میں اپنے ایک ساتھی کے بلاگ پہ تبصرہ کرتے کرتے رک گئ۔ امید ہے کہ برا نہیں مانیں گی، تبصرے کا نہیں، یہاں لکھنے کا۔ لکھنے جا رہی تھی کہ پاکستان کا نام تبدیل کر کے مرمتستان رکھ لیتے ہیں۔
جس کسی کی مرمت لگانی ہو یا لگوانی ہو ہم حاضر ہیں۔ سروس میں اعلی، خدمت میں آگے۔ ایسی مرمت لگائیں گے کہ اسے اور ہمیں دونوں کو اپنی پیدائش کا وقت یاد آجائے گا۔ نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلے ہم مرمت لگا کر رہیں گے۔ ہم سے ایک دفعہ مرمت لگوانے کا معاہدہ کر کے دیکھئیے۔ پھر آپ اپنے معاہدے سے پھر بھی جائیں لیکن ہم مرمت لگاتے رہیں گے۔ ہماری اعلی سروس کی مثال کے لئے، ہم نے اپنے ہی ملک میں مرمت لگانے کے شو روم کھول رکھے ہیں۔ یہاں آنے کی ضرورت نہیں، اپنے اخبار کھولیں اور ہماری اعلی کار کردگی ملاحظہ فرمائیے۔ مرمت لگانے کے معاملے میں ہم اتنے جذباتی ہیں کہ وہ سارے الفاظ جو م کی پیش والی آواز سے شروع ہوتے ہیں جب تک انکی اچھی طرح چھان پھٹک نہیں کر لیتے انہیں قابل مرمت ہی سمجھتے ہیں جیسے محبت ، مروت وغیرہ وغیرہ۔
نہیں ، پھر خیال آیا کہ ایسا تو نہیں ہے ابھی بھی پاکستان میں ایک قابل ذکر تعداد ان لوگوں کی ہے جو عدم مرمت کے قائل ہیں۔ اور وہ مرمت نہیں بلکہ مذمت پہ اکتفا کرتے ہیں۔ اس لئے پاکستان کا نام مذمتستان ہونا چاہئیے۔
یہ بھی ہمارے ملک کی خوبصورتی ہے کہ ہر تھوڑے دن پہ کسی کی ایسی مرمت ہوتی ہے کہ پھر مذمت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یوں صورت حال ایسی بنتی ہے کہ
پھر ایک مذمت کا سامنا تھا مجھے
میں ایک مذمت کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اس میں مذمت کو مرمت سے تبدیل کر لیں اور دوہرا مزہ لیجئے۔ یاد رکھئیے کہ بہرحال اثر میں مرمت ، مذمت سے کہیں برتر ہے۔ یہ لگنے والے پہ جو بھی اثر چھوڑے لگانے والے کا مورال کافی بلند ہو جاتا ہے۔ اور بہت دنوں تک رہتا ہے۔ اگر کوئ مذمتی سلسلہ شروع نہ ہو جائے تو پھر مرمت لگانے والے کی تسلی نہیں ہوتی یوں مرمت کا ایک اور چکر چلنے کا اندیشہ رہتا ہے تو مرمت کی تیزی کو مذمت کے دف سے مارا جاتا ہے یوں مرمت کے بعد مذمت سے ، مرمت لگانے والا ٹن ہو کر کچھ دنوں تک انٹاغفیل رہتا ہے۔
لیکن یہاں کہانی میں ایک ٹوئسٹ آتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جب مرمت لگانے والے کی ، مرمت لگتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟ پھر ہم فوراً ہی کرکٹ کے میدان میں اپنا بلا چھوڑ کر بھاگتے ہیں اور واشنگٹن جا کر حاضری دیتے ہیں۔ ڈیئر سر، ہمارے سپہ سالار کا دماغ خراب تھا۔ اس نے ہمارے علم میں لائے بغیر ہمارے دشمنوں کی مرمت کرنی چاہی۔ ڈیئر سر اسکی مذمت کرتے ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ سپہ سالار کی ایسی مرمت لگائیں کہ یاد رکھے۔ مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیں، ڈیئر سر اس بد تمیز سپہ سالار کو کچھ عرصے بعد ملک کا صدر بنا دیتے ہیں اور بلّا چھوڑ کر حاضری دینے والے حیران پریشان اسکی مذمت کرتے ہیں۔ اب انکی مرمت کی باری شروع ہوتی ہے۔
خیر رات کو جب تابکاری والی تحریر کو توڑ کر تین ٹکڑے کر کے پوسٹ کیا، ایک بوجھ اتارا تو سوچا کہ اب اپنی سونے کی باری آئ۔ ٹی وی لاءونج سے گذرتے ہوئے، میری نظر ٹی وی پہ پڑی۔ ایک جملہ لکھا تھا۔ کیا اسلام میں لونڈی کی اجازت ہے؟ اور لقمان صاحب چند مولانا صاحبان سے گفتگو فرما رہے تھے۔ میں نے سوچا موضوع اچھا ہے مجھے بھی سننا چاہئیے۔ میری ایک مبصر نے اس بارے میں سوال بھی کیا تھا۔ میں خاموش ہو گئ تھی کہ کیسے اسکا جواب دیا جائے۔ تو اس کیسے کا جواب ملے گا۔ یہ الگ بات کہ پروگرام تقریباً اپنے خاتمے پہ تھا۔ چونکہ چار معزز صاحبان گفتگو فرما رہے تھے۔ تو اب میں ان میں سے ہر ایک کی تفصیلات نہیں لکھ سکتی۔
