی حد سے نکلتی ہے تو جادو کی حدوں میں داخل ہوجاتی ہے شاید اسی لئے کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے۔ یعنی جادو جب بولتا ہے تو دنیا میں کچھ بھی باقی رہے اگلے کا سر باقی نہیں رہتا۔ جی ، میرا شارہ عقل ہی کی طرف ہے۔ ایک شخص جسے گمان ہو گیا ہو کہ اس پہ جادو کیا گیا ہے۔ اس کو کوئ بھی عقل کی بات سمجھاوی جاوے ہرگز اسکی عقل میں سما نہ پاوے۔
لوگ کہتے ہیں جادو برحق ہے اسکا نہ ماننے والا کافر ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اس قول کی ترویج کرنے والا یقیناً جادو کا توڑ جانتا ہے جبھی اپنے قول میں اتنا اٹل ہے۔
علم کی کمی سے اس کا تعلق نہیں۔  اچھے اچھے با شعور لوگ اس مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اس لئے نہ صرف یہ کہ جادو کا توڑ کرنے والوں کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے بلکہ اب تو مختلف چینلز پہ بھی اسکے اثرات دور کرنے کے طریقے بتاءے جاتے ہیں۔
لیکن جب اخبار کے ایڈِٹوریل صفحے پہ ایسے مضامین ملیں جیسا کہ ابھی دو ہفتے پہلے کے ایکسپریس اخبار میں ایک ایڈوکیٹ اعوان صاحب کا مضمون تھا تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔  شاید وہ عاملوں وغیرہ کی برائ میں لکھنا چاہ رہے تھے لیکن اس سے پہلے انہوں نے، انہی پرانے فرسودہ خیالات کی تصدیق میں لکھا جو کہ جنات کے لئے رائج ہیں۔ یعنی جنات ہوتے ہیں وہ گھوڑے کی لید، گوبر یا ہڈی وغیرہ کھاتے ہیں۔ وہ مسلمان بھی ہوتے ہیں تو ہندو بھی۔ انکا بھی یوم حساب ہوگا ، مسلمان جن چھتوں پہ رہتے ہیں اور غیر مسلم جنات سنسان مقامات پہ۔ ان سب حقائق پہ آمنا و صدقنا کہنے کے بعد انہوں نے جب عاملوں اور تعویذ کرنے والوں کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو یہ بات ایک دم مذاق لگی۔
جب ایک شخص جادو اور جنات پہ یقین رکھتا ہے تو اسی کے بعد اس پہ یہ نوبت بھی آتی ہے کہ وہ ان عاملوں سے جو جنات پہ قابو پا لینے کا ہنر جانتے ہیں اور جادو کا توڑ کرتے ہیں، ان کی خدمات کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
رسول اللہ نے جادو کا توڑ بتایا اور وہ ہے معوذتین سورتیں۔ ایک آسان  اور سادہ سا حل۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب یہ جادو کا مرض بالکل عام تھا۔ معاشرے کو اس وباء سے نکالنے کے لئے یہ حل نفسیاتی لحاظ سے چنا گیا ہوگا۔ لیکن جیسا کہ ہم عملی سطح پہ دیکھتے ہیں کہ جو دماغ جادو کو بر حق جانتا ہے اسکی تسلی اس باب میں محض ان سورتوں سے نہیں ہوتی۔  وہ کسی پہنچے ہوئے عامل کی تلاش میں رہتا ہے۔ جادو جیسی اسرارکے رس  سے بھری چیز کی  کسی غیر اسراری عمل سے کیسے تسلی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ یہ اسرار بھی کم نہیں کہ کیسے چند الفاظ کے بولنےسے جادو ٹوٹ جاتا ہے لیکن جب تک الو کا خون، بکرے کے شانے کی ہڈی، قبر کی مٹی، آدھی رات کا سناٹا، سیہ کا کانٹا، کالے رنگ کا کپڑا اور اس قماش کی دیگر اشیاء شامل نہ ہوں سچ پوچھیں تو اسرار کا اصرار بڑھے جاتا ہے۔
جادو کی کہانی بہت پرانی ہے۔  جب انسان نے پہلے پہل اپنے ماحول میں دلچسپی لینا شروع کیا۔ اس نے بولنا سیکھا، اس نے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانا سیکھا تو اس نے اپنے طور پہ یہ فرض کیا کہ اسکے اردگرد کے ماحول کو غیر مرئ طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں۔ کیونکہ اسے کوئ بارش برساتا نظر نہیں آتا۔ اسے معلوم نہیں ہوا کہ زلزلے کیسے آتے ہیں۔ وہ نہیں جانتا کہ کیسے شکار کی فراوانی ہوتی ہے اور کیسے قحط آجاتے ہے۔ 
چونکہ وہ سوچ سکتا تھا  اس لئے اس نے جانا کہ ان طاقتوں کی توجہ کا مرکز وہ خود یعنی انسان ہے۔  اس نے یہ بھی فرض کیا کہ اسکے مصائب اور اسکی خوشیاں سب انہی کے مرہون منت ہیں وہ بارش بھی لاتے ہیں اور طوفان بھی۔ اس نے یہ بھی فرض کیا کہ جب یہ طاقتیں اس سے خوش ہوتی ہیں توکھانے کو اچھا ملتا ہے، زندگی سہولتوں سے بھرپور رہتی ہے، شکار ملتا ہے ، بہتر پناہ ملتی ہے   اور جب ناراض ہوتی ہیں تو بادل گرجتے ہیں، سیلاب آتے ہیں ، زلزلے آتے ہیں، آندھیاں چلتی ہیں، بیماریاں آتی ہیں، کھانے کو نہیں ملتا۔
یہاں پہنچ کر اس نے یہ بھی فرض کیا کہ اگر وہ چاہے تو ان طاقتوں کو اپنے قابو میں لا سکتا ہے تب وہ اس کے فائدے کے کام کریں گی اور اسکے نقصان میں جانے والے کام نہیں ہونگے۔ ان ماورائ طاقتوں کو قابو میں لانے کی سوچ نے جادو کو جنم دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سوچ نے دوسری طرف سائینس کو بھی جنم دیا۔  جادو اور سائینس دو جڑواں لیکن متضاد خیالات کے ساتھ وجود میں آئے۔ لیکن سائینس نے اپنی بنیاد دلیل پہ رکھی, کسی ماورائ طاقت سے الگ دلیل جو قدرتی قوانین کو ایک دوسرے سے جوڑے۔ یعنی اگر ہم کسی عمل کے ہونے کے طریقے کو جان لیں تو اس پہ قابو پا سکتے ہیں۔ اگر ہم جان لیں سیلاب اور قحط کیسے آتے ہیں تو ہم ان پہ قابو پا لیں گے۔ اگر ہم جان لیں کہ ہم بیمار کیوں ہوتے ہیں تو بیماری پہ قابو پا لیں گے۔
دلیل کے ساتھ چلنے میں ایک بظاہر نقصان اسرار کے ٹوٹ جانے کا ہوتا ہے۔ اسرار، جو ہم پہ حکومت کرتا ہے اور جب یہ ٹوٹ جاتا ہے تو ہم اس پہ حکومت کرتے ہیں۔ اس مرحلے پہ پہنچ کر کیا آپکو یہ نہیں لگتا کہ ہم میں سے کچھ لوگ اسرار کے غلام بنے رہنے میں لذت پاتے ہیں اور کچھ لوگ اسرار کو محمود غزنوی کی طرح ڈھا دینے میں۔
آئیے ایک ویڈیو دیکھتے ہیں۔ دلیل کے دشمن۔


 

