اقبال کہتے ہیں کہ
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشہ کرے کوئ
ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا کرے کوئ
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئ
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پہ کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئ
اس سے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دیکھنا بھی کئ طرح کا ہوتا ہے۔ ظاہری آنکھ سے دیکھنا بس چیزوں کی ظاہریت پہ سے گذر جانے کا نام ہے یعنی تماشہ کرنے کے برابر ہے۔ ایسا دیکھنا جو کہ دکھائ دینے والی چیزکے اندر سے تعلق جوڑ دے اسے دل کی آنکھ سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اور اندر کو دیکھنے کے لئے بڑی طاقت اور برداشت ہونی چاہئیے۔اس میں ہماری عقل بصارت اور عشق بصارت بھی شامل ہے۔ محض اڑے رہنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا
آئنسٹائن نے انیس سو پانچ میں نظریہ اضافت مخصوصہ کے بارے میں اپنا نکتہ ء نظر پیش کرکے لفظ دیکھنے کو ایک نئ جہت دی۔ اس نظرئے کے سائنسی پس منظر سے ہٹ کر اسکی کئ فلسفیانہ اور سماجی تشریحات کی گئیں۔اضافیت مخصوصہ سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ تجربات، واقعات اور ثقافت کے کچھ عناصر کا انحصار دوسرے عناصر پر بھی ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک ہی واقعہ دو لوگ مختلف طرح سے دیکھتے ہیں۔
جیسے یہ ہمارے روزمرہ کے بیانات ہیں،
یہ آپکے لئے صحیح ہو سکتا ہے میرے لئے نہیں۔
خوبصورتی دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے۔
آپ دوسروں کی ثقافت کو اپنے معیار سے نہیں جانچ سکتے۔ اس لئے کبھی کبھی یہ بھی سنائ دیتا ہے کہ مطلق سچائ کوئ چیز نہیں۔ سچ بھی کچھ دوسری حقیقتوں کے تعلق سے جڑا ہوتا ہے۔ کیا سچ بھی ایک اکتسابی علم ہے۔ یہ ایک دلچسپ بحث ہو سکتی ہے۔
دنیا کی مختلف ثقافتوں کا ایک تقابلی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ کسطرح ایک ثقافت میں رائج العام چیز دوسری ثقافت میں اپنے ماحول اور ضروریات کے حساب سے ایک بالکل تناظر میں لی جاتی ہے۔
ایک دلچسپ مثال اسکیمو ہیں جو دنیا کے سرد ترین مقام انٹارکٹیکا میں رہتے ہیں۔ یہ سارا سال برف سے ڈھکے رہنا والا وہ مشکل مقام ہے جہاں میلوں آبادی کے آثار نہیں ہوتے۔ اسکیمو برف کے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں جنہیں اگلو کہا جاتا ہے۔اگر انکے پاس کوئ مسافر بھٹکتا ہوا پہنچ جائے تو وہ اسے گرم کمرہ، کھانا پینا اور وقت گذارنے کے لئے اپنی بیوی بھی دیتے ہیں۔
یوں تو خواتین کے پردے کے بارے میں خاصی بحث ہوتی ہے مگر ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ افریقہ میں ایک قبیلہ ایسا بھی ہے جہاں مرد پردہ کرتے ہیں۔ خود ہماری داستانوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکے بے مثال حسن کی انسانی نظر تاب نہ لا سکتی تھی اس لئے وہ ہمہ وقت ایک نقاب پہنے رہتے تھے۔ اس لئے غالب نے فرمایا کہ
سب رقیبوں سے ہوں ناخوش پر زنان مصر سے
ہیں زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعا ں ہو گئیں
خیر اس تحریر کا مقصد اس وقت مختلف ثقافتی اختلافات اور انکی وجوہات پہ غور کرنا نہیں۔ یہ میں اپنے قاری کی صوابدید پر چھوڑتی ہوں کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا سے ایسی مثالیں نکالیں اور انکی ممکنہ وجوہات تلاش کریں۔
