Showing posts with label پرویز مشرف. Show all posts
Showing posts with label پرویز مشرف. Show all posts

Thursday, September 22, 2011

تکون سے چوکور تک

صرف چھ سال پہلے ابتدائ جنوری کے ایک سرد دن جو کراچی والوں کو کوئٹہ سے پہنچنے والی سربیائ ہواءووں کے طفیل  مل جاتے ہیں۔ میں کراچی میں ہوٹل پرل کانٹی نینٹل کے لاءونج میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ لاءونج میں کھڑی اپنے دیگر ساتھیوں کا انتظار کر رہی تھی کہ سامنے اوپر سے آنے والی لفٹ کا دروازہ کھلا۔ ایک چھریرے بدن کا شخص تیزی سے برآمد ہوا۔ اس نے ہم رنگ ٹراءوژرز اور شرٹ پہنے ہوئے تھے۔ بال کچھ گھنگھریالے سے چہرے کی تفصیل میں جانے سے پہلے میری نظر اسکی کمر کے گرد پٹکے پر پڑ گئ۔ اس میں ایک پستول اپنے غلاف میں  لٹک رہا تھا۔ 
اسلحہ نجانے کیوں مجھے سحر زدہ کر دیتا ہے۔ وہ شخص میرے سامنے سے نکلا، ہوٹل کے داخلی دروازے پہ پہنچا وہاں موجود دربان نے ایستادہ ہو کر ماتھے پہ ہاتھ لے جا کر سلام  کا اشارہ کیا۔ وہ اسی بے نیازی سے گذرتا ہوا باہر موجود ایک قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر اوجھل ہو گیا۔
میری نظر میں اسکا پستول جھولتا رہا ایسے ہی جیسے عاشق کی نظر میں محبوب کے کان کا بالا ہلتا رہے۔ کسی نے میرے کان میں سرگوشی کی،  'عمران خان کو دیکھا'۔ 'آں'۔ میرا منہ کھل کر بند ہوا۔ یاد آیا، میں نے کیوں اسکے چہرے کی تفصیلات پہ نظر نہیں کی۔ وہ عمران خان تھے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین۔ لعنت ہو مجھ پہ ایک پستول نے مجھے اتنا بے خود کر ڈالا۔ ایک پورے قد کے شخص کو دیکھنے سے محروم رہ گئ۔ جبکہ وہ میرے اتنے قریب سے گذرا۔
ابھی چند دن پہلے ٹی وی سرفنگ کے دوران میں ایک چینل پہ رکی، عمران خان سے مجاہد بریلوی اپنی مشہور زیر لب مسکراہٹ سجائے پوچھ رہے تھے کہ اب جبکہ آپ سیاست میں ہیں اور کراچی کی سیاست میں ہر سیاسی جماعت کے پاس اسلحہ بردار گروپ موجود ہے آپ جب یہاں سیاست کریں گے تو اسلحہ استعمال  نہیں کریں گے۔ عمران نے اپنی روائیتی مسکراہٹ سے اس طرح کا جواب دیا کہ میں کراچی میں اپنے ساتھیوں کو اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت بالکل نہیں دونگا۔ میں نے انکی بات سنی اور مسکرا کر آگے بڑھ گئ۔ جدید دنیا میں ایک فائدہ ہے ناں۔ بٹن دباءو، اور آگے نکل جاءو۔ کوئ منظر، جھوٹ، سچ، فریب، بیان، ادا،  تفریح نگاہ میں زیادہ دیر نہیں رہ سکتی۔ یہاں بہت سی دوکانیں ہیں اور انکے اپنے لبھانے والے انداز۔
اسلحے کی بات آگے چلی تو  ذکر ہمارے ہمارے ایک ساتھی کا    جنکا خیال ہے کہ میڈیا سے بچے ہتھیار چلانا سیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی بچوں کے متعلق  یہ کہنا صحیح ہے کیا؟  وہ پاکستان جہاں گذشتہ تیس سال سے جنگ جاری ہے۔
میں نے تو پہلی دفعہ اخبار میں دیکھا کہ کلاشنکوف کوئ ہتھیار ہوتا ہے۔ اس میں اخبار کا کیا قصورپھر سنا کہ افغان جہاد میں کون کون سے ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں پھر خودکار ہتھیاروں کے استعمال کی عینی گواہ بنی۔ پھر آپریشن کلین اپ کے دوران پتہ چلا کہ کون کون سے ہتھیار کہاں کہاں سے برآمد ہوئے۔ پھر اخبارات سے اسلحہ اسمگلنگ کی رپورٹس سے پتہ چلا کہ کس کس قسم کے ہتھیار کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ یہ ملک کے کس رخ سے کس رخ کی طرف ہوتی ہے۔ 
عمران خان کی متائثر کن تصاویر جن میں وہ گولیوں کی بیلٹ لگائے شمالی علاقہ جات میں کہیں بیٹھے ہیں یا پھر پرویز مشرف اپنے کمانڈو کے یونفارم میں ایک پستول کو جانچ پرکھ رہے ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر اور اپنے نام نہاد دشمنوں کی سازشیں جان جان کر میرے اندر بڑی شدت سے یہ خواہش جنم لیتی کہ اے کاش میں بھی دشمن کو ان ہتھیاروں سے تہس نہس کر ڈالوں۔ پھر جیسے جیسے ہم جہاد اور جنگ میں آگے بڑھےمیری ہتھیاروں کے متعلق معلومات میں بھی ماشاءاللہ کافی اضافہ ہوا حالانکہ خدا شاہد ہے کہ میں نے کبھی بھی انکے متعلق سرچ کرنے کی شمہ برابر بھی کوشش نہ کی تھی۔ 
ایک عرصے تک یہی سمجھ میں آیا  کہ پسماندہ معاشرے، قبائلی نظام اور اسلحہ ایک تکون تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن آج  روزنامہ ڈان میں ایک دلچسپ خبر پہ نظر پڑی۔ خبر کے مطابق صومالیہ جو کہ اس وقت دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے وہاں قرآن شریف کی تلاوت کے ایک مقابلے میں بچوں کو انعام میں ہتھیار دئیے گئے۔ پہلا انعام اے کے ۴۷ اور جی بی پی ۴۵۰، دوسرے نمبر پہ آنے والے کو اے کے ۴۷ اور جی بی پی ۳۲۰ دئیے گئے۔ تیسرے نمبر پہ آنے والے کو دو ایف ون ہینڈ گرینیڈ دئیے گئے۔ 
جنوبی صومالیہ کا بڑا حصہ الشہاب گروہ کے کنٹرول میں ہے۔  یہ گروہ اپنے علاقے میں میوزیکل رنگ ٹونز، فلموں، فٹبال براڈ کاسٹ ، شادیوں کے موقع پہ ناچ گانے پہ پابندی لگا چکا ہے۔ اسکے علاوہ علاقے میں عربی کے علاوہ کوئ اور زبان دوکانوں کے سائن کے لئے نہیں لکھی جا سکتی۔ سزائووں میں ہاتھ پاءووں کاٹنا یا سنگساری شامل ہیں۔
شاعر نے کہا تھا کہ عشق نے ہم کو تکونا کر دیا، ورنہ ہم بھی آدمی چوکور تھے۔ میں، پسماندہ معاشرے، قبائلی نظام اور اسلحے کی تکون کو سوچتی ہوں چوکور کر دوں پھر خیال آتا ہے کہ چوکور کو تکونا تو عشق نے کر دیا۔ اس تکون کو چوکور کون سا جذبہ کر رہا ہے۔

