Showing posts with label صوم. Show all posts
Showing posts with label صوم. Show all posts

Monday, July 23, 2012

ہے کون سا فرق ایسا؟

سحری، افطار، پھر عید کی تیاریاں اور ساتھ ہی ثواب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہی رمضان کی کشش بڑھانے کو کم نہ تھا کہ اس دفعہ وینا ملک نے اپنے استغفار کا بھی اعلان کر دیا اور وہ بھی عین رمضان میں۔ ہم تو سمجھے، شاید اس لئے کہ رمضان میں ہر نیک عمل کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن لوگوں نے اس استغفار کے خلاف مہم چلا دی اور اب سنتے ہیں کہ یہ استغفار عوام تک نہیں پہنچ پائے گا۔ عوام تک کیا اب خدا تک بھی اسکا پہنچنا مشکل ہےیہ رمضان پیکیج تھا اب اگلے سال تک دیکھتے ہیں  کیا یہ استغفار ہو پائے گا۔ سوری وینا، ٹرائ نیکسٹ ٹائم۔
لوگ کہتے ہیں کہ شیطان کو رمضان میں بند کر دیا جاتا ہے۔ لیکن عامر لیاقت حسین کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ انہیں لوگ رمضان میں اتنا زیادہ اس لئے پسند کرتے ہیں کہ وہ شیطان کو بہت مِس کرتے ہیں۔ البتہ انکی دعا کرانے پہ لوگوں پہ گریہ کیسے طاری ہوجاتا ہے یہ معمہ حل طلب ہے۔
http://www.youtube.com/watch?v=iiyG1pSlzpo&feature=related
 مجھے عامر لیاقت سے نجانے کیوں عجیب سی مخاصمت ہے حالانکہ ان کے فتوے، فتوے کم اور لطائف زیادہ لگتے تھے۔ ایک دفعہ مجھے یاد ہے ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا شیعوں کی سنیوں سے شادی ہو سکتی ہے۔ کہنے لگے کیوں نہیں، سین سے سنی، شین سے شیعہ اور شین سے شادی۔ کیا مسئلہ ہے بھئ۔ ان سے پہلے حروف تہجی کو فتوی کے لئے کسی نے استعمال نہیں کیا۔ لیکن اتنا پروگریسو ہونے کے باوجود جب کوئ انہیں برا کہتا ہے تو مجھے یک گونہ تسلی رہتی ہے۔
وینا کے پروگرام پہ احتجاج اور عامر لیاقت کو خوش آمدید پہ جب میں سوال کرتی ہوں تو ایک جواب آتا ہے کہ اسکی وجہ وینا کی عریاں تصاویر ہیں۔ بس یونہی خیال آیا کہ جسم کی عریانیت اور زبان کی عریانیت میں سے کون گھٹیا درجے پہ ہے؟
اس لئے شیطان کا بطور خاص اس مہینے میں بند ہوجانا میرے لئے کم از کم بڑا سوالیہ نشان رکھتا ہے۔ ہم جو کچھ اس مہینے مشاہدہ کرتے ہیں کیا وہ اس روایت پہ پورا اترتا دکھائ دیتا ہے۔ کون سا شیطان بند ہوتا ہے۔ وہ جس نے خدا کے حکم پہ آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا جسکا نام عزازیل ہے یا وہ جو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور خدا کی طرح ہر لمحے اسکے ساتھ رہتا ہے اور صورت حال اس طرح رہتی ہے، اک طرف اسکا گھر اک طرف میکدہ۔ اک طرف محتسب اور اک طرف رند۔ 
خیر، ابھی کل ہی میں طارق روڈ پہ گاڑی پارک کرنے کی جگہ تلاش کر رہی تھی ایک جگہ ملی اسکے پاس چند سیکنڈ کو کھڑا کر کے سوچا کہ یہاں ذرا سناٹا سا ہے اس لئے مناسب نہیں لگ رہا۔ اتنے میں ایک بڑے میاں نازل ہو گئے کہ یہیں گاڑی پارک کرو۔ آگے کہیں  کروگی تو آجکل تو لوگ گاڑی کے شیشے بھی کاٹ لیتے ہیں۔ میں نے یہ سن کر گاڑی موڑی، بڑے میاں کو ناراض چھوڑا اور شاہراہ عام پہ آگئ۔ دور سہی، لیکن شیشہ کٹنے کا امکان کم ہے۔
ڈکیتیوں اور سر راہ لوٹ لینے کے واقعات میں چشم زدن میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ نیا ٹرینڈ یہ ہے کہ لوگ جو شاپنگ کر کے لوٹتے ہیں وہ بھی کوئ لوٹ لیتا ہے۔ چونکہ شیطان بند ہے اس لئے کم از کم اس مہینے تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب ہمارے بھائ بندوں میں سے کوئ کرتا ہے وہ بھی مسلمان۔  لیکن ان دونوں میں ہے کون سا فرق ایسا؟
