یہ تصویر آج دنیا کے کسی خطے کی نہیں بلکہ آج سے کئ صدیاں پہلے اس لزبن شہر کی ہے جو یوروپ کے تاریک دور میں سانس لے رہا تھا۔ اس تصویر میں ایک اجتہادی کو زندہ جلانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اور عوام کا ہجوم اسے ان خیالات کے پیش کئیے جانے پہ جلتا دیکھنے کے لئے جمع ہو رہے ہیں جو اس نے اپنی فکر اور تحقیق سے صحیح جانے البتہ وہ مروجہ روایات کے خلاف ہونگے۔ یہ اس انجام کا شکار ہونیوالا کوئ پہلا یا آخری شخص نہ تھا۔
لیکن یہ جاننا چاہئیے کہ وہ کیا حالات تھے جو کہ اس بربریت کا باعث بنے جس کی تشفی انسانوں کو زندہ جلا کر بھی نہ ہوتی تھی۔
عیسائیت نے اس وقت جنم لیا جب اس دور کا انسان زمینی بادشاہت کے فروغ سے تنگ آچکا تھا۔اور ایک ایسے نظام کا آرزو مند تھا جو امارت اور غربت کے فرق کو ختم کر دے اور انسان کو خدا کے ساتھ ہمکلام ہونے کا موقعہ دے۔ عیسائیت نے اس خواہش کو کسی حد تک پورا کرنے میں مدد کی اور خدا کو مطلق حقیقت قرار دیکر تمام کائنات کو اسکے تابع کر دیا۔ اس طرح سے پست و بلند کا امتیاز ختم ہو گیا۔ اور آسمانی بادشاہت میں سب کے لئیے دروازے کھول دئیے۔
عیسائت کے فروغ نے اس وقت کےشاہی نظام پہ بڑی کاری ضرب لگائ جس میں بادشاہ کو خدائ حیثیت حاصل تھی۔ لیکن عیسائیت کے عروج نے کلیسا کا نظام اتنا بلند کر دیا کہ ریاست کے اندر ایک اور اقتدار کا مرکز ابھر آیا جو کسی کے آگے جوابدہ نہیں تھا۔ کلیسا کی مرکزی شخصیت پوپ طاقت کا سرچشمہ بن گئ جسے سلطنت کے معاملات میں براہ راست دخل اندازی کا موقع مل گیا اور وہ آہست آہستہ اقتدار کے حصول کا ذریعہ بن گیا۔ چنانچہ جلیل القرد بادشاہ اور حکومتیں اب مذہبی طاقت کے مرکز یعنی کلیسا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے پہ مجبور ہوگئیں۔
جسکا نتیجہ بالآخر پر تشدد کلیسا کی صورت نکلا۔ طاقت کا احساس خرابی لاتا ہے اور کامل طاقت مکمل خرابی لاتی ہے۔ کلیسا اور تخت کے درمیان کشمکش شروع ہوگئ اور مذہب کھوکھلا ہوتا چلا گیا۔ کلیسا کا یہ آہنی شکنجہ توڑنے میں مغرب کو کئ سو سال صرف کرنے پڑے۔ یہ وہ دور تھا جسے مغرب کا دور تاریک کہا جاتا ہے۔ اسے تاریک سمجھنے کی وجہ اس پورے عہد میں تخلیقی قوتوں کا بنجر پن ہے۔ ایک ایسا عہد جب ادب، تحقیق، فنون لطیفہ اور فلسفے کی نمو کے روک دیا گیا۔ کلیسا نے قریباً ایک ہزار سال تک سارے یوروپ کو عیسائیت کی ایک ایسی مضبوط تنظیم میں جکڑے رکھے جو مشین کے مشابہ تھی اور جس نے فرد کی انفرادیت کو کچل دیا تھا۔ ان اعتقادات نے زندگی کو ایک خول میں بند کر کے اس کا بیرونی چھلکا جامد کر دیا تھا۔
یہ اس زمانے کا ہی قصہ ہے جب گلیلیو کو مذہبی عدالت میں حاضر کیا گیا۔ اس پہ الزام تھا کہ اس نے یہ کہہ کر کہ زمین حرکت کرتی ہے بائبل میں موجود اس بیان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ زمین ساکن ہے اور سورج اسکے گرد حرکت کرتا ہے۔ اپنے اس باغیانہ خیال کی وجہ سے اسے قید وبند کی صعوبت سے گذرنا پڑا۔ بالآخر گلیلیو نے عدالت کے سامنے توبہ کی کہ وہ آئندہ نہیں کہے گا کہ زمین حرکت کرتی ہے لیکن عدالت سے باہر آ کر اس نے کہا ' میں نہیں کہونگا کہ زمین حرکت کرتی ہے لیکن زمین اسکے باجود حرکت کرتی رہے گی'۔
شہرہ ء آفاق کالون نے مشیل سرقیہ کو ایک طویل عرصے تک قید و اذیت کے بعد زندہ جلا دینے کا حکم دیا۔ اسکا جرم یہ تھا کہ اس نے انسان کے جسم میں دوران خون کا پتہ چلایا تھا۔ حالانکہ اسکے بعد یہی نظریہ تاریکی کے اس اندھیرے کے ہٹنے کے بعد ہاروے نے پیش کیا اور شہرت کمائ۔ ان ناموں کے علاوہ ان لوگوں کی گنتی نہیں معلوم جنہیں کسی سوچ کو حقیقت بننے سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اسی معاشرے میں معززین کو زمینیں بخشی گئیں جنکے لئیے وہ صرف بادشاہ کو یا پوپ کو جوابدہ تھے۔ اس پہ بسنے والے لوگ اسے زرخیز بنانے کے ذمہ دار تھے اور اسکی آمدنی پہ انکا کوئ حق نہ تھا۔ البتہ انہیں یہ سہولت حاصل تھی کہ کسی بیرونی حملہ آور کی صورت میں ریاست انہیں تحفظ فراہم کرے گی۔ تو اس طرح سے یہ ایک ایسی غلامی تھی جس سے نجات ممکن نہ تھی۔