Monday, July 30, 2012

و تعز من تشاء؟

عزت ہمارے خطے میں ایک بہت اہم لفظ ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو کسی بھی معمولی سی بات پہ خطرے میں پڑجاتی ہے اور اگر اسے خطرے میں نہیں پڑنا ہو تو آپ کروڑوں کی کرپشن کر ڈالیں یا منافقت کے جتنے چاہیں لبادے اوڑھ ڈالیں معاشرے میں آپکی عزت کو کوئ نقصان نہیں پہنچتا۔ 
مثلاً پسند کی شادی جسے عام طور سے محبت کی شادی سے ملا دیا جاتا ہے اس سے والدین کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ شادی بیاہ پہ اگر خواتین قیمتی کپڑے نہ پہنیں تو مرد کی عزت کم ہونے کا اندیشہ دامنگیر ہوتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی عزت زیادہ خطرے میں رہتی ہے۔ یوں اگر کوئ خاتون بچاءو بچاءو چیخے تو پہلا خیال بھی یہی آتا ہے کہ عزت خطرے میں ہے چاہے وہ چوہے یا چھپکلی کو دیکھ کر چیخ رہی ہو۔
ایک زمانے میں لاچار مرد اپنی عزت بچانے کے لئے پگڑی اتار کر واسطے دیا کرتا تھا۔ خواتین کی عزت دوپٹے کے ساتھ وابستہ تھی اور گبرو مرد اس دوپٹے کی حفاظت کے لئے جان لٹا دیتے تھے۔  دوپٹہ تو اسکارف میں تبدیل ہو گیا لیکن پگڑی سرے سے نا پید ہو گئ۔
ذرا سانس لے کر وضاحت کر دوں کہ یہ تحریر  دوپٹے اور پگڑی  کے بالترتیب ارتقاء اور عنقا ہو جانے کے متعلق نہیں۔ کیونکہ یہاں سے پگڑی کے نایاب ہوجانے کی وجوہات پہ غور کے بجائے دوپٹے اور اسکارف کے تقدس پہ بات جا سکتی ہے۔ جس پہ نہ صرف پہلے بھی سیر حاصل بحث ہو چکی ہے بلکہ مزید سیر کے لئے آئندہ الگ سے بحث ہو سکتی ہے۔
بات ہے عزت کی۔ عزت کیا چیز ہے؟
میں اسکی کوئ جامع تعریف کرنے سے معذور ہوں۔ لیکن لوگوں کو یہ کہتے اکثر سنتی ہوں کہ یہ اسکی دین ہے جسے پروردگار دے۔ یعنی خدا ہی عزت دینے والا ہے حالانکہ خدا کا دعوی ہے کہ وہی ذلت دینے والا بھی ہے لیکن اکثر عناصر اسکا سہرا اپنے سر پہ باندھنا پسند کرتے ہیں تاکہ کچھ لوگ عزت بچانے کے چکر میں ان کے قابو میں رہیں۔ 
عزت پہ شعراء اکرام نے بہت کم لکھا ہے لیکن ذلت کو خوب موضوع بحث بنایا ہے۔ حالانکہ دونوں ہم قافیہ الفاظ ہیں۔  
اب کوئ اس پہ کیا دلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
 عزت کی تعریف کرنا کیوں مشکل ہے؟ اسکی بنیادی وجہ اس کے دعوے دار ہیں۔
اس لئے ایٹم بم کا دھماکا کرنے کے بعد بھی ہم سنتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اس عزت سے نوازا۔ ادھر ایک ڈیرے دار طوائف بھی اپنے لباس کی نوک پلک درست کرتے ہوئے ایک ادا سے کہتی ہے کہ بس آج جو بھی مرتبہ ہےعزت ہے وہ خدا کی عطا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ درست ہیں اگر ہم اس پہ یقین رکھتے ہیں کہ سبھی کچھ خدا کا دیا ہوا ہے سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں۔
لیکن پھر بھی ہم اس طوائف کی بات پہ ہنستے ہیں اور اس سیاستداں کی بات پہ فخر سے سینہ پھلا لیتے ہیں۔
اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ عزت کا تعلق عام طور پہ معاشرے میں موجود اچھائ اور برائ کے معیار سے بڑا تعلق رکھتا ہے۔ طوائف کا پیشہ، نیچ  سمجھا جاتا ہے اس لئے وہ اپنے پیشے میں جتنی بھی کامیابی حاصل کرے۔ چاہے لوگ اسکی ایک جھلک کے لئے اپنا دین اور ایمان لٹا دینے کو تیار ہوں۔ اسکے ابرو کے اشارے پہ عاشق پہاڑ تو کیا آسمان کو زیر کر لے لیکن جب بھی وہ یہ کہے گی کہ یہ سب عزت خدا کی دی ہوئ ہے تو ہم  ہنستے ہیں۔
اسکے بر عکس، ہم ایک ایسا ہتھیار بنا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو چشم زدن میں انسانوں کی ایک بڑی آبادی کو ختم کر سکتا ہے تو ہمیں انتہائ فخر اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہم دشمن پہ سبقت حاصل کر لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور میدان جنگ میں وہ ہمیں آسانی سے ہرا نہیں سکتا۔ چونکہ ہم ہار نہیں سکتے اس لئے ہم عزت دار ہونگے۔ جس شخص نے یہ حاصل کرنے میں ہماری مدد کی وہ بھی ہماری عزت کا مستحق ہے۔ وہ شخص بھی یہی کہے گا کہ یہ عزت خدا کی دی ہوئ ہے ۔ ہم اسکا احترام کرتے ہیں۔ ہم اسکی بات کو سچ جانتے ہیں۔
عزت کے دعوے دار اور عزت کے پرستار دونوں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ اہمیت اس نکتے کی ہے جس پہ عزت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
 گاءوں کے چوپال میں درد بھری آواز میں ماہیا گانے والا میراثی کہلاتا ہے اس کا سماجی مرتبہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ لیکن جب آواز کا یہ جادو نورجہاں جنگ کے گیتوں میں دکھاتی ہے تو ملکہ ء ترنم کا خطاب پاتی ہے۔ کس میں ہمت کے انہیں میراثن کہہ دے۔   
عزت کے بارے میں آج جاننے کی خواہش اس وقت سوا ہو گئ جب ایک جگہ پڑھا کہ ڈاکٹرعامر لیاقت کو جب خدا نے عزت دی ہے لوگ اسکی بات سنتے ہیں ، لوگوں پہ اسکی بات کا اثر ہوتا ہے تو دوسرے لوگ اسے برا کیوں کہتے ہیں؟  لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ انہیں رمضان میں تبلیغ کے عمل سے روک دیا جائے۔ نہ صرف ان صاحب نے لکھا بلکہ دیگر صاحبان نے اسے شیئر بھی کیا۔
آج پھر میں نے سوچا کہ خدا کی دی ہوئ عزت کیا چیز ہوتی ہے؟  اگر ایسا ہے تو زرداری سے بےزاری کیوں؟ ان کی عزت بھی خدا کی دی ہوئ ہے۔ اس عقیدے کے مطابق یہ مرتبہ انہیں محض لوگوں کے ووٹ سے حاصل نہیں ہوا۔  لوگوں کے ایک بڑے حلقے میں انکا اثر ہے۔ لوگ انکی بات سنتے ہیں ان پہ اثر ہوتا ہے۔ یہی بات الطاف حسین، نواز شریف، عمران خان حتی کہ ملا عمر اور اوبامہ کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ اور چونکہ ان سب کو ملی ہوئ عزت کو خداکی دین سمجھنا چاہئیے تو ہمیں انکی عزت بھی کرنی چاہئیے اور انکے متعلق برا نہیں کہنا چاہئیے۔
کیا ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہئیے کہ یہ سب لوگ جس چیز کی تبلیغ کرتے ہیں اسکے لئے عملی طور پہ کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا نہیں؟  یا آسان الفاظ میں جب خدا کسی کو عزت اور مرتبہ دے دے اور لوگوں پہ اس کا اثر قائم ہو جائے تو کیا اسکے خلاف آواز بلند کرنا خدا کے خلاف جانا ہوتا ہے؟
  

