شاہ ولی اللہ نے اجتہاد اور تقلید کے موضوع پہ ایک بڑی مفید کتاب عقد الجید فی احکام الاجتہاد التقلید کے نام سے لکھی۔ شاہ صاحب باب اجتہاد بند ہونے کے قائل نہ تھے لیکن وہ عوام کو حق اجتہاد نہیں دیتے۔ مجتہد کے انہوں نے مدارج مقرر کئے اور اجتہاد کے لئے مناسب شرائط لگائیں۔ انہوں نے جا بجا اس خیال کی نفی کی کہ اب اجتہاد کی گنجائش نہیں رہی۔ وہ اس کتاب کے آغاز میں کہتے ہیں کہ
پھر اب جو گمان کیا جاوے ایسے شخص عالم کے حق میں، جو اکثر مسائل میں اپنے امام کے موافق ہو، لیکن اسکے ساتھ ہی ہر حکم کی دلیل چاہتا ہو کہ وہ مجتہد نہیں تو یہ گمان اس شخص کے حق میں فاسد ہے۔ اور اس طرح جو یہ گمان کرے کہ مجتہد اس زمانے میں نہیں پایا جاتا۔ بلحاظ اعتماد کرنے کے گمان پہ تو یہ گمان بنار فاسد بر فاسد ہے۔
شاہ صاحب رسول اکرم کے طریقے کو دھیان میں رکھ کر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جزئیات کے معاملے میں تشدد نہیں کرنا چاہئیے۔ اور معمولی اختلافات سے شارع کا مقصد فوت نہیں ہوتا۔
کچھ لوگوں کو زمانہ روز بروز خراب نظر آتا ہے اور اس طرح وہ قوم میں بے ہمتی پیدا کرتے ہیں۔ اپنی کتاب حجۃ البالغہ میں وہ اپنے عہد کی اہمیت اورخوبیوں کا ذکر کرتے ہیں اور اس نظرئے کی تردید کرتے ہیں اس سلسلے میں وہ رسول اللہ کی دو حدیثوں کا حوالہ دیتے ہیں
ترجمہ؛ میری امت کی صفت بارش کی سی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پہلا مینہ اچھا ہے یا اخیر کا۔
ترجمہ؛تم میرے صحابہ ہو اور میرے بھائ وہ ہیں جو میرے بعد آئیں گے۔
شاہ صاحب کو احساس تھا کہ مسلمانوں کے زوال کا ایک باعث فرسودہ اقتصادی نظام بھِی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اقتصادی عدم توازن کو معاشرتی برائیوں کی ایک جڑ قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ
اگر کسی قوم میں تمدن کی مسلسل ترقی جاری رہے تو اسکی صنعت و حرفت اعلی کمال پر پہنچ جاتی ہے، اسکے بعد اگر حکمران جماعت آرام و آسائش اور زینت وتفاخر کی زندگی کو اپنا شعار بنا لے تو اسکا بوجھ قوم کے کاری گر طبقے پہ اتنا بڑھ جائے گا کہ سوسائٹی کا اکثر حصہ حیوانوں جیسی زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہوگا۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ
اقتصادی نظام کے درست اور متوازن ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس زندگی میں انسانی اجتماع کے اخلاق تکمیل پذیر ہو سکیں گے۔
انکے خیال میں چونکہ تمام قوم دولت کی پیداوار میں شامل ہوتی ہے اس لئےدولت کو تمام افرد قوم میں تقسیم ہونا چاہئیے۔ اسکے علاوہ وہ دولت کے استعمال کی اقدار بھی مقرر کرنا چاہتے تھے اسکے لئے انہوں نے کچھ اصول رکھنا چاہے۔
