اطلاع ملی کہ جاپان میں شدید زلزلے کے ساتھ سونامی آگئ۔ نیوکلیئر پاور پلانٹ سمیت متعدد مقامات شدید نقصان سے دوچار۔ پاکستان میں کچھ لوگ کف افسوس مل رہے ہونگے کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ یہ سب کچھ ہمارے یہاں ہوتا۔ قدرتی آفات کے نام پہ ہمارے یہاں کچھ لوگوں کی رال ٹپکنے لگ جاتی ہے۔ امداد جو ملتی ہے۔
خیر، اس وقت تو میں یہ خبر پڑھ کر سر دھن رہی ہوں کہ وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا آج سب سندھ اسمبلی میں داخل ہوئے تو ان کا ڈیسکیں بجا کر گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔ اسکی وجہ یہ نہ تھی کہ انہوں نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کے لئَ کوئ موءثر قدم اٹھا ڈالا تھا، یہ انکا سر درد نہیں۔ اسکی وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ وہ موجودہ عہد حکومت کے دوران ہونے والے کراچی میں سنگین واقعات مثلاً پچھلے سال محرم میں ہونے والی دہشت گردی اور لوٹ مار، کے مجرمین کو وصل جہنم کر آئے تھے اور نہ ہی اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ بحیثیت وزیر داخلہ سندھ میں جرائم کی سرکوبی کرنے میں کامیاب رہے اور کراچی سمیت پورے سندھ میں انہوں نے جرائم پیشہ لوگوں لو اپنے انجام تک پہنچادیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے کراچی میں پچھلے تین سالوں میں نہ صرف ڈکیتیوں سے لے کر اغواء برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ٹارگٹ کلنگ میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔
تو پھر انکی پذیرائ کی وجہ کیا ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ لیاری کے جرائم پیشہ عناصر کو پیپلز پارٹی کی حفاظت کی چادر اوڑھائ۔ یہ یقیناً سندھ میں پیپلز پارٹی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ یوں ، پچھلے سال شیر شاہ میں ہونے والے قتل و غارت گری کے مجرموں کو پہلے امن کمیٹی کا تحفظ دیا گیا اور پھر پیٹھ تھپک کر شاباش دے دی گئ۔ اور اس عمل کو پیپلز پارٹی کے ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل رہی۔ انکا کہنا کہے کہ اس طرح وہ لیاری کے جرائم پیشہ افراد کو مین اسٹریم میں لا رہے ہیں۔ مرنے والے جائیں جہنم میں۔ ویسے بھی انکی اکثریت اردو بولنے والوں سے تعلق رکھتی ہے۔ انکی پرواہ اگر کسی کو کرنی چاہئیے تو وہ ایم کیو ایم ہے۔ پیپلز پارٹی کیوں کرے۔ سب کو اپنے تعصب کی جنگ لڑنی ہے۔
اپنی ایک عوامی تقریر میں وہ فرماتے ہیں کہ
یہ بات بھی کوئ ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ کراچی میں اغواء برائےتاوان اور لوٹ مار کی وارداتیں اب صوبائ حکومت کی سرپرستی میں ہو رہے ہیں۔ اغواء برائے تاوان اور ڈاکے، فیوڈل سسٹم کے کرتا دھرتاءوں کا نشان امتیاز رہے ہیں۔ اور اب شاید ایم کیو ایم سے متائثر ہو کر انہوں نے بھتے کو بھی اپنے منشور میں شامل کر لیا ہے۔ ایم کیو ایم اپنے اس امیج کو دھونے کی کوشش کر رہی ہے تو پیپلز پارٹی نے اسے حاصل کر لیا۔
اس روئیے کے بعد پاکستانی معاشرے کے مختلف لوگ خدا جانے کس منہ سے یہ بات کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم تعصب کی سیاست کرتی ہے فاشسٹ ہے۔ اور ہم نہیں ہیں۔ یہاں سب ایک حمام میں ننگے ہیں۔
ہماری حکمراں جماعت کے حصے میں یہ کارنامہ بھی آیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف انہوں نے سندھ میں ہڑتال کال کی اور اسے کامیاب بنانے کے لئے ایکدن میں نو سے زائد افراد مارے گئے۔ شہر میں گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ اور انتہائ دلچسپی کی بات یہ کہ ہمارے محبوب صدر کے گھر بلاول ہاءس کے سامنے ہی ایک بس کو جلایا گیا۔ یہ بات تو ہمارے قارئین کو ضرور پتہ ہوگی کہ صدر صاحب، پیپلز پارٹی کے کو چیئر مین ہیں۔ یوں جیالوں کی آزادی، عدلیہ کی آزادی پہ سبقت لے گئ۔
یہ بات ہمارے علم میں نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہڑتال کی 'دانشمندانہ، جیالی اور جوسی تجویز' پہ ملکی کال دینے کے بجائے کراچی کو کیوں چنا گیا؟
خیر، ملکی سیاست پہ ایک ہلکی سی نظر سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ پاکستان میں آزاد غنڈوں کا کوئ تصور نہیں رہا۔ ہر غنڈہ ، بدمعاش شخص کام پہ لگا ہوا ہے۔ کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے وابستہ ہے۔ مذہبی جماعتوں نے انہیں مجاہد کا نام دیا ہے اور سیاسی جماعتوں نے کارکنوں کا۔
میری عزیز دوست نے اپنے جواں العمر بھائ اور چار چھوٹی بچیوں کے باپ کے ایسے ہی قتل پہ آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ جو لوگ سیاسی غنڈوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں۔ انکے لئے انصاف کی داد رسی کس سے چاہیں؟
میرے پاس اس کا جواب نہیں۔ میں تو خوداپنے ملک میں کسی سیاسی سونامی کی منتظر ہوں۔