Tuesday, July 24, 2012

پولیو کے خلاف جہاد

ہر دفعہ پولیو مہم کے ساتھ ہی خبروں  اور اعتراضات کا ایک سلسلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کیوں؟
خبر یہ ہے کہ کراچی میں پولیو مہم سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کو مار دیا گیا۔  یہ واقعہ سہراب گوٹھ کے علاقے میں موجود الآصف اسکوائرکے نزدیک  پیش آیا جہاں افغان مہاجرین اور پشتونوں کی آبادی زیادہ ہے۔ کراچی میں جن لوگوں نے ان قطروں کو پلانے سے انکار کیا ، وہ بھی عام طور پہ انہی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ میں ہی پولیو کی مہم کو سب سے زیادہ خطرات لا حق ہوتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ ان گروہوں میں آگہی اور تعلیم کی کمی ہے۔
دوسری طرف اس مہم کو نہایت سنگدلی کے ساتھ مذہب اور جہاد سے جوڑ دیا گیا ہے۔  برین واشنگ اس طرح ہوتی ہے کہ چونکہ ہم کافروں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اس لئے وہ اس ویکسین کے ذریعے ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ویکسین کے مقابلے میں سر درد کی گولیوں سے یہ کام کرنا زیادہ آسان ہوگا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ دوسری کسی بھی دوا کو چھوڑ کر محض اس ویکسین کو پکڑ لیا گیا ہے۔ شاید یہ کہ عام طور پہ اس ویکسین کی مہم چلانے کے لئے تعلیم یافتہ لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور مخصوص عناصر نہیں چاہتے کہ تعلیم کا کوئ بھی مثبت پہلو سامنے آئے۔ 
 آج ہم اس تحریر میں ویکسین ہی پہ بات کریں گے۔

ویکسین کیا ہوتی ہے؟
ویکسین ایک ایسا مرکب ہوتا ہے جو انسانی جسم کے دفاعی نظام کو مختلف بیماریوں کے لئے بہتر بناتا ہے۔ یہ مرکب جن مختلف طریقوں سے تیار کیا جا سکتا ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
نمبر ایک؛ 
جس بیماری کے خلاف دفاع حاصل کرنا ہو اسی کے کمزور یا مردہ جراثیم سے۔ جراثیم کو مردہ  یا کمزور کرنے کے لئے کیمیکلز، حرارت، تابکاری یا اینٹی بائیوٹکس استعمال کی جاتی ہیں۔ پولیو کی ویکسین اسی طریقے سے تیار ہوتی ہے۔
نمبر دو؛
وہ جراثیم جو زہر خارج کرتے ہیں اس زہر سے مشابہت رکھنے والے کسی مرکب سے تیار کی جاتی ہیں۔ ٹیٹنس اور کالی کھانسی کی ویکسین اسی طریقے سے تیار کی جاتی ہے۔
نمبر تین؛
 جراثیم کی بیرونی سطح پہ پائ جانے والی پروٹینز کی ساخت سے مشابہت رکھنے والے مرکبات کی مدد سے۔ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین اس طریقے سے تیار ہوتی ہے۔
 ویکسین بنانے کے دیگر طریقے بھی استعمال میں آ رہے ہیں جنکی تفصیل میں ہم اس وقت نہیں جا رہے۔

ویکسین انسانی جسم میں کیسے کام کرتی ہے؟
انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف دفاع کے لئے ایک مربوط نظام موجود ہے جسے ہم امیون سسٹم کہتے ہیں۔ یہ نظام اپنے جسمانی خلیوں کو پہچانتا ہے  لیکن جیسے ہی کوئ اور ایجنٹ جسم میں داخل ہوتا ہے جو کہ اس جسم کا نہیں ہوتا وہ اسکے خلاف حرکت میں آجاتا ہے۔ اگر جراثیم طاقتور ہوتے ہیں تو وہ اس نظام پہ حاوی ہو جاتے ہیں اور انسان کو بیمار کر دیتے ہیں اگر ان جراثیم کی تعداد ایک مخصوص مقدار سے کم ہوتی ہے یا انکا زہریلا پن کم ہوتا ہے تو جسم کا دفاعی نظام اسے زیر کر لیتا ہے اور انسان کو بیماری سے بچا لیتا ہے۔
زیادہ تر حالات میں انسان کا یہ دفاعی نظام اس ایجنٹ کو برباد کرنے کے ساتھ اسکی ساخت یاد کر لیتا ہے۔ اس طرح جب وہ جراثیم دوبارہ جسم میں داخل ہوتے ہیں تو انسانی جسم کا یہ دفاعی نظام تیزی سے ایکشن میں آتا ہے اور انہیں فی الفور ختم کر دیتا ہے۔
جب انسان نے جراثیم کے بارے میں جانا اور اسے انسانی جسم کے اس دفاعی نظام کے کام کرنے کے طریقے کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے اس سے فائدہ اٹھانے کا سوچا۔ یوں ویکسین وجود میں آئ۔ ویکسین انسانی جسم کو بیمار ہونے سے پہلے ہی تحفظ دیتی ہے اس طرح یہ دیگر ادویات کے مقابلے میں کہیں موءثر ہوتی ہیں۔ محض معمولی سی مقدار زیادہ تر حالات میں تا عمر تحفظ دیتی ہے یا پھر ایک مخصوص عرصے کے لئے تحفظ دیتی ہے۔ زیادہ تر ویکسین سستی ہوتی ہیں۔ چونکہ ترقی یافتہ ممالک میں ہی اتنے فنڈز ہوتے ہیں کہ لوگوں کی صحت پہ خرچ کئ جا سکیں تو عام طور پہ تحقیقاتی ادارے بھی ان ملکوں میں پھیلی ہوئ بیماریوں پہ توجہ کرتے ہیں اور غریب ملکوں میں عام بیماریوں کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس وجہ سے غریب ملکوں کی بیماریوں کے خلاف سستا علاج ڈھونڈھنا مشکل ہوتا ہے۔

 انیس سو چھتیس میں فارملڈی ہائیڈ کے ذریعے پولیو جراثیم کو مردہ کر کے ویکسین بنائ گئ۔ اسے بنانے والے سائینسدان نے اسے اپنے اوپر اپنے کچھ ساتھیوں اور تین ہزار بچوں پہ آزمایا۔ ان میں سے کچھ بچوں کو اس سے الرجی ہو گئ، لیکن کسی بچے کو پولیو نہیں ہوا۔ اس لئے یہ ویکسین کامیاب نہ کہلائ جا سکی۔ کچھ اور تجربات کئے گئے جو کامیاب نہ ہوئے۔
ایک اور گروپ  نے جان اینڈر کی سربراہی میں تحقیقات کی اور اسکے نتیجے میں وہ پولیو کے جراثیم کاشت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جان اینڈر کو اس سلسلے میں نوبل پرائز بھی ملا۔
انیس سو باون  اور تریپن میں امریکہ میں تقریبا نوے ہزار لوگ پولیو سے متائثر ہوئے۔ جسکی وجہ سے اسکی ویکسین کی تیاری کی طرف خصوصی توجہ کی گئ۔ جو ویکسین ملی اسے پہلی دفعہ انیس سو پچاس میں ایک آٹھ سالہ لڑکے پہ آزمایا گیا۔ کامیابی کے بعد مزید انیس بچوں کو دی گئ۔  انیس سو پچپن میں اسکا اعلان کیا گیا۔