اسکے علاوہ ایک محکمہ ء احتساب بھی قائم کیا گیا۔ جو لوگوں کو انکی حدوں سے باہر نکلنے پہ سزا دینے پہ قادر تھا۔ لوگوں کا قصور اجتہاد کی بات کرنا، بائبل کے متعلق کلیسا کی تشریحات میں خامیاں نکالنا، دوسری شادی کرنا، جادو گری میں دلچسپی لینا اور اسطرح کے دوسرے جرائم جنکی ہولناک سزائیں لوگوں کو پابند سلاسل رہنے پہ مجبور کرتی تھیں۔ یہودیوں کے لئیے مخصوص سزائیں الگ تھیں کہ وہ مذہبی عقائد میں انکے حریف تھے۔ محکمہ ء احتساب نےکئ ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اسپین سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی جلاوطن ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں یہودیوں کو عیسائ ہونے پہ مجبور کیا گیا۔
جن لوگوں پہ اجتہادی سوچ کا الزام لگایا جاتا انہیں اپنی غلطی سے رجوع کر کے معافی مانگنے کے لئیے مہینہ بھر کا عرصہ ملتا اور جو ایسا نہیں کرتے انہیں شدید سزائیں دی جاتیں، جیسے جلا دینا۔، قتل کر دینا۔ عام طور پہ یہ سزائیں سر عام دی جاتی تھیں۔ احتساب کا یہ عہد تقریباً تین سو سال چلا۔ یہ قتل و غارت گری خدا مے احکامت کے نام پہ کی جاتی تھی کہ مذہبی کتاب میں دشمنون کیساتھ ایسا ہی سلوک رو رکھنے کے لئیے کہا گیا ہے۔
ادب، تعمیر، دیگر فنون لطیفہ جیسے مصوری اورتحقیق سب پہ عیسائیت کی چھاپ ہونا ضروری تھی۔ نتیجے میں یوروپین مصوروں نےحضرت عیسیٰ کو گورے رنگ اور سنہرے بالوں اور رنگین آنکھوں والا یوروپین شخص بنادیا گیا۔ جس سے آج بھی عیسائ مذہب پرست چھٹکارا نہ پا سکے۔
فرانس جہاں بادشاہت تھی۔ قوم کے مسیحی تشخص پہ زور دیا گیا اور بادشاہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ ملکی قوانین قدیم مسیحی طرز پہ مرتب کرے البتہ یہ حق مذہبی یسوعی جماعت کو ہی رہیگا کہ وہ مختلف مذہبی قوانین کی کیا تشریح پیش کرتے ہیں۔یہ قانون بھی بایا گیا کہ اگر کسی کتاب میں موجود موادمذہب یا مملکت کیخلاف پایا گیا تو ناشر، مصنف اور کتاب فروش کو سزائے موت دی جائے گی۔ یہ ایک معاشرہ تھا جہاں غریب کو غریب رہنے کا مشورہ دیا جاتا تاکہ دولت پہ ریاست کے طاقتور لوگوں کا قبضہ رہے، عوام کو قربانی اور خیرات کا حکم ملتا، اور حکومتی ارکان پہ کوئ ٹیکس نہ تھا۔
یوروپ میں کلیسا کے اس طرز عمل نے ان سائنسی، علمی اور تحقیقی تبدیلیوں کے آنے میں بہت زیادہ رکاوٹ ڈالی جنہوں نے کچھ ہی عرصے میں تہذیب انسانی کو تبدیل کر دیا۔ لیکن اس جبر نے عام انسان کو مذہب سے بیزار کرنے میں ایک اہم رول ادا کیا۔
یہ دور جس کی کوئ مقررہ تاریخ آغاز یا اختتام نہیں ہے۔ اور اسے بعض مءورخ تسلیم کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر یہ دور تاریک تھا تو دراصل یہ تاریکی رحم مادر کی تاریکی سے مشابہ تھی۔ یعنی تخلیق کا جذبہ درون خانہ پنپ رہا تھا۔ شاید یہ درست ہو۔ ہر جبر اور ظلم کے نیچے ایک انقلاب سانس لے رہا ہوتا ہے۔ یوروپ نے کسطرح نئے افکار کی روشنی حاصل کی۔ تحریر جاری ہے۔ آپ میں سے جو چاہے اس میں اپنے علم کا اضافہ کر سکتا ہے۔
حوالہ جات؛
اس تحریر کی تیاری میں مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئ ہے۔
تاریخ اور فلسفہ ء تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید
خدا کے نام پہ لڑی جانیوالی جنگ، مصنفہ کیرن آرمسٹرونگ
حریت فکر کے مجاہد، مصنف وارث میر