Monday, October 11, 2010

فرزند زمین

تین دن پہلے رات کے وقت لیاری ایکسپریس وے سے نیچے اترے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ  سے آگے جا کر جو ایک سڑک پہ مڑے تو ایک قطار میں کئ ٹرالرز ایک لمبی لائن میں  کھڑے ہوئے تھے۔ یہ نیٹو کے سپلائ ٹرکس ہیں جنہیں شاید یہاں روک دیا گیا ہے۔ ایک ساتھی نے کہا۔ پاکستان نے نیٹو افواج کی سپلائ لائن بند کر دی ہے۔ اور ہم لوگ حساب لگانے لگے کہ اس وقت کتنے اسطرح کے ٹرالرز کراچی سے پاکستان کی شمالی سرحد تک یا تو سفر میں ہونگے یا اسی طرح کھڑے ہونگے شاید ہزاروں میں۔ یہ قدم پاکستان نے اس وقت اٹھایا ، جب پچھلے ہفتے افغان سرحد کے اس طرف سے پاکستانی سرحد پہ میزائل مارے گئے اور اسکے نتیجے میں تین پاکستانی فوجی مارے گئے۔
سپلائ لائن کے بند ہونے سے ٹرالرز درہ خیبر کے پاس اور بعد میں کوئٹہ میں بھی اکٹھے ہوئے جا رہے تھے۔  کچھ ٹرالرز کو مقامی افراد نے تباہ کر دیا یا جلا دیا۔



