Showing posts with label عراق. Show all posts
Showing posts with label عراق. Show all posts

Friday, December 17, 2010

ایک سودے کا سواد

کارا فلم فیسٹیول والوں کی طرف سے کراچی میں بین الاقوامی فلموں کا میلہ جاری تھا کہ ایک دن ہمیں ایک دوست کی دستاویزی فلم میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ حالات کچھ ایسے بنے کہ  کچھ مراعات کی وجہ سے ہمیں ایکدن کی فلمیں دیکھنے پہ رعایت بھی مل گئ۔ انکی دستاویزی فلم دیکھ کر فارغ ہوئے اور پھر کچھ اور فلمیں لگاتار دیکھ ڈالیں۔ اب ایک ایسا شخص جو دو ڈھائ گھنٹے کی فلم ٹکڑوں میں یا ٹہل ٹہل کر دیکھتا ہواسکے لئے سارا دن سینما اسکرین کے آگے گذار دینا ایک درد سر ہی بننا تھا۔ شام کو چار بجے جب ایک اور فلم دیکھنے کے لئے بیٹھے تھے تو میں نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ لائیٹس بند ہوتے ہی آنکھیں بند کر کے پڑ جاءونگی۔ یہ ایک دستاویزی فلم تھی اور نام بھی ایسا غیرروائیتی سا۔ باءولنگ فار کولمبائین۔  کون دیکھے گا۔ خدا جانے اس  میلے کے منتظمین کن بنیادوں پہ  فلمیں منتخب کرتے ہیں۔  صبح سے اب تک میں وہ بنیاد تلاش کرنے میں ناکام ہو چکی تھی۔
فلم شروع ہوئ اور لائیٹس بند ہونے کے بعد بھی میری آنکھیں بند نہ ہو سکیں۔
 کیا مزے کی فلم ہے۔ میلے کی منتظمین کی تمام خامیاں پس پردہ چلی گئیں۔ اور یوں لگا کہ سارے دن کی قیمت وصول ہو گئ۔ دستاویزی فلم اور اس قدر دلچسپ، کیا ممکن ہے اگر یہ دیکھنا ہو تو یہ فلم ضرور دیکھیں۔  جہاں فلم میکر امریکہ میں مار دھاڑ کے بڑھتے ہوئے جحانات کی چھان پھٹک کرتا ہے وہاں وہ اسے اتنے پر مزاح انداز میں پیش کرتا ہے کہ پردے پہ سے نظر ہٹانا ممکن نہیں۔  یہ جگتیں نہیں، نہ پھبتیاں بلکہ اس ساری چیز کے لئے خاصی ریسرچ کی گئ ہے جو فلم کا مواد دیکھ کر ہی پتہ چلتی ہے۔ جہاں فلم میکر اپنے موضوع کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے وہاں وہ اس چیز کا پروپیگینڈہ کرتا بالکل نظر نہیں آتا کہ امریکی عظیم قوم ہیں۔ یہ فلم میکر مائیکل مور سے میرا پہلا تعارف تھا۔
 وہ ایک دستاویزی فلم میکر ہے اور انکے کریڈٹ پہ اسکے علاوہ بھی دیگر فلمیں جن میں وہ امریکن معاشرے کی سرجری کرتے نظر آتے ہیں۔
تو کیا میں مائیکل مور کا تعارف یا اس فلم کا ریویو لکھنے جا رہی ہوں۔ نہیں جناب ، ایسا کچھ نہیں ہے۔ بلکہ ہوا یوں کہ جب میں نے یہ خبر سنی کہ وکی لیکس کے بانی اسانژ نے خود کو  گرفتاری کے لئے پیش کر دیا ہے اس مقدمے کا سامنا کرنے کے لئے جسکے متعلق خیال یہی کیا جاتا ہے کہ انکی لیکس کو لگام دینے کے لئے گھڑا گیا ہے۔ تو ساتھ ہی یہ خبر بھی آگئ کہ اسانژ کی ضمانت ہو گئ ہے۔ اور اس  ضمانت  میں حصہ ڈالنے والے مائیکل مور بھی ہیں۔ بیس ہزار ڈالر ضمانت کی رقم میں ڈالتے ہوئے آخر مائیکل مور نے کیا سوچا؟
 مائیکل مور کہتا ہے کہ
I am publicly offering the assistance of my website, my servers, my domain names and anything else I can do to keep WikiLeaks alive and thriving as it continues its work to expose the crimes that were concocted in secret and carried out in our name and with our tax dollars. 
یعنی میں اپنی ویب سائیٹ، اپنے سرور، اپنے ڈومین اور ہر وہ چیز جو وکی لیکس کو زندہ اور متحرک رکھے اسکی پیش کش کرتا ہوں جب تک کہ یہ، ان جرائم کو سامنے لانے کا کام کرتی رہے گی جو کہ ہمارے نام اور ہمارے ٹیکس کے ڈالرز سے خفیہ طور پہ کئے جاتے رہے۔