جوناس ساک، سائینسدان جس نے پہلی دفعہ انجیکشن والی پولیو ویکسین بنائ، بے غرض والدین کی بچی جس نے اپنا بازو پیش کیا نئ ویکسین کی آزمائش کے لئے

اور اب اس بیماری کا امریکہ سے خاتمہ ہوچکا ہے۔ سن دو ہزار میں چین اور آسٹریلیا سے اسکے خاتمے کا اعلان ہوا اور دو ہزار دو میں یوروپ میں اسکے خاتمے کا اعلان ہوا۔ اس کے باوجود ان تمام علاقوں میں بچوں کو پولیو کی ویکسین دی جاتی ہے۔ دنیا میں اس وقت صرف چار ملک ایسے ہیں جہاں پولیو موجود ہے ان ملکوں میں نائجیریا، افغانستان، انڈیا اور ہمارا ملک پاکستان بھی شامل ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں چند عناصر اسے ختم کرنے کی راہ میں حائل ہیں اور نہیں چاہتے کہ بچوں کو اس ویکسین کے قطرے ملیں۔ 
 پولیو ویکسین دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک  انجکشن کے ذریعے دی جاتی ہے اور اس میں پولیو کے مردہ جراثیم استعمال ہوتے ہیں۔ پولیو ویکسین کی دوسری صورت قطروں کی شکل میں استعمال ہوتی ہے یہ کمزور کئے گئے جراثیم سے تیار ہوتی ہے۔ اس دوسری ویکسین کو ایسے علاقوں میں دیا جاتا ہے جہاں پولیو کا وبائ مرض بننے کا امکان ہوتا ہے۔ چونکہ یہ منہ کے ذریعے دی جاتی ہے اصل بیماری پیدا کرنے والے جراثیم بھی منہ کے ذریعے داخل ہوتے ہیں اس لئے زیادہ مءوثر ہوتی ہے۔ جسم سے جب فضلہ خارج ہوتا ہے تو یہ اس فضلے میں بھی خارج ہوتے ہیں جہاں سے یہ دوسرے انسانوں کو بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اس طرح سے انہیں بغیر ویکسینیشن کے ہی تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔
پولیو ویسکین کےاجزاء کیا ہوتے ہیں؟
قطروں والی ویکسین کے اجزاء اس طرح ہیں۔ بیماری کے جراثیم کی مختلف اقسام  اور ان کے علاوہ بہت کم مقدار میں اینٹی بائیوٹکس ہوتی ہیں جو عام طور پہ نیو مائسین یا اسٹرپٹو مائسین ہوتی ہیں اس میں کوئ اور محفوظ کرنے والا کیمیکل استعمال نہیں ہوتا۔
OPV is usually provided in vials containing 10-20 doses of vaccine. A single dose of oral polio vaccine (usually two drops) contains 1,000,000 infectious units of Sabin 1 (effective against PV1), 100,000 infectious units of the Sabin 2 strain, and 600,000 infectious units of Sabin 3. The vaccine contains small traces of antibioticsneomycin and streptomycin—but does not contain preservatives.
قطروں والی ویکسین میں چند قباحتیں ہیں۔ سب سے پہلی تو یہ کہ پولیو کے نیم مردہ جراثیم اتنی طاقت حاصل کر لیں کہ تندرست جراثیم کے برابر ہو جائیں اس طرح وہ بیماری پھیلانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ یعنی اندازاً ساڑھے سات لاکھ میں سے ایک بچہ اس کا شکار ہو سکتا ہے  اور یہ بھی ان بچوں میں ہوتا ہے جن کا دفاعی نظام کمزور ہوتا ہے یا اس میں اس بیماری کے جراثیم کے خلاف ایجنٹس بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
دوسرا سب سے اہم مسئلہ اس ویکسین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہوتا ہے۔ گرم ملکوں میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ نیم مردہ جراثیم کی وجہ سے ویکسین کا درجہ ء حرارت کم رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ 

کیا ویکسین دینے کے باوجود بچے اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں؟
بعض صورتوں میں ویکسین بہت موءثر ثابت نہیں ہوتی۔ مثلاً بعض افراد میں بیماری کے جراثیم کے خلاف اینٹی باڈیز بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لئے وہ ویکسینیشن کے باوجود بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ ٹیکوں کے لگانے کے وقت یعنی ٹائم ٹیبل کا دھیان نہ رکھنا، تیسری اہم وجہ ویکسین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے وقت انہیں ٹھنڈا رکھنے میں ناکام رہنا۔

کیا پولیو ویکسین سے بانجھ پن پیدا ہوتا ہے؟
جی نہیں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اس سلسلے میں نہ صرف سرٹیفیکیٹ جاری کر چکی ہے بلکہ پمفلٹس تقسیم کرا چکی ہے کہ پولیو ویکسین نہ صرف معیاری ہے بلکہ اس طرح کے کوئ امکانات نہیں ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں یہ ویکسین بچوں کو دی جاتی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بانجھ کر رہے ہوں دوسری طرف یہ ویکسین انیس سو پچاس کی دہائ سے دی جارہی ہیں۔ آج ساٹھ سال بعد بھی ایسی کوئ تحقیق یا مشاہدہ سامنے نہیں آ سکا۔
بانجھ پن کی دیگر متعدد وجوہات ہیں جنکی طرف یہ عناصر کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور ان میں سب سے پہلی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ کاشتکاری کے لئے فرٹیلائزرز کا استعمال، کیڑے مار ادویات یہ سب بھی تو بانجھ پن پیدا کر سکتی ہیں حتی کہ ذہنی تناءو بھی بانجھ پن پیدا کر سکتا ہے۔ انکے خلاف کیوں نہیں کوششیں ہوتیں۔

کیا پولیو ویکسین کے لئے بچوں کا خون چاہئیے ہوتا ہے؟
جی نہیں ، پاکستان میں جو ویکسین دی جاتی ہے یہ قطروں کی صورت میں ہوتی ہے اور اس کے لئے کسی بھی قسم کے انجکشن یا خون کے سیمپل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

  پاکستان میں بچوں کی ویکسینیشن کے لئے دو سال کی عمر تک مندرجہ ذیل چارٹ پہ عمل کیا جاتا ہے۔  پانچ سال کی عمر تک ڈی پی ٹی اور پولیو کے قطروں کا ایک بوسٹر دیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ بچوں کو ٹائیفائڈ کے بوسٹر بھی دئے جاتے ہیں جو ہر تین سال کے وقفے سے لگتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے کے بھی ٹیکے میسر ہیں جو لگوانے چاہئیں۔

  اینٹی جن
عمر
 بی سی جی کا ٹیکہ دائیں ہاتھ پہ اوپر کی جانب جلد کے نیچے لگے گا۔ پولیو کے دو قطرے پلائے جائیں گے اور ہیپاٹائیٹس بی سے بچاءو کے انجکش بائیں ران کے گوشت میں لگیں گے۔

 پیدائش کے فوراً بعد
 پانچ بیماریوں کے خلاف ٹیکے لگیں جو اس طرح ہیں، ڈی پی ٹی کا ٹیکہ، ہیپاٹاٹئیس بی کا ٹیکہ اور ایچ آئ بی،  اسکے علاوہ پولیو ویکسین کے دو قطرے۔

 چھ ہفتوں پہ
 وہی پانچ بیماریوں کے ٹیکے جو چھ ہفتوں پہ لگائے گئے اور پولیو ویکسین کے دو قطرے۔

 دس ہفتوں پہ
 وہی پانچ بیماریوں کے ٹیکے جو پہلے لگے تھے اور پولیو ویکسین کے دو قطرے

