Showing posts with label چھاتی کا کینسر. Show all posts
Showing posts with label چھاتی کا کینسر. Show all posts

Friday, January 27, 2012

سن یاس یا مینو پاز

اب اسے تغیر کہیں یا یہ کہ جس طرح کائینات میں ہر چیز اپنے انجام کی طرف کی بڑھتی ہوئ محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان کا جسم بھی توڑ پھوڑ اور تبدیلی کا شکار ہوتا ہے ٹھیک اس دن سے جب وہ جنم لیتا ہے۔
خواتین میں یہ عمل خاصہ واضح ہوتا ہے۔ اور بلوغت کے بعد  انکی طبعی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جب وہ تولیدی لحاظ سے سرگرم ہوتی ہیں یعنی بچے پیدا کر سکتی ہیں اور دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جب وہ اس دور سے گذر جاتی ہیں اورایسا کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔
بلوغت میں داخل ہونے کے بعد جسم میں ہارمون اس طرح پیدا ہوتے ہیں کہ ماہانہ نظام باقاعدہ رہے ۔ ہر مہینے کچھ تعداد میں انڈے پیدا ہوں۔ اگر وہ بار آور ہو جائیں تو عورت ماں بننے کے مرحلے میں داخل ہو جائے ۔ جسکے دوران ہارمون اس ترتیب میں آجاتے ہیں کہ بچے کی نمو سے لے کر اسکے دودھ پلانے تک کا مرحلہ بحسن و خوبی طے ہو جائے۔
خواتین میں انڈوں کی یہ تعداد انکی پیدائیش کے وقت تمام عمر کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ جب رحم میں انڈے ختم ہو جاتے ہیں تو جسم کو اشارہ ملتا ہے کہ اب ہارمون کا مخصوص کھیل بھی ختم ہوا۔ یہ مرحلہ سن یاس یا مینو پاز کہلاتا ہے۔
خواتین کی اکثریت مینو پاز تک پہنچنے سے پہلے اسکی علامتوں سے گذرتی ہے۔ لیکن بعض خواتین اس سے اچانک دوچار ہو جاتی ہیں۔ اور انہیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ حاملہ ہو گئیں ہیں اس لئے ماہانہ نظام منقطع ہو گیا ہے لیکن چند مہینوں میں پتہ چل جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
خواتین میں ماہانہ نظام ختم ہونے کی ایک اوسط عمر پینتالیس سے ساٹھ سال ہے۔ اسکی علامتیں پہلے سے ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ماہانہ نظام کا بے قاعدہ ہونا، خون ضائع ہونے کی زیادتی, بعض اوقات لوتھڑوں کا خارج ہونا، خون بہت دنوں تک خارج ہوتے رہنا، بہت زیادہ گرمی لگنا، جلد کا خراب ہونا۔
عمر کے علاوہ وہ خواتین جنکی بچہ دانی آپریشن کے نتیجے میں الگ کر دی گئ ہو وہ بھی تیزی سے سنیاس کا شکار ہوتی ہیں چاہے یہ عمل کتنی ہی نوجوانی کے عالم میں کیا گیا ہو۔ کم عمر خواتین میں سنیاس کی وجوہات مزید ہو سکتی ہیں مثلاً اینڈو میٹریوسس، بچہ دانی میں رسولیاں ہونا یا تولیدی اعضاء کا کینسر، زیادہ وزن رکھنے والی خواتین، سگریٹ نوش خواتین، کیمو تھراپی سے گذرنے والی خواتین، بیمار خواتین ، وہ جنکے خاندان میں یہ سلسلہ موجود ہو ، تھائرائید غدود میں خرابی، ذیابیطس میلائٹس، یا خود دفاعی رد عمل۔ خواتین کی اکثریت میں وجہ  نامعلوم  ہوتی ہے۔
جڑواں خواتین بھی سن یاس کا کم عمری میں شکار ہو جاتی ہیں لیکن انہیں اپنی ساتھی خاتون کی اووریز کا کچھ حصہ ٹرانسپلانٹ کر کے اووریز کی کارکردگی کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔
سن یاس کے بعد یا اس سے گذرتے وقت بعض خواتین شدید علامات سے گذرتی ہیں۔ مثلاً ہاٹ فلیشز ہونا یعنی جسم میں کہیں کہیں آگ سی محسوس ہونا، پیروں میں رینگن محسوس ہونا، بہت زیادہ پسینہ آنا بالخصوص رات کے وقت، بعض کو ٹھنڈے پسینے آتے ہیں، کمزوری یا تھکن کا شکار ہونا۔ نیند نہ آنا، یاد داشت کا متائثر ہونا، شوہر سے جسمانی تعلق سے اجتناب برتنا۔
 ان سب علامتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیز ایسٹروجن کے ختم ہوجانے کی وجہ سے آسٹیو پوریسس کے بڑھنے کا امکان ہے۔
سن یاس کے فوراً بعد ہڈیوں کے کمزور ہونے کی شرح تیزی سے بڑھ جاتی ہے جبکہ میٹا بولزم کی رفتار آہستہ ہوجانے کی وجہ سے وزن میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور خاص طور پہ پیٹ بڑھ جاتا ہے۔
ادھر آہستہ آہستہ مثانہ بھی کمزور ہونے لگتا ہے اور یوں ذرا سے دباءو پہ پیشاب کے قطرے خارج ہوجاتے ہیں یا پھر مثانے پہ قابو نہ ہونے کی وجہ سے بار بار حاجت محسوس ہوتی ہے۔
ایک اہم تبدیلی کسی خاتون کے مزاج میں آتی ہے اور سن یاس کے ابتدائ زمانے میں شدید ڈپریشن ہو سکتا ہے۔ خواتین کو لگتا ہے کہ اب چونکہ وہ بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہیں اس لئے انکی نسوانیت ختم ہو گئ ہے۔ وہ ایک ناکارہ وجود بن گئ ہیں۔ اب وہ کسی کام کی نہیں رہیں اور محض ایک  کچرا بن گئ ہیں۔ ان معاشروں میں جہاں عمر رسیدگی کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور  جوان افراد ، درمیانی عمر کے افراد کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں وہاں خواتین میں یہ ڈپریشن زیادہ ہوتا ہے۔
سن یاس کیوں لاحق ہوتا ہے اسکی طبعی وجوہات ہم نے بتا دیں۔ یہ کیوں ضروری ہے اسکی وجہ ارتقائ سائینسدانوں کے نزدیک انسانی معاشرے کی مضبوطی کی بنیاد ہے۔ تاکہ ایک نسل دوسری نسل کے آگے بڑھنے میں مددگار ہو اور اس طرح انسانی آبادی بھی قابو میں رہے اور یہ کہ مضبوط انسانی نسل مضبوط انسانی جسم کے ساتھ آئے۔
یعنی قدرت  کے نزدیک عورت صرف بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے اور عمر کے ایک حصے میں وہ اسے فرصت دیتی ہے تاکہ وہ دیگر سرگرمیوں میں بھی کھل کر حصہ لے سکے۔ اسی طرح عورت اور مرد کا ساتھ رہنا صرف جسمانی تعلق کے لئے نہیں ہوتا بلکہ قدرت اسکے علاوہ بھی انسان سے کچھ چاہتی ہے۔
 ایسا نہیں ہوتا کہ عورت سن یاس میں داخل ہونے کے بعد فوراً بعد ختم ہو جائے  اگر وہ اپنی صحت کا خیال رکھے تو اسکے بعد بھی نصف صدی کی زندگی گذار سکتی ہے۔
اس لئے وہ خواتین جو سمجھتی ہیں کہ وہ سن یاس میں داخل ہو چکی ہیں انہیں فوراً اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئیے۔ تاکہ وہ اس بات کی تصدیق کر سکے کہ ایسا ہوا ہے۔
وہ خواتین جو اپنی چالیسویں سالگرہ منا رہی ہیں انہیں احتیاطاً آسٹیو پوریسس سے بچاءو کے لئے طبی امداد لینا شروع کر دینا چاہئیے۔ ویسے بھی خواتین کو ابتدائ عمر سے ہی کیلشیئم والی غذاءووں کو زیادہ استعمال کرنا چاہئیے۔ اپنی بچیوں پہ توجہ دیں اور انکی غذا میں کیلشیئم اور فولاد کی مقدار کا دھیان کریں۔ تاکہ وہ مستقبل میں نہ صرف صحت مند ماں بنیں بلکہ اپنا بڑھاپا بیماریوں اور معذوری سے محفوظ گذاریں۔
