Showing posts with label تحقیق. Show all posts
Showing posts with label تحقیق. Show all posts

Friday, April 6, 2012

ایک نوحہ

پورے ایک سال گذرنے کے بعد مجھے داءود انجینیئرنگ کالج کراچی سے خط ملا کہ وہ جو آپ نے سال بھر پہلے ہمارے اشتہار کے سلسلے میں درخواست بھیجی تھی لیکچرر شپ کے لئے، اسکے انٹرویو ہو رہے ہیں آپ آجائیے۔
مقررہ تاریخ پہ صبح ساڑھے آٹھ بجے ہم وہاں موجود تھے۔ گھنٹہ بھر انتظار کے بعد اطلاع ملی کہ ابھی تھوڑی دیر میں ایک تحریری امتحان ہو گا۔ ممتحن آجائیں تو آپکو بلاتے ہیں۔ اسکے دو گھنٹے بعد پتہ چلا کہ ٹیسٹ کا ارداہ موقوف ہو گیا ہے۔ اب صرف انٹرویو ہونگے۔ انٹرویو بورڈ کے سارے ارکان آجائیں تو انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوگا۔
 سہانی صبح ڈھل چکی نجانے کب تم آءوگے۔
دن کے دو بجے ہم سب امیدوار دھوپ سے بھرے لان میں بیٹھے، آتی ہوئ کھانوں کی ان قابوں کو دیکھ رہے تھے جو اس کمرے میں جارہی تھیں جہاں انٹرویو ہونا تھا۔ دن کو تین بجے پہلا امیدوار اندر طلب ہوا۔ پون گھنٹے بعد وہ باہر نکلا پندرہ منٹ کے بعد دوسرا امیدوار طلب ہوا۔ ہم وہاں پہ کوئ پندرہ لوگ موجود تھے۔
میں نے ایک آسان سا حساب کیا کہ شام کو پانچ چھ بجے تک کیا صورت حال ہوگی۔  میری توقع کے مطابق شام کو پانچ بجے دو امیدواروں کے انٹرویو کے بعد ہمیں اطلاع دی گئ کہ آج انٹرویو ختم کئے جاتے ہیں  اسکی نئ تاریخ سےآپ کو جلد آگاہ کیا جائے گا۔
تین سال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے بعد وہ نئ مبارک تاریخ آئ۔ ایک دفعہ پھر امیدوار وہاں موجود ، اس دفعہ پہلے سے کم۔ کچھ اس دوران دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے ہونگے۔ یہ کوئ محبوب کی زلف تو نہ تھی کہ اسی کو سر کرنے میں گذار دیتے۔
 ایک دفعہ پھر یہ پیغام کہ ابھی ایک تحریری ٹیسٹ ہوگا۔  لیکن اس دفعہ ریکارڈ توڑنے یا  رکھنے کے لئے ہمیں ڈھائ گھنٹے کے بعد  ٹیسٹ کے لئے بلا ہی لیا گیا۔ ٹیسٹ لینے والے نے پوچھا آپ سب کے پاس کاغذ اور قلم ہے۔ سب کے پاس قلم تھے لیکن ایسا کوئ معتبر کاغذ نہ تھا جس پہ ٹیسٹ دیا جا سکے۔ ہم سب بےوقوفوں کو کالج کی اس غربت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ ہم نے اپنے آپ تف بھیجی اور شرمندگی سے سرجھکا دئیے۔ انہوں نےطنزیہ مسکراہٹ سے ہمیں ذلیل کرتے ہوئے کہا اچھا انتظار  کریں آپکو کاغذ فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ہم سب کو ایک ایک کاغذ دیا گیا۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
اب آگے ہنسنا منع ہے کیونکہ اسکے بعد ان صاحب نے کہا ایسا ہے کہ میں  کچھ سوالات املا کرا دیتا ہوں وہ آپ اپنے پاس لکھ لیجئیے۔ پھر انہوں نے چار سوال املا کرائے۔ فی البدیہہ املا کرائے جانے والے سوالات میں غلطیاں تھیں جن کی نشاندہی پہ متعلقہ صاحب نے انتہائ بڑکپن کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں تبدیل کر دیا۔ ایسی بڑائ کی تعریف کرنا بے جا نہیں۔
آدھ گھنٹے بعد ہم سے کاغذ ، معاف کیجئیے گا ٹیسٹ پیپر لینے کے بعد ہمیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ بعد کے واقعات سے یہ بد گمانی پیدا ہوتی ہے کہ ان ٹیسٹ پیپرز کو ہمارے نکلتے ہی کوڑے دان میں ڈال دیا ہوگا۔ کمزور اور حقیر لوگ بد گمانیوں کا جلد شکار ہوتے ہیں۔
