آج کی تازہ خبر اب شام کے سات بجے پرانی ہو چکی ہے مگر فیس بک پہ کسی نے بھی اس بارے میں سانس تک نہیں لی تو مجھے اندازہ ہوا کہ آجکی تازہ خبر پاکستان نہیں پہنچی۔
پہنچ بھی کیسے سکتی ہے اس خبر میں دو نقص ہیں۔ ایک تو یہ خواتین کی کامیابی کی داستانوں میں سے ہے اور دوسرا یہ امن سے بھی تعلق رکھتی ہے۔
پاکستان میں خواتین سے متعلق جو خبرجگہ لیتی ہے وہ کسی مغربی ملک میں چہرے کے حجاب پہ پابندی کی خبر ہوتی ہے۔ اپنی بیٹی کو ناشتہ کراتے ہوئے میں نے یونہی سرسری سی نظر اخبار پہ ڈالی تو بزنس ریکارڈر اور ڈان دونوں کے اولیں صفحے پہ یہ خبر موجود تھی کہ اس سال امن کا نوبل انعام تین خواتین کے حصے میں آیا ہے۔ ان میں دو خواتین ایلن جونسن اور لیماہ گبووی افریقہ کے ملک لائبیریا سے تعلق رکھتی ہیں۔ جبکہ تیسری خاتون نہ صرف عرب ہیں بلکہ مسلم ہیں اور یمن سے تعلق رکھتی ہیں توکل کرمان۔
بہتّر سالہ ایلن جونسن، لائبیریا کی پہلی منتخب جمہوری صدر ہیں۔ لائبیریا، سن انیس سو انّاسی سے خانہ جنگی کا شکار ملک ہے خانہ جنگی جس نے تقریباً دو لاکھ لوگوں کو نگل لیا۔ دو ہزار تین میں ایلن جونسن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے حالات میں خاطر خواہ تبدیلی آئ ہے۔
دوسری خاتون، خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی لیماہ رابرٹا گبووی بھی اسی ملک سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی مسلم اور عیسائ خواتین کو متحد کیا تاکہ وہ ملک کے حالات بدلنے کے عمل میں حصہ لے سکیں۔ اس سے پہلے انہوں نے زنا کے خلاف بھی ایک لمبی مہم میں حصہ لیا۔ انکے پانچ بچے ہیں۔
عرب خاتون توکل کرمان المخلافی جوکہ یمن کےآمرانہ نظام کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ انہوں نے صدر عبدالصالح کے خلاف احتجاجات کو منظم کرنے میں بھرپور حصہ لیا۔ انکے تین بچے ہیں۔ نوبل انعام کی کمیٹی کے خیال میں عرب ممالک میں آنے والی تبدیلی کی لہر وہاں کی خواتین کے مرہون منت ہے۔
یہ عرب اور افریقہ سے نکل کر ہم اپنے ملک کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہم بھی تو تیس سال سے جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہماری عورتوں کو کیوں خیال نہیں آتا کہ انکے بچے محض جنگ کا ایندھن بننے کے لئے پیدا نہیں ہوتے۔ یہ جنگ ہو یا قدرتی آفات سب سے زیادہ مصائب کا شکار کون ہوتا ہے عورت۔ جب گھر کا کمانے والا نہیں رہتا تو ایک جاہل اور معاشی طور پہ کمزور بدحال عورت کو کن اندوہناک حالات سے نہیں گذرنا پڑتا۔
ایک عورت جس نے گھر کی چہار دیواری کے علاوہ دنیا ہی نہیں دیکھی ہوتی سیلاب اور زلزلے سے گذرنے کے بعد جب لاوارث ہوتی تو کیسی قیامت اس پہ گذرتی ہے کیا اسکا اندازہ کوئ لگا سکتا ہے۔
ایک عورت کس طرح تڑپ تڑپ کر زچگی کے دوران جان دیتی صرف اس لئے کہ اسے کوئ طبی امداد نہیں دینے والا ہوتا۔
آخر اسے کیوں نہیں خیال آتا کہ وہ بھی اپنے ملک میں امن کے قیام اور خوشحالی کی جدو جہد میں حصہ لے سکتی ہے۔ معاشرے کے امن استحکام اور خوشحالی کا مطلب اسکے لئے ایک آسان، دکھ اور اذیت سے آزاد زندگی ہوتا ہے۔
آخر وہ کب تک اس سماج کے بنے ہوئے ظالمانہ نظام کا حصہ بنی رہے گی؟
آپ نے دیکھا، یہ خواتین جو اپنے بچوں کی ماں بھی ہیں وہ کس طرح اپنے اردگرد کی دنیا کو اپنے بچوں کے لئے محفوظ بنا رہی ہیں۔ آخر ہم کب اس بات پہ جمع ہونگے کہ ہمارے بچوں کو بھی ایک پُر امن معاشرہ نصیب ہو۔ وہ نام نہاد جہاد اور ٹارگٹ کلنگ میں نہ مارے جائیں، انہیں سیلاب کے پانیوں کا کفن نہ نصیب ہو اور نہ اپنے جسموں کو بم سے اڑائیں۔
اے میرے دیس کی آدھی آبادی تم بھی اپنی بقاء کے لئے اٹھ کھڑی ہو۔ ہمیں بھی امن چاہئیے۔ ہم بھی جینا چاہتے ہیں۔ ہم بھی اس سرزمین پہ لہلہاتے پھولوں کے درمیان اپنے بچوں کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی جانوروں جیسے نہیں انسانوں جیسے حقوق چاہئیں۔ ہم بھی اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کے لئے سزا چاہتے ہیں۔ آخر ہم ان سب سے دور کیوں رہیں۔
آپ نے دیکھا ، ان عورتوں کے بھی گھر ہیں بچے ہیں، گھریلو زندگی ہے لیکن کیا یہ چیز انکے راستے کی دیورا بنی۔
یقین رکھیں اس ملک میں امن اب خواتین ہی لا سکتی ہیں۔ اور انہیں اسکا حصہ بننا پڑے گا، جان رکھیں آنے والا زمانہ خواتین کی مضبوطی کا زمانہ ہے۔ انہیں اپنی انتظامی صلاحیتوں کو اپنے علم اور زندگی کے عملی تجربات سے نکھارنا ہوگا۔
دوسری طرف ہمارے ملک میں بھی امن اورخوشحالی کے تمام منصوبوں میں خواتین کو واضح طور پہ شامل کیا جائے انکی تعداد کو بڑھایا جائے جس میں معاشرے کے ہر طبقے سے خواتین کی نمائیندگی لی جائے۔ تاکہ یوں نہ ہو کہ طبقہ ء اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے مردوں کے اشارے پہ حکومتی نظام کا حصہ بنی رہیں اور انکی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہ ہو۔
ہمیں کٹھ پتلیاں نہیں خود اعتماد , جراءت مند اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی خواتین اپنی نمائِندگی کے لئے چاہئیں۔ وہ خواتین جو زندگی کی جدو جہد کی جنگ لڑ کر آئ ہوں۔
بہر حال یہ ایک مزے کی خبر ہے۔