ایک دفعہ میں نے اپنے سسر صاحب سے پوچھا، ابّی ، آپ کو امی کی کیا چیز اچھی لگی کہ آپ نے ان سے اس دور میں پسند کی شادی کی۔ جب والدین کی پسند کی شادیاں ہوا کرتی تھیں۔ اس پہ انہوں نے انکی کوئ خصوصیت بتانے کے بجائے کہا کہ میں نے اس وقت محسوس کیا کہ وہ میری سول میٹ ہیں یعنی روح کی ساتھی، اور مجھے ان سے شادی کرنی چاہئیے۔ ایک روح نے دوسری روح کو پہچان لیا۔
میں انکی زندگی میں بہت بعد میں آئ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ وہ اعتماد کے رشتے میں جڑے ہوئے تھے۔ شاید ہی کوئ بات ہو جو وہ ایک دوسرے کو نہ بتاتے ہوں، شاید ہی کوئ جگہ ہو جہاں وہ ایک ساتھ نہ جاتے ہوں۔ شاید ہی انکی زندگی میں کوئ ایسا شخص ہو جسے وہ دونوں نہ جانتے ہوں۔ وہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ تھے۔ اسکے باوجود کے ان دونوں میں عمومی اختلافات پائے جاتے تھے جو ہر دو انسان میں ہوتے ہیں۔ مگر وہ انکے تعلق کی گرہ پہ کبھی اثر انداز نہیں ہوئے۔
میری ساس اپنے وقت کی ذہین طالبہ، کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی ایک ورکنگ خاتون، زندگی میں بھی کامیاب رہیں۔ میرے عزیز اور دوست سب ان دونوں پہ رشک کرتے تھے۔ اور پھر مجھ پہ، ساس سسر اچھے ملے ہیں تمہیں۔ جب دیکھو ایک ساتھ، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے۔
کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ناکام مرد کے پیچھے کئ عورتوں کا ہاتھ۔ یہ عورت یا عورتیں کوئ بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن اگر خواتین کی کامیابی کا ایسا کوئ تصور ہو تو خواتین کی کامیابی صرف دو مردوں پہ منحصر ہوتی ہے۔ اور وہ ہیں انکے باپ یا شوہر۔
کامیاب مردوں سے ہٹ کر کامیاب عورتوں کے بارے میں معیار خاصے مختلف ہوتے ہیں۔ حسین عورت کامیاب ہے، ناز ادا دکھانے والی عورت کامیاب ہے، کسی کی نظر میں آنکھ کے آنسو کو منہ میں جمع کر کے رکھنے والی خاموش عورت کامیاب ہے، باپ، بھائ اور شوہر کی رضا پہ سر تسلیم کرنے والی عورت کامیاب ہے، بیٹوں کے اوپر راج کرنے والی عورت ، شوہر کو ہر جا و بے جا اخلاقی ہتھکھنڈوں سے کاٹھ کا الو بنا کر رکھنے والی عورت کامیاب ہے، جس عورت کو ساری زندگی کچھ نہ کرنا پڑے اور گھریلو یا کرائے کے خادم اسکی سبزی نما حالت کو برقرار رکھنے کے لئے کام کرتے رہیں وہ کامیاب ہے، سونے سے لدی پھدی عورت کامیاب ہے۔
خواتین کے ساتھ کامیابی کی کچھ ایسے ہی حکائیتیں ہیں۔
یہ حکائیتیں جن پہ اکثر مرد بڑی دلجمعی سے اپنی رائے دیتے ہیں۔ اتنی دلجمعی سے کہ رائے دیتے وقت اپنی ماءووں کو بھول جاتے ہیں اور بعض چاند سے رومانس کرنے والی سادہ یا حقائق سے نا آشنا خواتین مذہبی جوش و خروش کے ساتھ یقین رکھتی ہیں جب تک کہ انہیں اسی نا آشنائ میں خود کسی اندوہناک صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔
