Showing posts with label فرانس. Show all posts
Showing posts with label فرانس. Show all posts

Wednesday, June 29, 2011

انقلاب کا اسقاط

آپکو بتاءووں یہاں مجھے کینیڈا آ کر اندازہ ہوا کہ ہمارا نظام تعلیم کتنا ناقص ہے۔
کیوں ایسا کیا ہو گیا؟
بس یہاں آکر مجھے اتنا وقت مل جاتا ہے کہ اپنا کتاب پڑھنے کا شوق پورا کروں یا دستاویزی فلمیں دیکھوں۔ پاکستان میں تو نوکری کے نام پہ غلامی کراتے تھے۔ گھر آکر بھی کام جاری رہتا تھا۔  ابھی چند دن پہلے میں نے فرانس کی ایک ملکہ ماریا اینٹونیٹ کے بارے مِں ایک دستاویزی فلم دیکھی۔
وہی ملکہ جسکے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے قحط کے دنوں میں روٹی نہ ملنے پہ کیک کھانے کا مشورہ دیا؟
ہاں وہی۔
لیکن اسکے بارے میں یہ بات غلط منسوب ہے۔
ہاں آپکا کہنا صحیح ہے۔ یہ بات خاصی متنازعہ ہے۔
لیکن ایسے افسانے ہی تاریخ کو دلچسپ بناتے ہیں، اچھا پھر کیا ہوا؟
تین چار دن بعد لنچ بریک میں ہم لوگ گپ شپ کر رہے تھے تو میں نے اس کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ ادھر سے ایک چینی لڑکی آئ کہ تم لوگ اس ملکہ کا تذکرہ کر رہے ہو جسکے سولہ بچے تھے۔ میں نے اسکی تصحیح کی کہ اسکے سولہ نہیں چار بچے تھے۔ سولہ بچے اسکی ماں کے تھے۔ پھر ایک انڈیئن اس میں شامل ہوا کہ کس طرح اس ملکہ پہ مظالم ہوئے۔ اتنے میں ایک کیوبا کی لڑکی آگئ وہ بھی انقلاب فرانس کے بارے میں بات کرنے لگی۔ آپ سوچیں، میں نے اب تک کی زندگی میں انقلاب فرانس کے بارے میں تفصیل سے چار دن پہلے پڑھا تھا۔
تو ایسا کیوں ہوا کہ آپ نے محض چار دن پہلے یہ چیز پڑھی؟
وہ اس لئے کہ اسکول میں ہمیں سوشل استڈیز یا جغرافیہ نہیں پاکستان اسٹڈیز پڑھائ جاتی تھی۔ اسکول سے لیکر ہائیر کلاسز تک ہم پاکستان اسٹڈیز پڑھتے رہے جس میں سارا زور دو قومی نظرئیے پہ رہا۔ اور سچ بتاءووں اتنا عرصہ کینیڈا میں رہنے کے بعد میرا اس نظرئیے سے یقین اٹھ سا گیا ہے۔
اچھا، ایسا کیوں ہوا؟
آپ سوچیں یہاں اتنی قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں بالکل ہم آہنگی کے ساتھ۔ ایک ہی میز پہ تین لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک سوءر کا گوشت کھاتا ہے دوسرا حلال اور تیسرا سبزی خور۔ سب مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایک جگہ رہ رہے ہیں ناں۔ اس لئے کہ سب کی اقتصادیات صحیح ہیں۔ سب کو پیسہ مل رہا ہے؟
ہمم، میں نے اسے غور سے دیکھا۔ ایک چوبیس ، پچیس سال کا شخص جس نے اپنی تمام تعلیم پاکستان میں حاصل کی۔ پاکستان سے باہر نکل کر چند برس دوسری قوموں کے ساتھ رہا اور ایسا ہو گیا۔  برسوں سب گھول کے پلایا گیا تو ضائع ہو گیا؟
اس نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔ مجھے اس وقت اتنی شرمندگی  ہوئ ان لوگوں کی معلومات ہر چیز کے بارے میں مجھ سے کہیں بہتر ہیں۔ آخر ہمیں یہاں کیا  پڑھایا جاتا ہے۔ ادب ہمیں نہیں معلوم ہوتا کیا بلا ہے، جغرافیہ ہمارا کمزور، تاریخ میں ہمیں صرف تحریک پاکستان پڑھائ جاتی ہے وہ بھی اپنے مطلب کی۔ حتی کہ اسلامیات میں ہمیں پچاس ، سو صفحوں کی ایک کتاب پوری زندگی پڑھائ جاتی  رہی۔ وہ بھی اپنے مطلب کی۔  دنیا کے مختلف ادیان کا تعارف تو چھوڑیں ہم اسلامی تاریخ سے بھی جان بوجھ کر لا علم رکھے جاتے ہیں۔ موسیقی، مصوری سے ہم نا آشنا۔ ہم ایک لگے بندھے علم کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، ارد گرد پھیلی دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔  سوچیں ذرا، چوبیس ، پچیس سال کی عمر میں، سوفٹ ویئر انجینیئر ہونے کے باوجود مجھے انقلاب فرانس کے بارے میں کھکھ بھی نہیں پتہ تھا۔ اور یہ  چین ، ہمارے پڑوسی انڈیا اور حتی کہ کیوبا تک کے لوگوں کو پوری کہانی ازبر تھی۔
لیجئیے یہ انقلاب فرانس کی کہانی ہمیں اگر ازبر ہوتی تو ہم آنے والے انقلاب کی راہیں تک رہے ہوتے؟ بس یہی تو چلن ہیں، اسی طرح انقلاب کا اسقاط ہوتا ہے۔ 