پہلا اصول یہ کہ ایک جغرافیائ سرحد کے اندر رہنے والے لوگ اس علاقے کے وسائل کے مالک ہونگے۔ تمام لوگ اقتصادی نظام میں برابر ہونگے اور دولت کا ارتکاز کسی ایک یا چند مخصوص لوگوں تک نہ ہو۔ اور اس سلسلے میں وہ حضرت ابو بکر صدیق کی اس بات کو دوہراتے کہ مساوات بہتر ہے اقصادیات میں بجائے اسکے کہ ایک گروہ کو دوسرے پہ ترجیح دی جائے۔
دوسرا اصول، ہر شخص کو کچھ نہ کچھ حق ملکیت دینا چاہئیے۔ کیونکہ ہر شخص مختلف صلاحیتیں رکھتا ہے۔ لیکن اس سے مراد یہ نہیں کہ ہر ایک کو ایک جیسی غذا، گھر یا کپڑے ملیں۔
تیسرا اصول یہ کہ دولت کے ارتکاز کو کسی صورت نہ برداشت کیا جائے۔
ایسی متوازن صورت حال اختیار کی جائے کہ معاشرہ میں ہر شخص ترقی کرے۔
اسکے لئے وہ اس بات کے حق میں تھے کہ کوئ ایسی جماعت وجود میں لائ جائے جو ایک نئے نظام کو ترتیب دے سکے۔
یہ تھے کچھ سرسری سے اصول جو انہوں نے دینے کی کوشش کی۔ لیکن عملی طور پہ وہ اسکے لئے کچھ نہ کر سکے۔
مجدد الف ثانی کے بر عکس وہ شیعوں کو کافر نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ انہوں نے اپنی تحریروں سے سنی شیعہ اختلافات مٹانے کی کوشش کی اور اس موضوع پہ کئ سیر حاصل کتابیں لکھیں۔
چونکہ ہمارا موضوع اس وقت احیائے دین کی کوششیں نہیں ہے اس لئے ہم اس سلسلے میں اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔
اپنی اس تمام تر روشن خیال کے باوجود شاہ ولی اللہ ہندوستان کی دوسری غیر مسلم قوتوں کے لئے نرمی نہ پیدا کر سکے اور وہ کہتے ہیں کہ
تمام مسلمان شہریوں کو حکم دینا چاہئیے کہ کافر اپنے تہوار کھلے عام نہ منا سکیں جیسے ہولی یا گنگا میں نہانا۔
اسی طرح انہوں نے یہ نظریہ اختیار کیا کہ ہندو ذمی نہیں کافر ہیں لہذا انہیں ذمیوں کے حقوق حاصل نہں ہونے چاہئیں اور انہیں ہر ممکن طریقے سے ذلیل کر کے رکھنا چاہئیے۔
اسی طرح وہ ثقافتی اثرات کو بھی قبول نہ کر سکے۔ ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ
مسلمانوں کو خواہ وہ کسی ملک میں اپنی ابتدائ زندگی گذاریں۔ اپنی وضع قطع اور طرز بو د و باش میں اس ملک کے مقامی باشندوں سے قطعی جدا رہنا چاہئیے اور جہاں کہیں وہ رہیں اپنی عربی شان اور عربی رجحانات میں ڈوبے رہیں۔
شاہ ولی اللہ ، شاعر بھی تھے۔ انکی یہ شاعری فارسی میں ہے اس لئے میں اس میں سے کوئ انتخاب دینے سے قاصر ہوں۔
بہر حال اس تمام گفتگو سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس زمانے میں میسر علم اور اپنی دانش سے انہوں نے مسلمانوں کے اندر موجود خامیوں کو جانچنے اور انہیں دور کرنے میں خاصے تدبر سے کام لیا۔ اسی لئے کچھ لوگ انہیں حکیم الامت کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
حوالہ جات؛
حریت فکر کے مجاہد، مصنف وارث میر، جنگ پبلشرز
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید، انجمن ترقی اردو پاکستان
رود کوثر، مصنف شیخ محمد اکرام، ادارہ ء ثقافت اسلامیہ۔
المیہ تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی
المیہ تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی
.