وکی لیکس کیا چاہتے ہیں؟
WikiLeaks states that its "primary interest is in exposing oppressive regimes in Asia, the former Soviet bloc, Sub-Saharan Africa and the Middle East, but we also expect to be of assistance to people of all regions who wish to reveal unethical behaviour in their governments and corporations." 
 وکی لیکس کا کہنا ہے کہ انکی بنیادی دلچسپی   ایشیا، سابق سوویئت بلاک، صحرائ افریقہ اور مشرق وسطی کی جارحانہ حکومتوں کا پول کھولنے میں ہے۔ لیکن ہم تمام خطوں کے لوگوں کی مدد کرنے کی توقع کرتے ہیں جو کہ اپنی حکومتوں اور کارپوریشنز کے غیر اخلاقی رویوں کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔

یہ سائیٹ وکی پیڈیا کی طرح ہے جس پہ کوئ بھی جا کر راز افشاء کر سکتا ہے اور افشا شدہ رازوں کا تجزیہ کر سکتا ہے۔ چاہے تو ایڈٹ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن انکا وکی پیڈیا سے کوئ تعلق نہیں۔
 اسکے بانی جولین اسانژ کے بارے میں امریکی اراکین پارلیمنٹ اور سینیٹ اور امریکی معاشرے کے دیگر معززین کے بیانات اگر ہم پڑھیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ بیان ویسے ہی ہیں جن سے بچنے کے لئے ہم اپنے بلاگ کے تبصروں میں کچھ اخلاقی نصیحتیں یا دھمکیاں لکھتے ہیں۔مثلاً اس کتیا کے بچے کو  غیر قانونی طور پہ شوٹ کر دینا چاہئیے۔ مزید یہ کہ وہ ایک ذہنی، نفسیاتی مریض ہے، دماغ چلا ہوا ہے اسکا، وہ ایک دہشت گرد ہے۔ اسکے ساتھ بالکل اسی طرح نبٹنا چاہئیے جیسا کہ القاعدہ اور طالبان کے ساتھ کیا گیا۔ وکی لیکس دہشت گردوں کی تنظیم ہے۔ 
مائیکل مور کے خیال میں وہ یقیناً دہشت گردہے جو ان  جھوٹے امریکیوں پہ دہشت لائے ہوئے ہے جنہوں نے امریکی قوم  کو تباہ کردیا اور دوسروں کو بھی۔ اب جنگ کے ان شیدائیوں کے لئے  اگلی جنگ کرنا اتنا آسان نہیں رہا۔ جھوٹ بولنا اب آسان نہیں رہا۔ مائیکل کے خیال میں وکی لیکس وجود میں آئ اس لئیے کہ امریکی مین اسٹریم جرنلزم نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں۔ حیرت ہے دنیا بھر کی صحافتی دنیا وہ کچھ نہیں کر سکی جو وکی لیکس نے کیا۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر آج سے دس سال پہلے وکی لیکس کا وجود ہوتا تو صدر بش عراق پہ اس بہانے سے حملہ نہ کر پاتے کہ وہاں بڑی تباہی کے اسلحہ کا ذخیرہ ہے۔
مجھے تویوں لگتا ہے امریکی سفیر ہالبروک پہ بھی وکی لیکس کی دہشت تھی۔ وکی لیکس کے دباءو کی وجہ سے انکے دل کی بڑی شریان سے خون لیک کر گیا۔ اور وہ چٹ پٹ چلے گئے۔
ادھر روسی میڈیا میں خبر گرم ہے کہ امن کا نوبل پرائز جولین اسانژ کو دینے کی تجویز زیر غور ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اس سال کسی صحیح شخص کو یہ انعام ملے گا۔
جولین اسانژ کو دنیا بھرکےپچاس با اثر لوگوں میں شامل کیا گیا ہے جبکہ اسے ان پچیس افراد میں بھی رکھا گیا ہے جو اپنی مستقبلیاتی ذہانت کی وجہ سے دنیا کو بدل کر رکھ سکتے ہیں۔
کیا دنیا کی تاریخ اور ترجیحات بدلنے کو ہیں؟ کیا جولین اسانژ اس بدلی ہوئ دنیا کا ایک نمائندہ ہے؟ کیا دنیا بھر کے انسانوں کو اب جنگ کی معیشت سے نجات مل جائے گی؟
اگر ان سب سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو مائیکل مور نے بیس ہزار ڈالر میں بڑا سستا سودا کیا۔ کیا خیال ہے؟