اب اسے تغیر کہیں یا یہ کہ جس طرح کائینات میں ہر چیز اپنے انجام کی طرف کی بڑھتی ہوئ محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان کا جسم بھی توڑ پھوڑ اور تبدیلی کا شکار ہوتا ہے ٹھیک اس دن سے جب وہ جنم لیتا ہے۔
خواتین میں یہ عمل خاصہ واضح ہوتا ہے۔ اور بلوغت کے بعد انکی طبعی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جب وہ تولیدی لحاظ سے سرگرم ہوتی ہیں یعنی بچے پیدا کر سکتی ہیں اور دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جب وہ اس دور سے گذر جاتی ہیں اورایسا کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔
بلوغت میں داخل ہونے کے بعد جسم میں ہارمون اس طرح پیدا ہوتے ہیں کہ ماہانہ نظام باقاعدہ رہے ۔ ہر مہینے کچھ تعداد میں انڈے پیدا ہوں۔ اگر وہ بار آور ہو جائیں تو عورت ماں بننے کے مرحلے میں داخل ہو جائے ۔ جسکے دوران ہارمون اس ترتیب میں آجاتے ہیں کہ بچے کی نمو سے لے کر اسکے دودھ پلانے تک کا مرحلہ بحسن و خوبی طے ہو جائے۔
خواتین میں انڈوں کی یہ تعداد انکی پیدائیش کے وقت تمام عمر کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ جب رحم میں انڈے ختم ہو جاتے ہیں تو جسم کو اشارہ ملتا ہے کہ اب ہارمون کا مخصوص کھیل بھی ختم ہوا۔ یہ مرحلہ سن یاس یا مینو پاز کہلاتا ہے۔
خواتین کی اکثریت مینو پاز تک پہنچنے سے پہلے اسکی علامتوں سے گذرتی ہے۔ لیکن بعض خواتین اس سے اچانک دوچار ہو جاتی ہیں۔ اور انہیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ حاملہ ہو گئیں ہیں اس لئے ماہانہ نظام منقطع ہو گیا ہے لیکن چند مہینوں میں پتہ چل جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
خواتین میں ماہانہ نظام ختم ہونے کی ایک اوسط عمر پینتالیس سے ساٹھ سال ہے۔ اسکی علامتیں پہلے سے ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ماہانہ نظام کا بے قاعدہ ہونا، خون ضائع ہونے کی زیادتی, بعض اوقات لوتھڑوں کا خارج ہونا، خون بہت دنوں تک خارج ہوتے رہنا، بہت زیادہ گرمی لگنا، جلد کا خراب ہونا۔
عمر کے علاوہ وہ خواتین جنکی بچہ دانی آپریشن کے نتیجے میں الگ کر دی گئ ہو وہ بھی تیزی سے سنیاس کا شکار ہوتی ہیں چاہے یہ عمل کتنی ہی نوجوانی کے عالم میں کیا گیا ہو۔ کم عمر خواتین میں سنیاس کی وجوہات مزید ہو سکتی ہیں مثلاً اینڈو میٹریوسس، بچہ دانی میں رسولیاں ہونا یا تولیدی اعضاء کا کینسر، زیادہ وزن رکھنے والی خواتین، سگریٹ نوش خواتین، کیمو تھراپی سے گذرنے والی خواتین، بیمار خواتین ، وہ جنکے خاندان میں یہ سلسلہ موجود ہو ، تھائرائید غدود میں خرابی، ذیابیطس میلائٹس، یا خود دفاعی رد عمل۔ خواتین کی اکثریت میں وجہ نامعلوم ہوتی ہے۔
جڑواں خواتین بھی سن یاس کا کم عمری میں شکار ہو جاتی ہیں لیکن انہیں اپنی ساتھی خاتون کی اووریز کا کچھ حصہ ٹرانسپلانٹ کر کے اووریز کی کارکردگی کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔
سن یاس کے بعد یا اس سے گذرتے وقت بعض خواتین شدید علامات سے گذرتی ہیں۔ مثلاً ہاٹ فلیشز ہونا یعنی جسم میں کہیں کہیں آگ سی محسوس ہونا، پیروں میں رینگن محسوس ہونا، بہت زیادہ پسینہ آنا بالخصوص رات کے وقت، بعض کو ٹھنڈے پسینے آتے ہیں، کمزوری یا تھکن کا شکار ہونا۔ نیند نہ آنا، یاد داشت کا متائثر ہونا، شوہر سے جسمانی تعلق سے اجتناب برتنا۔
