شادی کے کارڈز بانٹنا اور شاپنگ ، اس میں اتنی مصروف رہی کہ مجھے یاد ہی نہ رہا کہ آج آسٹریلیا اور پاکستان کا ٹی ٹوئنٹی میچ ہے۔ میں اپنی ساتھی خاتون کو نارتھ ناظم آباد چھوڑنے کے لئے جب فائیو اسٹار کے سگنل پہ پہنچی تو ٹریفک رکا ہوا تھا۔ رات کے سوا دس بج رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ شادیوں کی ٹریفک کا رش ہے۔ کیونکہ اس طرف درجنوں شادی ہالز ایک قطار میں موجود ہیں۔ لیکن سگنل کھل کے ہی نہ دے رہا تھا۔
پندرہ منٹ بعد مجھے فضا میں پاکستان کے جھنڈَے لہراتے نظر آئے اور کچھ لڑکے ادھر ادھر بھاگتے دکھائ دئیے۔ تھوڑی دیر بعد ہماری گاڑی چوک پہ لڑکوں کے ایک ہجوم کے درمیان، دوسری گاڑیوں کے ساتھ پھنسی ہوئ تھی۔ لڑکوں کی تعداد یہی کوئ ایک ڈیڑھ ہزار ہوگی۔ آتشبازی ہو رہی تھی، لڑکے ہارن بجا رہے تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ انکے ذہن میں کوئ خاص پروگرام نہیں۔ بس ٹریفک کو روک کر انہیں مزہ آرہا تھا۔ اس اثناء میں ایک لڑکے نے عین گاڑی کے سامنے آکر پستول نکالا اور ہوائ فائرنگ شروع کر دی۔ آج بچ جائیں تو بڑی بات ہے۔ میں نے سوچا، اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا تو اس طرف کا رخ نہ کرتے۔
چالیس منٹ کے اس ہنگامے میں پھنسے رہنے کے بعد نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ واپسی پہ میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ لیکن ایک چیز جس نے میری توجہ لی وہ یہ کہ نوجوانوں کے اس منتشر، چارجڈ لیکن بے مقصد ہجوم میں کسی بھی سیاسی جماعت کا جھنڈا نہیں تھا۔ صرف پاکستان کے تین چار جھنڈے نظر آئے۔ عجیب یوں لگی کہ اس سے پہلے نوجوان کوئ بھی موقع ہو ایم کیو ایم کا جھنڈا لانا فرض عین سمجھتے تھے۔
یہی نہیں اس سے دو دن بعد جب میں عزیز آباد کے قریبی علاقے میں گئ تو وہاں ایک پارک میں لوگوں کا ہجوم ایک بڑی سی اسکرین پہ میچ دیکھ رہا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد ہجوم نعرے لگاتا اور جھنڈے لہراتا لیکن یہ جھنڈے صرف پاکستان کے جھنڈے تھے۔
کیا کوئ تصور کر سکتا ہے کہ کراچی میں ایسا ہو گا۔ ایسا کیوں ہوا؟
الیکشن ، مستقبل قریب میں متوقع ہیں۔ اس لئے اکثر لوگوں سے اس حوالے سے بات ہوتی ہے۔ کس جماعت کو ووٹ دینا چاہئیے اور کیوں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سب سیاستداں چور ہیں اس لئے ہم الیکشن والے دن بیلٹ پیپر پر مہر اس طرح لگائیں گے کہ وہ خراب ہو جائے اور کوئ ہماری جگہ جعلی ووٹ نہ ڈال سکے۔
میں نے پوچھا کہ اس سے کیا ہوگا؟ ووٹ کی گنتی ہوگی تو وہ امیدوار جیت جائے گا جسکے سب سے زیادہ ووٹ ہونگے چاہے اسے پانچ سو ووٹ ملیں۔
ایم کو ایم کو اس صورت حال کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
چالیس منٹ کے اس ہنگامے میں پھنسے رہنے کے بعد نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ واپسی پہ میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ لیکن ایک چیز جس نے میری توجہ لی وہ یہ کہ نوجوانوں کے اس منتشر، چارجڈ لیکن بے مقصد ہجوم میں کسی بھی سیاسی جماعت کا جھنڈا نہیں تھا۔ صرف پاکستان کے تین چار جھنڈے نظر آئے۔ عجیب یوں لگی کہ اس سے پہلے نوجوان کوئ بھی موقع ہو ایم کیو ایم کا جھنڈا لانا فرض عین سمجھتے تھے۔
یہی نہیں اس سے دو دن بعد جب میں عزیز آباد کے قریبی علاقے میں گئ تو وہاں ایک پارک میں لوگوں کا ہجوم ایک بڑی سی اسکرین پہ میچ دیکھ رہا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد ہجوم نعرے لگاتا اور جھنڈے لہراتا لیکن یہ جھنڈے صرف پاکستان کے جھنڈے تھے۔
کیا کوئ تصور کر سکتا ہے کہ کراچی میں ایسا ہو گا۔ ایسا کیوں ہوا؟
الیکشن ، مستقبل قریب میں متوقع ہیں۔ اس لئے اکثر لوگوں سے اس حوالے سے بات ہوتی ہے۔ کس جماعت کو ووٹ دینا چاہئیے اور کیوں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سب سیاستداں چور ہیں اس لئے ہم الیکشن والے دن بیلٹ پیپر پر مہر اس طرح لگائیں گے کہ وہ خراب ہو جائے اور کوئ ہماری جگہ جعلی ووٹ نہ ڈال سکے۔
