Showing posts with label دیت. Show all posts
Showing posts with label دیت. Show all posts

Thursday, March 17, 2011

بھڑاس

قصہ تو تازہ ہے مگر الفاظ وہی پرانے۔ غیرت، شرم، بکاءو مال، پاکستانی۔ میں کوشش کروں بھی تو ان الفاظ سے اپنی اس تحریر کو محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ مگر میں یہ کوشش کروں بھی تو کیوں؟ جبکہ میری یہ تحریر ایک خالص پاکستانی دماغ اور پاکستانی پس منظر میں لکھی جارہی ہے۔
ملک کے زر مبادلہ میں تقریباً تئیس کروڑ کا ظاہری اضافہ ہوا ہے اور در پردہ کتنے، ہم نہیں جانتے اور لوگ اس پہ خوش ہونے کے بجائے ایک دوسرے کو بکاءو مال کہہ رہے ہیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس میں ہماری جیت ہوئ ہے۔ امریکہ کو پتہ چل گیا کہ ان کا جھوٹ ہم نے پکڑ لیا ۔ اور اس پہ ہمارا دباءو اتنا تھا کہ اسے دیت کی سطح پہ آنا پڑا۔ اس سے دنیا کو اسلامی قوانین کے فرینڈلی ہونے کا بھی پتہ چلا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
ادھر مولوی صاحبان تو تقریباً پھنس چکے ہیں۔ ایک طرف اینٹی امریکن نعرے بلند کرنے کا دل چاہ رہا ہے  اور دوسری طرف ستم ظریف نےانہی کی چال ان پہ واپس کر دی ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ کس لئے یوم مذمت اور یوم احتجاج منانا چاہتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ اسے بے غیرتی قرار دے رہے ہیں۔
حالانکہ غیرت کیا ہے؟ پاکستانی دماغ سے سوچیں۔ میں بحیثیت ایک عورت، لوگوں کے ہجوم میں اپنے شانوں پہ پڑا دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھ دوں تو بھی مجھے بے غیرتی کے طعنے ملیں گے۔ لیکن غیرت کیا ڈھائ گز کے دوپٹے میں موجود ہوتی ہے ۔ یہ تو ڈیڑھ دو سو میں کہیں بھی مل جائے گا۔ دوبارہ لوں، اور پھر سے سراور شانوں پہ سجا لوں، غیرت واپس۔
غیرت کیا ہے؟ اپنے سے بے بس اور کمزور شخص کو کاروکاری یا غیرت کے نام پہ قتل کر دینا اور ملک کی اسمبلی میں بیٹھ کر اس پہ فخر کرنا کہ ہم اپنی عورتوں کو غیرت کی وجہ سے قتل کر دیتے ہیں۔ لیجئیے، کسی جانور کو قتل کریں یا ذبح اس کا غیرت سے کیا تعلق۔ اس کا تعلق تو صرف ہارمونز سے بنتا ہے۔ کیا ہارمونز غیرت ہیں۔ یہ بھی آجکل لیبارٹریز میں تیار کئے جارہے ہیں جب دل چاہیں خرید لیں۔ غیرت حاصل۔
غیرت کیا ہے؟
یہ کہ ہم اپنے ہی ہم وطن، ہم مذہب شخص کو زندگی کی اس کمتر حالت میں رکھیں۔ جہاں وہ نالی کا کیڑا بنا رینگتا رہے۔ اور اپنی بقاء کے لئے ہر نالے میں گرنے کو تیار رہے۔ اور جب بھی وہ اس نالے سے باہر نکلنے کی کوشش کرے ہم اسے غیرت کے ڈنڈے سے دوبارہ اسی نالے میں گرادیں۔ کیا بے حسی غیرت کہلاتی ہے۔
معزز قارئین، میں غیرت کو بحیثیت پاکستانی، انہی معنوں میں جانتی ہوں۔
