Showing posts with label اردو بلاگرز. Show all posts
Showing posts with label اردو بلاگرز. Show all posts

Saturday, December 17, 2011

حاصل، لا حاصل

تمام لکھنے والے انسان کے متعلق لکھتے ہیں اور لکھنا چاہتے ہیں۔ جب وہ ظاہری طور پہ ایسا نہیں کرتے جب بھی وہ ایسا ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ انسان اس کائینات میں جس چیز کو سب سے زیادہ جاننے کی  خواہش رکھتا ہے وہ بھی حیرتناک طور پہ خدا نہیں انسان ہے۔
بانو قدسیہ کا ناول ہے 'راجہ گدھ'۔ ایک ناول جس میں انسان کی نفسیات کو شاید رزق کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی گئ ہے۔ بانو قدسیہ ایک کہنہ مشق لکھاری اور ہمارے ملک کی ایک بڑی ادیبہ ہیں۔ خوش قسمتی سے اپنے پڑھنے والوں پہ اپنا اثر بھی رکھتی ہیں۔ کیونکہ غضب کے لکھنے والے تو ہوتے ہیں مگر پڑھنے والوں کو اپنے اثر میں لے آنا یہ ہر ایک کی قسمت نہیں ہوتی۔
انکے اس ناول سے میں نے ایک اصطلاح کا تعارف لیا، عشق لا حاصل۔ لا حاصل کا عشق انسان کو دیوانگی میں مبتلا کر دیتا ہے مجھے انکی تحریر سے یہ سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ عشق میں حاصل اور لا حاصل کی حد تمیز کہاں ہوتی ہے۔
عشق لا حاصل نہیں ہو سکتا۔ جو لا حاصل ہو وہ عشق نہیں ہو سکتا۔ اور ریاضی کے اس کلئیے سے تو ہم واقف ہیں کہ صفر سے جو چیز ضرب کھائے وہ صفر ہو جاتی ہے۔
ویسے عشق کا حاصل کیا ہوتا ہے؟ عرفان ذات، میرے خیال سے اگر عشق انسان کو عرفان ذات نہیں دیتا تو یہ عشق نہیں ہوتا۔
 انکے ناول میں رزق حلال اور حرام کے انسانی نفسیات پہ اثرات کا مطالعہ بھی آتا ہے۔ ہو سکتا ہے اسے پڑھنے والے بیشتر قاری اس سے متفق ہوں۔ مگر چند ایک اختلاف بھی رکھتے ہونگے۔ جیسے میں۔
کیونکہ عملی دنیا میں جو ہم دیکھتے ہیں وہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ حلال زندگی نہیں گذارتے لیکن انکی اولاد یہ رجحان نہیں رکھتی۔ مثلا حضرت ابراہیم کے والد ایک بت تراش تھے جبکہ حضرت ابراہیم ایک بت شکن۔
 اس طرح رزق حلال انسان میں روحانی اطمینان تو پیدا کرتا ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو حلال کماتے کھاتے ہیں پھر بھی سخت ترین دنیاوی آزمائیشوں میں گھرے رہتے ہیں اور یہ پے درپے آزمائیشیں ان سے دل کا سکون چھین لیتی ہیں۔ اور انسان یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے ہیں۔
کیا انسانی اخلاق یا تقدیر کا تعلق رزق سے ہوتا ہے ؟
کیا حلال رزق کھانے والے اعلی اخلاقی کردار رکھتے ہیں اور حرام کھانے والے  رذیل کردار؟ کیا حلال کھانے والے آسان تقدیر رکھتے ہیں اور حرام کھانے والے مشکل؟
کیا حلال اور حرام رزق انسان کے ڈی این اے پہ اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا مکافات عمل واقعی کوئ وجود رکھتا ہے؟