مینوپاز کے دوران جب ہاٹ فلیشز زیادہ ہوتے ہیں اپنی غذا پہ دھیان دینا چاہئیے۔ ایسی اشیاء زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے گریز کریں جن میں اینٹی ایسٹروجن مرکبات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً چائے، سبز چائے، اخروٹ، بروکلی، اور ایسی اشیاء زیادہ استعمال کریں جن میں ایسٹروجن ہوتے ہیں۔ زیادہ ایسٹروجن کے لئے گوشت، انڈے، دودھ، دہی، ، السی کے بیج یا اسکا پاءوڈر، ،گاجریں اور ٹماٹر وغیرہ استعمال کریں۔ السی کے بیج مسلسل کئ مہینوں تک استعمال نہ کریں بلکہ وقفہ دیں۔  اسکا پاءڈر ایک چائے کے چمچ سے زیادہ روزانہ نہ لیں۔  گرم جگہوں پہ نہ رہیں۔ ہلکے ڈھیلے سوتی کپڑے پہنیں۔
ایسا نہ کریں کہ کوئ چیز بالکل ترک کر دیں۔ مثلاً اخروٹ کھانا بالکل ہی چھوڑ دیں۔ اخروٹ کھائیں تو تھوڑی گاجریں  بھی کھالیں یا دودھ بھی پی لیں اس طرح غذا متوازن رہے گی۔
اس طرح اس عمر میں متوازن غذا کا ذرا مختلف تصور اپنے لئے سیٹ کریں۔
وہ خواتین جو پیشاب خارج ہونے کے عارضے میں مبتلا ہیں وہ ایک آسان سی ورزش کر سکتی ہیں جو کیگل ورزش کہلاتی ہے اور  ہر عمر کی خواتین حتی کہ حاملہ خواتین کے لئے بھی کار آمد ہے۔ اور بہت آسان ہے۔ اسے کرنے کے لئے ایک خاتون کو اپنے پیٹ کے نچلے حصے کے عضلات کو سمجھنا ہوگا۔
پیشاب کرتے ہوئے اگر بیچ میں ایکدم روکنا ہو تو جو عضلات کھینچے جاتے ہیں۔ انہیں فالتو وقت میں کھینچنے کی مشق کریں۔ یہ ایسی مشق ہے جووہ کسی بھی کام کو کرتے ہوئے کر سکتی ہیں چاہے پڑھ رہی ہوں یا ٹی وی دیکھ رہی ہوں۔ شروع میں کم تعداد میں کریں مثلاً ایک وقت میں پانچ دفعہ ان عضلات کو کھینچیں اور چھوڑ دیں۔ پھر آہستہ آہستہ تعداد بڑھاتی جائیں۔  
سن یاس کے بعد بھی ایک خوشحال زندگی گذاری جاتی ہے فرق یہ ہے کہ اسکے بعد حاملہ ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے دنیا کے بیشتر حصوں میں خواتین سنیاس کو اپنے لئے آزادی کی علامت سمجھتی ہیں۔
وہ خواتین جو کم عمری میں سن یاس کا شکار ہو جاتی ہیں ان میں آسٹیو پوریسس کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ ایسٹروجن کی کمی کی وجہ سے زیادہ کم عمری میں ہڈیاں کمزور ہونے لگ جائیں گی۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ آپکا ڈاکٹر آپکو ہارمون تھراپی کا مشورہ دے۔ یہ طریقہ ء علاج ایک زمانے میں کافی رائج ہوا۔ پھر مختلف نتائج کی بناء پہ روک دیا گیا آجکل پھر سے تجویز کیا جانے لگا ہے۔ اس وقت یہ ہارمونز مختلف طرح کی شکلوں اور منبع کے موجود ہیں۔ ان میں سے کون سا ایک خاتون کے لئے مناسب ہے اسکا فیصلہ ایک ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔
جو خواتین اس طریقہ ء علاج کو لے رہی ہیں انہیں اپنی غذا کا دھیان رکھنا چاہئیے۔  ہارمون سپلیمنٹ کے ساتھ وٹامن بی کمپلیکس والی غذاءووں کا باقاعدہ استعمال کریں اور آسٹیو پوریسس کی دواءووں اور کیلشیئم والی غذاءووں کا بھی خیال رکھیں۔ آسٹیو پوریسس کے بارے میں جاننے کے لئے یہاں دیکھئیے۔