 کراچی میں چالیس ڈگری کی گرمی میں ایک دفعہ پھر ہم بنجر لان میں بیٹھے انٹرویو کی پکار کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک دفعہ پھر کھانے کی قابیں اندر جا رہی تھی۔ اس دفعہ یہ ہانڈیاں تھیں۔ منتظمین کو ہانڈیوں سے فراغت پانے میں شام کے چار بج گئے۔ 
میں اٹھی اور کلرک کے پاس گئ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ میں اپنے گھر فون کر کے اطلاع کر دوں کے میں دیر سے آءونگی، میں اپنا موبائل فون گھر بھول آئ ہوں۔ ہاں ہاں کیوں نہیں۔ وہ مجھے سازش کر کے اس کمرے میں لے گیا جہاں بورڈ کے ارکان انٹرویو لینے کے بہانے موجود پاکستان کا مطلب کیا، ھذا من فضل ربی بتا رہے تھے۔ کلرک ذہنیت ایسی ہی ہوتی ہے خود سامنے آکر کچھ نہیں کرتے بس سازشیں کرتے ہیں یا سازش کرنے والے کا ساتھ دیتے ہیں۔
کمرے میں اس وقت تک مرغن کھانوں کی خوش بو بھری ہوئ تھی۔ ایسا نہیں کہ میرا دل جلانے کے لئے اس خوشبو کو وہاں قید کر کے رکھا گیا تھا۔ وجہ یہ تھِی کہ ایئر کنڈیشنڈ چلنے کی وجہ سے یہ خوشبو باہر نہیں جا سکتی تھی۔ کمرہ ایک دم جنت نظیر محسوس ہو رہا تھا۔  یہ صرف اس منحوس ایئر کنڈیشنڈ کی وجہ سے تھا ورنہ نہ وہاں حوریں تھیں اور نہ شہد کی نہریں۔ اس خوشبو سے مجھے اپنے پیٹ میں ہونے والی گُڑ گُڑ کی آواز آئ۔ یہ اس پانی کی تھی جو میں کئ گھنٹے سے چالیس ڈگری کی گرمی کی شدت کو لان کے ایک سوکھے درخت کے نیچے بیٹھ کر کم کرنے کے لئے پی رہی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ پانی کیوں پیٹ میں گڑ گڑ کرتا ہے اور کھانا نہیں کرتا۔
میری حیرانی دیکھئیے، وہاں میرے وہ بلند باتیں کرنے والے سینیئر اساتذہ بھی موجود تھے جن سے میں نے پڑھا تھا۔  خوش گپیاں چل رہی تھیں۔بروٹس  یو ٹو۔ میں نے اپنی حیرانی کو چھپانے کے لئے منہ پھیر لیا۔  یہ وہ لوگ ہیں جو باہر کی دنیا میں اس کرپشن کا رونا روتے ہیں جو یہاں فرشتے عالم بالا سے آکر کرتے ہیں۔ ان دس لوگوں میں سے کوئ ایک شخص ایسا نہیں تھا جسے احساس ہو کہ وہ وہاں کس کام کے لئے موجود ہیں۔
شام کو ساڑھے پانچ بجے کلرک نے باہر آکر اعلان کیا کہ انٹرویو ملتوی کر دئے گئے ہیں نئ تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ میرے اس دن کا اختتام سن اسٹروک پہ ہوا۔ وہ رات میں نے بخار اور الٹیوں میں گذاری۔
 سات سال، سات سال سے زائد عرصہ گذر گیا۔ اسکی نئ تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ کیا داءود انجینیئرنگ کالج میں ان سات سالوں میں کوئ کیمسٹری کا ٹیچر پڑھا نہیں رہا۔ کیا واقعی؟
خیر جناب، داءود انجینیئرنگ کالج تو بے حد خراب ریپوٹیشن رکھنے والا کالج ہے۔ آئیے کراچی شہر کی سب سے مایہ ناز انجینیئرنگ یونیورسٹی کی طرف۔ جہاں ہمارے شہر سے انٹر میں پاس ہونے والے طالب علموں کی کریم داخلہ لیتی ہے۔ جن کا چناءو بہترین رزلٹ اور داخلہ ٹیسٹ میں بہترین کارکردگی کے بعد ممکن  ہوتا ہے۔ کیا سوچتا ہوا گا ایک طالب علم کس قدر شاندار دنیا میں قدم رکھنے والا ہے وہ۔ 
