Showing posts with label ٹارگٹ کلنگ. Show all posts
Showing posts with label ٹارگٹ کلنگ. Show all posts

Friday, March 11, 2011

ایک سونامی چاہئیے

اطلاع  ملی کہ جاپان میں شدید زلزلے کے ساتھ سونامی آگئ۔  نیوکلیئر پاور پلانٹ سمیت متعدد مقامات شدید نقصان سے دوچار۔ پاکستان میں کچھ لوگ کف افسوس مل رہے ہونگے کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ یہ سب کچھ ہمارے یہاں ہوتا۔  قدرتی آفات کے نام پہ ہمارے یہاں کچھ لوگوں کی رال ٹپکنے لگ جاتی ہے۔ امداد جو ملتی ہے۔
خیر، اس وقت تو میں یہ خبر پڑھ کر سر دھن رہی ہوں کہ  وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا آج سب سندھ اسمبلی میں داخل ہوئے تو ان کا ڈیسکیں بجا کر گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔  اسکی وجہ یہ نہ تھی کہ انہوں نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کے لئَ کوئ موءثر قدم اٹھا ڈالا تھا، یہ انکا سر درد نہیں۔ اسکی وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ وہ موجودہ عہد حکومت کے دوران ہونے والے کراچی میں سنگین واقعات مثلاً پچھلے سال محرم میں ہونے والی دہشت گردی اور لوٹ مار،  کے مجرمین کو وصل جہنم کر آئے تھے اور نہ ہی اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ بحیثیت وزیر داخلہ سندھ میں جرائم کی سرکوبی کرنے میں کامیاب رہے اور کراچی سمیت پورے سندھ میں انہوں نے جرائم پیشہ لوگوں لو اپنے انجام تک پہنچادیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے کراچی میں پچھلے تین سالوں میں نہ صرف  ڈکیتیوں سے لے کر اغواء برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ٹارگٹ کلنگ میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔
تو پھر انکی پذیرائ کی وجہ کیا ہے؟  اسکی وجہ یہ ہے کہ لیاری کے جرائم پیشہ عناصر کو پیپلز پارٹی کی حفاظت کی چادر اوڑھائ۔ یہ یقیناً سندھ میں پیپلز پارٹی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ یوں ، پچھلے سال شیر شاہ میں ہونے والے قتل و غارت گری کے مجرموں کو پہلے امن کمیٹی کا تحفظ دیا گیا  اور پھر پیٹھ تھپک کر شاباش دے دی گئ۔ اور اس عمل کو پیپلز پارٹی کے ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل رہی۔ انکا کہنا کہے کہ اس طرح وہ لیاری کے جرائم پیشہ افراد کو مین اسٹریم میں لا رہے ہیں۔ مرنے والے جائیں جہنم میں۔ ویسے بھی انکی اکثریت اردو بولنے والوں سے تعلق رکھتی ہے۔ انکی پرواہ اگر کسی کو کرنی چاہئیے تو وہ ایم کیو ایم ہے۔ پیپلز پارٹی کیوں کرے۔ سب کو اپنے تعصب کی جنگ لڑنی ہے۔
اپنی ایک عوامی تقریر میں وہ فرماتے ہیں کہ
یہ بات بھی کوئ ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ کراچی میں اغواء برائےتاوان اور لوٹ مار کی وارداتیں اب صوبائ حکومت کی سرپرستی میں ہو رہے ہیں۔ اغواء برائے تاوان اور ڈاکے، فیوڈل سسٹم کے کرتا دھرتاءوں کا نشان امتیاز رہے ہیں۔ اور اب شاید ایم کیو ایم سے متائثر ہو کر انہوں نے بھتے کو بھی اپنے منشور میں شامل کر لیا ہے۔ ایم کیو ایم اپنے اس امیج کو دھونے کی کوشش کر رہی ہے تو پیپلز پارٹی نے اسے حاصل کر لیا۔   
اس روئیے کے بعد پاکستانی معاشرے کے مختلف لوگ خدا جانے کس منہ سے یہ بات کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم تعصب کی سیاست کرتی ہے فاشسٹ ہے۔ اور ہم نہیں ہیں۔ یہاں سب ایک حمام میں ننگے ہیں۔
ہماری حکمراں جماعت کے حصے میں یہ کارنامہ بھی آیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف انہوں نے سندھ میں ہڑتال کال کی اور اسے کامیاب بنانے کے لئے ایکدن میں نو سے زائد افراد مارے گئے۔ شہر میں گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ اور انتہائ دلچسپی کی بات یہ کہ ہمارے محبوب صدر کے گھر بلاول ہاءس کے سامنے ہی ایک بس کو جلایا گیا۔ یہ بات تو ہمارے قارئین کو ضرور پتہ ہوگی کہ صدر صاحب، پیپلز پارٹی کے کو چیئر مین ہیں۔ یوں جیالوں کی آزادی، عدلیہ کی آزادی پہ سبقت لے گئ۔
یہ بات ہمارے علم میں نہیں کہ  سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہڑتال کی 'دانشمندانہ، جیالی اور جوسی تجویز' پہ ملکی کال دینے کے بجائے کراچی کو کیوں چنا گیا؟
 خیر، ملکی سیاست پہ ایک ہلکی سی نظر سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ پاکستان میں آزاد غنڈوں کا کوئ تصور نہیں رہا۔ ہر غنڈہ ، بدمعاش شخص کام پہ لگا ہوا ہے۔ کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے وابستہ ہے۔ مذہبی جماعتوں نے انہیں مجاہد کا نام دیا ہے اور سیاسی جماعتوں نے کارکنوں کا۔
میری عزیز دوست نے اپنے جواں العمر بھائ اور  چار چھوٹی بچیوں کے باپ کے ایسے ہی قتل پہ  آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ جو لوگ سیاسی غنڈوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں۔ انکے لئے انصاف کی داد رسی کس سے چاہیں؟
میرے پاس اس کا جواب نہیں۔ میں تو خوداپنے ملک میں کسی سیاسی سونامی کی منتظر ہوں۔

