پچھلے دنوں بلاگستان کی دنیا میں تصور خدا پہ گفتگو کچھ لوگوں کے دماغ پہ ہتھوڑا بن کر برس پڑی۔ حالانکہ ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ دل نہ کسی کا توڑو، دل کے اندر رب رہتا ہے۔ دل میں قیام پذیر خدا بڑی مختلف خصوصیات رکھتا ہے۔ یہ رہتا تو دل جیسے مشتبہ مقام پہ ہے ، جہاں ایک آسانی یہ ہے کہ جب ذرا گردن جھکائ دیکھ لیا وہاں یہ خدا انسانی تلون مزاجی سے بھی نبرد آزما رہتا ہے۔ یہ مصروف اور جفاکش خدا تخت دل سے کائینات پہ حکمرانی کرتا ہے اور یہ آسان حکمرانی نہیں ہے۔
لیکن اکثریت کا خدا دماغ میں رہتا ہے۔ ان میں سے وہ الگ ہیں جن پہ عقل پرستوں کا الزام لگتا ہے وہ تصور خدا کی بنیادیں پرکھتے ہیں۔ جو خدا کے وجود کو ڈھونڈھ رہے ہیں ان پہ کوئ قانونی یا اخلاقی حد جاری کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ سو خدا نے بھی اس سلسلے میں کوئ قانون نہیں بنایا۔
لیکن دوسرا گروہ جس کا خدا اسکے دماغ میں رہتا ہے یہ وہ ہیں جو خدا پہ اپنے پختہ یقین کا دعوی کرتے ہیں۔ لیکن یہ وہ خدا ہے جسے استعمال کرنے کے دماغی جواز ڈھونڈھے جاتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو اپنی دماغی صلاحیتیں دوسروں کے ایمان کو پرکھنے میں لگاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ خدا نے انہیں اس عظیم ذمہ داری کے لئے چن لیا ہے۔ یوں کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا۔ اسکی جڑیں کافی دور تک پھیل جاتی ہیں۔
دماغ میں قید ہو جانے والا یہ خدا، اپنے اوپر ہونے والی گفتگو سے ڈر جاتا ہے۔ کیونکہ اس سے منسوب مفادات کی ڈور ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لازماً یہ اسی وقت منصب خدا کے لئے نا اہل قرار پا جاتا ہے۔ اور اگرچہ، اظہار آزادی ء رائے اچھی بات لگتی ہے، لیکن کچھ لوگوں کے اوپر پابندی ہونی چاہئیے کہ وہ خدا کی محبت اور اسکی تبلیغ سے اجتناب کریں۔ یہ خدا کے مثبت وجود کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔
آہ، اس مرحلے پہ لگتا ہے کہ آفاقی قوانین کو ترتیب دینا کتنا مشکل ہے۔ جن انسانوں نے ایسے قوانین ترتیب دئیے انہیں سلام۔ اب یہ ایک الگ ہوم ورک ہے کہ ان آفاقی قوانین کی فہرست بنائیں جو انسانوں نے ترتیب دئیے۔
فہمیدہ ریاض، اردو کی معروف ادیبہ ہیں۔ ادب کی ترقی پسند صنف کی طرف ان کا جھکاءو ہے۔ انکی تخلیقات، شاعری، افسانوں اور مختلف مضامین کی صورت موجود ہیں۔ تصورخدا اور الہامی نظریات کا پس منظر لئے ہوئے انکی ایک تحریر نظر سے گذری۔ دنیا زاد کے شمارے بعنوان جل دھارا میں شائع ہوئ۔ اس کہانی کا عنوان میرے ذہن سے اتر گیا۔ اور چونکہ اس وقت میں پاکستان میں موجود نہیں۔اس لئے اسکا عنوان نکالنا ممکن نہیں۔ دنیا زاد کے ایڈیٹر ہیں جناب آصف فرخی اور پبلشر ہیں شہر زاد۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے چند اسکین شدہ صفحات میرے پاس موجود ہیں۔ ان قارئین سے معذرت جو اسکین شدہ صفحات سے گھبراتے ہیں۔ فہمیدہ ریاض کی یہ کہانی بعض ذہنوں پہ ہتھوڑا ثابت ہو سکتی ہے۔ ان سے بھی معذرت۔
بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے تصویر پہ کلک کیجئِے۔
بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے تصویر پہ کلک کیجئِے۔