Showing posts with label یوروپ میں اسلام. Show all posts
Showing posts with label یوروپ میں اسلام. Show all posts

Tuesday, May 25, 2010

ردّ شر

یوروپ ایک مدت تک اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا۔ جب اس نے جاننا چاہا تو مدت دراز تک عجب حیرت انگیز مفتریانہ خیالات اور توہمات میں مبتلا رہا۔ ایک یوروپین مصنف لکھتا ہے
عیسائیت اسلام کی چند ابتدائ صدیوں تک اسلام پر نہ تو نکتہ چینی کر سکی اور نہ سمجھ سکی۔ وہ صرف تھراتی اور حکم بجا لاتی تھی۔ لیکن جب قلب فرانس میں عرب پہلے پہل روکے گئے تو انکی قوموں نے جو انکے سامنے سے بھاگ رہی تھیں۔ منہ پھیر کر دیکھا جس طرح کہ مویشیوں کا گلّہ جبکہ اسکا بھگا دینے والا کتا دور نکل جاتا ہے۔
یوروپ نے مسلمانوں کو جس طرح جانا اسکو فرانس کا مشہور مصنف ہنری دی کاستری جسکی تصنیف کا عربی زبان میں ترجمہ ہو گیا ہے یوں بیان کرتا ہے
وہ تمام قصص اور گیت جو اسلام کے متعلق یوروپ میں قرون وسطی سے رائج تھے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ مسلمان انکو سن کر کیا کہیں گے؟ یہ تمام داستانیں اور نظمیں ، مسلمانوں کے مذہب کی ناواقفیت کی وجہ سے بغض و عداوت سے بھری ہوئ ہیں۔ جو غلطیاں اور بد گمانیاں اسلام کے متعلق آج تک قائم ہیں انکا باعث وہی قدیم معلومات ہیں۔ ہر مسیحی مسلمانوں کو مشرک اور بت پرست سمجھتا تھا اور حسب ترتیب درجات انکے تین خدا تسلیم کئے جاتے تھے۔ ماہوم یا ماہون یا نافومیڈ یعنی محامڈ اور اپلین اور تیسرا ٹرگامان۔ انکا خیال تھا کہ محمد نے اپنے مذہب کی بنیاد دعوائے الوہیت پر قائم کی  اور سب سے عجیب تر یہ ہے کہ محمد یعنی وہ محمد جو  بت شکن اور دشمنان اصنام تھا لوگوں کو اپنے طلائ بت کی دعوت دیتا تھا۔
اسپین میں جب عیسائ مسلمانوں پہ غالب ہوئے اور انکو سرقوسطہ کی دیواروں تک سے ہٹا دیا تو مسلمان لوٹ  کر آئے اور اپنے بتوں کو انہوں نے توڑ ڈالا۔ اس عہد کا ایک شاعر کہتا ہے کہ
اپلین مسلمانون کا دیوتا وہاں ایک غار میں تھا۔ اس پر وہ پل پڑے اور اسکو نہایت سخت سست کہا۔ اور اسکو گالیاں دیں اور اسکے دونوں ہاتھ باندھ کر ایک ستون پر اسکو سولی دی اور اسکو پاءوں سے روندا اور لاٹھیوں سے مار مار کر اسکے ٹکڑے کر ڈالے اور ماہوم کو یعنی جو انکا دوسرا دیوتا تھا۔ ایک گڑھے میں ڈالدیا اسکو سور اور کتوں نے نوچ ڈالا۔ اس سے زیادہ اس سے پہلے کسی دیوتا کی تحقیر نہیں ہوئ ۔ اسکے بعد مسلمانوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اپنے دیوتاءووں سے معافی مانگی اور ازسرنو تلف شدہ بتوں کو بنایا۔ اسی بناء پہ جب شہنشاہ چارلس سر قوسطہ میں داخل ہوا تو اس نے اپنے ہمراہیوں کو حکم دیا کہ تمام شہر کا چکر لگائیں ، وہ مسجدوں میں گھس گئے اور لوہے کے ہتھوڑوں سے ماہومیڈ اور تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔
ایک دوسرا شاعر ریچہ خدا سے دعا کرتا ہے کہ
وہ ماہوم کے بت کے پجاریوں کو شکست دے
اسکے بعد وہ امراء کو جنگ صلیبی کے لئے ان الفاظ میں آمادہ کرتا ہے
اٹھو اور ماہومیڈ اور ٹرماگان کے بتوں کو اوندھا کر دو اور انکو آگ میں ڈالدو اور انکو اپنے خداوند کی نذر کردو
اس قسم کے خیالات ایک مدت تک قائم رہے۔

اٹھارہویں صدی میں نادر الوجود عربی کتابوں کے بعد یوروپ اس قابل ہوا کہ اسلام کے متعلق خود اسلام کی زبان سے کچھ سن سکا۔
اس دور کی خصوصیت اول یہ ہے کہ عامیانہ خیالات کے بجائے کسی قدر تاریخ اسلام و سیرت پیغمبر اسلام کی بنیاد عربی زبان کی تصانیف پر قائم کی گئ۔ یوروپی مصنفین یا انکی تصنیفات میں جو نکتہ چینیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پہ کی جاتی ہیں یا جو خودبخود ناظرین کے دل میں پیدا ہوتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔
رسول اللہ کی زندگی مکہ معظمہ تک پیغمبرانہ ہے لیکن مدینہ جا کر جب زور وقوت حاصل ہوتی ہے تو دفعتہً پیغمبری شاہی میں بدل جاتی ہے۔ اور اسکے جو لوازم ہیں یعنی لشکر کشی، قتل، انتقام، خونریزی خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں۔
 کثرت ازدواج اور میل الی النّساء
مذہب کی اشاعت جبر اور زور سے
لونڈی غلام بنانے کی اجازت اور اس پر عمل
دنیا داروں کی سی حکمت عملی اور بہانہ جوئ


یہ تھا اقتباس، مولانا شبلی نعمانی کی کتاب 'سیرت النبی؛ کی جلد اول سے۔ جس میں مولانا صاحب نے تفصیلات دیتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ کیوں انہیں سیرت النبی پہ اتنی تفصیلی کتاب لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئ۔
   معزز قارئین، اس تمام چیز سے نتائج اخذ کرنے کی ذمہ داری میں آپ پر چھوڑتی ہوں۔ مگر یہ ضرور چاہونگی کہ جو بھی نتیجہ آپ نکالیں اسے اپنے تبصرے میں ضرور تحریر کریں۔