Tuesday, January 12, 2010

کیا لیاری کراچی کا حصہ ہے؟

میری اس  لڑکی سے ملاقات کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا۔ یونہی نو دس مہینے پہلے مجھے خیال آیا کہ میں اپنے مضمون  پر اگر لوگوں کو ٹیوشن دینے لگون اور اپنی فیس  اسوقت چلنے والی فیس کے مقابلے میں آدھی رکھوں تو اس سے مجھے اور پڑھنے والے دونوں کو دلچسپی ہوگی۔ میں نے اخبار میں اشتہار دے دیا۔ اسکے نتیجے میں میرے پاس پانچ فون آئے۔ ان میں سے چار لوگوں کی خواہش تھی کہ انہیں گھر پہ پڑھایا جائے۔ جسے میں نے منع کر دیا
لیکن ایک فون مجھے لیاری سے ایک لڑکی کا آیا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتی تھی۔ وہ بی ایس سی کی طالبہ تھی۔ مجھے حیرانی ہوئ۔ 'مگر آپ تو میرے گھر سے خاصی دور رہتی ہیں اور ہفتے میں تین دن آنا بھی آپکے لئیے بہت مشکل ہوگا'۔  یہ سن کر اس نے مجھ سے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں اس سے ایکدفعہ مل کر اسے جو مشکلات پیش آرہی ہیں وہ دیکھ لوں اور انکے لئیے اسے کچھ ٹپس دیدوں۔۔ اسکی یہ لگن دیکھ کر میں نے اسے اگلے دن بلالیا۔
 وقت مقررہ پہ وہ اپنے والد صاحب کے ساتھ آگئ۔ اس نے برقعہ پہنا ہوا تھا۔ اسکے والد صاحب اپنی عمر کی پانچویں دھائ میں تھے اور نیوی مرچنٹ کی نوکری کرتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ بیٹھے رہے۔ ہم دونوں جب اس ساری ڈسکشن سے فارغ ہو گئے  تو میں ان سے بات کی۔
انہیں میرے گھر پہنچنے کے لئیے دو بسیں اور ایک ٹیکسی لینی پڑی تھی اور انکے مبلغ دو  سو روپے خرچ ہوئے تھے۔ وہ سات بہنیں اور ایک بھائ تھے۔ میں نے جب ان سے انکے علاقے کے حالات جاننے چاہے تو اس سوال پہ اس آدمی کا چہرہ بالکل بجھ گیا۔ آپکو کیا بتاءووں۔ میرا ایک بیٹا ہے اور وہ جب گھر سے پڑھنے کے لئیے نکلتا ہے تو جب تک واپس نہیں آجاتا ہم پریشان رہتے ہیں۔ ہمارا پورا علاقہ غنڈوں اور بدمعاشوں کا علاقہ ہے۔ ہمارا نوجوان لوگ زیادہ تر نشہ کرتا ہے یا ہنگامہ۔ آپ کبھی ہمارا علاقہ آکر دیکھو۔ انسانوں کی رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ ابھی آپ دیکھو میری بیٹی کو پڑھنے کا اتنا شوق ہے لیکن ہمارے علاقے میں کوئ اچھا پڑھنے کی جگہ نہیں ہے یہ جہاں جاتا ہے وہاں کتنی مشکل سے جاتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں  کیا ہم اسی طرح جانوروں کی طرح زندگی گذارتا رہیگا۔
اب آپ اردو اسپیکنگ والوں کی پارٹی ہے۔ لوگ کہتا ہے وہ بدمعاشی کرتا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں وہ اپنے شہر اور اپنے لوگوں کی بھلائ کے لئیے کچھ تو کرتا ہے۔ ہمارے علاقے سے ہر دفعہ ایک پارٹی آتی ہے مگر آپ وہاں جا کر دیکھیں۔ ہمارا بچہ لوگ کیا کرتا ہے۔ ہم لوگوں کا کیا بنے گا۔ یہ حکومت جب سے آیا ہے اس نے تو تھانہ بانٹ لیا ہے۔ ہمارے لیاری میں کوئ پولیس نہیں ہے صرف غنڈوں کا راج ہے۔ کوئ دن نہیں ہوتا کہ ان بدمعاشوں کی آپس میں جنگ نہ ہوتی ہو۔ ہم تو اپنے گھر کے صحن میں نہیں کھڑے ہو سکتے۔