 چودہ ہفتوں پہ
 نمونیا کا ٹیکہ جو کہ دائیں ران میں لگے گا

 چھ ہفتوں پہ

 نمونیا کا ٹیکہ بائیں ران میں لگے گا
 دس ہفتوں پہ
 نمونیا کا ٹیکہ بائیں ران میں لگے گا

 چودہ ہفتوں پہ
   خسرہ کا ٹیکہ جو الٹے ہاتھ پہ لگے گا

 نو مہینے پہ
 خسرہ کا ٹیکہ اور چکن پاکس کا ٹیکہ
 
 پندرہ مہینے پہ

پولیو کے جراثیم بیمار شخص کے فضلے کے ذریعے ایک شخص سے دوسرے شخص کو پھیل سکتے ہیں۔ بالخصوص ہمارے ملک میں جہاں لوگ ہاتھ دھونے یا صفائ رکھنے سے نا آشنا ہوتے ہیں اور جہاں ایک بڑے علاقے میں بیت الخلاء کا یا سیوریج نظام کا کوئ تصور نہیں ہوتا۔ اس بیماری کے تیزی سے پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ 
یاد رکھیں پولیو کی بیماری میں اگر بچہ مرنے سے بچ جائے تو بھی اسکے معذور ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ معذوری،  دماغی معذوری سے جسمانی معذوری تک کوئ بھی شکل لے سکتی ہے۔ بچہ ایسی حالت میں بھی جا سکتا ہے کہ بستر پہ کروٹ نہ لے سکے اور اپنا ہاتھ ہلا کر اپنے جسم پہ سے ایک مکھی بھی نہ ہٹا سکے۔ ایسا معذور انسان ایک خاندان کی معیشت پہ نہ صرف بوجھ ہوتا ہے بلکہ چونکہ وہ اپنی کفالت کے لئے کچھ نہیں کر سکتا تو دیگر رشتے دار بھی اس میں دلچسپی نہیں لیتے۔ یہ میں آنکھوں دیکھی بتا رہی ہوں کہ کس طرح والدین بلک بلک کر دعا کرتے ہیں کہ ذہنی طور پہ معذور اولاد کو انکی زندگی ہی میں موت آجائے۔ خاص طور پہ اگر یہ اولاد لڑکی ہو تو دیگر ہزار طرح کی پیچیدگیاں کھڑی ہوتی ہیں۔



پھر کیوں نہ ہم اپنی ساری کوششیں اس بات کی طرف مرکوز رکھیں کہ ہمارے بچے صحت مند رہیں۔
بچوں کو پیدا کرنے کا فریضہ تو جانور بھی انجام دیتے ہیں لیکن انہیں صحت مند زندگی حاصل کرنے میں مدد دینا اور انکے لئے اپنے معاشرے کو محفوظ بنانا یہ عمل ایک ذمہ دار انسان ہی انجام دے سکتا ہے۔

Wednesday, June 27, 2012

خوشدلی کے راستے

میں فرسٹ ایئر آنرز کی اسٹوڈنٹ تھی جب وہ میرے پاس آیا۔ وہ اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور خاصہ ذہین۔ نہ صرف ذہین بلکہ شریر بھی تھا۔ وہ اکیلا نہیں آیا تھا بلکہ اسکے ساتھ ایک بہن اور دو بھائ بھی  تھے۔ وہ ان میں سب سے بڑا تھا۔ باقی بہن بھائ بھی اچھے ذہین بچے تھے۔ یہ سب مجھ سے ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔ ذہین بچوں کو پڑھانے میں کسے مزہ نہیں آتا۔ مجھے تو پیسوں کی ضرورت بھی تھی۔ وہ سب مجھ سے پڑھ کر خوش تھے۔ انکے گھر والوں کو ایک تسلی اور بھی تھی اور وہ یہ کہ یہاں ان سے کوئ اس بابت سوال نہیں کرتا تھا کہ وہ قادیانی ہیں۔ اتنے بڑے علاقے میں وہ واحد قادیانی خاندان تھا۔ اگرچہ کسی نے کبھی انکے لئے سخت رویہ اختیار نہیں کیا تھا لیکن ایک چحوٹی جگہ ہونے کی بناء پہ لوگ بطور خاص یہ بات جانتے تھے کہ وہ قادیانی ہیں۔
ان کے دادا نے اپنا قادیانی لٹریچر بھی پڑھنے کو دیا۔ انہی کی دی ہوئ سر ظفراللہ کی سوانح حیات بھی پڑھی لیکن اب مجھے یاد بھی نہیں ہے۔  ہم میں سے کوئ بھی قادیانی نہ ہو سکا۔  پڑھنے کو تو عیسائیوں کا تبلیغی مواد بھی پڑھا۔ خدا جانے کون بھیج دیا کرتا تھا۔ لیکن ہم میں سے کسی کو عیسائ ہونے کی بھی چاہ نہ ہوئ۔ 
آئیندہ ایک ڈیڑھ سال میں وہاب کا قد مجھ سے بھی بڑھ گیا۔  لیکن وہ اسی طرح مسکراتا اپنا کام کرتا رہتا۔ میٹرک کے امتحان میں اس نے اے ون گریڈ لیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب تھوک کے حساب سے اے ون گریڈ بھی نہیں آتے تھے۔ مجھے بھی خوشی تھی کہ میرے اسٹوڈنٹ کے بیاسی فی صد نمبر آئے ہیں۔ لیکن افسوس بھی تھا۔
وہاب میں اب آپ کو انٹر میں نہیں پڑھا سکوں گی کیونکہ خود میری پڑھائ اب پہلے سے زیادہ وقت لیتی ہے۔ایسی صورت میں کہ میں صبح سات بجے کی نکلی ہوئ  یونیورسٹی سے گھر واپس شام کو  ساڑھے پانچ بجے آتی ہوں دیگر بچوں کو ٹیوشن پڑھانے، گھر کے کاموں اور اپنی پڑھائ کے ساتھ اتنا وقت نہیں بچتا کہ آپکے ساتھ بیٹھ کر تمام مضامین کے نوٹس بناءوں۔ انٹر میں زیادہ محنت چاہئیے ہوتی ہے۔ میٹرک تک پڑھانے کے لئے مجھے بالکل تیاری نہیں کرنی پڑتی تھِی۔اس لئے اب بہتر یہ ہے کہ کسی کوچنگ سینٹر کو جوائن کر لو۔ تم ایک ذہین بچے ہو اور میرے چکر میں تم اپنا وقت خراب نہ کرو۔
وہاب کے لئے یہ بڑا صدمہ تھا اس کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا جب ایک ہفتے بعد اسکی والدہ میرے پاس آئیں۔ ایک ہفتہ ہو گیا ہے وہ بستر پہ خاموشی سے پڑا رہتا ہے۔ کہتا ہے پڑھوں گا تو باجی سے پڑھوں گا۔ بیٹا کسی طرح وقت نکال کر اسے پڑھا دو۔  آنٹی میں نے کہا اس وقت میرے پاس جو بچے ہیں انہیں پڑھاتے پڑھاتے رات کو ساڑھے آٹھ بج جاتے ہیں۔ اسکے بعد دیگر کام بھی کرنے ہوتے ہیں ۔ یقین کریں میں صبح پانچ بجے کی اٹھی ہوتی ہوں نیند سے میری آنکھیں بند ہو رہی ہوتی ہے۔ میں آپ کو بالکل ایمانداری سے بتا رہی ہوں کہ اس سے وہاب کے امتحانی گریڈ پہ اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ آپ اسے سمجھائیے، زندگی میں انسان بہت سے لوگوں سے ملتا ہے۔ دنیا کسی ایک انسان پہ آ کر ختم نہیں ہوتی۔ وہ خاموش ہو گئیں۔
اس ساری کوشش کے باوجود وہاب کے گریڈز اچھے نہ ہو سکے۔ مجھے لگا کہ وہ ہر جگہ جا کر عدم تحفظ کا شکار رہتا تھا۔ اور یہ عدم تحفظ کا احساس اسے اس عقیدے کی بناء پہ ملا تھا جس میں وہ پیدا ہوا تھا۔
حالانکہ انسانوں کی اکثریت عموماً وہ مذہب رکھتی ہے جس میں وہ پیدا ہوتی ہے۔ اور اسے تبدیل کرنے کی جراءت بھی ان میں ایک خاص عمر سے پہلے نہیں پیدا ہوتی۔ دنیا کے ہر مذہب سے لا تعلقی اختیار کر لینا یا دہریہ ہوجانا، اسے تبدیل کرنے سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مذہب سے آزادی حاصل کرنے والے یہ عمل احتجاج میں یہ کرتے ہیں۔ ورنہ مذہب اگر اپنی رو میں چلتا رہے تو کسی کو اسے چھوڑنے کی کیا ضرورت۔ ہر گناہ کے بعد توبہ کر لی۔ دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی حفاظت کر لی، اگر وہ ہوئ تو نقصان نہ رہے۔ 
ہم اس محلے سے نکل آئے۔ وہاب کے بارے میں مجھے آخری اطلاع جو ملی وہ یہ تھی کہ اسکے انٹر میں باسٹھ فی صد نمبر آئے۔ تعلیمی کارکردگی میں نمایاں کمی  سے زیادہ جس چیز سے مجھے تکلیف پہنچی وہ یہ تھی کہ وہاب شخصی طور پہ متوازن نہیں رہا۔ بس وہاب اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ اسے یہ فکر زیادہ رہتی ہے کہ لوگ قادیانی ہونے کی وجہ سے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ماں نے ایسے کہا کہ مجھے لگا میں مجرم ہوں۔ وہ ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔
وہ ابتداً میرے پاس آیا تو اسکی آنکھوں میں شرارت اور ذہانت کی چمک تھی۔ مجھے وہ اپنی ان خوبیوں کی بناء پہ بے حد پسند تھا۔ لیکن  اسکی ان خوبیوں کی حفاظت نہ ہو سکی۔  
 اقلیت بن کر رہنا کوئ آسان کام نہیں، بالخصوص مذہبی اقلیت اور پھر ایسی جگہوں پہ جہاں مذہب بنیادی پہچان بتایا جاتا ہو۔ میں بچپن میں سوچا کرتی تھی کہ آخر سب لوگ ہمارے جیسے کیوں نہیں ہو جاتے۔ ہم جو سچائ پہ ہیں، ہم جو سب سے بہتر ہیں۔ ہم جو سب سے زیادہ ہیں۔
اب  یہ سوچتی ہوں کہ آخر ہم سب اپنے اپنے راستوں پہ چل کر خوشدلی کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟ اس طرح ہماری شخصیات اندرونی ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہو جائیں گی اور ہم بہت سارے ایسے انسانوں سے مستفید ہو پائیں گے جو زمین پہ خدا کی تخلیق کا عمدہ نمونہ ہوتے ہیں۔ 
  

