جب بابر نے ہندوستان فتح کیا تو اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہندوستان پہ حکومت کے لئے مذہبی رواداری ضروری ہے۔ اس نے ہمایوں کو جو وصیت کی وہ اس میں تفصیل سے اپنے بیٹے کو لکھتا ہے کہ یہاں مختلف المذاہب لوگ آباد ہیں۔ تم مذہبی تعصب کوہرگز اپنے دل میں جگہ نہ دو، گائے ذبح کرنے سے پرہیز کرنا اس سے تمہیں لوگوں کے دل میں جگہ مل جائے گی۔ کسی قوم کی عبادت گاہ مسمار نہیں کرنا۔ اسلام کی اشاعت ظلم و ستم کی تلوار کے مقابلے میں لطف و احسان سے بہتر ہو سکے گی۔ شیعہ سنی اختلافات ہمیشہ نظر انداز کرتے رہو کہ ان سے اسلام کمزور پڑے گا۔
اکبر اپنے ابتدائ دور میں سخت مذہبی تھا لیکن اس وقت بھی وہ صلح کل اور رواداری کا حامی تھا اور اسکی مذہبیت وسیع القلبی میں حائل نہ تھی۔ تخت نشینی کے کچھ عرصے بعد اسے ہی اسے علماء کی تشدد پسندی، دنیاداری، اور ظاہرداری سے نفرت ہو گئ اور اس نے یہ کوشش کی کہ علماء کے اقتدار اور اثر کو ختم کر کے اپنی طاقت مستحکم کرے۔ اس لئے اس نے اشتراک کی تحریک اور رجحان کو سیاسی تحفظ دیا۔
ملک گیری آسان، ملک رانی مشکل، اس نے ہندوءوں میں اعتماد پیدا کرنے کی غرض سے اور مذہبی رواداری کے لئے جزئیے کو ختم کیا ، ہندوءوں سے یاترا ٹیکس اٹھایا اور حکومت کے اقتدار میں غیر مسلموں کو برابر کی شرکت دی۔ مغلیہ نظام حکومت کا ممعمار اکبر تھا۔
اکبر کی مسلسل فتوحات اور اسکے کامیاب نظم و نسق کا راز، سب سے زیادہ ان امرا ء اراکین سلطنت کی قابلیت، فرض شناسی اور وفادری میں پنہاں ہے جو اکبر نے اپنے گرد جمع کر لئے تھے۔اکبر نے تمام اہم اعلی اسامیوں کے لئے ایک منصب داری نظام قائم کر دیا، جسکے اراکین ملک کی تمام اہم اسامیوں پہ فائز ہوتے تھے۔اچھی کارکردگی پہ انکی ترقی کے امکانات تھے اور وہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں تبدیل ہوتے رہتے تھے، انکے انتخاب اور تربیت پر بڑی توجہ ہوتی تھی۔
اکبر کا ایک ا اہم کارنامہ معاملہ ء زمین کا بندو بست تھا۔ جس کے لئے اس نے تجربے کار اور سمجھ دار اراکین جیسے ٹوڈر مل اور امیر فتح اللہ شیرازی سے کام لیا۔
اس نے علوم و فنون کی سر پرستی کی۔ اور ملک الشعراء کا عہدہ پہلی مرتبہ اکبر کے زمانے میں قائم ہوا۔
درباری مءورخ کا آغاز بھی اسی زمانے میں ہوا۔ مصوری اور موسیقی کی وسیع سرپرستی کی گئ۔ اکبر خود ان پڑھ تھا لیکن اہل علم کی قدر کرتا اور مشہور کتابیں باقاعدگی سے پڑھوا کر سنتا، حتی کے اس نے اپنی نا خواندگی کی تلافی اس طرح کی کہ دربار میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہو گیا اور دارلخلافہ ایک طرح کی اکیڈیمی بن گیا۔ ابو الفضل کا کہنا ہے کہ مشہور کتابوں میں شاید ہی کوئ ایسی ہو جو اکبر نے پڑھوا کر نہ سنی ہو۔