میں نے پوچھا کہ اس سے کیا ہوگا؟ ووٹ کی گنتی ہوگی تو وہ امیدوار جیت جائے گا جسکے سب سے زیادہ ووٹ ہونگے چاہے اسے پانچ سو ووٹ ملیں۔
ایم کو ایم کو اس صورت حال کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
اس کی وجوہات اتنی واضح ہیں کہ عقل و خرد سے عاری شخص بھی بتا سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کے حامی کو اب ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں میں کوئ فرق نظر نہیں آتا۔ سب چور ہیں ، سب اپنی تجوریاں بھرنا چاہتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت پہ مفاد پرست طبقے کا قبضہ ہے۔ یہ مفاد پرستی، ذاتی مالی مفاد سے جڑی ہے۔ جب ایم کیو ایم کا نام آتا ہے تو بابر غوری جیسے نام آتے ہیں جو پارٹی میں شامل ہوئے تو کیا تھے اور آج انکی جائدادیں امریکہ میں موجود ہیں۔
یوں جاگیرداری اور معاشرے کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے والے خود جاگیر داری کے نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان کی ہر دوسری سیاسی جماعت کی طرح، ایم کیو ایم نے بھی اپنے تھنک ٹینک یعنی حلقہ ء دانشوراں کو مضبوط کرنے کے بجائے شخصی سیاست کی راہ اپنا لی۔ یہ سیاست کا اگرچہ ایک آسان راستہ ہے لیکن بھونڈا راستہ ہے اور جمہوری روح سے دورہے۔ مفاد پرست طبقہ ایک شخصیت کو خوش کر کے فائدے اٹھاتا ہے۔ اس طرح سے جمہور کی آواز کہیں دور رہ جاتی ہے۔
تنظیم نے جس شخصیت کومرکزی شخصیت کے طور پہ چنا وہ اس ملک کی سرحدوں میں ایک طویل عرصے سے نہیں آیا۔ انہیں یہاں کے بارے میں جو بھی اطلاع ملتی ہے وہ کسی کے ذریعے سے ملتی ہے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ مصطفی کمال کے بنائے ہوئے پلوں نے شہر کا نقشہ تبدیل کر کے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ اڑتی خبریں ملتی ہیں کہ وہ خود ہوش و خرد سے عاری ہو چکے ہیں۔ اور در حقیقت اس وقت تنظیم کو پاکستانی ایجنسیز چلا رہی ہیں۔
اس وقت تنظیم کو لائق اور عالم افراد کے قحط کا سامنا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں ایسے لوگوں کی شمولیت کو دیکھا جانا چاہئیے جو کہ زندگی کے مختلف میدانوں مِن مہارت رکھتے ہوں تاکہ ہمیں امید ہو کہ افراد کا یہ مجموعہ ہمارے مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوگا۔ زیادہ تر افراد جو تنظیم کی سیکولر پالیسی کی وجہ سے اس سے بہتر امیدیں رکھتے تھے اب اس سے دور ہو چکے ہیں۔ اس طرح سے ایم کیو ایم بحیثیئت ایک سیاسی جماعت کراچی کے نوجوانوں کو کوئ مثبت امید ، راستہ اور سرگرمی دینے میں آہستہ آہستہ ناکام ہو رہی ہے۔ اور اسکی یہ ناکامی، نوجوانوں کو دوسری انتہا کی طرف لے جارہی ہے جو کہ مذہبی انتہا پرستی ہے۔
تنظیم کو اس حقیقت کو تسلیم کرکے مثبت سمت میں کام کرنا چاہئیے۔ انہیں اب اس چیز کو بھی تسلیم کرنا چاہئیے کہ محض پیپلز پارٹی سے اچھے تعلقات استوار کر کے یا صدر زرداری کو خوش رکھ کر یہ ممکن ہے کہ وہ آئیندہ الیکشن میں اسمبلی کے اندر اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں، ممکن ہے انہیں مالی مفادات مل جائیں لیکن اس سے وہ عوامی سطح پہ اپنی حیثیئت کم کرتے جا رہے ہیں۔
مجھے اپنے سیاستدانوں کی اس کوتاہ اندیشی پہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ محض اپنے مالی مفاد کو محفوظ کرتے ہوئے اپنے زیادہ فائدہ مند مستقبل کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ حالانکہ اگر وہ اپنے مالی مفاد میں تھوڑی سی کمی لے آئیں اور اسے عوامی فلاح پہ خرچ کریں تو وہ ایک لمبی مدت تک عوامی پذیرائ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور زیادہ کما سکتے ہیں۔