Monday, June 18, 2012

بد نظر کی نذر

ہم ایک تقریب میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایک جوڑا داخل ہوا انکے ساتھ انکی دو مہینے کی بچی بھی موجود تھی۔ میں نے اسے گود میں لیا تو دیکھا کہ اسکے ماتھے پہ کاجل سے گول نشان بنا ہوا ہے۔  مجھے معلوم ہے کہ کاجل کا یہ نشان بری نظر سے بچانے کے لئے لگایا جاتا ہے اور اسے نظر بٹّو بھی کہتے ہیں۔ میں نے حیرانی سے اسلامیات میں ماسٹرز کی ہوئ ماں  سے پوچھا کہ آپ بھی  نظر بٹّو پہ یقین رکھتی ہیں۔ 
میز کے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں میں بحث شروع ہوئ اور گفتگو اس طرف مڑ گئ  کہ بری نظر ہوتی ہے بعض نے کچھ احادیث اور روایات کا سہارا لیا۔ کچھ نے واقعات سنانا شروع کئے۔
 میں نے تو صرف ایک ہی بات کہی۔ میری بچی  بچپن سے اکثر لوگوں کو بڑی پسند آتی رہی ہے۔ جب بھی گھر سے باہر نکلتے تو لوگ اسکی حرکتیں دیکھ کر یہ ضرور کہتے کہ گھر جا کر اسکی نظر اتار دیجئیے گا۔   میں نے کبھی نظر نہیں اتاری۔ حتی کہ بیمار بھی پڑی جیسا کہ بچے بیمار ہو ہی جاتے ہیں۔ میں ہمیشہ وجہ پہ غور کرتی کہ ایسا کیوں ہوا پھر علاج اور احتیاط۔  یعنی نظر میں نے پھر بھی نہیں اتاری۔
 اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ہمشیہ یہی سوچتی رہی کہ گورے جنکی اکثریت مذہب پہ یقین نہیں رکھتی اور انکے بچے بڑے پیارے بھی ہوتے ہیں، بیمار بھی ہوتے ہیں۔  انہیں نظر اتارنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تو ہمارے یہاں ہر شخص کو یہ عارضہ کیوں لاحق ہے۔ مجھے بھی دیکھنا چاہئیے کہ کیا نظر اتارے بغیر چارہ نہیں۔ جواب یہ ہے کہ نظر اتارے بغیر بھی  زندگی کم از کم اس طرح گذر سکتی ہے جس طرح اوروں کی گذرتی ہے۔
کہتے ہیں کہ اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے جس نے ڈالی بری نظر ڈالی۔ لیکن ایک سوکھا ساکھا، سست بچہ جو آثار سے ہی لگتا ہے کہ غذا کی کمی کا شکار ہے اسکے ماں باپ بھی کہتے ہیں کہ اسے نظر لگتی ہے۔ بچے کے گلے میں دو چار تعویذ اگر لوگ تعویذ پہ یقین نہیں رکھتے تو کوئ قرآنی آیت یا اللہ کے نام کا دم درود۔ 
بچے تو بچے بڑے افراد بھی  بد نظری کے تعویذ پہنے ہوتے ہیں یا نظر اترواتے ہیں۔ مثلاً بچے کی پڑھائ پہ نظر لگ گئ ہے۔ جیسا پہلے دل لگاتا تھا ویسا نہیں لگاتا۔ لڑکی پہ نظر ہو گئ ہے  اتنی اچھی شکل کی ہے لیکن کہیں شادی کی بات ہی نہیں ٹہرتی۔ لڑکی نے بھاگ کر شادی کر لی، نظر لگ گئ ورنہ تو بڑی فرماںبردار ہوا کرتی تھی۔ کسی نے نظر لگادی شوہر اتنا چاہتا تھا اب کسی اور عورت کے چکر میں پڑگیا ہے۔ مرد کو نظر لگ گئ کیسا بھاگ دوڑ کر کام کرتا تھا اب تو آئے دن بیمار رہتا ہے۔  حتی کہ ایک بڑی بی نے بتایا کہ کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئ۔ اب کیا بتائیں، لوگوں کی نظر لگ گئ کہ اس عمر میں بھی کتنا چلتی پھرتی ہیں۔ ورنہ راستے میں پڑا کیلے کا چھلکا کیا ہمیں نظر نہیں آتا۔ چلتا ہوا کاروبار ٹھپ ہو گیا، نظر لگ گئ ہے۔ انسانوں سے ہٹ کر ہر دوسری گاڑی کے پیچھے ایک کالے کپڑے کی لیر لٹکتی نظر آئے گی۔ کس واسطے تاکہ گاڑی بری نظر سے بچی رہے۔ زیر تعمیر عمارات پہ ماشاءاللہ کی تختی پہلی اینٹ کے ساتھ لگ جاتی ہے۔ اکثر کے ساتھ ہمیشہ کے لئے لگ جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
نظر کا تصور صرف مسلمانوں میں نہیں دنیا میں ہر جگہ پایا جاتا ہے اور ہر مذہب میں اس کے لئے کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے۔ اس کی ابتدائ تاریخ مشرق وسطی سے ملتی ہے۔ یونانی فلاسفرز کی تحریروں میں بھی اس حوالے سے تصورات ملتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ بد نظری کا یہ نظریہ سکندر اعظم کے ساتھ مشرقی ملکوں کی طرف سفر کر گیا۔ اس طرح سے اس متائثر زیادہ تر علاقے عرب اور ایشیاء سے تعلق رکھتے ہیں۔  یوروپ میں یہ ان علاقوں سے آیا جو میڈیٹیرینیئن علاقوں سے ملے ہوئے تھے جبکہ امریکہ میں یہ یوروپی تسلط کے ساتھ داخل ہوا۔
آخر لوگ نظر بد پہ کیوں یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ انسان ہمیشہ سے ان دیکھے کے خوف میں مبتلا رہا ہے  اور ساتھ ہی ساتھ وہ کسی بھی قسم کے نقصان سے محفوظ رہنا چاہتا ہے۔ اس لئے کسی برے حادثے یا واقعے کے بعد اگر اسکا تجزیہ صحیح طور پہ کرنے سے قاصر ہو تو اسکا ذہن کسی ماورائ تصور کی طرف جاتا ہے۔  اب اگر یہ برا واقعہ بظاہر خدا کی ناراضگی یا قہر نہیں ہے تو اسکی وجہ لازماً کسی کی بری نظر ہی ہو سکتی ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں میں بری نظر سے بچنے کے مختلف ٹوٹکے ہیں۔ جیسے دروازے پہ گھوڑے کی نعل لٹکانا یا ترکی میں ایول آئ بڑی مشہور چیز ہے۔ جو نیلے شیشے سے بنی آنکھ ہوتی ہے اور ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے، بازار میں خوب بکتی ہے۔ یہ نیلی آنکھ بد نظر کو واپس اس کے دیکھنے والے پہ بھیج دیتی ہے۔