ہر تھوڑے عرصے بعد اپنے کچھ ٹیسٹ ضرور کرواتی رہیں۔ مثلاً چھاتی کے کینسر کے لئے میمو گرافی کیونکہ سنیاس کے بعد چھاتی کے کینسر کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، اسی طرح پیڑو یا بچہ دانی کے کینسر کو معلوم کرنے کے لئے پیپ اسمیئر ٹیسٹ اور پیلوک الٹرا ساءونڈ چاہئیے ہوتے ہیں۔ اگر ہارمون تھراپی لے رہی ہوں تو یہ ٹیسٹ کروانا اور بھی ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ ہارمونز کا کوئ بھی ضمنی اثر فوراً علم میں آجائے۔
سن یاس کے بعد خواتین میں دل کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ مختلف ہارمونز کی وجہ سے جو تحفظ حاصل تھا وہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس لئے دل کے امراض کے بنیادی ٹیسٹس بھی ایک خاتون کے لئے ضروری ہو جاتے ہیں۔
ہڈیوں کو بہتر بنانے کے لئے ورزش اور چہل قدمی ضروری ہے۔ روزانہ تیس منٹ کی چہل قدمی ہڈیوں اور عضلات کے لئے آب حیات ہے۔ ورزش کے لئے وزن اٹھانے والی ورزشوں کو ترجیح دیں جس سے اعضاء میں کھنچاءو پیدا ہو۔ اگر کوئ خاتون دل کے کسی عارضے میں ، یا کسی اور بیماری میں مبتلا ہیں تو اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کوئ ورزش شروع نہ کریں۔
خِواتین کے لئے ورزش کے حوالے سے ایک علیحدہ تحریر لکھنے کا ارادہ ہے۔ اس وقت تک انتظار کریں۔

Tuesday, June 21, 2011

چھاتی کا کینسر

میں خواتین کے خاص ملبوسات کے اسٹور پہ ایک ساتھی خاتون کے ساتھ موجود تھی۔ جب میری ساتھی خاتون نے مجھے ٹہوکا دیا۔ ان خاتون کو کچھ خاص چیز چاہئیے۔ انہوں نے سرگوشی کی۔ اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ لڑکی عبایہ پہنے ہوئے تھی اور سر پہ سختی سے اسکارف باندھا ہوا تھا۔ لیکن اس چھبیس ستائیس سال کی پیلاہٹ مائل سفید رنگت والی لڑکی کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی میری نگاہ اسکی آنکھوں کے گوشوں  میں گم آنسوءووں پہ ٹہر گئ۔
میری چھٹی حس نے کہا ، وہ چھاتی کے کینسر کا شکار ہے۔ اسکی ایک چھاتی کو آپریشن کر کے کاٹ کر نکالا جا چکا ہے ۔ ابھی اسکی کیمو تھراپی یا چل رہی ہے یا حال میں ختم ہوئ ہے۔ جسکی وجہ سے اسکے سر کے سارے بال جھڑ چکے ہیں اس لئے اس نے اتنی سختی سے اسکارف لپیٹ رکھا ہے۔
یہ سب باتیں،  پلک جھپکتے میں  میرے ذہن میں آگئے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ میں اس بارے میں تفصیل سے پڑھ چکی ہوں جو معلومات مجھے حاصل ہوتی ہیں انہیں یاد رکھتی ہوں۔ جبکہ میری ساتھی خاتون کو اس بارے میں اتنا علم نہیں تھا  اس لئے وہ سمجھیں کہ وہ لڑکی اپنے جسم کی ساخت کو بہتر بنانے کے لئے کوئ خاص قسم کا زیر جامہ چاہتی ہے۔
ہم دونوں، اپنے علم کی بنیاد پہ دو مختلف رائے  پہ پہنچے۔ اس اثناء میں اسٹور کا دروازہ کھلا اور ایک اور لڑکی اندر داخل ہوئ۔ وہ اس لڑکی کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئ اور ایک دم گلے لگ گئ۔  وہ دونوں دوستیں بہت عرصے بعد مل رہی تھیں۔ لیکن اسکے گلے لگتے ہی عبایہ والی لڑکی رونے لگ گئ۔ اسے اسٹول پہ بٹھا کر دوست اس کا احوال پوچھنے لگی۔