اخبار میں اشتہار آیا کہ انہیں ایک اسسٹنٹ پروفیسر چاہئیے۔ ماسٹرز ہونے کی صورت میں چار سال کا تدریسی تجربہ، پی ایچ ڈی ہونے کی صورت میں کوئ تجربہ درکار نہیں۔ میں نے بھی اپلائ کر دیا۔ پی ایچ ڈی ہوں، ڈیڑھ سال کا تدریسی تجربہ بھی ہے۔ اور بین الاقوامی جرنلز میں چھپے ہوئے  مقالے بھی۔ ایک مضبوط پس منظر، میں نے بےوقوفی سے سوچا۔
چند ماہ بعد خط ملا کہ اس سلسلے میں تحریری امتحان ہوگا۔ تاریخ مقررہ پہ گئے۔ کمرہ ء امتحان میں امیدواروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان میں سے تین چار لوگ پی ایچ ڈی بھی تھے لیکن ان میں سے کسی کے پاس تدریسی تجربہ نہیں تھا۔ میں نے سوچا  اب بھی میرا پلہ بھاری ہے۔ ٹیسٹ کے لئے چھپے ہوئے پرچے ملے۔ اسے حل کیا۔ ٹیسٹ بھی اچھا ہوا تھا۔
میں خوش خوش واپس آگئ۔ کافی مہینے گذر گئے کوئ اطلاع نہیں۔ این ای ڈی سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر استاد سے معلوم کیا تو کہنے لگے کہ اپائینٹمنٹس تو کب کے ہو گئے۔ میرا دل ٹوٹا، انہیں انٹرویو کے لئے تو بلانا چاہئیے تھا۔ آخر انہوں نے امیدواروں کی شارٹ لسٹنگ تو کی ہوگی۔ محض تحریری امتحان کے بعد ہی تو اپائنٹ نہیں کر لیا ہوگا۔ 
پھر ذرا اور خبر لی تو معلوم ہوا کہ کراچی یونیورسٹی میں تدریس کے دوران ایک خاتون کو لیگ  تھیں میری جن کی نالائقیوں کا انکے طالب علم ہمیشہ رونا روتے نظر آتے۔ ان کا اپائینٹمنٹ ہو گیا ہے۔ یہ خاتون ایم فل تھیں یعنی نان پی ایچ ڈی۔ انکے پاس کوئ بین الاقوامی پبلی کیشن نہیں تھی۔ ایسا کیسے ہو گیا میں نے ان سینیئر ساتھی سے، جو اب مرحوم ہو چکے ہیں پوچھا۔ کہنے لگے میں نے معلوم کیا تھا۔ پتہ چلا کہ ہم پی ایچ ڈی کو رکھ کر کیا کریں گے۔ ہمارے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ ماسٹرز ہیں اور ایک اتنے زیادہ پڑھے لکھے شخص کو رکھ لیں تو ایک مصیبت ہو گی۔ ہمیں ڈپارٹمنٹ چلانا ہے۔ بھئ ہمیں تو اسٹوڈنٹس کو ہلکی پھلکی کیمسٹری پڑھوانی ہے یہاں کوئ تحقیقی کام تھوڑی کروانا ہے۔
ایچ ای سی کس ملک کی یونیورسٹیز کے لئے قوانین وضع کرتی ہے یہ نہیں معلوم۔
داءود انجیئرنگ کالج تو ویسے بھی سیاسی جماعتوں کا اکھاڑہ ہے کسی گنتی میں نہیں۔ لیکن این ای ڈی انجینیئرنگ یونیورسٹی کراچی بھی ایچ ای سی کی اس فہرست میں شامل نہیں جو ملک کی دس بہترین یونیورسٹیز ہیں۔ 
کیا یہ مکافات عمل ہے؟
کیا یہ  میری بد دعا ہے؟
یہ ان میں سے کوئ چیز نہیں۔ لیکن ہمارے تعلیمی ادروں کے کرتا دھرتاءوں کے منہ پہ ایک طمانچہ ہے جو لکھ کر دیا گیا ہے۔ کیا اسکی شدت کسی کو محسوس ہو گی۔ جی نہیں، کسی کو نہیں ہوگی کیونکہ یہ سارے کرتا دھرتا جانتے ہیں کہ کسی میں ہمت نہیں کہ ان سے سوال کر سکے۔ کون کرے گا ان سے سوال وہ جو خود مفاد پرستی کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں۔ ایک ننگا دوسرے ننگے سے کیا پوچھے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی اپنی سطح پہ ہر ادارے کو کرپشن کے لحاظ سے پاکستان بنایا ہوا ہے۔ جو حشر پاکستان کا ہے وہی ان اداروں کا۔ 
میں تو صرف یہ سوچ رہی ہوں کہ مجھے این ای ڈی انجینیئرنگ یونیورسٹی سے ہمدردی کرنی چاہئیے یا انکے لئے دعا کرنی چاہئیے۔