ایک مولانا صاحب نے اس وقت کا نقشہ کھینچا کہ کس ضرورت کے تحت جنگ میں گرفتار خواتین کو لونڈی بنایا جاتا تھا اورچونکہ ان مردوں کی پہلے سے چار بیویاں موجود ہوتی تھیں اس لئے ان گرفتار خواتین کو لونڈی بنا کر مرد ان سے بغیر نکاح کے تعلقات رکھتے تھے۔ قرآن اور سنت کے تحت یہ بالکل صحیح ہے۔ بقیہ دو نے بھی انکی تائید کی۔ ان میں سے تو ایک صاحب بہت جوش سے گردن ہلا رہے تھے۔ لقمان صاحب نے ان سے دریافت کیا تو پھر اگر پاکستان کشمیر کی آزادی کے سلسلے میں مقبوضہ کشمیر پہ حملہ کرے اور اسے فتح ہو تو کیا حاصل ہونے والی خواتین کو لونڈی بنانا درست ہوگا۔ مولانا صاحب تھوڑا سا رکے اور کہنے لگے کہ جن ممالک سے ہمارے سفارتی تعلقات ہیں ان سے اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق بات چیت ہو گی اور اقوم متحدہ اس چیز کی اجازت نہیں دیتی کہ گرفتار خواتین کو لونڈی بنایا جائے۔
اس پہ لقمان صاحب نے کہا کہ اچھا چلیں اسرائیل سے ہمارے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس پہ حملہ کریں اور ہمیں فتح حاصل ہو تو ایسا کرنا درست ہوگا۔ جواب ملا کہ اس صورت میں یہ درست ہوگا۔
تو اے مرد مومن، اب اسرائیل کی مرمت کرنے میں دیر کس بات کی ہے۔ امریکہ کی ناجائز اولاد کو ایسی ہی سزا دینی چاہئیے جس سے انکی غیرت کا جنازہ نکل جائے۔ لیکن سنا ہے کہ وہ غیرت کے معاملے میں ایسے ہی ہیں جیسا کہ کسی کی نزاکت کے بارے میں سن کر ایک صاحب نے حیرانی سے کہا کہ
سنا ہے کہ انکی کمر ہی نہیں
تو وہ ازار بند کہاں باندھتے ہیں
یعنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر بے شمار قتل و غارت گری جو ہمارے یہاں غیرت کے نام پہ کی جاتی ہے وہ اسکے لئے کیا بہانہ کرتے ہونگے۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔
یعنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر بے شمار قتل و غارت گری جو ہمارے یہاں غیرت کے نام پہ کی جاتی ہے وہ اسکے لئے کیا بہانہ کرتے ہونگے۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔
انکے یہاں غیرت کی عدم موجودگی کے شک کی بناء پہ ایک نامعلوم راوی کہتا ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد انکی خواتین نے بلا فرق جائز اور ناجائز بچے پیدا کئے کہ انکی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوکیونکہ ہولوکاسٹ کے بعد انکی آبادی بہت کم ہو گئ تھی۔ سو معلوم نہیں کہ اس صورت میں وہ خواتین اور وہ خود کیا کریں گے۔
کیونکہ اس اسرائیلی مملکت کی نظریاتی بنیاد ہی 'مرمت کرو اور مذمت کرواءو' کے نعرے پہ رکھی گئ تھی تو پیدا ہونے والے ہر بچے کو ریاست نے ایک کارآمد شہری بنانے کے لئے مکمل منصوبہ بندی کی۔ اور اس طرح سے وہ بڑے ہو کراتنے اچھے طریقے سے مرمت لگانے کے قابل ہو گئے کہ چنگیز خان بھی انکے سامنے پانی بھرے۔ کون سا پانی، یہ بتانے میں حد ادب مانع ہے۔
وہیں پہ ایک مبصر کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل کی مرمت لگانے کے نتیجے میں جوابی مرمت ہو گئ تو کیا ہوگا۔ ایسا تبصرہ کرنے والے افراد ہی مرمت لگانے کا حوصلہ رکھنے والوں کی ہمت شکنی کرتے ہیں۔ ہم انکی مذمت کرتے ہیں۔ایک مرمت لگانے والا ہی دوسرے مرمت لگانے والے کی نفسیات سمجھ سکتا ہے۔
دعا کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں دن رات مرمت کی دھما چوکڑی مچانے والے اسرائیل کے صحن میں کود جائیں تاکہ ہم بھی کسی دن مرمت اور مذمت کے چکر سے باہر نکل کر آرام سے سوچیں کہ آج کیا پکے گا۔