Monday, February 15, 2010

نئے افکار انکا حصول اورترویج-۴




یہ تصویر آج دنیا کے  کسی خطے کی نہیں بلکہ آج سے کئ صدیاں پہلے اس لزبن شہر کی ہے جو یوروپ کے تاریک دور میں سانس لے رہا تھا۔ اس تصویر میں ایک اجتہادی کو زندہ جلانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اور عوام کا ہجوم اسے ان خیالات کے پیش کئیے جانے پہ جلتا دیکھنے کے لئے جمع ہو رہے ہیں جو اس نے اپنی فکر اور تحقیق  سے صحیح جانے البتہ وہ مروجہ روایات کے خلاف ہونگے۔ یہ اس انجام کا شکار ہونیوالا کوئ پہلا یا آخری شخص نہ تھا۔


لیکن یہ جاننا چاہئیے کہ وہ کیا حالات تھے جو کہ اس بربریت کا باعث بنے جس کی تشفی انسانوں کو زندہ جلا کر بھی نہ ہوتی تھی۔

عیسائیت نے اس وقت جنم لیا جب اس دور کا انسان زمینی بادشاہت کے فروغ سے تنگ آچکا تھا۔اور ایک ایسے نظام کا آرزو مند تھا جو امارت اور غربت کے فرق کو ختم کر دے اور انسان کو خدا کے ساتھ ہمکلام ہونے کا موقعہ دے۔ عیسائیت نے اس خواہش کو کسی حد تک پورا کرنے میں مدد کی اور خدا کو مطلق حقیقت قرار دیکر تمام کائنات کو اسکے تابع کر دیا۔ اس طرح سے پست و بلند کا امتیاز ختم ہو گیا۔ اور آسمانی بادشاہت میں سب کے لئیے دروازے کھول دئیے۔

عیسائت کے فروغ نے  اس وقت کےشاہی نظام پہ بڑی کاری ضرب لگائ جس میں بادشاہ کو خدائ حیثیت حاصل تھی۔  لیکن عیسائیت کے عروج نے کلیسا کا نظام اتنا بلند کر دیا کہ ریاست کے اندر ایک اور اقتدار کا مرکز ابھر آیا جو کسی کے آگے جوابدہ نہیں تھا۔ کلیسا کی مرکزی شخصیت پوپ طاقت کا سرچشمہ بن گئ جسے  سلطنت کے معاملات میں براہ راست دخل اندازی کا موقع مل گیا اور وہ آہست آہستہ اقتدار کے حصول کا ذریعہ بن گیا۔ چنانچہ جلیل القرد بادشاہ اور حکومتیں اب مذہبی طاقت کے مرکز یعنی کلیسا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے پہ مجبور ہوگئیں۔

