آج جنگ اخبار پڑھ رہی تھی تو جناب ہارون رشید کے کالم پہ بھی گذر ہوا ابھی کچھ عرصے پہلے بھی ایک اردو بلاگ پہ کسی تبصرہ نگار کے طفیل انکا ایک اور کالم دیکھا تھا اور انکے چند ایک نکات سے اختلاف کرتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسی تحریروں کو اس وقت کتنی زیادہ ضرورت ہے۔ انکی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ طعنہ بھی کسی کو دینے کی جراءت نہیں ہو سکتی کہ ہونہہ یہ سیکولر اور روشن خیال لوگ ایسا کہتے ہیں۔ آئیے، انکی یہ تحریرآپ سب کی نذر۔ امید ہے آپ میں سے جو لوگ اخبار پڑھنے کی لت میں مبتلا ہونگے وہ اس پہ سے گذر چکے ہونگے۔ لیکن ایک دفعہ پھر سہی۔ انکے ساتھ پڑھئیےجنہیں دوسروں کے ساتھ پڑھنے کی عادت ہے۔
نوٹ؛
اس مضمون کے چھوٹا نظر آنے کی صورت میں اس پہ کلک کجئیے۔
اس تمام مضمون میں انہوں نے امریکہ کی واپسی کا تذکرہ کیا ہے۔ یقیناً امریکہ کو واپس جانا ہے۔ لیکن اس صورت میں پاکستان کو طالبان کے جن کو قابو میں کرنے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ چاہے وہ تحریک طالبان ہو ں یا افغانی طالبان۔ ہم سب کو یقیناً اس بات پہ سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ اس ریاست کو جسکے مکین ہم سب ہیں کسطرح یہاں کے رہنے والوں کے لئیے ایک فلاحی مملکت میں بدلنا ہوگا ۔ جہاں حریت فکر موجود ہو۔