جب وہ جانے لگے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ان تمام مشوروں کی فیس کیا ہوگی جو میں نے اس دوران انہیں دئیے۔ میں نے ان سے کہا کہ اسکی کوئ فیس نہیں ہے۔ میں نے بغیر کسی تیاری کے سرسری طور پہ کچھ چیزیں بتادی ہیں۔ اسکی کیا فیس ہو سکتی ہے۔ میں اگر باقاعدہ پڑھاتی تو کچھ فیس ہوتی۔ مگر وہ پھر بھی بصد اصرار کچھ پیسے میز پہ رکھ گئے۔ جب وہ نکنلے لگے تو وہ لڑکی مجھ سے کہنے لگی کہ باجی آپکا علاقہ مجھے بہت اچھا لگا۔ میں بالکل شرمندہ ہو گئ۔ معلوم نہیں کیوں۔
یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے جب کراچی کے کسی علاقے کے تعلیمی اوسط کا اندازہ لگانا ہوتا تو یونیورسٹی سے وہاں کے لئیے چلنے والے بسز سے لگاتے جو پوائنٹس کہلاتی تھیں۔ کراچی کے تمام علاقوں جن میں لانڈھی، کورنگی، عزیز آباد اور اورنگی ٹاءون بھی شامل ہیں انکے لئیے باقاعدگی سے پوائنٹس لگتے تھے مگر ان میں کبھی لیاری کے لئے بس نہ دیکھی۔
آج جب میں نے ایک بلاگ پہ نبیل گبول صاحب کا بیان دیکھا کہ لیاری میں کیوں آپریشن ہوتا ہے لانڈھی، کورنگی اور عزیز آباد میں کیوں نہیں ہوتا۔ تو ان سے صرف ایک سوال پوچھنے کو دل چاہا کہ پچھلےتیس پینتیس سالوں میں لیاری والوں نے شاید پیلپز پارٹی کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ کیا انہوں نے سوچا کہ لیاری میں ایک بھی اچھا اسکول اور کالج نہیں جسیا کہ لانڈھی، کورنگی اور عزیز آباد میں ہیں، وہاں چھوٹے بچوں اور عورتوں میں کیوں منشیات کا استعمال زیادہ ہے۔  شہر بھر میں کیوں جوا  سب سے زیادہ وہاں کھیلا جاتا ہے۔
لیاری کے مختلف محلے وہاں کے ڈکیتوں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جو ایک دو نہیں کئ ہیں۔  ایسا کوئ عمل لانڈھی، کورنگی اور عزیز آباد میں نہیں ہوتا۔۔ میں ان علاقوں میں اکیلے گاڑی میں بے دھڑک گھومتی ہوں لیکن میں لیاری میں اس طرح پھرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
پچھلے کئ سالوں میں شہر کے باقی علاقے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ لیاری اب تک اتنا پسماندہ کیوں ہے۔ کیوں کراچی یونیورسٹی والوں کو لیاری کے لئیے کبھی ایک بس چلانے کی نوبت نہ آئ۔ کیوں یونیورسٹی میں اتنا لمبا عرصہ گذارنے کے باوجود میری کبھی ایسے طالب علم سے ملاقات نہ ہوئ جو لیاری سے تعلق رکھتا ہو۔  کیوں لیاری کراچی کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔کیا نبیل گبول صاحب اس بات کا جواب دیں گے۔ کیا ابو سعد کبھی اس چیز کے بارے میں لکھیں گے کہ لیاری کیوں کراچی کا حصہ نہیں لگتا۔ اور کراچی کی رونقوں کے غم میں گھلنے والے جانتے بھی ہیں کہ لیاری بھی کراچی میں واقع ہے۔