یوں اس مہینے پرچون فروشوں، قصائیوں ، درزیوں، بوتیکس اور کپڑے کی دوکان والوں میں مقابلہ کرایا جائے تو ڈاکو اور چور اچکے سب سے زیادہ مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ نہیں معلوم کہ ان میں سے شیطان کی دی ہوئ ذمہ داری کون اچھی طرح نبھاتا ہے۔
کیا واقعی شیطان بند ہوتا ہے؟ شاید نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ گوشت کی قیمت میں پہلی رمضان کو نہیں تو دوسرے دن ضرور اضافہ ہوجائے گا۔  قیمت کے اس اضافے سے دودھ اور پھل بھی متائثر ہونگے۔  یہ پیکیج شاید شیطان رمضان کی چھٹیوں سے پہلے طے کر جاتا ہے۔ شیطان، رمضان کی تیاریاں شب براءت میں شروع کرتا ہے جب ہم رات کو جاگ کر اپنے گناہ بخشوا رہے ہوتے ہیں وہ ہمارے نئے گناہوں کا نصاب تیار کر لیتا ہے۔
کیا واقعی شیطان بند ہوتا ہے؟ شاید ہاں۔ کیونکہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی نصیحتوں اور تبلیغ کا ایک ریلہ داخل ہوچکا ہے۔ ہر ایک اس میں بھی مصروف ہے۔ اسکا بھی بڑا ثواب ہے اور اسکا ثواب الگ جو وہ بتلا رہے ہیں۔  فیس بک وغیرہ کی آمد سے ثواب حاصل کرنا اب پہلے سے کہیں آسان ہے صرف ایک کلک پہ ثواب کا سلسلہ جاری۔ کیا لفظ کلک قرآن میں آیا ہے؟ کیا انٹر نیٹ کی پیشن گوئ اس میں موجود ہے؟ یہ سب جانے بغیر لوگ دھڑا دھر ثواب کی کلِکس کئے جا رہے ہیں۔ یہ دوڑ عین اس وقت متائثر ہوتی ہے جب شیئر کرنے کا لنک ہم جیسے شیطانوں کے پاس پہنچتا ہے۔
ان تمام نصیحتوں سے الگ جو مذہبی کتابوں کا خلاصہ نکال کر تیار کی جاتی ہیں۔ کل کی ایک نصیحت یاد آرہی ہے۔ ایک خاتون نے نصیحت کی کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے کہا کہ زندگی کو آسان کرو اگر ہر وقت مصروف رہوگے تو خدا کی عبادت کیسے کروگے۔ اگر دن میں اپنی ساری توانائ دنیا کمانے میں لگا دوگے تو رات کو تہجد کیسے پڑھوگے؟  آسان زندگی کے اس فلسفے پہ ایک بزرگ خاتون نے خاصہ احتجاج کیا۔ میں نے کہا ہمارے کراچی میں تو لوگ کاروبار شروع ہی آدھے دن کے بعد کرتے ہیں۔ یہ شاید ڈاکٹر صاحب کی نصیحت کا کمال ہے۔ توانائ دن میں نہیں رات میں خرچ ہونی چاہئیے۔
ادھر رمضان کے لئے وظائف کا چارٹ بھی تیار ہے۔ اگر انسان ان سب پہ عمل کر لے تو سال بھر کے لئے گناہوں کی آزادی صاف نظر آتی ہے۔ مثلاً تین دفعہ قل شریف پڑھ لیں ایک قرآن کا ثواب، میرے جیسے دماغ میں تو آتا ہے کہ بس سارا دن قل شریف ہی پڑھتے رہنا چاہئیے ایکدن میں کتنے ہی قرآنوں کا ثواب ملے گا جبکہ اصل کو ایک دن میں پڑھکر ختم کرنا ہی ناممکن ہوتا، ادھر رمضان میں ایک قرآن ختم کر لیں سال بھر کی تلاوت کا ثواب۔
 چونکہ رمضان میں ثواب کئ گنا بڑھ جاتا ہے اس لئے لوگ عام زندگی کی چھوٹی موٹی نیکیاں بھی رمضان کے لئے چھوڑے رکھتے ہیں۔ مثلاً زکوۃ بچا کر رکھتے ہیں کہ اس مہینے دینے کا ثواب ہے۔ ایک صاحب نے رستے میں ایک پتھر دیکھا اٹھا کر ایک طرف کرنے کا سوچا تھا ہی کے خیال آیا کہ ابھی مغرب کے بعد رمضان کے چاند کا اعلان ہو جائے تو ہٹائیں گے۔ ثواب زیادہ ہوگا۔
کیا شیطان واقعی بند ہوتا ہے؟ تو یہ اوٹ پٹانگ تحاریر کون لکھتا ہے؟ 
رمضان میں ایسی اوٹ پٹانگ تحاریر پڑھنے کا کوئ ثواب نہیں۔ اس لئے آپ جلدی سے اپنی تسبیح پکڑئیے اور یہ بتائیے وہ کون سا اسم یا وظیفہ ہے جسکے پڑھنے سے انسان انٹر نیٹ سے دور رہتا ہے؟ جب تک میں ایک سادہ سا حساب کر لوں وینا ملک اور عامر لیاقت میں ہے کون سا فرق ایسا؟