درباری مءورخ کا آغاز بھی اسی زمانے میں ہوا۔ مصوری اور موسیقی کی وسیع سرپرستی کی گئ۔ اکبر خود ان پڑھ تھا لیکن اہل علم کی قدر کرتا اور مشہور کتابیں باقاعدگی سے پڑھوا کر سنتا، حتی کے اس نے اپنی نا خواندگی کی تلافی اس طرح کی کہ دربار میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہو گیا اور دارلخلافہ ایک طرح کی اکیڈیمی بن گیا۔ ابو الفضل کا کہنا ہے کہ مشہور کتابوں میں شاید ہی کوئ ایسی ہو جو اکبر نے پڑھوا کر نہ سنی ہو۔
اکبر کی پالیسی کے دو پہلو تھے۔ ایک انتظامی اور سیاسی معاملات میں صلح کل کی پالیسی اور دوسرے مریدان شاہی اور دوسروں کے لئے قواعد و آئین کا وہ ملغوبہ جسے کچھ دین الہی کہتے ہیں لیکن بدایونی اور ابو الفضل آئین راہنموئ یا ارادت یا مریدی کا نام دیتے ہیں۔ دین الہی کی بنیاد عبادت خانے کی تلخ اور شر انگیز بحثوں میں رکھی گئ ۔
۔ابتداء میں تو اکبر کا یہ حال تھآ کہ علماء کو ایسے عہدے اور مقامات دئے کہ پہلے کبھی نہ ملے تھے۔ صدر الصدور سے حدیث سننے انکے گھر جاتا، شہزادہ سلیم کو انکی شاگردی میں دیا اور یہ حال ہوا کہ نماز با جماعت کی پابندی کیساتھ وہ اذان بھی خود دیتا، امامت کرتا اور مسجد میں اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتا۔ خواجہ اجمیر سے اتنی عقیدت تھی کہ سال بسال اجمیر جاتا، بلکہ بعض اوقات پا پیادہ گیا۔ پہروں مراقبے میں بیٹھا رہتا۔
شیخ سلیم چشتی کی ارادتمندی میں میں اس نے ایک عمارت انکی خانقاہ کے قریب بنا لی۔ جسکا نام عبادت گاہ رکھا گیا۔ جہاں ہر جمعے دربار خاص منعقد ہوتا اور خدا شناسی اور حق پرستی کی حکائیتیں اور روائیتیں بیان ہوتی تھیں۔
لیکن اسکے اسی ذوق نے اسے رستے سے ہٹایا اور انکا ایک باعث ان علماء اور فضلاء کی کمزوریاں تھیں جو ان مجلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ ہر شخص چاہتا تھآ کہ اپنی فضیلت اور دوسرے کی جہالت دکھاءووں جھگڑے کی وجہ بیٹھنے کی ترتیب ہی ہو جاتی تھی۔
بادشاہ کا دل کھٹآ ہو گیا۔ اس نے کہا جو کوئ نامعقول باتیں کرے اسے محفل سے اٹھا دیا جائے۔ ملا بدایونی کو اس کام پہ مامور کیا گیا۔ ملا صاحب نے چپکے سے بادشاہ کے کان میں کہا کہ اس طرح تو بہتوں کو اٹھنا پڑے گا۔بادشاہ اس جملے سے خوش ہوا اور سب کو یہ الفاظ سنا دئیے۔
اگر معاملہ ذاتی فضیلت جتانے اور ایکدوسرے کی تذلیل و تکفیر تک رہتا تب بھی شاید اکبر اسلام سے بد ظن نہ ہوتا لیکن علماء نے اہم مسائل پہ اس طرح اختلاف کیا کہ بادشاہ حیران رہ گیا۔ ایک عالم ایک چیز کو حلال کہتا دوسرا اسکے حرام ہونے کا فتوی دیتا تھا ۔ بادشاہ نہ صرف دونوں سے بد ظن ہوا بلکہ حال اور حرام کا بھی تعین اس میں نہ رہا۔