یوں انکی ہلکی ہلکی باتوں سے پتہ چلا کہ اس لڑکی کی شادی کو پانچ سال ہوئے ہیں ۔ تیسرے بچے کی پیدائش کے تین مہینے بعد اسے لگا کہ چھاتی میں گٹھلی ہے۔ ڈاکٹر کو دکھایا ٹیسٹس ہوئے اور پتہ چلا کہ اسے چھاتی کا کینسر ہو گیا ہے۔
 وہ نوجوان لڑکی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اپنی دوست سے کہہ رہی تھی۔ ابھی تو میرے بچے بہت چھوٹے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی اس مرض کے لئے چھوٹی تھی۔ پچھلے چھ مہینے میں ، میں چھ خواتین کے بارے میں سن چکی ہوں کہ وہ اس کا شکار ہو گئیں۔
 پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون اس جان لیوا بیماری کا شکار ہوتی ہے۔ لاحق ہونے کی صورت میں کسی ترقی یافتہ ملک کی نسبت جان سے گذرنے کا امکان بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
کسی بھی قسم کا کینسر ہونے کی سب سے بنیادی وجہ زندگی گذارنے کا انداز ہے اور دوسری اہم وجہ خاندان میں  اس مرض کا پایا جانا ہے۔
بریسٹ کینسر جن خواتین میں پائے جانے کا زیادہ امکان ہے وہ یہ ہیں۔
جن کے خاندان میں یہ مرض پہلے کسی کو ہو چکا ہو، ماں اور باپ دونوں کی طرف سے۔ ایک غلط خیال یہ ہے کہ صرف ماں کے خاندان میں  پایا جائے تو ہی امکان ہوتا ہے۔
وراثتی طور پہ ہی منتقل نہیں ہوتا۔ بلکہ  دیگر خواتین بھی زیادہ رسک پہ ہوتی ہیں۔ ان میں وہ جو بے اولاد ہوں۔ یا جنکے بچے تیس سال کی عمر کے بعد ہوئے ہوں۔
جنکے مخصوص ایام کم عمری میں ہی شروع ہو گئے ہوں جیسے دس گیارہ سال کی عمر میں۔
جنکے مخصوص ایام زیادہ عرصے تک چلتے رہے ہو۔ جیسے پچپن سال کی عمر کے بعد بھی۔
سن یاس یعنی ایام بند ہو جانے کے بعد اسکے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس طرح نوجوان خواتین کے مقابلے میں زیادہ عمر کی خواتین زیادہ شکار ہوتی ہیں۔
جو خواتین اپنے بچوں کواپنا دودھ نہیں پلاتی ہیں  وہ  زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں۔
وہ خواتین جو شراب نوشی کرتی ہیں۔

امکان زیادہ ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایسی خواتین کو معمولی علامتوں کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہئیے۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ اگر خاندان میں کسی کو ہو چکا ہو تو لازماً دوسری خواتین کو بھی ہوگا ۔  اسی طرح جنکے اولاد نہیں یا جنہوں نے اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلایا انہیں ضرور ہوگا۔ انہیں نہیں  بھی ہو سکتا اور اسکو ہو سکتا ہے جس کے ایک درجن بچے ہوں جن میں سے ہر ایک کو اس نے دودھ پلایا ہو۔  جنکے خاندان میں کسی کو کبھی نہیں ہوا انکو بھی ہونے کے امکانات ہوتے ہیں اور اس طرح ایک اور وجہ طرز زندگی نکل آتی ہے۔
آپ کس طرح زندگی گذارتے ہیں اس پہ آپکی صحت کا دارومدار ہوتا ہے۔ بریسٹ کینسر کے سلسلے میں وہ خواتین جو  غذا کو رکھنے کے لئے پلاسٹک کی اشیاء کا استعمال کرتی ہیں زیادہ اس کا شکار ہوسکتی ہیں۔ پانی کی بوتل جو دھوپ میں دیر تک رکھی رہے زہر بن جاتی ہے۔ ان دوکانوں سے جہاں یہ باہر دھوپ میں رکھی ہوتی ہیں لینے سے گریز کریں اور دوکانداروں کو نصیحت کریں کہ پانی کی بوتلوں کو اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء جو پالسٹک پیکنگ میں ہوتی ہیں دھوپ میں نہ رکھیں۔ اسی طرح مائکرو ویو اون میں کھانا گرم کرنے کے لئے پلاسٹک کی اشیاء کا استعمال، ہوٹل سے کھانے یا روٹی لانے کے لئے پلاسٹک کی تھیلوں یا پلاسٹک کے برتن کا استعمال یہ سب ایک خطرہ ہے آپکی صحت کے لئے۔