Monday, October 3, 2011

ستارہ کھوپڑی

بچوں کے ساتھ پڑھنا ایک خاصہ دلچسپ عمل ہوتا ہے۔   میں اپنی بچی کے ساتھ  ہر ہفتے آنے والا  بچوں کا میگزین ینگ ورلڈ پڑھ رہی تھی۔ اور اس میں سے جو چیزیں انکی سمجھ آ سکتی تھیں انہیں آسان الفاظ میں ڈھال رہی تھی۔ اس پہ موجود ڈرائینگز  انکو دکھائیں کہ وہ اس میں سے کیا کیا چیزیں بنا سکتی ہیں۔
صفحے پلٹتے ہوئے میری نظر ایک مضمون پہ جا پڑی۔ دی اسٹار اسکل۔ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں۔ سنییں، دیکھیں اور پڑھیں۔ لیکن ستارہ کھوپڑی۔ یہ کیا جادو نگری ہے۔
عنوان ایسا تھا کہ میں اسے پڑھنے لگی یہ ایک بچے کی کھوپڑی کے بارے میں تھا جو میکسیکو کے آس پاس کہیں سے ملی۔ پھر ماورائ  ریسرچ کرنے والے اداروں تک پہنچی اور اس مضمون کے مطابق ایک ماورائ تحقیق سے متعلق تحقیقداں    نے یہ کہا کہ یہ کھوپڑی نو سو سال پہلے اس علاقے میں رہنے والے ایک بچے کی ہے۔ جس کے ساتھ پائے جانے والی کھوپڑی غالباً اسکی ماں کی ہے۔