سو دوبارہ اپنے اسی قصے کی طرف لوٹتی ہوں۔ پاکستانی ذہن کہتا ہے کہ اگر اس سے مجھے فائدہ نہیں پہنچا تو یہ دیکھو کہ  کہ اس سے فائدہ کس کس کو پہنچا۔ سب سے پہلے اوپر سے شروع کریں۔ چونکہ ورثاء نے خون بہا لینے کا فیصلہ کیا ہے تووفاقی حکومت، صوبائ حکومت اور عدالت اس قصے سے شرعی طور پہ خارج ہو جاتے ہیں۔ یوں ان میں کا ہر فریق دینی اور دنیاوی اعتبار سے حالت سکون میں ہے۔ مسلم لیگ نون کے ایک رہ نما نے تو رات ایک ٹی وی شو میں کہہ بھی دیا کہ جب ہم توہین رسالت کے قانون کی حفاظت پہ کمر بستہ ہیں تو ہمیں دیت کے قانون کی بھی حفاظت کرنی چاہئیے۔ ابھی دو تین روز میں یہ شریعت باقی لوگوں کو بھی سمجھ میں آجائے گی کہ امیر آدمی کا قاتل کیسے بچ سکتا ہے اور قوانین میں کیسے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ غریب شیطان بچ کر نہ نکلنے پائے۔
نواز شریف  نے تو سیدھے لندن کے ہسپتال میں پناہ لی۔ شہباز شریف انکی عیادت کو گئے۔ باقی کچھ لوگوں نے نوافل ادا کئیے ہونگے کہ ریمنڈ ڈیوس نامی گرہ 'کامیابی' سے کھلی۔ کچھ لوگوں نے اسکے نام کا ٹوسٹ کر کے محفل ناءو نوش سجائ ہوگی۔  
فیضان اور فہیم اب واپس نہیں آ سکتے۔ زندگی کے حیلے ہوتے ہیں اور موت کے بہانے۔ انکی موت اسی طرح لکھی تھی جیسے سلمان تاثیر کی موت اس طرح لکھی تھی اور شہباز بھٹی کو اس طرح مرنا تھا۔ یہ بات انکے ورثاء کو سمجھ آگئ۔ کروڑوں روپیہ ایسے شخص کے سامنے رکھا ہو جس نے کبھی لاکھوں روپیہ اکٹھا نہ دیکھا ہو تو سمجھ ایک دم راکٹ کی طرح کام کرنے لگتی ہے۔ اگر شک ہو تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ مگر آپ کریں گے نہیں۔  میں بھی نہیں کر سکتی۔ اس میں اخلاقیات کی مضبوطی نہیں ہماری معاشیات کی کمزوری ایک بڑی وجہ ہے۔
لوگ مرنے کے بعد کی زندگی کا تذکرہ کرتے ہیں،  جنت کی بات کرتے ہیں کیا وہاں ہوائ جہاز ہونگے، کیا اعلی برانڈز کے کپڑے اور جوتے ملیں گے، کیا ہوم تھیٹر ہوگا، کیا مرسڈیز ہوگی۔ یہ سب امریکہ میں ملے گا۔ اسکے لئے رضوان جنت کی اجازت نہیں چاہئیے۔ امریکن پاسپورٹ چاہئیں۔ بابر نے صحیح تو کہا تھا۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ خدا دنیا کو دوبارہ نہیں بنائے گا۔ جنت بنائ تو کیا۔ سو ڈیل طے کرنے والوں نے بڑے خلوص سے کام کیا اور ورثاء کو امریکن پاسپورٹ بھی دلائے۔ اللہ انکے عمل میں برکت دے۔ حق بحقدار رسید۔
ادھر ہلیری کلنٹن نے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اس سلسلے میں کوئ پیسے نہیں دئیے۔ لیجئیے اگر معاملہ ظاہری طور پہ نظر آنے والے بیس بائیس کروڑ کا ہے تو یہ ایسی کون سی بڑی رقم ہے کہ ہم امریکہ  کے مشکل وقت میں کام آنے پہ خرچ نہ کر سکیں۔ ہم ان سے کھربوں روپے لے کر کھا چکے ہیں۔ اب اس حقیر رقم کے لئے امریکہ ادائیگی کرے یہ تو ہماری 'غیرت' کے منافی ہے۔ مجھے یقین ہے وہ سچ کہہ رہی ہیں۔
نقصان میں کون رہا؟