تنگ زیر جامہ کا استعمال، چھاتیوں میں خون کی ترسیل کو آہستہ کر دیتا ہے۔ جس سے زہریلے مواد کے جمع ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ یاد رہنا چاہئیے کہ خواتین میں تولیدی ہارمون کا سب سے زیادہ ذخیرہ چھاتیوں اور بچہ دانی میں پایا جاتا ہے۔ یہ ہارمون دیگر  زہریلے مرکبات کو بھی آسانی سے دوست بنا لیتا ہے۔ یوں آہستہ آہستہ ان میں کینسر کے خلئیے جنم لینے لگتے ہیں۔ صرف چھاتی ہی نہیں اکثر لوگوں کو ازار بند ٹائیٹ باندھنے کی عادت ہوتی ہے یہ بھی کینسر کو جنم دے سکتا ہے۔ کوشش کریں رات کو سوتے وقت ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنیں۔
ہم وہ ہوتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے۔ لیکن درست ہے۔ سادہ کھانوں کی عادت ڈالیں۔ کھانا جتنا بھونا جاتا ہے، تلا جاتا ہے، بیک کیا جاتا ہے یا کوئلوں پہ سینکا جاتا ہے اتنا اس میں زہریلے مرکبات زیادہ بنتے ہیں۔ یعنی ایسے مرکبات جو کینسر پیدا کر سکتے ہیں۔ 
سادہ کھانا کھائیے، تازہ پھل اور سبزیوں کو اپنی روز کی خوراک کا حصہ بنائیے۔ بازار سے لانے کے بعد سبزی اور پھلوں کو اچھی طرح دھولیں۔ تاکہ ان پہ موجود کیمیائ کھاد اور جراثیم کش ادویات  اچھی طرح صاف ہو جائیں۔

تیل یا چکنائ کا ستعمال کم کریں۔ تیل یا چکنائ میں زہریلے مرکبات جذب کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ اسے جسم میں زیادہ دیر تک رکھ سکتے ہیں۔ یوں خلیوں کے عمل میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔

اپنے وزن کو مقررہ حدوں کے اندر رکھنے کی کوشش کریں۔ سو بیماریوں کی ایک بیماری موٹاپا ہے۔

لائف اسٹائل میں سب سے اہم چیز ورزش ہے۔  اگر ہم ایک ایسی زندگی گذارتے ہیں جس میں حرکت کم ہوتی ہے تو ہمارے جسم کے تمام حصوں تک خون کی ترسیل مناسب نہیں ہو پاتی۔ وہ حصے جہاں خون کی ترسیل آہستہ ہوتی ہے وہاں زہریلے مرکبات کے جمع ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ورزش ہمیں یہ فائدہ دیتی ہے کہ جسم کے تمام اعضاء حرکت میں آتے ہیں۔ اور بہتر خون اور آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔
خواتین عام طور پہ سمجھتی ہیں کہ گھریلو امور کو انجام دینا ہی ورزش ہے۔ یہ خیال اتنا درست نہیں ہے۔ ورزش کے نتیجے میں آپکے دل کی دھڑکن بڑھنی چاہئیے۔ اور جسم کے تمام اعضاء کو کام کرنا چاہئیے۔ چھاتی کے کینسر سے بچاءو کے لئے ایسی ورزشیں کیجئیے جسکے نتیجے میں آپکے بازو اور چھاتیوں میں کھنچاءو پیدا ہو۔
خواتین کی ورزش کے حوالے سے ہم کسی اگلی پوسٹ میں بات کریں گے۔