اس کھوپڑی یں دلچسپی اس وقت بڑھی جب اندازہ لگانے والوں نے اسے ایک ایسے بچے کی کھوپڑی قرار دیا بچہ جو  کسی غیر زمینی مخلوق سے تعلق رکھتا ہے۔ امکان ہے کہ یہ مکمل طور پہ ایلیئن مخلوق نہیں بلکہ انسانی عورت کے ساتھ ایلیئن مخلوق کے رابطے سے اس نے جنم لیا۔ اسکی وجہ اس کھوپڑی کی ساخت میں بے انتہا توازن یا ہم شکلیت یعنی جسے ہم انگریزی اصطلاح میں کہیں کہ سمِٹری ہے۔اسکے علاوہ بقول انکےاسکے  ڈی این اے میں بھی غیر زمینی مخلوق کے آثار ملتے ہیں۔ مزید تحقیقات جاری ہیں۔ مضمون اس پِغام کے ساتھ ختم ہوا۔ میرے اندر کا بچہ اسے پڑھ کر ایک پر اسرار دنیا کے دھندلکوں میں کھو گیا۔
غیر زمینی مخلوق کی مغربی معاشرے میں وہی حیثیت ہے اور لوگوں کی اس میں وہی دلچسپی ہے جو ہمارے معاشرے میں جنات، بھوت یا آسیب کی ہے۔ یہ الگ بات کہ مغرب اپنے اس خیال کو اتنی عزت دیتا ہے کہ اس پہ تحقیقیاتی رپورٹس بھی بنتی ہیں فنڈ بھی خرچ ہوتا ہے۔  جبکہ ہمارے جنات اور آسیب بس توہمات کے کارخانے کی پیداوار رہ جاتے ہیں۔  امیروں کے وہم بھی اپنی ایک شان رکھتے ہیں۔
اپنے اندر کے بچے کو جھٹک کر ایک طرف کیا جو چاند کو پکڑنا چاہتا ہے، بادلوں کے تعاقب میں رہتا ہے، تتلیوں کی طرح اڑتا ہے اور ماورائ کہانیوں سے خوش ہوتا ہے۔ یہ معلومات میرے لئے خاصی مشکوک تھیں۔ ایک انگریزی اخبار میں ایسی غیر معیاری تحریر کیسے وہ بھی بچوں کے حصے میں؟
انگریزی کا اپنا ایک رعب ہوتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ انگریزی مواد کو چھاننا پھٹکنا آسان ہوتا ہے۔ اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں یہ حد سے زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ اس لئے غلطی کی توقع کم ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک دو روز بعد جب وقت ملا تو اسٹار اسکل کو نیٹ پہ چیک کیا۔
پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے اسٹار اسکل کا نام کیوں دیا گیا؟
اس لئے کہ عہد قدیم سے یہ خیال موجود ہے کہ  سیارہ زمین کے علاوہ کائینات میں کہیں کوئ اور مخلوق موجود ہے جو زمین پہ آتی جاتی ہے۔ اپنی اس آمدو رفت کے دوران وہ یہاں زمینی انسان سے رابطہ کرتی ہے۔ کچھ خواتین اس مخلوق کی وجہ سے حاملہ بھی ہوجاتی ہیں۔ 
چونکہ خیال یہ تھا کہ یہ مخلوق کہیں ستاروں سے آتی ہے اس لئے یہ  بچہ اسٹار چائلڈ اور یہ کھوپڑی، اسٹار اسکل کہلائ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مخلوق جب انکے بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہیں تو ایکدن انہیں واپس لیجاتی ہے۔ کیوں لیجاتی ہے یہ نہیں معلوم۔
 اس ستارہ کھوپڑی والے بچے کی ایک عام پسندیدہ کہانی یوں بنتی ہے کہ اسکی زمینی ماں نے اسے اس مخلوق کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے بچے کو زہر دے دیا اور آخیر میں خود بھی خود کشی کر لی۔ بچے کے پاس پائے جانے والی دوسری کھوپڑی اسکی ماں کی ہے۔
یہ مغربی لوک کہانی کا ٹیکنالوجی کے زمانے سے ملن کی ایک عمدہ مثال ہے۔



وکیپیڈیا کے مطابق اس قسم کی ساری معلومات کی حیثیت ایک اندازے سے زیادہ نہیں وہ بھی ایک خاص طبقے کی طرف سے ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ بچے کا سر اپنی عمر کے حساب سے اس لئے زیادہ بڑا ہے کہ وہ پیدائیشی طور پہ کسی جینیاتی بیماری میں مبتلا تھا جیسے ہائیڈرو سفالس۔ اس بیماری میں سر میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے سر کی ہڈیاں پھیل جاتی ہیں اور سر نارمل جسامت سے بڑاہو جاتا ہے۔
  اسکا ڈی این اے چیک کیا گیا جو قطعی انسانی ڈی این اے ہے۔ اس میں باپ کی طرف سے وائ کروموسومز اور ماں کی طرف سے ایکس کروموسومز موجود ہیں یعنی وہ ایک لڑکا تھا۔ مزید تحقیق کے لئے اسکا مائ ٹو کونڈریا چیک کیا گیا۔ یہ مائ ٹو کونڈریا وہ اطلاعات رکھتا ہے جو ماں کی طرف سے آتی ہیں۔ مائ ٹو کونڈریا  پہ تحقیقات ایک انسان کا وہ سلسلہء نسب بتاتی ہیں جو ماں سے چلتا ہے۔ ماں کی ماں اور پھر اسکی ماں۔ ہمم,  قدرت عورت کے لئے ایک ترجیح نہیں رکھتی؟
:)
  کسی انسان کی ابتداء کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے اس مائ ٹوکونڈریا کو چیک کیا جاتا ہے۔ اسکے ذریعے انسانوں کے گروہوں کے ابتدائ علاقے کا اندازہ ہوتا ہے۔ یوں انکی گروہ بندی ہوتی ہے۔ یہ بچہ اس گروہ بندی میں گروہ ہیپلو گروپ سی میں شامل ہے۔ جبکہ اسکے ساتھ پائے جانے والی عورت کا گروپ, ہیپلو گروپ اے ہے اسکا مطلب وہ اسکی ماں نہیں ہے۔ یہ دونوں گروہ ہیپلو سی اور ہیپلو اے قدیم امریکی باشندوں کے ہیں۔
لیکن اب بھی لوگوں کا ایک گروہ اس بات کا منتظر ہے کہ کسی طرح یہ بچہ ایک غیر زمینی، خلائ مخلوق ثابت ہو جائے۔
مشرق ہو یا مغرب لوگوں کے بنیادی جذبات، احساسات، توقعات، خوشیاں، خوف اور وہم کتنے ملتے جلتے ہیں۔ اسکا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم ان سے ملتے ہیں یا انکے بارے میں غیر جانبدار ذرائع سے علم حاصل کرتے ہیں۔
بہر حال ینگ ورلڈ میں کس طبقے کی نمائندگی میں یہ تحریر لکھی گئ۔ کیا آپ اسکا جواب دے سکتے ہیں۔ اشارے اسی تحریر میں موجود ہیں۔
 :)


