پنجاب یونیورسٹی میں طلباء کے ایک گروپ نے یونیورسٹی کے ایک استاد پروفیسر افتخار بلوچ کے آفس پہ ہلہ بولا اور انہیں زد و کوب کیا۔ یہی نہیں انہوں نے وی سی پنجاب یونیورسٹی کی رہائش پہ بھی حملہ کیا۔ انکے مشتعل مزاج کی وجہ جمیعیت سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس کا یونیورسٹی سے انخلاء کا حکم تو جو انکے خلاف نظم و ضبط پہ عمل نہ کرنے کی وجہ سے لایا گیا۔ پروفیسر بلوچ اسٹوڈنٹس ڈسیپلینری کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔
پاکستانی یونیورسٹیز میںایسے واقعات پیش آنا کوئ غیر معمولی بات نہیں۔ مجھے خود محض ڈھائ سال کے عرصے میں کئ دفعہ اس قسم کے واقعات سے گذرنا پڑا کہ اسٹوڈنٹس کا ایک گروہ میرے سر پہ کھڑا ہو کہ کلاس فی الفور ختم کی جائے۔ وہ کسی واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ڈپارٹمنٹ میں اس وقت کوئ کلاس نہیں ہو سکتی۔۔
اسٹوڈنٹس کو غنڈہ گردی کی طرف مائل کرنے والی ہماری سیاسی پارٹیز ہوتی ہیں کہ یونیورسٹیز اور کالجز میں یہ اپنی بچہ پارٹی کو استعمال کرتی ہیں۔ اس عمر کے اسٹوڈنٹس جنکی ابھی زندگی میں نہ کوئ اچیومنٹس ہوتی ہیں نہ شناخت لوگوں کے ہجوم میں نمایاں ہونے اوراپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے انکے آلہ ء کار بن جاتے ہیں۔ اور عالم یہ ہوتا ہے کہ اسٹوڈنٹس کو اس بات پہ اعتراض نہیں ہوتا کہ کوئ استاد انہیں پڑھانے میں کتنی نااہلیت برتتا ہے۔وہ اسکے خلاف جا کر وی سی کے آفس کے باہر مظاہرہ نہیں کر سکتے مگر یونیورسٹی کے اندر کسی پول پہ سے انکی پارٹی کا جھنڈا ہٹنا ہنگامے کا باعث بن سکتا ہے۔
ان واقعات میں اسلامی جمیعیت طلبہ کے اسٹوڈنٹس شامل بتائے جاتے ہیں۔ ویسے تو جماعت اسلامی کے سر کردہ رہنماءووں نے اس واقعے میں کسی بھی اسلامی جمعیت کے طالب علم کے ملوث ہونے کو جھٹلایا ہے۔ لیکن تمام واقعات اور شواہد انکے اس دعوی کے خلاف جاتے ہیں۔ یونیورسٹیز میں ہنگامہ آرائ کے متعلق اسلامی جمیت طلبہ کی تاریخ کوئ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ عمران خان کی درگت بھی اسلامی جمیعت طلباء کے سپوتوں کے ہاتھ بنی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی ویسے بھی جمیعت کا ایک مضبوط گڑھ ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جسکے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلی دفعہ یونیورسٹیز میں اسلحے کی سیاست متعارف کرائ۔
اس صورتحال سے اسلامی جمیعیت کے کچھ طلباء خاصے ناراض ہوئے اور انکا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ انتقامی کارروائ کا حصہ ہے اور ایسا اس لئے کیا گیا کہ انکے طلباء نے مارچ کے مہینے میں یونیورسٹی میں امریکہ کے خلاف ریلی منعقد کرائ تھی۔ جمعیت کے پاس یہ وہ ٹانک ہے جو اپنے ارکان کے اندر توانائ کی لہریں دوڑا دینے کا باعث بنتا ہے اور۔جس سے انکے مزاج کی آتش صفتی بڑھ جاتی ہے۔ گو امریکہ گو۔ امریکہ مردہ باد۔ عالمی دہشت گرد کون، امریکہ، امریکہ۔ اس سے تو میرے بھی خون کا دوران بڑھ جاتا ہے۔
سادہ دل وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نے وزیر اعلی ہنجاب ، میرا مطلب خادم پنجاب جناب شہباز شریف سے درخواست کی کہ وہ ان طلباء کے خلاف تادیبی کارروائیوں میں انکا ساتھ دیں۔ تاکہ یہ واقعات پھر نہ دوہرائے جا ئیں۔ لیکن یہ تو اب کوئ بھی شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ دائیں بازو کی سیاست کرنےوالے شہباز شریف دائیں بازو کے حامی عناصر کے خلاف کیسے کارروائ کر سکتے ہیں۔
ایک زمانے میں لوگ اپنے بچوں کو استاد کے حوالے یہ کہہ کر کرتے تھے کہ ہڈی ہماری چمڑی تمہاری۔ اوراب استاد یہ کہہ کر تعلیمی اداروں کے حوالے کیا جاتا ہے کہ تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر۔ اگرچہ مناسب کارروائ نہ ہونے تک اساتذہ نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے لیکن کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔
اب رہ گئے پروفیسر افتخار بلوچ تو انکے لئے اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب اوکھلی میں سر دیا تو موصلوں سے کیا ڈرنا۔ پٹ پٹ کر ایک دن پٹنے کی عادت ہو ہی جائے گی۔ استاد ہونے کے لئے اور خاص طور پہ اسٹوڈنٹس ڈسیپلینری کمیٹی کا سربراہ ہونے کے لئےاسکی عادت ہونا بہت ضروری ہے۔