سنتے ہیں کہ ضیاء الحق صاحب کے زمانے میں ساحل سمندر پہ جانے والے جوڑوں سے نکاح نامہ طلب کرنے کے لئے وہاں پولیس والے عقاب کی طرح منڈلاتے رہتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ عقاب ناپید ہو جاتا ہے اور روح فنا رہتی ہے۔ مولوی صاحب کے مزے رہتے ہیں کہ دے دھڑا دھڑ نکاح پڑھا رہے ہیں کہ عورت اور مرد کا ایک ساتھ تفریح کے لئے نکاح نامہ ہونا ضروری ہے۔ معاشرے میں میاں بیوی کے علاوہ کوئ رشتہ اور تعلق باقی نہیں رہتا اور جنسیات کے علاوہ کوئ انسانی مسئلہ وجود نہیں رکھتا۔
جب ہم نے جامعہ کراچی میں قدم رکھا تو سنا کہ یہ کام وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے ذمے تھا۔ کہنے والے کہتے کہ وہ تو بھلا ہو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کا جمعیت کے بھائ بندوں کے منہ سے نہ صرف یہ نوالہ چھین لیا بلکہ وہ جو ہر مرد کو مخاطب کرنے سے پہلے بھائ کا لاحقہ یا سابقہ اور خاتون کے نام سے پہلے بہن کہنا فرض عین ہوا کرتا تھا وہ بھی لغت سے نکل گیا۔ ورنہ عالم یہ تھا کہ ہماری رشتے دار خاتون اپنے ماموں کے ساتھ یونیورسٹی آنرز میں داخلے کے لئے پہنچیں تو انہیں جمعیت کے اسکواڈ کے سامنے حلفیہ بیان دینا پڑا کہ وہ جس مرد کے ساتھ ہیں وہ انکے ماموں ہیں۔
جماعتی روح جب بیدار ہوتی ہے سینوں میں تو عقابی روح والی کیفیات کیوں طاری ہو جاتی ہیں یہ مجھے نہیں معلوم؟
شاعر کہتا ہے کہ جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے اُدھر نکلے ، اُدھر ڈوبے ادھر نکلے۔ شاعر کی اس بات کو میں دماغ کا خلل نہیں سمجھتی۔ پوری طرح سے یقین رکھتی ہوں۔
ضیائ پولیس سے جمعیت میں یہ روح پہنچی، پنجاب یونیورسٹی میں اب تک قائم ہے۔ لیکن جامعہ کراچی سے جمعیت کا کنٹرول ختم ہوا۔ اہل ایمان انکے جھنڈے تلے سے نکل کر میڈیا میں آگئے۔ اور شکل کچھ یوں بنی کہ ہرچینل سے عقاب نکلے گا تم کتنے عقاب مارو گے یا خدا جانے تم جتنے عقاب ماروگے۔
مایا خان ان عقابوں میں ایک ہیں۔ ڈیڑھ دو مہینے پہلے میں جیسمین منظور کا ایک شو دیکھ رہی تھیں وہ پولیس لاک اپ میں موجود ایک شخص پہ سخت ناراض ہو رہی تھیں اور غصے میں کہہ رہی تھیں کہ عدالت تمہیں بعد میں سزا دے گی میں تمہیں مار مار کر درست کر دونگی۔ اور میرے جیسا ناظر حیران بیٹھا کہ ایک اینکر پرسن کس طرح ایک پولیس کسٹڈی میں موجود ایک ملزم تک بآسانی رسائ حاصل کر کے اسے درست کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔
ہمارا ملک کسی حیرت کدے سے کم نہیں۔ اس لئے ہر تھوڑے دنوں بعد حیرانی کے نئے تجربے سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس دفعہ اس ریس میں مایا خان جیت گئیں۔ مجھے انکا شو دیکھنےسے بالکل دلچسپی نہیں۔ فیس بک کی وجہ سے دیکھنا پڑا کہ کیا ہو گیا ہے بھئ۔