خیر، وہ عورتیں جنہیں ہم دنیا کے افق پہ چمکتے دیکھتے ہیں اور ایک عالم جنہیں جانتا ہے، کیا انہیں کامیاب کہنا چاہئیے یا نہیں؟ مثلاً اندرا گاندھی یا برما کی نظر بند سیاسی خاتون آنگ ساں سو کائ، بیگم بلقیس ایدھی یا ارون دھتی رائے، بے نظیر بھٹو یا مارگریٹ تھیچر ، قراۃ العین حیدر یا عصمت چغتائ، پروین شاکر یا ملکہ ء ترنم نورجہاں,۔
مجھے تو مصر کی ملکہ قلو پطرہ خاصی پسند آتی ہے ایک ایسے وقت میں جب بادشاہت صرف خاندان کے مردوں کا حصہ تھی اس نے سلطنت حاصل کی اور اسے قائم رکھا، ایک سحر انگیز ملکہ۔ بھوپال کی ولی عہد شہزادی عابدہ سلطان، حیران کن خاتون۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ایک عورت جو تہتّر شیروں کا شکار کر لے، لائیسنس یافتہ پائلٹ جو اپنی گاڑی کے ہر پرزے کو بدل سکتی ہو۔ خیر بھوپال کی کیا بات ہے، ہندوستان کی واحد ریاست جہاں یکے بعد دیگرے پانچ مسلمان خواتین کامیابی سےحکمراں رہیں۔ پانچویں خاتون نے برطانیہ کے بادشاہ کے آگے رو کر، بے ہوش ہو کر اس بات کو منوایا کہ اگلا حکمران اس کا پوتا نہیں سب سے چھوٹا بیٹا ہوگا۔ جھانسی کی رانی یا رضیہ سلطان، عزم اور ہمت کی داستان۔
اور اگر اسلامی تاریخ دیکھیں تو حضرت خدیجہ ایک کاروباری خاتون جو اپنی شادی کے لئے رشتہ دیتی ہیں اور نبی کو وحی کے وقت حوصلہ۔ حضرت عائشہ جنہوں نے جنگ بھی لڑی۔
میں روایت پسند ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف قورمے کی ترکیب کی حد تک۔ اگر کوئ قورمے میں دہی کی جگہ ٹماٹر ڈال دے تو اسے کڑاہی گوشت کہونگی قورمہ نہیں۔ اگر کوئ خاتون شیر کے شکار کی شوقین ہو تو کسی روایت پسند کی طرح اسے زن آزاد یا عورت نما مرد نہیں بلکہ چیلینج قبول کرنے والی مہم جُو خاتون کہونگی۔
میں مشرقی بھی ہوں لیکن صرف اتنی جتنا مشرق پسند ہے۔ یعنی محبوبہ کی گلی کے کتے سے راہ ورسم بڑھانا، سارے زمانے کو رازداں کرلینا، جب وہ سامنے آئیں تو عمران ہاشمی کی طرح تنہائ کا فائدہ بھی اٹھالیں اور پھر گھبراہٹ کے مارے بھاگ کر اماں کی پسند کی ہوئ شمائلہ کو خاتون خانہ بنا لیں۔ جتھے دا کھوتا اتھے آ کھلوتا۔ یہ گھبرایا ہوا ہیرو اور وہ الہڑ سادہ مٹیار۔ خاتون خانہ کا شرما کر کہنا اللہ وہ بہت اچھے ہیں اور سادہ مٹیار کا در فٹے منہ کہنا۔ آہ ، مشرق۔ آہ مشرق۔ مغرب میں یہ بات کہاں مولوی مدن جیسی۔
روایت، مشرق اور خواتین پہ یاد آیا کہ میرے ذاتی خیال میں، اس وقت بہترین روائیتی، مشرقی پاکستانی خاتون کی خصوصیات رکھنے والی، کوئ صاحبہ نہیں صاحب ہیں۔ اور وہ ہیں، ہمارے اور آپکے یوسف رضا گیلانی ۔ ان دونوں میں مماثلت نکالنا آپکا ہوم ورک ہے۔
آج کا دوسرا ہوم ورک۔ آج کی دنیا میں جبکہ خواتین ہر منظر پہ موجود ہیں اپنی پسندیدہ خاتون کا نام بتائیے۔ اس میں آپکی قریبی رشتے دار خواتین شامل نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ وہ کوئ بھی ہو سکتی ہیں، ہو سکتا ہے ہم انہیں نہ جانتے ہوں ، ایک تعارف آپکی طرف سے اس پہ ہم آپکے شکر گذار ہونگے۔ باقی ہم اندازہ کریں گے کہ وہ آپ کو کیوں پسند ہیں۔
فی امان اللہ۔