چھاتیوں کی جانچ ہر مہینہ ایام مخصوصہ ختم ہونے کے بعد ایک خاتون خود بھی کر سکتی ہے۔ اسکے لئے چھاتیوں اور اپنی بغل کے غدودوں کو چیک کرنا ہوتا ہے۔ ان میں کسی بھی قسم کی گٹھلی کی موجودگی یا درد کی صورت میں قابل اعتماد ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ بیشتر خواتین خاص طور پہ وہ جو شادی شدہ نہیں ہوتیں  بے جا شرم کی وجہ سے اتنا بڑھا لیتی ہیں کہ پھر یہ علاج سے باہر ہو جاتا ہے۔ اگر کینسر کا اثر لمف نوڈز یا ہڈی کے گودے تک بڑھ جائے تو یہ ایک خطرناک حالت ہوتی ہے۔
 چھاتی ایک خطرناک جگہ ہے۔ یہاں ایسٹروجن اور چربی سب سے زیادہ موجود ہونے کی وجہ ایک معمولی عام گٹھلی بھی اگر اسکا علاج نہ کیا جائے تو کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔
چھاتی میں اگر گٹھلی محسوس ہو تو اسکی گرم سینکائ کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ گرم سینکائ جسم کے اندرونی زخم کو کینسر کے زخم میں تبدیل کر سکتی ہے۔  مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اگر ڈاکٹر میمو گرافی ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دے تو بلا تاخیر کرائیے۔ 
چھاتی میں موجود تمام گٹھلیاں کینسر نہیں ہوتیں۔ اس لئے گٹھلی موجود ہونے کی صورت میںجب تک ٹیسٹس کی رپورٹ نہ آجائیں اور ڈاکٹر کوئ حتمی رائے نہ دے دے۔ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
چھاتی کے کینسر کی تشخیص میمو گرافی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس میں خاص ٹیکنیک کے ذریعے چھاتی کا ایکسرے اور الٹرا ساءونڈ ہوتا ہے۔ اور مٹر جتنے چھوٹے سائز کی گٹھلی کا بھی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ میموگرافی ایک مہنگا ٹیسٹ ہے اسکی فیس تین سے پانچ ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔ ہر جگہ یہ سہولت میسر بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں تیزی سے پھیلتے اس جان لیوا مرض کی تشخیص کے لئے اس ٹیسٹ کوجہاں سستا کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں اس امر کی بھی ضروت ہے کہ ایسی موبائل وینز ہوں جو دیہی علاقوں میں جا کر وہیں پہ یہ ٹیسٹ انجام دے سکیں۔
کراچی میں ، میں نے سنا کہ ڈاکٹر شیر شاہ کی زیر نگرانی سول ہسپتال میں ایک ایسی وین بنائ جا چکی ہے۔
کچھ گٹھلیاں ایسی جگہ موجود ہوتی ہے جہاں سے وہ اس ایکسرے میں بھی نہیں آپاتیں۔ لیکن ایسے کیسز بہت کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر حالات میں اس ٹیسٹ سے خاصی مدد مل جاتی ہے۔
پینتالیس سال کے بعد احتیاطاً میمو گرافی کرا لینی چاہئیے۔ وہ خواتین جو سن یاس میں داخل ہو چکی ہیں انہیں ۔ میموگرافی کرانی چاہئیے۔ تاکہ اس قسم کی کسی صورت حال کو ابتداء ہی میں پکڑا جا سکے۔
مرض اگر زیادہ پھیل گیا ہو تو سی ٹی اسکیننگ بھی کی جاتی ہے۔ تاکہ مزید متاثرہ حصوں کی تفصیلات سامنے آجائیں۔ اس کا درست مشورہ ایک ڈاکٹر ہی دے سکتا ہے۔
ایک دفعہ گٹھلی کا مقام پتہ چل جائے تو اسکی حتمی تشخیص کے لئے بائیوپسی کی جاتی ہے۔ اسکے لئے گٹھلی میں سرنج داخل کر کے تھوڑا سا مواد حاصل کرتے ہیں جسے بعد ازاں کینسر سیلز کی موجودگی معلوم کرنے کے لئے چیک کیا جاتا ہے۔ یہ نیڈل بائیوپسی بھی کہلاتی ہے۔ اسکے علاوہ اوپن بائیوپسی بھی کی جاتی ہے۔
