تمہیں تو پروں کیساتھ پیدا کیا گیا ہے تم کیوں رینگنا چاہتے ہو۔
یہ الفاظ عظیم صوفی شاعر جلال الدین محمد رومی کے ہیں۔ انکا نام صوفی شاعری کے حوالے سے جس بلندی پہ نظر آتا ہے اسکی کوئ مثال نہیں ملتی۔ مثنوی مولانا رومی اس شاعری کی معراج ہے اور انکے عشق کا اظہار۔ عشق افراد ، اشیاء، مظاہر قوت، معقولات و مجردات کا ہو سکتا ہے اور خدا سے بھی۔ مگر خدا سے عشق کی شدت کو انسان الفاظ میں ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اور اس لئیے مجازی اشارے استعمال کرنا پڑ جاتے ہیں۔
رومی کے اوپر کچھ تحاریر سے گذرتے ہوئے خیال ہوا کہ انکی شاعری کے کچھ حصوں میں آپکو بھی شامل کر لیا جائے۔
مولانا چونکہ خیال کرتے ہیں کہ روح انسانی کی اصل خدا ہے۔ اور اس سلسلے میںمرد وعورت کی کوئ تخصیص نہیں۔ اس وجہ سے اپنے زمانے میں مولانا رومی صوفی ازم کی تاریخ میں ان معدودے شخصیات میں شامل ہوتے ہیں جنکے مریدوں میں خواتین بھی شامل تھیں۔ مثنوی میں ایک جگہ وہ فرماتے ہیں کہ
Mohammed said,
'women prevails over the wise and intelligent. While the ignorant dominate her'. They lack tenderness and affection because their animality prevail. Love and gentleness are human qualities, aggressiveness and lust are bestical.
یعنی، محمد صلعم نے کہا کہ عورتیں عقلمند اور ذہین مردوں پہ چھا جاتی ہیں جبکہ جاہل مرد ان پہ حکمرانی کرتے ہیں۔ ان میں شفقت اور محبت کی کمی ہوتی ہے کیونکہ ان میں حیوانیت غالب ہوتی ہے۔ محبت اور شائستگی انسانی خواص ہیں اور جارحیت پسندی اور ہوس حیوانی خواص۔
ایک اور جگہ پہ وہ کہتے ہیں،
Women is a ray of God. She is not earthy beloved. You could say; She is creative, not created
یعنی، عورت خدا کی ایک کرن ہے۔ عورت کوئ زمینی محبوب نہیں ہے۔ تم کہہ سکتے ہو کہ وہ تخلیق کار ہے تخلیق نہیں۔
vol I, 2433-2437
Mathnavi Jalaluddin Rumi.
Translated by Kabir and Camilla Helminski
Shambhala, Boston and London, 2008.
ایک اور جگہ وہ انسانی ارتقاء کی بات کرتے ہیں۔ انسان نے نہ صرف جسمانی ارتقاء حاصل کیا ہے بلکہ شعوری ارتقاء سے بھی گذرا ہے۔اور حقیقت تک رسائ حاصل کرنے کے لئیے ذہن کا پورا سہارا لیا۔ اور حسیات اور خرد سے حاصل اس معلومات نے کئ متضاد خیالات کو جنم دیا ہے۔ اور تضاد کی صورت ایسی بنتی ہے کہ
کائنات فی الواقع موجود ہے۔ فی الواقع موجود نہیں ہے محض التباس ہے۔ حقیقت غیر متغیر ہے۔ حقیقت تغیر پذیر ہے۔ اشیاء کا تغیر ذہن کی کرشمہ سازی ہے۔ فرد تمام اشیاء کا معیار ہے۔ فطرت انسانی حامل صداقت ہے۔ روح فانی ہے۔ روح غیر فانی ہے۔ کائنات میں تناسخ ارواح کا سلسلہ جاری ہے۔ خدا ایک ہے۔ خدا بہت سے ہیں۔ خدا ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔
رومی اپنے وجدان کو استعمال کرتے ہیں اور جذبہ ء عشق سے ایک ارتقائ حالت کو اس طرح کھوجتے ہیں۔
از جمادی مُردم و نامی شدم — وز نما مُردم بحیوان سرزدم
مُردم از حیوانی و آدم شدم — پس چه ترسم کی ز مردن کم شدم
حملهء دیگر بمیرم از بشر — تا برآرم از ملایک بال و پر
وز ملک هم بایدم جستن ز جو — کل شییء هالک الاوجهه
بار دیگر از ملک پران شوم — آنچه اندر وهم ناید آن شوم
پس عدم گردم عدم چو ارغنون — گویدم کانا الیه راجعون
ترجمہ؛
میں پہلے پہل جماد یعنی پتھرتھا پھر فنا ہو کریعنی ترقی کر کے نبات یعنی شجر ہو گیا، پھر فنا ہوا یعنی ترقی کی اور حیوان کی صورت نمودار ہوا۔
اسکے بعد میری حیوانیت بھی فنا ہو گئ یعنی میں نے مزید ترقی کی اور مجھے انسانی صفات عطا ہوئے۔ مجھے فنا ہونے کا خوف نہیں۔ کیونکہ فنا سے مجھ میں کوئ کمی نہیں پیدا ہوتی۔
حیات مادی کے بعد مجھ پر پھر فنا کا حملہ ہوتا ہے۔ میری بشریت یعنی انسانی خصوصیات معدوم ہوتی ہیں اور فرشتوں کی مانند مجھے بال و پر عطا کئے جاتے ہیں
عالم ملکوت سے میں پرواز کر کے ایسے مقام پہ پہنچ جاتا ہوں، جہاں وہم و قیاس کا گذر نہیں ہو سکتا۔
میں آخر میں عدم ہی عدم ہو جاتا ہوں اور ساز کی طرح 'ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے' میرا ورد ہو جاتا ہے۔
اگرچہ رومی اس خیال تک اپنے وجدان کی قوت سے پہنچے مگر جدید سائنس میں ایک تحقیق داں اسے اپنے علم اور تفکر اور مشاہدے کی قوت سے حاصل کرتا ہے تفکر اور مشاہدہ جب اپنی انتہاء پہ پہنچتے ہیں تو وجدان بن جاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ڈارون کے ارتقاء کا نظریہ سامنے آتا ہے۔ اس سے ایک بات ہمیں محسوس ہوتی ہے کہ وجدان ہو یا تحقیق ہمیشہ کھلے ذہن پہ ہی اپنا نزول کرتے ہیں۔
اللہ انکی مغفرت کرے۔ جب ہمیں بال و پر دئے گئے ہیں تو ہم کیوں رینگنا چاہتے ہیں۔
حوالہ جات؛
مثنوی مولانا روم میں خواتین کا تذکرہ
کتاب، تصوف اور سریت، پروفیسر لطیف اللہ، ادارہء ثقافت اسلامیہ
کتاب، تصوف اور سریت، پروفیسر لطیف اللہ، ادارہء ثقافت اسلامیہ