Star skull
Mitochondria
DNA
Haplogroup
Wikipedia
Young world

Friday, April 15, 2011

تعلیم کے لئے جہاد

ایک مبصر کا کہنا ہے کہ تعلیم کے لئے جنگ نہیں تعلیم کے لئے جہاد کی اصطلاح استعمال ہو تو لوگ تعلیم کی طرف زیادہ متوجہ ہونگے۔ لگتا ہے یہ سچ ہے۔
ہم اکثر اپنے ملک کی تعلیمی حالت کی زبوں حالی کا رونا سنتے ہیں۔ ہمارے احباب علم و دانش اس بات پہ فکر مند رہتے ہیں کہ ہم علمی سطح پہ قحط الرجال کا شکار ہیں اور ہمارے احباب محفلاں گپ بازی ، اپنی اس کمی کو چند پڑھے لکھے لوگوں کا مذاق اڑانے کی کوششوں میں اپنا وقت لگاتے ہیں۔ کیونکہ انکے پاس اس وقت کی قلت ہے جس سے وہ اپنی اس کمی کو پورا کر پائیں۔
خیر جناب یہ میرے سامنے اس وقت دو پی ایچ ڈی کے تھیسس پڑے ہیں۔ ان پہ بات کرنے کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ ہمارے سب سے بڑے صوبے کی سب سے مایہ ناز یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لئے جمع کرائے گئے۔ دونوں ہی تھیسس، اپنے موضوع کے لحاظ سے پاکستان میں تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں۔
دونوں تھیسس اپنی ضخامت کے لحاظ سے قابل توجہ ہیں۔ ایک کوئ سوا چار انچ بلند ہے اور دوسرا تقریباً تین انچ۔ یعنی دیکھنے والے کو ایک دم دبدبے میں لے آتا ہے۔ ایک تھیسس کوئ آٹھ سو صفحات پہ مشتمل ہے اور دوسرا کوئ پانچ سو صفحات پہ۔
تحقیقی ضابطوں سے نا آشنا لوگ سمجھیں گے کہ کیا زبردست محنت کی گئ ہوگی لیکن یہاں میں یہ اطلاع دیتی چلوں کہ اپنی پی ایچ ڈی کے دوران مجھے اس سلسلے میں انتہائ تناءو میں رہنا پڑا کہ ایک اچھے تھیسس کو زیادہ سے زیادہ دو سو صفحات پہ مشتمل ہونا چاہئیے اور اسکا زیادہ سے زیادہ حصہ آپکے اپنے کام پہ ہونا چاہیے نہ کہ دوسروں کی محنت کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔ یہ میرے ساتھ کوئ امتیازی سلوک نہ تھا بلکہ دنیا میں معیاری رائج طریقہ یہی ہے۔
ان موضوعات پہ اس قدر دلجمعی کے ساتھ کام کیا گیا ہے کہ تعلیمی موضوع پہ لکھے جانے والے ایک تھیسس میں ایک خاص علاقے کے کھانوں کی تراکیب تک موجود ہیں۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ دونوں تھیسس غیر معیاری ہیں ہیں۔
خیر ، اس میں طالب علم نہیں ان کا سپر وائزر زیادہ قصوروار ہے۔ پی ایچ ڈی کرانے والا استاد  اپنے طالب علموں کا معیار اپنے حساب سے بناتا ہے۔