 ادھر افریقہ کے کچھ حصوں میں ایک ہاتھ کی شبیہہ ملتی ہے جسکے درمیان میں بالعموم ایک آنکھ ہوتی ہے۔ یہ ہمسا کہلاتا ہے۔  یہ بھی بد نظر سے تحفظ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مسلمان اسے حضرت فاطمہ کا ہاتھ کہتے ہیں اور عیسائ حضرت مریم کا ہاتھ قرار دیتے ہیں۔

جہاں کچھ خطوں میں نیلی، ہری آنکھوں والے لوگ بد نظر قرار پاتے ہیں وہاں کچھ خطوں میں نیلی یا ہری آنکھوں والے لوگ نظر سے سب سے زیادہ متائثر ہونےوالےجانے جاتے ہیں۔
 ایسے مصائب کا  تعلق خدا یا خداءوں کی بھیجی گئ مصیبت سے نہیں بلکہ ایک انسان کی نظر کی مصیبت سے ہوتا ہے۔ یعنی اگر خدا کے عذاب اور قہر سے بچ بھی جائیں تو بھی ہمارے ہم جنس کا صرف دیکھ لینا ہی مار ڈالتا ہے۔ اس طرح دراصل ہم ایک انسان کے اندر ایک عجیب سے برائ تلاش کر لیتے ہیں جسکا اسکے ذاتی اخلاق یا خواہش سے کوئ تعلق نہیں ہوتا۔ کوئ مہمان گھر سے آکر گیا اور اسکے بعد اسے بچے کو بخار ہو گیا تو بس مہمان کی نظر میں ہی کوئ خرابی ہوگی۔ جبکہ اسے معلوم تک نہیں ہوتا کہ اسکے متعلق کیا تصور باندھ لیا گیا ہے۔
اب یقیناً لوگ مقدس تاریخ میں سے حوالے نکال کر لائیں گے کہ فلاں حدیث کے مطابق ایسا ہوا اور فلاں روایت میں یہ کہا گیا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس وقت کا عرب معاشرہ جس حد تک انقلاب کو برداشت کرنے کے لئے تیار تھا اتنے ہی انقلابی نظریات پیش کئے گئے۔ اور بہت سے خیالات کو نہیں چھیڑا گیا کہ انکی تفصیلات میں جانا عام لوگوں کو سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اور عوام الناس کو بس انکے توڑ کے لئے کچھ مذہبی حل بتا دئیے گئے۔ اسی میں سے ایک تصور نظر بد کا بھی ہے۔
ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ ایک بچہ کبھی بیمار نہ پڑے اسی طرح یہ ہونا بھی بہت مشکل ہے کہ کوئ شخص اپنی زندگی میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرے۔ انسان جتنا چاہے نیک ہو، واقعات اچھے یا برے پیش آتے ہی ہیں۔ اب رسول اللہ نے گیارہ شادیاں کیں لیکن جو اولاد نرینہ ملی وہ ابتدائ عمر میں ہی دنیا سے گذر گئ۔ اس طرح قریش نے انہیں لا ولد ہونے کا طعنہ دیا۔  تو کیا یہ  نظر بد تھی یا خدا کی ناراضگی۔ یقیناً ایسا نہیں تھا۔
سو کوئ اپنے بچے کو نظر بٹو لگائے، مرچیں سات بار گھما کر جلائے، سل کا بٹہ لے کر سات بار گھمائے، یا سورہ کوثر باری باری پڑھ کر دونوں گالوں پہ پیار کر لے، عمارت یا گاڑی پہ ماشاء اللہ لکھ کر لگائے یا ہر اچھی چیز کو دیکھ کر ماشاء اللہ کہے۔ سب کے نتائج عموماً ایک جیسے ہی نکلتے ہیں یعنی اگر فلو کا موسم چلا ہوا ہے تو بچے کو فلو ضرور ہوگا۔
بد نظری سے متعلق یہی سوچ جب آگے بڑھتی ہے تو لوگ دم ، دعا، تعویذ کے چکر میں ایسا الجھتے ہیں کہ پھر زندگی میں کرنے اور سوچنے کو کچھ باقی نہیں رہتا۔ ہاتھوں میں کئ طرح کے پتھر یا اسموں کی انگوٹھیاں ہوتی ہیں۔ ہر آنے جانے والے رشتے دار کے متعلق اندازے لگائے جاتے ہیں کہ کس کی نظر بری تھی، آخیر میں یہ  بظاہر معمولی نظر آنے والی سوچ انسان کے اندر سے اعتماد ختم کر دیتی ہے۔ 
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بات نظر بد سے چلتی ہے اور جادو تک جاتی ہے۔ کہتے ہیں جادو برحق ہے۔ اگر ایسا ہی بر حق ہوتا تو دنیا میں بڑے سے بڑے کام اسی کے زور پہ نکال لئے جاتے اور چند جادوگر اس دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے۔ مگر ستم ظریفی دیکھئیے کہ دنیا کے سیاہ سفید کے مالک وہ بنے جن کے ہاتھوں میں یا تو تلواریں تھیں یا پھر کتابیں۔ 
کیا جادو کوئ حقیقت رکھتا ہے؟

