بچوں کی شخصیت کی تشکیل میں صرف جینزاور ماحول کا ہی اثر نہیں ہوتا۔ ان کتابوں کا بھی اثر ہوتا ہے جو انہیں پڑھنے کے لئے میسر آتی ہیں۔ اس طرح سے ہمارے یہاں دہشت گردی، کرپشن اور اخلاقی زبوں حالی کا ایک باعث اگر بچوں کی بڑی تعداد کا اسکول تک نہ پہنچ پانا ہے تو وہیں بچوں کا بہتر کتابوں تک رسائ نہ ہونا بھی ہے یہاں بہتر کتابوں سے میری مراد وہ کتابیں جو بچوں کے تخیلاتی عمل کو جِلا دیتی ہے۔
ہمارے جن اسکولوں میں بچوں کو لائبریری کی سہولت ہے۔ انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی. ۔ یوں اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے لوگ ایک مخصوص نصاب سے آگے شاید ہی کچھ جانتے ہوں۔ نصاب کا بھی اتنا ہی پڑھنا روا ہے جتنا امتحانی نکتہ ء نظر سے ضروری ہو۔ جبکہ ریاست نصاب کو اپنے پس منظر سے تشکیل دینے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ یوں ایک جنریشن چندر گپت موریہ کو پڑھنے میں کامیاب ہوتی ہے اور دوسری محمد بن قاسم سے تاریخ پاکستان شروع کرتی ہے۔ ایک کی اسلامیات بنیادی اخلاقیات پہ مشتمل ہوتی ہے اور دوسری کی جہاد کے فضائل پہ۔
کتاب پڑھنے کی عادت بچوں میں بچپن سے ہی ڈالنی پڑتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں جبکہ والدین کمپیوٹر بچوں کے حوالے کر کے سمجھتے ہیں کہ اس پہ گیمز کھیل کر انکے لاڈلے کوئ غیر معمولی کام کر رہے ہیں، وہاں وہ اپنے بچوں کے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ کسی سے پوچھیں کہ بچے کتاب پڑھنے میں کیوں دلچسپی نہیں لیتے جواب ملے گا کہ کمپیوٹر کا دور ہے صاحب۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی معاشرہ جو ٹیکنالوجی میں ہم سے کہیں آگے ہے، وہاں اب تک مطالعے کی عادت ترک نہیں ہوئ۔ ہر اسکول لائبریری رکھتا ہے۔ اسکول کے ٹائم ٹیبل میں لائبریری کے پیریڈز ہوتے ہیں۔ ہر بچے کو ٹارگٹ ملتا ہے کہ اتنی کتابیں پڑھنی ہیں۔اسکول سے باہر نکلیں، ائیر پورٹ سے لیکر تمام عوامی مقامات پہ آپ کو لوگ مطالعہ کرتے نظر آئیں گے۔
صاحب حیثیت والدین، کے ایف سی اور مکڈونلڈز قسم کے ریسٹورنٹ سے جنک فوڈ تو بہ رضا و رغبت بچوں کو دلاتے ہیں اور کسی محفل میں فخریہ بتاتے ہیں کہ انکے بچے کون سی جنک فوڈ یا کپڑوں کا کون سا برانڈ پسند کرتے ہیں۔ مگر ایک کتاب خرید کر دینا انہیں پیسے کا زیاں لگتا ہے اور اسکا شاید ہی کوئ تذکرہ ہم کبھی سنتے ہوں۔
یہ سب باتیں مجھے کیوں اس وقت یاد آرہی ہیں؟
ابھی چار پانچ دن دن پہلے مجھے ایک دعوت نامہ ملا۔ جو مسعود احمد برکاتی صاحب کی نونہال کے ادارت کے پچاس سال پورے ہونے پہ ایک اعزازی تقریب کے سلسلے میں تھا۔ میں اس میں شریک ہوئ بمعہ اپنی بیٹی کے۔ وہ اگرچہ ابھی ساڑھے تین سال کی ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ کتاب کا شوق پیدا کرنا اور ایسی محافل میں جو کتاب لکھنے والے سے اسے تعارف دیں۔ جانا ضروری ہے۔
پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد نونہال پڑھ کر بڑی ہوئ ہے۔ ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔ میرے ایک عزیز، اخبارات و رسائل کی ترسیل کا کام کرتے تھے۔ انکی وجہ سے اپنے بچپن میں کراچی کا شاید ہی کوئ اخبار ہو جو میں نے نہ پڑھا ہو اور پاکستان کا شاید ہی کوئ میگزین ہو جو میری نظر سے نہ گذرا ہو۔ اس میں میرا شوق اور انکی مہربانی شامل رہی۔ انکے گھر جانا مجھے پسند تھا کہ میں اس ڈھیر میں گم ہو جاتی تھی جو وہاں جمع ہوتا۔
نونہال، آنکھ مچولی، تعلیم و تربیت اور نجانے کتنے بچوں کے رسالے۔ ان میں نونہال بہت باقاعدگی سے آتا رہا۔ اگرچہ عین اس زمانے میں، میں سسپنس ڈائجسٹ اور نسیم حجازی کے ناول بھی پڑھ لیتی تھی۔ مگر کبھی نونہال کا ناغہ نہیں ہوتا۔ یہ بلا شرکت غیرے ہم بچوں کا رسالہ ہوتا اور یہ بھی نہیں سننا پڑتا کہ بچوں کو بڑوں کے رسالے نہیں پڑھنے چاہئیں۔
بچوں کا ادب لکھنا آسان نہیں۔ پہلے بچوں جیسی حیرت اور تجسس پیدا کریں۔ دنیا کو ایک اجنبی آنکھ سے دیکھیں اور پھر لکھیں۔ بچوں کے ادب کی درجہ بندی بھی بڑوں کے ادب کی طرح کی جا سکتی ہے۔ ان میں سب سے پہلے وہ کہانیاں جو مافوق الفطرت، طلسماتی کرادر رکھتی ہیں اور زمانہ ء قدیم سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں، یہ بچوں میں تصوراتی دنیا سجانے کی اہلیت پیدا کرتی ہیں اور انہیں اخلاقی خوبیاں بھی بتاتی ہیں۔ پھر وہ کہانیاں جو کسی علاقے کی ثقافت کے زیر اثر وجود میں آتی ہیں اور اپنے ماحول، رواج اور جغرافیہ سے روشناس کراتی ہیں۔ پھر انکے موجودہ مسائل سے متعلق کہانیاں۔ کہانیوں سے باہر نکلیں تو مختلف لوگوں کی سوانح حیات اور زندگی کی جدو جہد۔ اور آجکے زمانے پہ نظر کریں تو سائینس اور ٹیکنالوجی کی دنیا۔ اور دنیا کا کوئ ادب شاعری کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے کیا۔ تو جناب مزے مزے کی نظمیں۔
ان سب چیزوں کو اگر سستے طریقے سے بچوں تک پہنچانا ہو تو بچوں کے رسائل اسکا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔ نونہال بھی ایک ایسا ہی رسالہ ہے۔ جو حکیم محمد سعید مرحوم کے ادارے ہمدرد کے زیر سایہ شائع ہونا شروع ہوا۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے تعاون سے ہونے والی یہ سادہ سی تقریب پی ایم اے ہاءوس کراچی میں منعقد ہوئ۔ اس سادہ سی تقریب نے بچپن کو سامنے لا کھڑا کیا۔ مسعود صاحب کا کہنا تھا کہ کھیل کے میدان میں کھلاڑیوں کو تو پھر بھی تحفے تحائف سے نوازا جاتا ہے۔ کسی میچ کے جیتنے کی صورت میں انہیں لاکھوں روپے ملتے ہیں۔ مگر یہ ادیب ہیں جنہیں ہمارے یہاں اپنی کاوشوں کا کوئ صلہ نہیں ملتا ۔ اور بچوں کے ادیب کو تو ادیب بھی نہیں سمجھا جاتا۔
انکا کہنا ہے کہ حکمراں طبقہ جس چیز ، قدر یا صلاحیت کو ابھارنا چاہتا ہے وہ علم و ادب نہیں۔ موجودہ صورت حال میں آخر علم کی طرف کوئ کیوں جائے، اور اپنی جان کھپائے۔
انکے الفاظ میں ہمارا معاشرہ اب جرم کش نہیں رہا بلکہ جرم قبول ہو گیا ہے اور اب جرم پروری کی طرف بڑھ رہا ہے۔
برکاتی صاحب نے پچاس سال، نونہال کی ادارت کی۔ اور اس رسالے کے پڑھنے والے ننھے منے قارئین اب پختہ شخصیات کے روپ میں دنیا کی بساط پہ جانے کہاں کہاں، جہد زندگی سے نبرد آزما ہیں۔ ان لوگوں کے بچپن کو کتاب کی خوشبو سے مہکانے والے اس شخص کا شکریہ ان سب پہ واجب ہے۔ شکریہ برکاتی صاحب۔