جسکا نتیجہ بالآخر پر تشدد کلیسا کی صورت نکلا۔ طاقت کا احساس خرابی لاتا ہے اور کامل طاقت مکمل خرابی لاتی ہے۔ کلیسا اور تخت کے درمیان کشمکش شروع ہوگئ اور مذہب کھوکھلا ہوتا چلا گیا۔ کلیسا کا یہ آہنی شکنجہ توڑنے میں مغرب کو کئ سو سال صرف کرنے پڑے۔ یہ وہ دور تھا جسے مغرب کا دور تاریک کہا جاتا ہے۔ اسے تاریک سمجھنے کی وجہ اس پورے عہد میں تخلیقی قوتوں کا بنجر پن ہے۔ ایک ایسا عہد جب ادب، تحقیق، فنون لطیفہ اور فلسفے کی نمو کے روک دیا گیا۔ کلیسا نے قریباً ایک ہزار سال تک سارے یوروپ کو عیسائیت کی ایک ایسی مضبوط تنظیم میں جکڑے رکھے جو مشین کے مشابہ تھی اور جس نے فرد کی انفرادیت کو کچل دیا تھا۔ ان اعتقادات نے زندگی کو ایک خول میں بند کر کے اس کا بیرونی چھلکا جامد کر دیا تھا۔

 یہ اس زمانے کا ہی قصہ ہے جب گلیلیو کو مذہبی عدالت میں حاضر کیا گیا۔ اس پہ الزام تھا کہ اس نے یہ کہہ کر کہ زمین حرکت کرتی ہے  بائبل میں موجود اس بیان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے  کہ  زمین ساکن ہے اور سورج اسکے گرد حرکت کرتا ہے۔ اپنے اس باغیانہ خیال کی وجہ سے اسے قید وبند کی صعوبت سے گذرنا پڑا۔ بالآخر گلیلیو نے عدالت کے سامنے توبہ کی کہ وہ آئندہ نہیں کہے گا کہ زمین حرکت کرتی ہے لیکن عدالت سے باہر آ کر اس نے کہا ' میں نہیں کہونگا کہ زمین حرکت کرتی ہے لیکن زمین اسکے باجود حرکت کرتی رہے گی'۔

شہرہ ء آفاق کالون نے مشیل سرقیہ کو ایک طویل عرصے تک قید و اذیت کے بعد زندہ جلا دینے کا حکم دیا۔ اسکا جرم یہ تھا کہ اس نے انسان کے جسم میں دوران خون کا پتہ چلایا تھا۔ حالانکہ اسکے بعد یہی نظریہ تاریکی کے اس اندھیرے کے ہٹنے کے بعد ہاروے نے پیش کیا اور شہرت کمائ۔ ان ناموں کے علاوہ ان لوگوں کی گنتی نہیں معلوم جنہیں کسی سوچ کو حقیقت بننے سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اسی معاشرے میں معززین کو زمینیں بخشی گئیں جنکے لئیے وہ صرف بادشاہ کو یا پوپ کو جوابدہ تھے۔ اس پہ بسنے والے لوگ اسے زرخیز بنانے کے ذمہ دار تھے اور اسکی آمدنی پہ انکا کوئ حق نہ تھا۔ البتہ انہیں یہ سہولت حاصل تھی کہ کسی بیرونی حملہ آور کی صورت میں ریاست انہیں تحفظ فراہم کرے گی۔ تو اس طرح سے یہ ایک ایسی غلامی تھی جس سے نجات ممکن نہ تھی۔

اسکے علاوہ ایک محکمہ ء احتساب بھی قائم کیا گیا۔ جو لوگوں کو انکی حدوں سے باہر نکلنے پہ سزا دینے پہ قادر تھا۔ لوگوں کا قصور اجتہاد کی بات کرنا، بائبل کے متعلق کلیسا کی تشریحات میں خامیاں نکالنا، دوسری شادی کرنا، جادو گری میں دلچسپی لینا اور اسطرح کے دوسرے جرائم جنکی ہولناک سزائیں لوگوں کو پابند سلاسل رہنے پہ مجبور کرتی تھیں۔ یہودیوں کے لئیے مخصوص سزائیں الگ تھیں کہ وہ مذہبی عقائد میں انکے حریف تھے۔ محکمہ ء احتساب نےکئ ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔  اسپین سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی جلاوطن ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں یہودیوں کو عیسائ ہونے پہ مجبور کیا گیا۔

