Showing posts with label Nazima Talib. Show all posts
Showing posts with label Nazima Talib. Show all posts

Wednesday, April 28, 2010

ایک شہادت، ایک گواہی

آج اخبار کی اس اطلاع پہ مجھے شدید صدمہ ہوا کہ بلوچستان یونیورسٹی کی پچاس سالہ استاد کو جو وہاں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں۔ اور انکی مدت ملازمت کو تیئیس سال ہو چکے تھے۔ ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں قتل کردیا گیا۔ پروفیسر ناظمہ طالب رکشے میں سفر کر رہی تھیں کہ دو افراد  نےان پہ فائرنگ کی ۔  بلوچ لبریشن آرمی نے انکے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی۔ انکا کہنا ہے کہ بلوچی خواتین کے قتل اور ان پہ تشدد کے خلاف انہوں نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔ سر پہ دو گولیاں لگنے کی وجہ سے موقع پہ ہی ہلاک ہو گئیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون ایک شاعرہ بھی تھیں اور مختصر کہانیاں بھی لکھتی تھیں۔ انکی میت تدفین کے لئے کراچی روانہ کر دی گئ۔
میں نے ایک دفعہ گوادر کے مضافاتی علاقے میں ایک سولہ سترہ سالہ لڑکی سے پوچھا کہ تم نے چار جماعتوں کے بعد پڑھنا کیوں چھوڑ دیا۔ اس نے جواب دیا 'ابا نے منع کر دیا تھا'۔ 'پھر تم نے ابا سے کیوں نہیں کہا کہ میں اور پڑھوں گی اور علاقے سے کونسلر کا الیکشن لڑونگی اور ایکدن بلوچ  زبیدہ جلال کی طرح اسمبلی میں جا کر وزیر بنونگی'۔' ابا یہ سنے گا تو تھپڑ مارے گا'۔ 'کیوں اس بات پہ تھپڑ کیوں مارے گا'۔ 'اسے زبیدہ جلال بہت بری لگتی ہے'۔ 'اسے زبیدہ جلال کیوں بری لگتی ہے'۔ 'وہ کہتا ہے عورت کو یہ سب نہیں کرنا چاہئیے'۔ میں نے یہ جواب سننے کے بعد اس کو مزید سوالوں سے پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بلوچستان وہ علاقہ ہے جہاں ابھی ڈیڑھ سال پہلے  پانچ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ دفن کر دیا گیا۔ اور نہیں پتہ چلا کہ اس انسانیت سوز ظلم کا شکار ہونے والی وہ لڑکیاں کون تھیں۔  جس علاقے میں عورت کی یہ اہمیت اور عزت ہو۔ وہاں بلوچ لبریشن آرمی والے کس عورت پہ تشدد کے خلاف لڑ رہے ہیں یہ نہیں سمجھ میں آیا۔
ایک بے گناہ، استاد جیسے مرتبے پہ فائز عورت جو کسی اور شہر سے آپکے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے اپنے بچے کو چھوڑ کر وہاں ہوسٹل میں مقیم تھی۔ اسے قتل کر کے کس سے بدلہ لیا یہ بھی نہیں معلوم۔
بلوچستان، جو تعلیمی پسماندگی کا شدت سے شکار ہے، جہاں تعلیم یافتہ اور ہنرمند لوگوں کی شدید قلت ہے۔ جہاں اگر دیگر علاقوں سے لوگ نہ جائیں تو عالم یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی حجامت بھی نہیں بنوا سکتے کسی اور ہنر کی بات تو دور کی ہے۔ اس لئیے، یہ بھی نہیں معلوم کہ اس معصوم عورت کا قتل انکے سیاسی مقاصد کو کسقدر پروان چڑھائے گا۔
 مجھے تو یہ معلوم ہے کہ یہ ظلم ہے اور بہت زیادہ انسانیت سوز ظلم۔ یہ وہ ملک ہے جہاں ہر وقت اسلام کے نعرے بلند ہوتے ہیں جس میں حالت جنگ میں بھی ، دشمن کی عورتوں اور بچوں تک کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
یہ خبر مجھے روزنامہ ڈان  کے پہلے صفحے سے ملی۔
اخبار جنگ میں پہلے صفحے پہ شعیب اور ثانیہ سے متعلق دو خبریں موجود ہیں لیکن ایک استاد خاتون پہ اس بہیمانہ ظلم  کی یہ خبر پہلے صفحے پہ موجود نہیں۔ یہ ہیں ہماری ترجیحات۔
 پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر سینیٹر لشکری رئیسانی نے اس واقعے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی اسلام آباد میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اور وہ صوبے کے مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ 
وہ کیوں دلچسپی لیں گے۔ ہر ایک وہاں پیسے کمانے کے لئے گیا ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ پیسوں کی بندر بانٹ والے کسی لمحے سے وہ غیر حاضر نہ ہوں۔
 ۔
.
ایک پچاس سالہ استاد خاتون کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک اور سیاہ کارنامے کا اضافہ ایک اور دل دکھا دینے والا سانحہ۔



اس تصویر میں ڈاکٹرز پروفیسر ناظمہ طالب کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لئے تیار ہیں۔