اسکے علاج کا انحصار مرض کی شدت اور مریض کی حالت پہ ہوتا ہے۔ اگر مرض ابتدائ حالت میں ہو تو ریڈیو تھراپی یعنی شعاعوں کے ذریعے علاج،  کیمو تھراپی یعنی دواءوں کے ذریعے علاج  یا لمپیکٹومی یعنی گٹھلی کو آپریشن کے ذریعے الگ کردیتے ہیں۔ زیادہ محفوظ صورت حال میں رہنے کے لئے بعض اوقات  میسٹیکٹومی یعنی متائثرہ حصے کو مکمل طور پہ کاٹ کر الگ کر دینے  سے مرض سے چھٹی حاصل کی جا سکتی ہے۔  بعض اوقات دو مختلف طریقے ایک ساتھ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر یہ بعد کے مراحل میں داخل ہو جائے تو مریض کا عرصہ ء حیات ہی بڑھانے کی کوشش کی  جا سکتی ہے۔
کیمو تھراپی یا ریڈیو تھراپی کے ذیلی اثرات خاصے شدید ہوتے ہیں۔ اسکے لئے پہلے سے ذہنی طور پہ مریض اور گھر والوں کو تیار رہنا چاہئیے۔
علاج کے لئے ایک ڈاکٹر جو بھی مشورہ دے بہتر ہے کہ اسے شروع کرنے سے پہلے کسی اور ڈاکٹر سے بھی مشورہ لے لیا جائے۔ صرف بریسٹ کینسر ہی نہیں بلکہ کسی بھی سنگین مرض میں ایک سے زائد ڈاکٹر سے مشورہ ایک مریض کا حق ہے۔ 
جن مریضوں کی چھاتی الگ کر دی جائے انکے لئے یہ خاصہ مورال کم کر دینے والا سانحہ ہوتا ہے۔ عورت کی ظاہری خوب صورتی میں اسکی ظاہری ساخت کو ہر معاشرے میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ چھاتی کاٹ کر الگ کر دینے کی صورت میں  ایک عورت کی ظاہری خوبصورتی اس سے خاصی متائثر ہوتی ہے۔  بعض آپریشن کے ذریعے چھاتی کی ساخت کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ اب ایسے زیر جامے موجود ہیں جو دیکھنے  میں اسکی ظاہری شخصیت کو کم نہیں کرتے۔ لیکن بہر حال اسکا نفسیاتی اثر رہتا ہے۔
کسی بھی قسم کے کینسر کے مریض کو ہماری توجہ، محبت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔  ایک عورت جب اس سانحے سے گذرتی ہے تو اسکا خاصہ امکان ہوتا ہے کہ اس کا جیون ساتھی اس سے منہ موڑ جائے، علاج کا خرچہ گھرانے پہ بوجھ بن جاتا ہے۔ خاص طور پہ ہمارے معاشرے میں جہاں عورتیں معاشی طور پہ خود کفیل نہیں ہوتیں اور اپنے تمام مسائل اور وسائل کے لئے اپنے گھر والوں کی طرف دیکھتی ہیں۔  خواتین کو اس نظام میں وہ اہمیت حاصل نہیں جو ایک مرد کو حاصل ہوتا ہے تو ایک بیمار ، اور جسمانی ساخت سے محروم عورت کا یہ مہنگا علاج کروانے کی ہمت بھی ہر کسی میں نہیں ہو پاتی۔
یہ بھی ہوتا ہے کہ مریض کے ڈپریشن سے دیگر لوگ گھبرا جائیں اور وہ بھی حوصلہ چھوڑ دیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس صورت حال سے نبٹنے کے لئے رضاکاروں کے گروپ ہوتے ہیں یا ہسپتال ہی میں ایسے یونٹ ہوتے ہیں جہاں مریض اور اس  کے اہل خانہ کی بھی نفسیاتی  تربیت ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ بریسٹ کینسر کا شکار، مرد بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان میں اسکی شرح غیر معمولی طور پہ کم ہوتی ہے۔
چھاتی کے کینسر کی مریض عورت کو  بھی توجہ، محبت اور حوصلہ چاہئیے ہوتا ہے۔ اسے بے جا شرم  کی وجہ سے اس سے محروم نہ کریں۔

نوٹ؛ اس مضمون کی تیاری میں مختلف ذرائع سے مدد لی گئ ہے۔ پھر بھی کسی قسم کی غلطی کی نشاندہی یا مزید معلومات کے لئے مشکور ہونگی۔