دانشوروں کا کہنا ہے کہ غیر جانبدار نظرایک امر محال ہے۔ لیکن اسکے ساتھ ہی ساتھ اگر انسان دنیا کو جیسی وہ ہے اسی طرح دریافت کرنا چاہتا ہے تو اسےہر قسم کےذہنی اور فکری تعصبات حتی کہ بعض جگہ اپنے آپ کو بھی الگ کر کے سوچنا پڑے گا۔ شاید اسے ہی مراقبہ کہتے ہیں۔ جس کے بعد گوتم بدھ کو نروان حاصل ہوا۔
ہم واپس اپنے موضوع یعنی دیکھنے کی طرف آتے ہیں۔ ایک چیز نظر بندی کہلاتی ہے۔ سامنے چیز موجود ہوتی ہے مگر نظر نہیں آتی۔ اسی کے لئے شاید یہ محاورہ بنایا گیا کہ
بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا۔ اسکی مثال دیکھنا ہو تو ایچا کی پینٹنگز دیکھنا پڑیں گی۔ میرا اندازہ ہے کہ اس ڈچ نژاد مصور کا نام اردو میں شاید اسی طرح لکھا جائے۔



آخری تصویر جسکا نام ہے بارہ گھڑسوار، اس میں اگر ہم میں سے کچھ لوگ پہلی نظر میں ایک طرف جاتے ہوئے گھوڑے دیکھتے ہیں اور کچھ دوسری طرف جاتے ہوئے۔ جبکہ کچھ پہلی ہی نظر میں دونوں طرح کے گھوڑے دیکھ لیتے ہیں۔ درمیانی تصویر کا نام ہے۔
Escher's relativity
اس تصویر میں مختلف جہتوں میں جاتی ہوئ سیڑھیاں نظر آ رہی ہیں۔ جن پر لوگ بھی موجود ہیں۔ مختلف جہتوں میں جانےوالے لوگوں کو ایک ہی فریم میں موجود چیزیں ایک جیسی نہیں نظر آئیں گی یہ تو ہم اندازہ کر سکتے ہیں۔ لیکن مشکل بات یہ ہوتی ہے کہ ہم ایک جہت کی سیڑھیاں چلنے کے بعد اگر دوسری جہت کی سیڑھی پہ قدم رکھیں تو ہمیں کتنا وقت لگے گا کہ ہم پچھلی جہت کے سمتی اثر سے باہر نکل پائیں اور اگر ہمیں دوسری جہت کی سمت کی سیڑھیاں چلنے کا طبعی موقع نہ مل پائے تو کیا ہم اتنی اہلیت رکھتے ہیں کہ محض اپنے تخیل سے اس دوسری جہت میں جاکر اسی فریم کو اس جہت کے حساب سے دیکھ سکیں۔
اس موضوع پر ایک اچھی بحث ممکن ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اپنی زندگی سے یا اپنے سنے ہوئے قصوں کو اس میں شامل کر سکتے ہیں۔ جب تک میں بلھے شاہ کی کافی سنتی ہوں۔ بلھے شاہ کی جاناں میں کون۔
ریفرنس؛
البرٹ آئنسٹائن
Albert Einstein (pronounced /ˈælbərt ˈaɪnstaɪn/; German: [ˈalbɐt ˈaɪ̯nʃtaɪ̯n] ; 14 March 1879 – 18 April 1955) was a theoretical physicist. He is best known for his theories of special relativity and general relativity. Einstein received the 1921 Nobel Prize in Physics "for his services to
Theoretical Physics, and especially for his discovery of the law of the photoelectric effect."
نظریہ ء اضافت مخصوصہ کے بارے میں مزید معلومات مندرجہ ذیل لنکس پہ مل سکتی ہے
The theory is termed "special" because it applies the principle of relativity only to frames in uniform relative motion. The term often refers to truth relativism, which is the doctrine that there are no absolute truths, i.e., that truth is always relative to some particular frame of reference, such as a language or a culture. Another widespread and contentious form is moral relativism.
افریقہ میں موجود قبائل جہاں مرد پردہ کرتے ہیں انکے بارے میں تفصیلات اس کتاب میں موجود ہیں۔
Veiled Men, Red Tents, and Black Mountains The Lost Tomb of Queen Tin Hinan Series: Adventure & Exploration - 70 ISBN: 1-58976-206-1 |
ایچا کا تعارف
http://www.math.wichita.edu/history/men/escher.html
Maurits Cornelis Escher (17 June 1898 – 27 March 1972), usually referred to as M.C. Escher (Dutch pronunciation: [ˈɛʃə] was a Dutch-Frisian graphic artist.