ہمارے لئے ان کا موضوع زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ خاص طور پہ اس کا آخری حصہ جس میں پاکستان میں تعلیمی حالات کو بہتر کرنے کی تجاویز و سفارشات ہیں۔ ان میں سے چیدہ چیدہ سفارشات یہاں نقل کر رہی ہوں۔ یہ دکھانے کے لئے کہ ہمارے سب سے بڑے صوبے  کی سب سے بڑی جامعہ میں سوچنے کا انداز کیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ کہ یہ تھیسس ضیاءالحق کے زمانے کے نہیں ابھی حال ہی میں پاس ہوئے ہیں۔

سفارشات؛
اپنے مدارس، کالجوں یا جامعات کے معلمین و معلمات کے انتخاب میں انکی سیرت و اخلاقی اور دینی حالت کو انکی تعلیمی قابلیت کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ اہمیت دیں اور آئیندہ کے لئے معلمین کی تربیت میں بھی اسی مقصد کے مطابق اصلاحات کریں۔
مقاصد تعلیم اور نصاب تعلیم کی تدوین و ترتیب اس طرح کی جائے کہ تمام افراد چاہے وہ ڈاکٹر ہوں یا انجینیئر استاد ہوں یا وکیل تاجر ہوں یا کسی اور شعبے سے سے متعلق اپنے پیشے میں مہارت کے علاوہ اول و آخر صحیح مسلمان ثابت ہوں۔ یعنی ہر تعلیمی سطح پر تشکیل اور تنقید نصاب میں تلاوت آیات تزکیہ اور کتاب حکمت کی تعلیم کو اساسی حیثیت حاصل ہو۔

تشکیل سیرت کو کتابی علم سے زیادہ اہمیت دی جائے۔
ہر سطح کے نصاب میں عربی زبان کو  لازمی مضمون کی حیثیت دی جائے تاکہ طلبہ اسلام کی اصل روح کو پوری طرح سمجھ سکیں۔ مجموعی طور پہ ابتدائ ، ثانوی اور اعلی سطح کے نصابات کی ترویج کے حوالے سے مسلم مفکرین کے افکار خصوصاً سید مودودی کی کتاب تعلیمات کو پیش نظر رکھیں۔

عورتوں کی تعلیم میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئیے کہ انکی اصل  اور فطری ذمہ داری زراعتی فارم، کارخانے اور دفاتر چلانے کے بجائے گھر چلانے اور انسان سازی کی ہے۔
ایسی تعلیم جو ہماری نسلوں کو غیر مسلم بناتی جا رہی ہے اس تعلیم میں اتنی ترمیم کر دی جائے جس سے ارتداد و بے دینی کے سیلاب کا انسداد ممکن ہو سکے۔ اسکے لئے مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے 'نظام تعلیم کی وحدت' کا نظریہ پیش کیا ہے۔ اس تعلیمی خاکے میں ہر بات کو تفصیلی جواب موجود ہے اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
طلبہ کویہ باور  کرانا چاہئیےکہ  وہ علوم و فنون  اور تہذیب و ثقافت کے تعمیری پہلوءوں میں یوروپ کے استاد و رہنما رہے ہیں اور یوروپ نے ان ہی کے دکھائے ہوئے راستوں پر چل کر آج کے نئے علم اور ترقی کی منزل پائ ہے۔ اس لئے نئ سائینس اور ٹیکنالوجی کو اپنانا گویا اپنے ہی سرمائے کی بازیافت کے مصداق ہے۔
مندرجہ بالا سفارشات کی تفصیلات و جزیات کے لئے مولانا سید مودودی کے اصلاح تعلیم کے مقالاجات اور مختلف کتب سے رہنمائ حاصل کی جا سکتی ہے۔
جن اداروں سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہیں۔ ادارہ ء تعلیم و تحقیق تنظیم اساتذہ پاکستان لاہور، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد۔ پاکستان ایجوکیشن فائونڈیشن اسلام آباد، ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور۔
ہمیں آئیندہ نسلوں کا مستقبل تابناک بنانے کے لئے اسلامی تعلیم کو اپنانے میں کوئ لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہئیے اوردوسروں کی غلامی کا طوق گلے سے اتار دینا چاہئیے۔
چونکہ یہ تھیسس اپنی اپنی سطح پہ قبول کئے جا چکے ہیں تو کیا واقعی ہمارے تعلیمی نظام کو سدھار کے لئے یہ چیزیں درکار ہیں؟
 میرا خیال ہے اس میں واقعی ایک کمی ہے اور وہ یہ کہ تعلیم کے لئے جہاد کا اعلان کیا جائے۔