ان سب علامتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیز ایسٹروجن کے ختم ہوجانے کی وجہ سے آسٹیو پوریسس کے بڑھنے کا امکان ہے۔
سن یاس کے فوراً بعد ہڈیوں کے کمزور ہونے کی شرح تیزی سے بڑھ جاتی ہے جبکہ میٹا بولزم کی رفتار آہستہ ہوجانے کی وجہ سے وزن میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور خاص طور پہ پیٹ بڑھ جاتا ہے۔
ادھر آہستہ آہستہ مثانہ بھی کمزور ہونے لگتا ہے اور یوں ذرا سے دباءو پہ پیشاب کے قطرے خارج ہوجاتے ہیں یا پھر مثانے پہ قابو نہ ہونے کی وجہ سے بار بار حاجت محسوس ہوتی ہے۔
ایک اہم تبدیلی کسی خاتون کے مزاج میں آتی ہے اور سن یاس کے ابتدائ زمانے میں شدید ڈپریشن ہو سکتا ہے۔ خواتین کو لگتا ہے کہ اب چونکہ وہ بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہیں اس لئے انکی نسوانیت ختم ہو گئ ہے۔ وہ ایک ناکارہ وجود بن گئ ہیں۔ اب وہ کسی کام کی نہیں رہیں اور محض ایک کچرا بن گئ ہیں۔ ان معاشروں میں جہاں عمر رسیدگی کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور جوان افراد ، درمیانی عمر کے افراد کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں وہاں خواتین میں یہ ڈپریشن زیادہ ہوتا ہے۔
سن یاس کیوں لاحق ہوتا ہے اسکی طبعی وجوہات ہم نے بتا دیں۔ یہ کیوں ضروری ہے اسکی وجہ ارتقائ سائینسدانوں کے نزدیک انسانی معاشرے کی مضبوطی کی بنیاد ہے۔ تاکہ ایک نسل دوسری نسل کے آگے بڑھنے میں مددگار ہو اور اس طرح انسانی آبادی بھی قابو میں رہے اور یہ کہ مضبوط انسانی نسل مضبوط انسانی جسم کے ساتھ آئے۔
یعنی قدرت کے نزدیک عورت صرف بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے اور عمر کے ایک حصے میں وہ اسے فرصت دیتی ہے تاکہ وہ دیگر سرگرمیوں میں بھی کھل کر حصہ لے سکے۔ اسی طرح عورت اور مرد کا ساتھ رہنا صرف جسمانی تعلق کے لئے نہیں ہوتا بلکہ قدرت اسکے علاوہ بھی انسان سے کچھ چاہتی ہے۔
ایسا نہیں ہوتا کہ عورت سن یاس میں داخل ہونے کے بعد فوراً بعد ختم ہو جائے اگر وہ اپنی صحت کا خیال رکھے تو اسکے بعد بھی نصف صدی کی زندگی گذار سکتی ہے۔
اس لئے وہ خواتین جو سمجھتی ہیں کہ وہ سن یاس میں داخل ہو چکی ہیں انہیں فوراً اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئیے۔ تاکہ وہ اس بات کی تصدیق کر سکے کہ ایسا ہوا ہے۔
وہ خواتین جو اپنی چالیسویں سالگرہ منا رہی ہیں انہیں احتیاطاً آسٹیو پوریسس سے بچاءو کے لئے طبی امداد لینا شروع کر دینا چاہئیے۔ ویسے بھی خواتین کو ابتدائ عمر سے ہی کیلشیئم والی غذاءووں کو زیادہ استعمال کرنا چاہئیے۔ اپنی بچیوں پہ توجہ دیں اور انکی غذا میں کیلشیئم اور فولاد کی مقدار کا دھیان کریں۔ تاکہ وہ مستقبل میں نہ صرف صحت مند ماں بنیں بلکہ اپنا بڑھاپا بیماریوں اور معذوری سے محفوظ گذاریں۔