بہر حال، باقی سب سے قطع نظر ایم کیو ایم کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ ایسے ملک میں جہاں سیاست پہ جاگیردار کا سب سے بڑا حق ہے اور جہاں یہ جاگیردار، ملک کی مضبوط طاقت یعنی فوج سے بھی مضبوط روابط رکھتا ہے۔ وہاں وہ اپنی بقاء کی جنگ عوام کی حمایت کے بغیر نہیں لڑ سکتی۔ لیاری امن کمیٹی، اسکا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ جو منظر پہ اچانک ابھری اور اب کراچی کے امن و امان میں اپنا حصہ رکھتی ہے یعنی جب چاہے اس شہر کا امن ہلا سکتی ہے حالانکہ اسکا اثر لیاری سے آگے نہیں۔
تنظیم نے جس شخصیت کومرکزی شخصیت کے طور پہ چنا وہ اس ملک کی سرحدوں میں ایک طویل عرصے سے نہیں آیا۔ انہیں یہاں کے بارے میں جو بھی اطلاع ملتی ہے وہ کسی کے ذریعے سے ملتی ہے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ مصطفی کمال کے بنائے ہوئے پلوں نے شہر کا نقشہ تبدیل کر کے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ اڑتی خبریں ملتی ہیں کہ وہ خود ہوش و خرد سے عاری ہو چکے ہیں۔ اور در حقیقت اس وقت تنظیم کو پاکستانی ایجنسیز چلا رہی ہیں۔
اس وقت تنظیم کو لائق اور عالم افراد کے قحط کا سامنا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں ایسے لوگوں کی شمولیت کو دیکھا جانا چاہئیے جو کہ زندگی کے مختلف میدانوں مِن مہارت رکھتے ہوں تاکہ ہمیں امید ہو کہ افراد کا یہ مجموعہ ہمارے مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوگا۔ زیادہ تر افراد جو تنظیم کی سیکولر پالیسی کی وجہ سے اس سے بہتر امیدیں رکھتے تھے اب اس سے دور ہو چکے ہیں۔ اس طرح سے ایم کیو ایم بحیثیئت ایک سیاسی جماعت کراچی کے نوجوانوں کو کوئ مثبت امید ، راستہ اور سرگرمی دینے میں آہستہ آہستہ ناکام ہو رہی ہے۔ اور اسکی یہ ناکامی، نوجوانوں کو دوسری انتہا کی طرف لے جارہی ہے جو کہ مذہبی انتہا پرستی ہے۔
تنظیم کو اس حقیقت کو تسلیم کرکے مثبت سمت میں کام کرنا چاہئیے۔ انہیں اب اس چیز کو بھی تسلیم کرنا چاہئیے کہ محض پیپلز پارٹی سے اچھے تعلقات استوار کر کے یا صدر زرداری کو خوش رکھ کر یہ ممکن ہے کہ وہ آئیندہ الیکشن میں اسمبلی کے اندر اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں، ممکن ہے انہیں مالی مفادات مل جائیں لیکن اس سے وہ عوامی سطح پہ اپنی حیثیئت کم کرتے جا رہے ہیں۔
مجھے اپنے سیاستدانوں کی اس کوتاہ اندیشی پہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ محض اپنے مالی مفاد کو محفوظ کرتے ہوئے اپنے زیادہ فائدہ مند مستقبل کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ حالانکہ اگر وہ اپنے مالی مفاد میں تھوڑی سی کمی لے آئیں اور اسے عوامی فلاح پہ خرچ کریں تو وہ ایک لمبی مدت تک عوامی پذیرائ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور زیادہ کما سکتے ہیں۔
بہر حال، باقی سب سے قطع نظر ایم کیو ایم کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ ایسے ملک میں جہاں سیاست پہ جاگیردار کا سب سے بڑا حق ہے اور جہاں یہ جاگیردار، ملک کی مضبوط طاقت یعنی فوج سے بھی مضبوط روابط رکھتا ہے۔ وہاں وہ اپنی بقاء کی جنگ عوام کی حمایت کے بغیر نہیں لڑ سکتی۔ لیاری امن کمیٹی، اسکا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ جو منظر پہ اچانک ابھری اور اب کراچی کے امن و امان میں اپنا حصہ رکھتی ہے یعنی جب چاہے اس شہر کا امن ہلا سکتی ہے حالانکہ اسکا اثر لیاری سے آگے نہیں۔
سو انہیں عوام کے لئے کام کرنا پڑے گا، انہیں ترجیح دینی ہوگی اور تنظیم کو مفاد پرست طبقے سے ہی نہیں شخصی سیاست سے بھی باہر نکالنا ہوگا۔ انہیں دلجمعی سے ایک حلقہ ء دانشوراں قائم کرنا ہوگا جسے سوچ وبچار کی آزادی دینی ہوگی۔ لیکن اگر وہ ریاستی قوتوں سے ہڈی لے کر اس سے خوش ہیں تو یاد رکھیں کہ کل وہ باہر ہونگے جبکہ دیگر طاقتیں اسی طرح کھیل میں شامل رہیں گی جیسے وہ پچھلے تریسٹھ سال سے ہیں۔