Wednesday, June 13, 2012

اعلی میں گھٹالا


یہ واقعہ مشہورطبیعیات داں نیلز بوہر سے منسلک کیا جاتا ہے۔ نیلز بوہر پچھلی صدی کے عظیم سائینسدانوں میں سے ایک تھا۔ اپنی سائینسی خدمات کے سلسلے میں انہیں فزکس کے میدان میں نوبل پرائز بھی ملا۔ قسمت کا ایسا دھنی نکلا کہ اسکے چھ بیٹوں میں سے ایک کو نوبل پرائز ملا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس کے بیٹے کے نوبل پرائز کا اسکی قسمت سے کیا تعلق۔ مجھے بھی نہیں معلوم، میں نے تو اپنے معاشرتی چلن میں یہ لکھا ہے۔
قصہ خواں کہتے ہیں کہ  فزکس کا پرچہ تھا اور ممتحن نے سوال پوچھا کہ ایک بیرو میٹر کی مدد سے کیسے ایک بلند عمارت کی اونچائ ناپی جا سکتی ہے۔ ممتحن نے جس جواب کے لئے سوال پوچھا تھا، وہ یہ تھا کہ بیرو میٹر سے زمین کی سطح پہ دباوء معلوم کیا جائے پھر اس عمارت کی چھت پہ دباءو معلوم کیا جائے اور ان دونوں کے فرق کو ایک فارمولے میں رکھ کر عمارت کی بلندی پتہ چلا لی جائے۔
شاید نیلز بوہر نے اس مہم پسند طالب علم کی طرح سوچا جو اپنی مہم جوئ کا شوق اپنے استاد پہ نکالتا ہے، کیوں نہ ممتحن کو تپایا جائے اور جواب لکھ مارا کہ ایک رسی لے کر اس میں بیرو میٹر باندھ لیا جائے۔ عمارت کی چھت سے اس بیرو میٹر کا زمین تک چھوڑا جائے زمین کی سطح سے چھت تک اس رسی کی لمبائ ناپ لی جائے اور اس میں بیرومیٹر کی اونچائ شامل کر لی جائے۔
ممتحن اتنا بھنایا کہ طالب علم کو فیل کر دیا۔  طالب علم نے احتجاج کیا کہ یہ اسکے ساتھ زیادتی ہے۔ کسی غیر جانب دار شخص سے اسکی تحقیقات کرائ جائے۔ ایک  کمیٹی معاملے کی تحقیقات کے لئے بیٹھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جواب تو درست ہے لیکن اس میں فزکس کہیں نہیں ہے۔ لہذا طالب علم کو ایک موقع اور دیا جائے تاکہ وہ فزکس میں اپنی مہارت ثابت کر سکے۔
 طالب علم سے کہا گیا کہ اسکے پاس چھ منٹ ہیں۔ اگر وہ اس کا فزکس کے مطابق جواب دے دے تو اس کے حق میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگ ہر حال میں ڈرامہ پیدا کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔  شاید نیلز بوہر کی فطرت میں کچھ ڈرامہ بھی تھا۔ یا شاید ہر سائنسداں تھوڑا بہت ڈرامہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ طالب علم خاموش ہو گیا۔ لیکن گھڑی کی سوئیاں نہیں۔ اس لئے ایک دفعہ پھر اسے یاد کرایا گیا کہ اسکے پاس اب بہت کم وقت ہے۔
 نیلز بوہر نے جواب دیا کہ دراصل اسکے ذہن میں کئ ممکنہ جواب ہیں اور وہ طے کر رہا ہے کہ کسے پہلے بیان کرے۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ خالی ذہن ہی نہیں بھرا ہوا ذہن بھی شیطان کا چرخہ ہوتا ہے۔ اس چرخے کی مضبوطی دیکھ کر وہ یوں گویا ہوا۔
بیرو میٹر کو عمارت کی چھت پہ لے جا کر وہاں سے نیچے پھینکا جائے۔ چھت سے زمین تک فاصلہ طے کرنے میں جو وقت لگا ہو اسے نوٹ کر کے فارمولہ لگایا جائے تو بلندی معلوم ہو جائے گی۔ البتہ بیرومیٹر کے بچنے کی امید نہیں۔
ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ اگر سورج نکا ہوا ہو تو بیرو میٹر کی اونچائ نوٹ کر کے اسکے سائے کی لمبائ لے لیجئیے پھر عمارت کے سائے کی لمبائ نوٹ کر لیں اسکے بعد تو ایک بالکل سادہ نسبت کے ذریعے عمارت کی اونچائ معلوم کی جا سکتی ہے۔
پھر اس نے اپنا داہنا گال کھجایا، شاید مسکراہٹ چھپانے کے لئے اور بولا
لیکن اگر آپ ایک دم درست لمبائ جاننا چاہتے ہوں تو بیرو میٹر کو ایک رسی کے ذریعے ٹانگ کر اس کا پینڈولم بنا لیں۔ پھر زمین  اور عمارت پہ الگ الگ اسے جھلائیے۔ اور دونوں جگہوں پہ ریسٹورنگ فورس معلوم کر کے فارمولا لگا دیں۔ لیجئیے جناب بلندی معلوم ہو جائے گی۔ 
تمام کمیٹیوں کے ارکان میں ایک بات مشترک ہوتی ہے سب سکون سے ہر ناروا کو بھی روا سمجھ کر سنتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں فیصلے کا اختیار انکے پاس ہے۔ یہ سوچ کرنیلز بوہر نے کہا اگر عمارت میں چھت تک جانے کے لئے ایمرجنسی سیڑھیاں موجود ہیں تو بیرو میٹر لے کر سیڑھیوں پہ چڑھ جائیے۔ اور ہر منزل پہ بیرو میٹر کی بلندی ناپتے جائِے اور آخیر میں اسے جمع کر لیں۔ عمارت کی بلندی پتہ چل جائے گی۔
پھر اس نے ذرا رک کرسانس لی اور چہرہ سنجیدہ کیا جیسے ایک مقدس بات کہنے جا رہا ہو۔ اگر کسی روائیتی اور بور طریقے کو اپنانا چاہتے ہیں تو زمین پہ  بیرو میٹر رکھ کر دباءو معلوم کریں اور اسی بیرو میٹر سے عمارت کی چھت دباءو معلوم کریں  اور دونوں کے فرق کو ملی بار سے فٹ میں تبدیل کر لیں۔ عمارت کی بلندی علم میں آجائے گی۔
آخر میں اس نے فیصلہ کن پینترا بدلا۔ لیکن چونکہ ہمیں ہمیشہ یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ کھلے ذہن سے سائینسی طریقہ ء کار کو سوچو تو میں عمارت کے نگراں کے پاس جاءونگا اور کہونگا کہ کیا وہ مجھے عمارت کی بلندی بتا سکتا ہے اگر ہاں تو میرے پاس ایک نیا بیرو میٹر ہے وہ اسکا ہوگا۔
قصہ خواں اسکے بعد خاموش ہوتا ہے۔ کیا کمیٹی کے حواس یکجا رہے؟ کیا کمیٹی نے متفقہ طور پہ اسے پاس کر دیا؟ کیا واقعی پوت کے پیر پالنے میں نظر آتے ہیں؟
اس قصے کے بارے میں دو خبریں ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ سب سے پہلے انیس سو پچپن میں ریڈرز ڈائجسٹ میں شائع ہوا اور دوسرا یہ کہ اس کا نیلز بوہر سے کوئ تعلق نہیں۔
۔
۔
۔
۔
۔

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
اب آپ جان چکے ہونگے کہ یہ معاملہ محبت تک ہی محدود نہیں کئ اور معاملات میں بھی ہوتا ہے مثلاً عظمت۔ کچھ تو لوگ بڑے کارنامے انجام دے کر عظیم ہو ہی جاتے  ہیں اور کچھ داستانیں ان میں مزید شامل ہو جاتی ہیں۔ ایسے کے سچ نکالنا مشکل ہی نہیں غیر دلچسپ اور گناہ کے برابر  ہو جاتا ہے۔