جن لوگوں پہ اجتہادی سوچ کا الزام لگایا جاتا انہیں اپنی غلطی سے رجوع کر کے معافی مانگنے کے لئیے مہینہ بھر کا عرصہ ملتا اور جو ایسا نہیں کرتے انہیں شدید سزائیں دی جاتیں، جیسے جلا دینا۔، قتل کر دینا۔ عام طور پہ یہ سزائیں سر عام دی جاتی تھیں۔ احتساب کا یہ عہد تقریباً تین سو سال چلا۔ یہ قتل و غارت گری خدا مے احکامت کے نام پہ کی جاتی تھی کہ مذہبی کتاب میں دشمنون کیساتھ ایسا ہی سلوک رو رکھنے کے لئیے کہا گیا ہے۔

  ادب، تعمیر، دیگر فنون لطیفہ جیسے مصوری اورتحقیق سب پہ عیسائیت کی چھاپ ہونا ضروری تھی۔ نتیجے میں یوروپین  مصوروں نےحضرت عیسیٰ کو گورے رنگ  اور سنہرے بالوں اور رنگین آنکھوں والا یوروپین شخص بنادیا گیا۔ جس سے آج بھی عیسائ مذہب پرست چھٹکارا نہ پا سکے۔

  فرانس جہاں بادشاہت تھی۔ قوم کے مسیحی تشخص پہ زور دیا گیا اور بادشاہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ ملکی قوانین قدیم مسیحی طرز پہ مرتب کرے البتہ یہ حق مذہبی یسوعی جماعت کو ہی رہیگا کہ وہ مختلف مذہبی قوانین کی کیا تشریح پیش کرتے ہیں۔یہ قانون بھی بایا گیا کہ اگر کسی کتاب میں موجود موادمذہب یا مملکت کیخلاف پایا گیا تو ناشر، مصنف اور کتاب فروش کو سزائے موت دی جائے گی۔ یہ ایک معاشرہ تھا جہاں غریب کو غریب رہنے کا مشورہ دیا جاتا تاکہ دولت پہ ریاست کے طاقتور لوگوں کا قبضہ رہے، عوام کو قربانی اور خیرات کا حکم ملتا، اور حکومتی ارکان پہ کوئ ٹیکس نہ تھا۔

یوروپ میں کلیسا کے اس طرز عمل نے ان سائنسی، علمی اور تحقیقی تبدیلیوں کے آنے میں بہت زیادہ رکاوٹ ڈالی جنہوں نے کچھ ہی عرصے میں تہذیب انسانی کو تبدیل کر دیا۔ لیکن اس جبر نے عام انسان کو مذہب سے بیزار کرنے میں ایک اہم رول ادا کیا۔

 یہ دور جس کی کوئ مقررہ تاریخ آغاز یا اختتام نہیں ہے۔ اور اسے بعض مءورخ تسلیم کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر یہ دور تاریک تھا تو دراصل یہ تاریکی رحم مادر کی تاریکی سے مشابہ تھی۔ یعنی تخلیق کا جذبہ درون خانہ پنپ رہا تھا۔ شاید یہ درست ہو۔ ہر جبر اور ظلم کے نیچے ایک انقلاب سانس لے رہا ہوتا ہے۔ یوروپ نے کسطرح نئے افکار کی روشنی حاصل کی۔ تحریر جاری ہے۔ آپ میں سے جو چاہے اس میں اپنے علم کا اضافہ کر سکتا ہے۔ 
حوالہ جات؛
اس تحریر کی تیاری میں مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئ ہے۔

تاریخ اور فلسفہ ء تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید
خدا کے نام پہ لڑی جانیوالی جنگ، مصنفہ کیرن آرمسٹرونگ
حریت فکر کے مجاہد، مصنف وارث میر