کیا دیکھتی ہوں کہ دو خواتین ہنستی مسکراتی ایک بینچ پہ بیٹھی ہوئ ہیں۔ ویڈیو کے لنک کو کلک کیا تومیڈیا سے تعلق رکھنے والی خواتین کا ٹولہ جن میں سے کچھ مغربی لباس میں اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ پارک میں تفریح کے لئے آئے ہوئے جوڑوں کے تعاقب میں یوں سرگرداں جیسے ہم سانگھڑ کی جھیلوں کے پاس ایک دفعہ مگر مچھ تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ کراچی کے پارکس میں اب تک مگرمچھ نہیں چھوڑے گئے یہ شاید پہلا تجربہ کیا تھا میڈیا کے مگرمچھ چھوڑنے کا۔ وقت انتہائ مناسب، مگرمچھ سرد دنوں میں صبح صبح سرد پانی سے نکل کر ساحل پہ دھوپ سے اپنے آپکو سینکتے ہیں۔ ہمارا یہ ٹولہ ملک بے حیائ کی دھوپ میں سنِکنے واے جوڑوں کی تلاش میں تھا۔
پارک میں موجود لوگ ایسے سراسمیہ کہ جیسے وہ سوئس بینکوں سے اپنا روپیہ نکال کر پارک میں بیٹھے گن رہے تھے۔ یا ایکدوسرے کو خود کش جیکٹس پہنا رہے تھے۔ اسی پہ بس نہیں ہماری اینکر نے ایک نقاب پوش خاتون کو ایسے پکڑ لیا جیسے وہ ان کا پرس چھین کر بھاگی ہو۔
پارکس میں اکثر ایسے جوڑے نظر آتے ہیں۔ انکی اکثریت لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ اشرافیہ کے بچوں کو حجاب پہن کر اپنے آپکو چھپانے سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ انکے لئے زیادہ پر تعیش جگہیں موجود ہیں۔ وہ ان عوامی پارکس میں کیا کریں گے۔ مڈل کلاس بچے زیادہ تر مخلوط اداروں میں پڑھتے ہیں انہیں میل ملاقات کے لئے پارکس میں وقت ضائع کرنے کی فرصت نہیں۔ لے دے کر لوئر مڈل کلاس بچ جاتی ہے۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ میڈیا کے ان شکاریوں کو اسی وجہ سےاتنی ہمت ہوئ۔ ورنہ یہ سب خواتین و مرد اپنے سے بڑے لوگوں کے جائز اور ناجائز لو افیئرز سے خوب اچھی طرح واقف ہوتے ہیں مگر انکے سامنے انکی وہی حالت ہوتی ہے جس کے لئے مناسب لفظ استعمال کرنے کے لئے منا بھائ ایم بی بی ایس والے کی ٹپوری لغت کی مدد لینی پڑے گی۔
خیر، اس ٹولے میں اگر کسی شخص کی کمی مجھے محسوس ہوئ تو ایک مولوی صاحب کی تھی۔ اگر وہ ساتھ ہوتے اور گپ شپ لگاتے جوڑوں کو وہیں پکڑ کر نکاح پڑھا دیتے تو یہ منظر نہ صرف ڈرامے کے کلائمیکس پہ پہنچ جاتا بلکہ والدین خود ہی آئیندہ کے لئے حفاظتی اقدامات اٹھا لیتے۔ یوں کہ پسند کی شادی ہمارے والدین کے لئے ایک تازیانے سے کم نہیں ہوتی۔ چاہے اپنے بچوں کی شادی اپنی پسند سے کروانے کے لئے وہ ایک مرد کو چالیس سال کا کر دیں۔ یا لڑکی کی شادی اسکی عمر سے دگنے، جاہل مرد سے کر دیں۔
شادی ہمارے یہاں ایک رومانی تعلق نہیں بلکہ ایک جسمانی اور کاروباری تعلق کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کے اصل فریق شادی کرنے والے مرد عورت نہیں والدین ہوتے ہیں۔
