Showing posts with label اوپن ہارٹ سرجری. Show all posts
Showing posts with label اوپن ہارٹ سرجری. Show all posts

Monday, November 8, 2010

اوپن ہارٹ

میری ایک محقق دوست جرمنی سے واپس آئیں تو ان سے ملاقات ہوئ۔  باتوں باتوں میں وہاں کے قصے چھڑے تو بتانے لگیں کہ جب میں نے اپنی جرمن پروفیسر کو بتایا کہ ہمارے ساتھ جو میرے کولیگ موجود ہیں انکی اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہے۔ تو وہ پوچھنے لگیں کہ کہاں ہوئ تھی۔ میں نے بتایا پاکستان میں۔ ایکدم کندھے اچکا کر کچھ حقارت سے کہنے لگیں کہ کیا پاکستان میں ڈاکٹرز اوپن ہارٹ سرجری کر لیتے ہیں اور وہاں ہوتی ہے۔ اس سے میری دوست کے دل کو دکھ پہنچا۔ جرمن مغرور اور اکھڑ ہوتے ہیں۔ یہ اکثر سننے میں آتا ہے۔ لیکن جب کوئ آپکے سامنے آپکے وطن کا تذکرہ حقارت سے کرے تو رنج تو ہوتا ہے۔
 ان کا یہ طرز عمل شاہد انکی لا علمی پہ مبنی تھا۔ جب لوگ اپنے آپ میں گم ہو جائیں تو اکثر وہ اپنے علم سے نہیں بلکہ لا علمی سے دوسروں کا دل دکھاتے ہیں یا انکے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو پچھلے کچھ سالوں سے معاشی بحران کا سامنا ہے جسکے نتیجے میں وہ اپنے باشندوں کو بنیادی سہولیات مناسب طور پہ نہیں دے پا رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اسکی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں انتہائ اضافہ ہوا ہے اور یوں لوگوں کو اب ویسی آسانیاں میسر نہیں جیسی پہلے تھیں۔ بعض ممالک میں گورنمنٹ کے ہسپتالوں میں تین تین سال تک کی لمبی لائن لگی ہوئ ہے۔
یوں دنیا کے وہ ممالک جو سستی طبی سہولیات اور بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ وہ پہلی دنیا کے عوام کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔  انڈیا میں تو یہ باقاعدہ ایک صنعت کی حیثیت اختیار کر گئ ہے۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیدا کرنا ہو، سر پہ مصنوعی بال لگوانے ہیں، دانتوں کا نیا سیٹ بنوانا ہے، گردوں کی پیوند کاری کروانی ہے ۔ لوگ اب ان ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ انڈیا میں تو یہ ایک صنعت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ آنے والا اپنے ساتھ ڈالرز لے کر آتا ہے۔ وہ جب اسے روپوں میں تبدیل کرتا ہے تو اسے زیادہ پیسے حاصل ہوتے ہیں۔ لوگ سیر تفریح کرتے ہیں، اپنا کام کرواتے ہیں، ایک نئ جگہ سے آشنائ حاصل کرتے ہیں اور خوش خوش اپنے ملک واپس جاتے ہیں۔ یہ کہلاتی ہے طبی سیاحت۔ اس سارے کے بعد بھی انکا کل خرچہ، انکے ملک میں ہونے والے خرچے سے خاصہ کم ہوتا ہے۔
انڈیا میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے لئے رضاکار بھی بآسانی مل جاتے ہیں۔ غریب عوام اپنے اعضاء بیچنے کے لئے تیار ہے۔ ادھر پاکستان میں۔ لاہور میں بآسانی گردے مل جاتے ہیں۔ اور شہر میں یہ کاروبار ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں بہت سرگرمی سے چل رہا ہے۔ میں خود ایسے لوگوں سے مل چکی ہوں جو پاکستان سر پہ بال لگوانے یا دانتوں کے علاج کے لئے آئے تھے۔
انڈیا کے علاوہ اس خطے میں تھائ لینڈ بھی کام کر رہا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ صنعت پھلنے پھولنے کے امکانات ہیں اورکئ ڈاکٹرز اس سمت میں کام بھی کر رہے ہیں۔  اگرچہ  ہم مہنگائ کی وجہ سے مختلف سہولیات کو اپنے سے دور ہوتا محسوس کر رہے ہیں کہ ہم روپوں میں کما کر روپوں میں خرچ کرتے ہیں۔ لیکن یہ ان لوگوں کو سستی لگتی ہے جو ڈالرز لے کر ان جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔  یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ آجکل ایک ڈالر، پاکستانی تقریباً چھیاسی روپوں کا بن رہا ہے۔ میں جس اسپیشلسٹ کی آٹھ سو روپے فیس سن کر سوچ میں پڑ جاتی ہوں وہ ڈالر میں دس ڈالر سے بھی کم ہوتی ہے۔ پہلی دنیا کے بازاروں میں دس ڈالر میں اچھے سیب شاید آٹھ دس آجائیں مگر ایک اچھا ڈاکٹر نہیں ملے گا۔
آپکو لگا کہ ان جرمن یونیورسٹی پروفیسر کو ہمارے خطے کے بارے میں کچھ کم آگاہی نہیں۔ بلکہ شاید وہ اپنے ہی خطے کے ان لوگوں کے بارے میں بھی واقف نہیں جو نیرنگی ء زمانہ سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہر ممکن طریقہ کام لا رہے ہیں۔ لیجئیے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ انڈیا کے انڈر ورلڈ ڈان داءود ابراہیم کی اوپن ہارٹ سرجری بھی کراچی میں ہوئ، آپس کی بات ہے ہمیں بھی اسی لنک سے پتہ چلا۔ 
اب یہ بتائیے کہ ایکدوسرے سے آگاہ رہنے کے لئے دنیا کے لوگوں کو کیا کرنا چاہئیے۔ایک  بات تو میں بتا دیتی ہوں۔ اپنے دلوں کو اوپن کر لیجئیے، اس سے پہلے کہ اوپن ہارٹ سرجری کی باری آئے۔ باقی اب آپکی باری ہے۔