مینوپاز کے دوران جب ہاٹ فلیشز زیادہ ہوتے ہیں اپنی غذا پہ دھیان دینا چاہئیے۔ ایسی اشیاء زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے گریز کریں جن میں اینٹی ایسٹروجن مرکبات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً چائے، سبز چائے، اخروٹ، بروکلی، اور ایسی اشیاء زیادہ استعمال کریں جن میں ایسٹروجن ہوتے ہیں۔ زیادہ ایسٹروجن کے لئے گوشت، انڈے، دودھ، دہی، ، السی کے بیج یا اسکا پاءوڈر، ،گاجریں اور ٹماٹر وغیرہ استعمال کریں۔ السی کے بیج مسلسل کئ مہینوں تک استعمال نہ کریں بلکہ وقفہ دیں۔ اسکا پاءڈر ایک چائے کے چمچ سے زیادہ روزانہ نہ لیں۔ گرم جگہوں پہ نہ رہیں۔ ہلکے ڈھیلے سوتی کپڑے پہنیں۔
ایسا نہ کریں کہ کوئ چیز بالکل ترک کر دیں۔ مثلاً اخروٹ کھانا بالکل ہی چھوڑ دیں۔ اخروٹ کھائیں تو تھوڑی گاجریں بھی کھالیں یا دودھ بھی پی لیں اس طرح غذا متوازن رہے گی۔
اس طرح اس عمر میں متوازن غذا کا ذرا مختلف تصور اپنے لئے سیٹ کریں۔
وہ خواتین جو پیشاب خارج ہونے کے عارضے میں مبتلا ہیں وہ ایک آسان سی ورزش کر سکتی ہیں جو کیگل ورزش کہلاتی ہے اور ہر عمر کی خواتین حتی کہ حاملہ خواتین کے لئے بھی کار آمد ہے۔ اور بہت آسان ہے۔ اسے کرنے کے لئے ایک خاتون کو اپنے پیٹ کے نچلے حصے کے عضلات کو سمجھنا ہوگا۔
پیشاب کرتے ہوئے اگر بیچ میں ایکدم روکنا ہو تو جو عضلات کھینچے جاتے ہیں۔ انہیں فالتو وقت میں کھینچنے کی مشق کریں۔ یہ ایسی مشق ہے جووہ کسی بھی کام کو کرتے ہوئے کر سکتی ہیں چاہے پڑھ رہی ہوں یا ٹی وی دیکھ رہی ہوں۔ شروع میں کم تعداد میں کریں مثلاً ایک وقت میں پانچ دفعہ ان عضلات کو کھینچیں اور چھوڑ دیں۔ پھر آہستہ آہستہ تعداد بڑھاتی جائیں۔
سن یاس کے بعد بھی ایک خوشحال زندگی گذاری جاتی ہے فرق یہ ہے کہ اسکے بعد حاملہ ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے دنیا کے بیشتر حصوں میں خواتین سنیاس کو اپنے لئے آزادی کی علامت سمجھتی ہیں۔
وہ خواتین جو پیشاب خارج ہونے کے عارضے میں مبتلا ہیں وہ ایک آسان سی ورزش کر سکتی ہیں جو کیگل ورزش کہلاتی ہے اور ہر عمر کی خواتین حتی کہ حاملہ خواتین کے لئے بھی کار آمد ہے۔ اور بہت آسان ہے۔ اسے کرنے کے لئے ایک خاتون کو اپنے پیٹ کے نچلے حصے کے عضلات کو سمجھنا ہوگا۔
پیشاب کرتے ہوئے اگر بیچ میں ایکدم روکنا ہو تو جو عضلات کھینچے جاتے ہیں۔ انہیں فالتو وقت میں کھینچنے کی مشق کریں۔ یہ ایسی مشق ہے جووہ کسی بھی کام کو کرتے ہوئے کر سکتی ہیں چاہے پڑھ رہی ہوں یا ٹی وی دیکھ رہی ہوں۔ شروع میں کم تعداد میں کریں مثلاً ایک وقت میں پانچ دفعہ ان عضلات کو کھینچیں اور چھوڑ دیں۔ پھر آہستہ آہستہ تعداد بڑھاتی جائیں۔
سن یاس کے بعد بھی ایک خوشحال زندگی گذاری جاتی ہے فرق یہ ہے کہ اسکے بعد حاملہ ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے دنیا کے بیشتر حصوں میں خواتین سنیاس کو اپنے لئے آزادی کی علامت سمجھتی ہیں۔
وہ خواتین جو کم عمری میں سن یاس کا شکار ہو جاتی ہیں ان میں آسٹیو پوریسس کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ ایسٹروجن کی کمی کی وجہ سے زیادہ کم عمری میں ہڈیاں کمزور ہونے لگ جائیں گی۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ آپکا ڈاکٹر آپکو ہارمون تھراپی کا مشورہ دے۔ یہ طریقہ ء علاج ایک زمانے میں کافی رائج ہوا۔ پھر مختلف نتائج کی بناء پہ روک دیا گیا آجکل پھر سے تجویز کیا جانے لگا ہے۔ اس وقت یہ ہارمونز مختلف طرح کی شکلوں اور منبع کے موجود ہیں۔ ان میں سے کون سا ایک خاتون کے لئے مناسب ہے اسکا فیصلہ ایک ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔
جو خواتین اس طریقہ ء علاج کو لے رہی ہیں انہیں اپنی غذا کا دھیان رکھنا چاہئیے۔ ہارمون سپلیمنٹ کے ساتھ وٹامن بی کمپلیکس والی غذاءووں کا باقاعدہ استعمال کریں اور آسٹیو پوریسس کی دواءووں اور کیلشیئم والی غذاءووں کا بھی خیال رکھیں۔ آسٹیو پوریسس کے بارے میں جاننے کے لئے یہاں دیکھئیے۔
ہر تھوڑے عرصے بعد اپنے کچھ ٹیسٹ ضرور کرواتی رہیں۔ مثلاً چھاتی کے کینسر کے لئے میمو گرافی کیونکہ سنیاس کے بعد چھاتی کے کینسر کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، اسی طرح پیڑو یا بچہ دانی کے کینسر کو معلوم کرنے کے لئے پیپ اسمیئر ٹیسٹ اور پیلوک الٹرا ساءونڈ چاہئیے ہوتے ہیں۔ اگر ہارمون تھراپی لے رہی ہوں تو یہ ٹیسٹ کروانا اور بھی ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ ہارمونز کا کوئ بھی ضمنی اثر فوراً علم میں آجائے۔
سن یاس کے بعد خواتین میں دل کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ مختلف ہارمونز کی وجہ سے جو تحفظ حاصل تھا وہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس لئے دل کے امراض کے بنیادی ٹیسٹس بھی ایک خاتون کے لئے ضروری ہو جاتے ہیں۔
جو خواتین اس طریقہ ء علاج کو لے رہی ہیں انہیں اپنی غذا کا دھیان رکھنا چاہئیے۔ ہارمون سپلیمنٹ کے ساتھ وٹامن بی کمپلیکس والی غذاءووں کا باقاعدہ استعمال کریں اور آسٹیو پوریسس کی دواءووں اور کیلشیئم والی غذاءووں کا بھی خیال رکھیں۔ آسٹیو پوریسس کے بارے میں جاننے کے لئے یہاں دیکھئیے۔
ہر تھوڑے عرصے بعد اپنے کچھ ٹیسٹ ضرور کرواتی رہیں۔ مثلاً چھاتی کے کینسر کے لئے میمو گرافی کیونکہ سنیاس کے بعد چھاتی کے کینسر کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، اسی طرح پیڑو یا بچہ دانی کے کینسر کو معلوم کرنے کے لئے پیپ اسمیئر ٹیسٹ اور پیلوک الٹرا ساءونڈ چاہئیے ہوتے ہیں۔ اگر ہارمون تھراپی لے رہی ہوں تو یہ ٹیسٹ کروانا اور بھی ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ ہارمونز کا کوئ بھی ضمنی اثر فوراً علم میں آجائے۔
سن یاس کے بعد خواتین میں دل کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ مختلف ہارمونز کی وجہ سے جو تحفظ حاصل تھا وہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس لئے دل کے امراض کے بنیادی ٹیسٹس بھی ایک خاتون کے لئے ضروری ہو جاتے ہیں۔
ہڈیوں کو بہتر بنانے کے لئے ورزش اور چہل قدمی ضروری ہے۔ روزانہ تیس منٹ کی چہل قدمی ہڈیوں اور عضلات کے لئے آب حیات ہے۔ ورزش کے لئے وزن اٹھانے والی ورزشوں کو ترجیح دیں جس سے اعضاء میں کھنچاءو پیدا ہو۔ اگر کوئ خاتون دل کے کسی عارضے میں ، یا کسی اور بیماری میں مبتلا ہیں تو اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کوئ ورزش شروع نہ کریں۔
خِواتین کے لئے ورزش کے حوالے سے ایک علیحدہ تحریر لکھنے کا ارادہ ہے۔ اس وقت تک انتظار کریں۔
خِواتین کے لئے ورزش کے حوالے سے ایک علیحدہ تحریر لکھنے کا ارادہ ہے۔ اس وقت تک انتظار کریں۔