انسانی نفسیات یا مختلف رویوں کے ماءخذ، لکھنے والے کے لئے اسرار کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک انسان یا انسانوں پہ مشتمل ایک معاشرہ کیوں ایک خاص رویہ یا رجحان رکھتا ہے؟ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی کیوں ان چیزوں کا شکار ہو جاتا ہے جو اسے نا پسند ہوتی ہیں اور کیوں پسند کی چیزیں اس کی پہنچ میں نہیں آپاتیں؟ کیا یہ سب تقدیر ہے؟ لیکن کیا انسانوں کے لئے کوئ خاص قدرتی نہج موجود ہے؟ کیا سورج چاند ستاروں کی طرح انسان کے لئے بھی کوئ ایک مقررہ رستہ ہے یا اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے قدرت انہیں  الگ نظر سے دیکھتی ہے؟ قدرت اپنا یہ پیمانہ کس طرح مقرر کرتی ہے؟
 کل میں ایک اردو بلاگ سے گذری۔ یہاں  بلاگر نے اپنی اس تفصیلی پوسٹ میں جنس سے متعلق مختلف چیزوں پہ اپنے خیالات کو پیش کرتے ہوئے لکھا کہ جو بچے نفرت کے رشتے سے پیدا ہوتے ہیں وہ ذہنی طور پہ غیر متوازن شخصیت رکھتے ہیں اور صحت مند نہیں ہوتے۔
مصنف جنسی تعلق کو عبادت کے مقابل لاتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اگر عبادت میں خشوع و خضوع نہ ہو تو عبادت رائگاں ہوتی ہے۔ جنسی عمل میں بھی اگر صداقت نہ ہو تو یہ کمزور انسانوں کو وجود میں لاتا ہے اور کمزور انسان کمزور معاشرے کو جنم دیتا ہے۔ انکی اس تحریر سے میں نتیجہ نکالتی ہوں کہ ایک ایسے تعلق، جس میں جذباتی وابستگی نہ ہو، محبت نہ ہو، حاصل  لا حاصل کے برابر ہوتا ہے۔   
اگر عشق لا حاصل دیوانگی دیتا ہے اور اگر نفرت کا تعلق کمزور انسان  اور اگر یہ انسان کے ڈی این اے کو بھی متائثر کرتے ہیں تو یہ سلسلہ زنجیر کی مانند چلتے رہنا چاہئیے اور مستقبل ہمیں تاریک نظر آنا چاہئیے۔ لیکن ہمارے دلوں پہ امید کیوں دستک دیتی ہے۔ اور ہم مستقبل سے اپنے لئے کیوں خوشی چاہتے ہیں؟

