تمام لکھنے والے انسان کے متعلق لکھتے ہیں اور لکھنا چاہتے ہیں۔ جب وہ ظاہری طور پہ ایسا نہیں کرتے جب بھی وہ ایسا ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ انسان اس کائینات میں جس چیز کو سب سے زیادہ جاننے کی خواہش رکھتا ہے وہ بھی حیرتناک طور پہ خدا نہیں انسان ہے۔
بانو قدسیہ کا ناول ہے 'راجہ گدھ'۔ ایک ناول جس میں انسان کی نفسیات کو شاید رزق کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی گئ ہے۔ بانو قدسیہ ایک کہنہ مشق لکھاری اور ہمارے ملک کی ایک بڑی ادیبہ ہیں۔ خوش قسمتی سے اپنے پڑھنے والوں پہ اپنا اثر بھی رکھتی ہیں۔ کیونکہ غضب کے لکھنے والے تو ہوتے ہیں مگر پڑھنے والوں کو اپنے اثر میں لے آنا یہ ہر ایک کی قسمت نہیں ہوتی۔
انکے اس ناول سے میں نے ایک اصطلاح کا تعارف لیا، عشق لا حاصل۔ لا حاصل کا عشق انسان کو دیوانگی میں مبتلا کر دیتا ہے مجھے انکی تحریر سے یہ سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ عشق میں حاصل اور لا حاصل کی حد تمیز کہاں ہوتی ہے۔
عشق لا حاصل نہیں ہو سکتا۔ جو لا حاصل ہو وہ عشق نہیں ہو سکتا۔ اور ریاضی کے اس کلئیے سے تو ہم واقف ہیں کہ صفر سے جو چیز ضرب کھائے وہ صفر ہو جاتی ہے۔
انکے اس ناول سے میں نے ایک اصطلاح کا تعارف لیا، عشق لا حاصل۔ لا حاصل کا عشق انسان کو دیوانگی میں مبتلا کر دیتا ہے مجھے انکی تحریر سے یہ سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ عشق میں حاصل اور لا حاصل کی حد تمیز کہاں ہوتی ہے۔
عشق لا حاصل نہیں ہو سکتا۔ جو لا حاصل ہو وہ عشق نہیں ہو سکتا۔ اور ریاضی کے اس کلئیے سے تو ہم واقف ہیں کہ صفر سے جو چیز ضرب کھائے وہ صفر ہو جاتی ہے۔
ویسے عشق کا حاصل کیا ہوتا ہے؟ عرفان ذات، میرے خیال سے اگر عشق انسان کو عرفان ذات نہیں دیتا تو یہ عشق نہیں ہوتا۔
انکے ناول میں رزق حلال اور حرام کے انسانی نفسیات پہ اثرات کا مطالعہ بھی آتا ہے۔ ہو سکتا ہے اسے پڑھنے والے بیشتر قاری اس سے متفق ہوں۔ مگر چند ایک اختلاف بھی رکھتے ہونگے۔ جیسے میں۔
کیونکہ عملی دنیا میں جو ہم دیکھتے ہیں وہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ حلال زندگی نہیں گذارتے لیکن انکی اولاد یہ رجحان نہیں رکھتی۔ مثلا حضرت ابراہیم کے والد ایک بت تراش تھے جبکہ حضرت ابراہیم ایک بت شکن۔
اس طرح رزق حلال انسان میں روحانی اطمینان تو پیدا کرتا ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو حلال کماتے کھاتے ہیں پھر بھی سخت ترین دنیاوی آزمائیشوں میں گھرے رہتے ہیں اور یہ پے درپے آزمائیشیں ان سے دل کا سکون چھین لیتی ہیں۔ اور انسان یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے ہیں۔
اس طرح رزق حلال انسان میں روحانی اطمینان تو پیدا کرتا ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو حلال کماتے کھاتے ہیں پھر بھی سخت ترین دنیاوی آزمائیشوں میں گھرے رہتے ہیں اور یہ پے درپے آزمائیشیں ان سے دل کا سکون چھین لیتی ہیں۔ اور انسان یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے ہیں۔
کیا انسانی اخلاق یا تقدیر کا تعلق رزق سے ہوتا ہے ؟
کیا حلال رزق کھانے والے اعلی اخلاقی کردار رکھتے ہیں اور حرام کھانے والے رذیل کردار؟ کیا حلال کھانے والے آسان تقدیر رکھتے ہیں اور حرام کھانے والے مشکل؟
کیا حلال اور حرام رزق انسان کے ڈی این اے پہ اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا مکافات عمل واقعی کوئ وجود رکھتا ہے؟
کیا حلال اور حرام رزق انسان کے ڈی این اے پہ اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا مکافات عمل واقعی کوئ وجود رکھتا ہے؟
انسانی نفسیات یا مختلف رویوں کے ماءخذ، لکھنے والے کے لئے اسرار کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک انسان یا انسانوں پہ مشتمل ایک معاشرہ کیوں ایک خاص رویہ یا رجحان رکھتا ہے؟ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی کیوں ان چیزوں کا شکار ہو جاتا ہے جو اسے نا پسند ہوتی ہیں اور کیوں پسند کی چیزیں اس کی پہنچ میں نہیں آپاتیں؟ کیا یہ سب تقدیر ہے؟ لیکن کیا انسانوں کے لئے کوئ خاص قدرتی نہج موجود ہے؟ کیا سورج چاند ستاروں کی طرح انسان کے لئے بھی کوئ ایک مقررہ رستہ ہے یا اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے قدرت انہیں الگ نظر سے دیکھتی ہے؟ قدرت اپنا یہ پیمانہ کس طرح مقرر کرتی ہے؟
کل میں ایک اردو بلاگ سے گذری۔ یہاں بلاگر نے اپنی اس تفصیلی پوسٹ میں جنس سے متعلق مختلف چیزوں پہ اپنے خیالات کو پیش کرتے ہوئے لکھا کہ جو بچے نفرت کے رشتے سے پیدا ہوتے ہیں وہ ذہنی طور پہ غیر متوازن شخصیت رکھتے ہیں اور صحت مند نہیں ہوتے۔
مصنف جنسی تعلق کو عبادت کے مقابل لاتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اگر عبادت میں خشوع و خضوع نہ ہو تو عبادت رائگاں ہوتی ہے۔ جنسی عمل میں بھی اگر صداقت نہ ہو تو یہ کمزور انسانوں کو وجود میں لاتا ہے اور کمزور انسان کمزور معاشرے کو جنم دیتا ہے۔ انکی اس تحریر سے میں نتیجہ نکالتی ہوں کہ ایک ایسے تعلق، جس میں جذباتی وابستگی نہ ہو، محبت نہ ہو، حاصل لا حاصل کے برابر ہوتا ہے۔
اگر عشق لا حاصل دیوانگی دیتا ہے اور اگر نفرت کا تعلق کمزور انسان اور اگر یہ انسان کے ڈی این اے کو بھی متائثر کرتے ہیں تو یہ سلسلہ زنجیر کی مانند چلتے رہنا چاہئیے اور مستقبل ہمیں تاریک نظر آنا چاہئیے۔ لیکن ہمارے دلوں پہ امید کیوں دستک دیتی ہے۔ اور ہم مستقبل سے اپنے لئے کیوں خوشی چاہتے ہیں؟