یہ کوئ پہلی دفعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ ٹرکس لوٹے جاتے رہے ہیں اور انکا سامان مقامی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاتا رہا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک اگرچہ جلانے والوں کا تعلق  طالبان سے بتایا جاتا تھا۔ لیکن  ایک نجی محفل میں ان اطلاعات کی باز گشت بھی سنائ دی کہ آجکل قبائلی سرداروں کے بڑے مزے آئے ہوئے ہیں اور لوٹ مار کے اس عمل میں  فلاں فلاں سردار کی چاندی ہوگئ ۔ یہ سردار خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ طالبان کے نقش قدم پہ وہ بھی روانہ ہوئے اور اس سے پہلے کے طالبان انہیں ہتھیائیں وہ کیوں نہ دام کھرے کریں۔ میں نے سوچا کیا مجھے حیران ہونا چاہئیے؟  یا کہنا چاہئیے کہ جیسے کو تیسا؟ کسی طرح تو خبیث امریکیوں کو نقصان پہنچے اب فرزند زمین یہی طریقہ جانتے ہیں تو یہی سہی۔
 یہ سامان اشیائے خور دو نوش سے لیکر جدید ہتھیاروں تک ہر چیز پہ مشتمل ہے۔  اور سرحدی علاقوں سے لے کر یہ اشیاء کراچی میں بھی دستیاب ہیں۔ چلیں اس بہانے ہمارے لوگوں کو امریکہ کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور عیاشی کا سامان ہاتھ آتا ہے۔ برائ کیا ہے۔
لوٹی ہوئ اشیاء کی فروخت کی ایک مارکیٹ

 میں ایک غیر ملکی رپورٹ سے گذر رہی تھی  جس میں یہ اطلاعات موجود تھیں کہ کسطرح نیٹو کے یہ ٹرکس لوٹ مار کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اور انکے سامان سے پاکستانی کس طرح مستفید ہو رہے ہیں۔ اس پہ ہونے والے تبصرے دلچسپ تھے۔ یہ تبصرے جن میں امریکی تبصرہ نگار بھی شامل تھے۔ انکا غضب کا نشانہ پاکستانی عوام اور امریکی حکام دونوں تھے۔ جہاں ایک طرف پاکستانی چور اچکے، بد دیانت ، لوٹ مار کرنے والی  قوم ٹہری وہاں امریکی حکومت بے وقوف ٹہری جو اپنے عوام کی فلاح پہ پیسے خرچ کرنے کے بجائے چوروں کو اپنا اتحادی بنائے ہوئے جنگ کئے جا رہی ہے۔ بقول کئ مبصروں کے اگر جنگ پہ خرچ کئے جانے والے یہ پیسے ملک میں خرچ کئے جائیں تو امریکی عوام اس وقت جس معاشی بحران کا شکار ہیں۔ اس سے بچا جا سکتا ہے۔
اگر ان تبصروں میں سے شناخت اور خبر کا پس منظر ہٹا دیا جائے تو کم و بیش یہی الزامات پاکستانی بھی اپنے امریکی حلیفوں پہ لگاتے ہیں اور کچھ ان سے ملتی جلتی وجوہات کی بناء پہ اپنی حکومت سے عاجز ہیں۔
پاکستان میں ایک حلقے نے حکومت کے اس قدم کو جمہوری حکومت کی طاقت کی فتح قرار دیا۔ ایک اور حلقے نے اسے سپہ سالار پرویز کیانی کے حوصلے سے جوڑا۔ ہر نظر اپنی اپنی روشنی تک جا رہی ہے۔ بہر حال اس تحریر کے پڑھنے تک طورخم کے بارڈر سے یہ پابندی اٹھا لی گئ ہو گی۔
  سرداروں سے متعلق ایک دلچسپ خبر اور ہے۔ معروف بلوچی سردار اکبر بگتی کے بیٹے نے مشرف کو قتل کرنے والے کو ایک ارب روپے کی زمین یعنی ہزار ایکڑ کینال زمین  دینے کا اعلان کیا ہے۔ غالب اور نیک  اندازہ ہے کہ یہ زمین انکی اس وراثت میں سے ہی دی جائے گی جو نسل ہا نسل سے انکی ملکیت ہے۔
چلیں بلوچی عوام سے تو مشرف ہی بھلے، مارے گئے تو اسی بہانے کسی کو سردار کی زمین میں سے ہزار ایکڑ ملیں گے۔ عوام کا کیا ہے وہ  تو دکھاوے کا زخم ہیں جس کے بہانے ہمدردی حاصل کی جاتی رہے اور جسے بوقت ضرورت اپنے اغراض کے لئے سہلا سہلا کر اور مکروہ بنایا  جاتا رہے۔ مشرف کے اس طرح مرنے کے بعد یہ کہنا کتنا قابل فخر ہوگا کہ ایک قابل فخر سردار باپ کے بیٹے نے اپنے باپ کے نام نہاد قاتل سے بدلہ لینے میں پرکھوں کی ہزار ایکڑ زمین کی بھی پرواہ نہیں کی۔
لیکن جن مظلوموں کے خون سے انکے محترم والد کے  اور خود انکے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ ان کا بدلہ لینے کے لئے عوام کس زمین کا دان دیں۔