ادھر خدائ نظام میں بڑی خرابیاں ہیں، مثلاً خدا ایک بے حس اور عاقبت نا اندیش کاریگر کی طرح اپنے کوزے پہ انسان تخلیق کئے جا رہا ہے وہ یہ تک خیال نہیں کرتا کہ اماں کو کترینہ کیف اور مادھوری جیسی بہو چاہئیے۔ آنے والے انسان کے بچے خوبصورت ہونے چاہئیے۔ وہ خود جمیل ہے لیکن جمال کو محفوظ کرنے کے منصوبے نہیں بناتا۔ سو جو لڑکیاں حسن کے اس معیار پہ پوری نہیں اترتیں لیکن انسانی تقاضوں کی وجہ سے چاہتی ہیں کہ انہیں بھی صنف مخالف کا ساتھ نصیب ہو وہ کیا کریں۔ وہ لڑکیاں کیا کریں؟ جنکے والدین کے پاس دینے کے لئے لمبا چوڑا جہیز نہیں ہے، وہ لڑکیاں کیا کریں؟ وہ لڑکے کیا کریں جو اپنے جبلی تقاضوں سے مجبور صنف مخالف کے پیچھے بھاگتے پھر رہے ہیں مگر والدین کو ابھی انکا صحیح بھاءو نہیں مل پا رہا۔ معاشرتی سطح پہ اتنے بڑے انسانی مسئلے کو اس وقت کوئ سمجھنا نہیں چاہتا۔
سو اگر اس غیر فطری ماحول میں نوجوان یہ نہ کریں تو کیا کریں؟
میری یادداشت میں ایک ذاتی واقعہ ہے جس میں ایک باپ کو جب اسکے لڑکے کی شکایت کی گئ کہ وہ کس طرح ہماری بیٹی کو آتے جاتے چھیڑتا ہے اور اس سے اس لڑکی کی ریپوٹیشن خراب ہو رہی ہے اور اسکی شادی میں مسئلہ ہو جائے گا تو اسی شام کو لڑکے کے ابا اپنے لڑکے اور قاضی کو لے کر انکے گھر پہنچے۔ اور اپنے بیٹے سے آٹھ سال بڑی لڑکی کو گھر کے کپڑوں میں شادی کر کے اپنے گھر لے آئے۔ انکا بیٹا اس وقت بی کام کر رہا تھا۔ آج اس خوشحال جوڑے کے تین بچے ہیں۔
والدین جو خود اپنے آپکو کسی بھی اخلاقی سدھار سے ماوراء سمجھتے ہیں وہ کس بل بوتے پہ اپنی اولاد کو سدھار سکتے ہیں۔ وہ کیسے یہ نعرہ بلند کر سکتے ہیں کہ والدین کو دھوکا نہ دو۔ آپ اپنی اولادوں کو، اپنی نسلوں کو دھوکا دے رہے ہیں جناب آپ کو بھی دھوکا ہی ملے گا۔
ادھر، میڈیا جو خود کسی اخلاقی پابندی کا اپنے آپکو ذمہ دار نہیں سمجھتا اور پروگرام کی ریٹنگ کے لئے ہر گری ہوئ حرکت کرنے کو تیار ہے۔ اگر اسکے نمائیندوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں کو درست کرنے کا ٹھیکا لے کر خدائ فوجدار بن جائیں تو عوام تو ان سے کہیں زیادہ مضبوط اور تعداد میں زیادہ ہیں وہ کیوں نہ انہیں درست کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔
اگر کیمرہ کریو کے ساتھ موجود اس ٹولے کے آگے چند نوجوان آ کر کھڑے ہوجاتے کہ یہ کیا بے حیائ ہے کہ خواتین ٹی شرٹ اور ٹراءوژرز جیسے مغربی لباس میں پارک میں مردوں کے ساتھ سر عام بھاگتی پھر رہی ہیں تو کیا ہوتا؟ مجھے تو مزہ آتا، اگرچہ کہ مجھے انکے اس لباس سے کوئ تکلیف نہیں ہوتی۔ لیکن ایسے دو رُخے لوگوں کے ساتھ یہی ہونا چاہئیے۔ آپکے لئے ہر چیز جائز اور صحیح لیکن اپنے آپ سے کمزور شخص کو دبانے کا کوئ موقع آپ ضائع نہ جانے دیں اور بنیں بڑے کردار والے مبلغ اور مصلح۔
وقتی فائدہ اور دور اندیشی میں یہی فرق ہے۔ دور اندیشی کہتی ہے کہ کوئ بھی ایسا قدم کیوں اٹھاءو جو خود پہ پڑے تو سہا نہ جائے۔ وقتی فائدہ کہتا ہے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لو کل کی کل دیکھی جائے گی۔
لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی نے کل کو آنے سے روک دیا ہے، یہاں ہر گذرا ہوا دن، ہر آنے والا دن ہر چیز آج بن گئ ہے۔آج سے نکل پائیں گے تو کل دیکھیں گے۔ پچیس سال پہلے کی ضیائ پولیس، اب میڈیا پہ آ گئ ہے۔ نگاہ منتظر ہے کہ جمیل اور جمیلہ اب کیا راستہ چنیں گے؟