ایک مزیدار مثال آتی ہے۔ بادشاہ کی چار سے زائد بیویاں تھیں۔ عبادت خانے میں تعدد ازواج زیر بحث آیا تو بادشاہ کو خیال آیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی بیوی کو رخصت کئے بغیر دین کی پاسداری ہو جائے۔ دو نے متعہ کا راستہ دکھایا، جسے دوسروں نے حنفی طرقے کے متصادم قرار دیا۔ اس پہ بدایونی نے کہا کہ اگر ایک مالکی قاضی اسکے حق میں اپنے اصول کی رو سے فتوی دیدے تو ایک حنفی کے لئے بھی متعہ جائز ہو جاتا ہے۔ یہی تو بادشاہ کو چاہئیے تھا۔ حنفی قاضی رخصت ہوئے اور مالکی قاضی آ گئے۔ سب فرقوں اور طریقوں کے عالم آگئے اور شیعہ، سنی، صوفی، مہدوی خیالات اور اختلافات بادشاہ کے سامنے آئے۔
حتی کہ بعض علماء سے عاجز آکر اکبر نے انہیں سزائے موت تک دی۔ عبادت خانوں کی بحثوں کے زیادہ دلچسپ قصے بدایونی کی تاریخ میں ملتے ہیں ابوالفضل نے بھی اسکے متعلق ایک باب اکبر نامے میں لکھآ ہے۔
مختلف واقعات سے گذر کر ایک وقت ایسا آیا کہ کہ شیخ مبارک نے بادشاہ کو کہا کہ بادشاہ خود امام وقت اور مجتہد روزگار ہے اور وہ اجتہاد کا دعوی کرے اور علماء سے محضر طلب کرے۔ آیتوں اور اسناد سے اس مضمون کا ایک محضر ترتیب دیا گیا، علماء کا اجلاس ہوا اور بحث و تمحیص کے بعد اس محضرپہ علماء کی مہریں ثبت ہوئیں۔
محضر میں اس بات کو بیان کر دیا گیا تھا کہ بادشاہ کو مجتہدین اور علماء سے انہی امور میں زیادہ اختلافات ہونگے جو نص شرعی کے مخالف نہ ہوں اور عوام کی خوشحالی کا باعث ہوں۔
لیکن عملی طور پہ ایسا نہ ہو سکا۔
جب ہندو، جینی اور پارسی سادھو اور اہل علم مذہبی مجالس میں شریک ہوئے تو ان میں سے بعض نے اسے جگت گرو کہنا شروع کیا اور اپنی کتابوں سے ثابت کیا کہ وہ اقوام و ادیان کے اختلافات مٹائے گا۔ خوشامدیوں نے حمایت کی اور بادشاہ نے لوگوں کو مرید کرنا شروع کیا۔ اس بناء پہ افواہیں اڑیں کہ اکبر نبوت کا دعویدار ہے۔ بدایونی بھی جو آخر عمر میں اکبر کے مذہبی خیالات کا سب سے بڑا مخالف ہو گیا تھا۔ اکبر سے دعوی نبوت منسوب نہیں کیا۔
اکبر اور اسکے خوشامدیوں نے جو نظام ترتیب دیا انگریز مءورخین اسے دین الہی کا نام دیتے ہیں لیکن ابو الفضل جو اس طریقے کا خلیفہ ء اعظم تھا یہ نام استعمال نہیں کرتا بلکہ اسے آئین اکبری یا آئین راہنموئ کے تحت درج کرتا ہے۔
حوالہ جات؛
کتب؛
المیہ تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی
رود کوثر، مصنف شیخ محمد اکرام