Thursday, June 17, 2010

وبائے مرگ اور محبت

انگریزی بلاگز پہ کہیں زیادہ خون گرما دینے والی تحاریر آتی ہیں، لوگ اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور میں اپنے دندان ساز ڈاکٹر کے بلاگ پہ دیکھتی ہوں کہ ایک پوسٹ پہ تین سو سے بھی زائد تبصرے ہوئے ہیں۔ مگر رشک آتا ہے انگریزی زبان کے صحت افزاء اثر پہ کہ کسی کو فشار خون لا حق نہیں ہوتا۔  مگر ہمارے اردو بلاگرز کا نظام ہاضمہ بس مخصوص چیزوں کو ہی ہضم کر پاتا ہے اور یوں عالم یہ ہوتا ہے کہ نمکدان قریب ہو تو اس سے بھی فشار خون بلند ہو جاتا ہے۔  یہاں تو اگر غالب کی وہ غزل جو نمک کے قافئیے پہ ہے اسی کو ڈالدیں تو کچھ لوگوں کےدنیا سدھار جانے کا پروگرام  فی الفور بن جائے گا اور الزام 'کسی اردو بلاگر' کے سر آئے گا۔
ویسے اگر بلاگرانہ ہم آہنگی صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ اپنے اپنے کینے دل میں پال کے رکھیں اور مصنوعی مسکراہٹوں ، رسمی خیر سگالی کے جملوں کا وقتآ فوقتآ تبادلہ ہوتا رہے۔ لوگ باگ اپنے بچوں کی خوبصورت تصاویر لگاتے رہیں، کچھ اشتہا انگیز کھانوں کی تصاویر آتی رہیں، کچھ سینیئر بلاگرز کا چاہے وہ کچھ بھی لکھیں ،احترام کیا جاتا رہے، کچھ جونیئر بلاگرز، عمر میں جونیئر کا لاڈ اٹھایا جاتا رہے، کچھ لوگوں کی باتوں پہ جزاک اللہ اور کچھ کی باتوں پہ سبحان اللہ ہوتا رہے، کچھ لوگ ایکدوسرے کو زبردست تحاریر پہ مبارکباد دیتے رہیں وہ جو انکے نظریات سے ملتی ہیں، کچھ اپنے تئیں منٹو اور عصمت چغتائ بننے والے، بالغوں کو نا بالغ بناتے رہیں اور خوش رہیں۔ تو بہتر ہے کہ انسان کچھ ڈائجسٹ پڑھکر دل بہلائے مثلآ خواتین ڈائجسٹ اور اس پہ وقتاً فوقتاً سسپنس یا جاسوسی ڈائجسٹ کا چھینٹا مارتا رہے اور ان سب کو پڑھنے سے پہلے برکت کے لئے روحانی ڈائجسٹ پڑھا کرے۔
اس میں یہ تمام ملغوبہ اس توازن سے ہوتا ہے کہ جن گھروں میں پڑھا جاتا ہے وہاں کسی کو بلاگنگ جیسی فضولیات میں وقت ضائع کرنے کا خیال نہیں آتا علاوہ ازیں گھروں کے اندر ہم آہنگی کی ایک آِئڈیئل فضا جنم لیتی ہے جس سے  ڈائیجسٹ والوں کے روزگار پھلنے پھولنے کے مواقع بڑھتے رہتے ہیں۔ اسکے لئے کمپیوٹر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور انسان ان پہ پیسے صرف نہ کرنا چاہیں تو محض پڑوسیوں سے اچھے تعلقات پہ ہی کام چل جاتا، اس صورت میں نمک مانگنے کے بجائے یہ کہنا ہوگا کہ خالہ جی بلکہ آنٹی جی، آپ نے اپنا ڈائجسٹ ختم کر لیا تو ہمیں دے دیں۔ مجھے اس میں سے نہاری کی  ترکیب آزمانی ہے۔
نہاری ہم آہنگی پیدا کرنے کا ایک آزمودہ نسخہ ہے۔ اب یہاں ایک ایک سیدھا سادہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ نہاری سے کیسے بلاگرانہ ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے۔ میں تمام اردو بلاگرز کو اس سلسلے میں ٹیگ کرتی ہوں کہ نہاری، اسکی مختلف تراکیب، طریقہ ء استعمال، کھانے کے آداب، لوگوں کو اسکی دعوت پہ بلانے کے آداب، گھر میں ایک اس طرح کی دعوت منعقد کرنے کے سو طرائق اور نہاری پیش کرنے کے سلیقہ مند طریقوں کو بیان کریں۔
خبردار کسی نے گوشت کی بڑھتی ہوئ قیمتوں، لوگوں کے کھانا نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کرنے کے واقعات کا تذکرہ، مختلف لسانی اکائیوں کے اس بارے میں وہم اور خیالات، کھونٹوں کی گئیوں، کولہو کے بیل اور گلی کے گدھوں کا تذکرہ کیا۔ اس سے ہم آہنگی جیسے عظیم مقصد کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جو صرف اسی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے کہ ہم کوہ قاف کی کہانیاں دوہراتے رہیں۔
میں زیادہ گھمبیر مسئلے کی طرف آتی ہوں کہ اس سے ہم آہنگی بھی برقرار رہے اور سب لوگ اس میں شامل رہیں۔ مسئلہ ہے، آج کیا پکائیں، حالانکہ پچھلے دو دن سے میں ایک احساس جرم میں مبتلا ہوں کہ یہ کیسے ہوتا ہے کہ ایک خاندان کے پانچ لوگ مفلسی کی وجہ سے خدا کے بنائے ہوئے قانون کو توڑتے ہیں اور اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ آج کیا پکائیں۔ مگر ان تمام باتوں پہ گفتگو ہمیشہ ایسے نکات کی طرف مڑے گی جہاں سے ہم آہنگی کے نازک بت کو ضرر پہنچ سکتا ہے۔ میں اسی مجرمانہ احساس کے ساتھ نہاری کی ترکیب کو ذہن میں دوہراتی ہوں۔
اسکے لئے چاہئیے ہوگا ایک کلو گوشت بونگ کا، کچھ مصالحے اور آپکے کچن کو ایسی جگہ ہونا چاہئیے جہاں سے بھننے والے گوشت اور حلووں کی خوشبو ان لوگوں تک نہ پہنچے جو زہر کی گولیاں ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں۔
ویسے برسبیل تذکرہ کسی نے گارسیا کی  کتاب وبائے مرگ میں محبت پڑھی ہے۔