عبادالرحمن۔ کاش لوگ اپنی موت کا انداز چننے کے لئے ہی آزاد ہوتے تو عباد الرحمن گاڑی کے نیچے کچل کر مرنے کے بجائے، ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دیتا۔ مگر یوں نہ ہوا۔ اور وہ بے چارہ تو جیسے تاریک راہوں میں مارا گیا۔ کہاں لوگوں کو کروڑوں مل گئے اور کہاں عبادالرحمن کسی کو یاد بھی نہیں رہتا۔ وہ بھی تو امریکنوں کی وجہ سے مارا گیا۔ کل کا دن اسکے ورثاء پہ بھی بھاری رہا ہوگا۔  ورنہ آجکے اخبار میں اسکے ورثاء کا بھی سرٹیفیکیٹ چھپتا کہ ہم اتنے کروڑکا یہ معاوضہ بغیر کسی لالچ اور دباء کے لے رہے ہیں۔
سب سے زیادہ بے وقوف تو شمائلہ نکلی۔ اس نے اپنے شوہر فہیم کے مرنے کے بعد دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔ کسی نے کہا اسکی موت کا ذمہ دار میڑیا ہے۔ میڈیا نے اس قصے کو اس جذباتی سطح پر کر دیا کہ وہ اسکی تاب نہ لا سکی۔ اسی کو سائینس کی زبان میں سروائیول فار دا فٹسٹ کہتے ہیں۔
اسکے ورثاء سے بھی ایک پاکستانی دماغ کو ہمدردی ہے۔ قبر کی مٹی میں مل کر مٹی ہوجانا اور پھر روز محشر کے انصاف کا انتظار کرنا یہ بہتر تھا یا ایک امیر کبیر بیوہ بن کر دوسرے لوگوں کی آنکھ میں کھٹکنا۔ پاکستانی دماغ، شمائلہ کو جھٹک کر ایک طرف کر دیتا ہے۔ حرام موت میں برکت کیسے ہو سکتی ہے۔
اور کسے نقصان ہوا؟ شاہ محمود قریشی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ نادیدہ ہاتھوں کے لئے استعمال ہوئے۔ انکی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ کچھ قوتوں کو دباءو بڑھا کر ایک بہتر ڈیل لینے میں آسانی ہوئ ہو۔ لیکن آخر میں تو شاہ صاحب دھوبی کا کتا بن گئے۔ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ بے نظیر کے مزار پہ ہاتھ جوڑنا بھی کام نہ آیا۔ لگتا ہے بے نظیر کو مرنے کے بعد سیاسی قوت تو ملی مگر زیادہ روحانی قوت حاصل نہ ہوئ۔
امریکہ کو بھی کچھ نقصان ہوا۔ افغانستان میں امریکیوں کی لاپرواہی سے مرنے والوں افغانیوں کو خون بہا میں دو بھیڑیں ملیں۔ جبکہ ہمارے یہاں کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ اسکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ امریکی افغانیوں کے مقابلے میں ہماری زیادہ عزت کرتے ہیں۔
 
لیکن میں زیادہ دیر تک پاکستانی دماغ سے سوچ نہیں پاتی اور واپس اپنی جون میں آتی ہوں۔ یہاں لوگ اکثر دعا اور بد دعا کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ ہر دوسرا شخص پہلے شخص سے کہتا ہے دعاءووں میں یاد رکھئیے گا۔ کیا یہ سب کچھ اس لئے تو نہیں ہوا کہ یہ کچھ بد دعائیں ہیں پاکستانیوں پہ بحیثیت قوم۔ تو اب اکیسویں صدی میں جبکہ ہم ایک غریب قوم ہیں اور ہمارے دشمن امیر قوم ہیں۔ اب کیا ہوگا؟
 امیر اقوام، اپنے لوگوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل و خوں پہ ہمارے ہاتھوں پہ کچھ پیسے رکھیں گے اور ہمارے جنگل سے اپنے گھر واپس جا کر دنیا کی عمدہ شراب سے ٹوسٹ کریں گے۔
کیا آپ اور میں ایسا کر سکتے ہیں؟ نہیں، اس میں ہماری معیشت کی کمزوری نہیں اخلاقیات کی مضبوطی ہے۔ شراب اسلام میں حرام ہے۔