Showing posts with label الطاف حسین. Show all posts
Showing posts with label الطاف حسین. Show all posts

Tuesday, October 9, 2012

مفاد سے آگے

شادی کے کارڈز بانٹنا اور شاپنگ ، اس میں اتنی مصروف رہی کہ مجھے یاد ہی نہ رہا کہ آج آسٹریلیا اور پاکستان کا ٹی ٹوئنٹی میچ ہے۔ میں اپنی ساتھی خاتون کو نارتھ ناظم آباد چھوڑنے کے لئے جب فائیو اسٹار کے سگنل پہ پہنچی تو ٹریفک رکا ہوا تھا۔ رات کے سوا دس بج رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ شادیوں کی ٹریفک کا رش ہے۔ کیونکہ اس طرف درجنوں شادی ہالز ایک قطار میں موجود ہیں۔ لیکن سگنل کھل کے ہی نہ دے رہا تھا۔
 پندرہ منٹ بعد مجھے فضا میں پاکستان کے جھنڈَے لہراتے نظر آئے اور کچھ لڑکے ادھر ادھر بھاگتے دکھائ دئیے۔  تھوڑی دیر بعد ہماری گاڑی چوک پہ لڑکوں کے ایک ہجوم کے درمیان، دوسری گاڑیوں کے ساتھ پھنسی ہوئ تھی۔ لڑکوں کی تعداد یہی کوئ ایک ڈیڑھ ہزار ہوگی۔ آتشبازی ہو رہی تھی، لڑکے ہارن بجا رہے تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ انکے ذہن میں کوئ خاص پروگرام نہیں۔ بس ٹریفک کو روک کر انہیں مزہ آرہا تھا۔ اس اثناء میں ایک لڑکے نے عین گاڑی کے سامنے آکر پستول نکالا اور ہوائ فائرنگ شروع کر دی۔ آج بچ جائیں تو بڑی بات ہے۔ میں نے سوچا، اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا تو اس طرف کا رخ نہ کرتے۔
چالیس منٹ کے اس ہنگامے میں پھنسے رہنے کے بعد نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ واپسی پہ میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ لیکن ایک چیز جس نے میری توجہ لی وہ یہ کہ نوجوانوں کے اس منتشر، چارجڈ لیکن بے مقصد ہجوم میں کسی بھی سیاسی جماعت کا جھنڈا نہیں تھا۔ صرف پاکستان کے تین چار جھنڈے نظر آئے۔ عجیب یوں لگی کہ اس سے پہلے نوجوان کوئ بھی موقع ہو ایم کیو ایم کا جھنڈا لانا فرض عین سمجھتے تھے۔
یہی نہیں اس سے دو دن بعد جب میں عزیز آباد کے قریبی علاقے میں گئ تو وہاں ایک پارک میں لوگوں کا ہجوم ایک بڑی سی اسکرین پہ میچ دیکھ رہا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد ہجوم نعرے لگاتا اور جھنڈے لہراتا لیکن یہ جھنڈے صرف پاکستان کے جھنڈے تھے۔
کیا کوئ تصور کر سکتا ہے کہ کراچی میں ایسا ہو گا۔ ایسا کیوں ہوا؟
الیکشن ، مستقبل قریب میں متوقع ہیں۔ اس لئے اکثر لوگوں سے اس حوالے سے بات ہوتی ہے۔ کس جماعت کو ووٹ دینا چاہئیے اور کیوں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سب سیاستداں چور ہیں اس لئے ہم الیکشن والے دن بیلٹ پیپر پر مہر اس طرح لگائیں گے کہ وہ خراب ہو جائے اور کوئ ہماری جگہ جعلی ووٹ نہ ڈال سکے۔
میں نے پوچھا کہ اس سے کیا ہوگا؟ ووٹ کی گنتی ہوگی تو وہ امیدوار جیت جائے گا جسکے سب سے زیادہ ووٹ ہونگے چاہے اسے پانچ سو ووٹ ملیں۔
ایم کو ایم کو اس صورت حال کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
 اس کی وجوہات اتنی واضح ہیں کہ  عقل و خرد سے عاری شخص بھی بتا سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کے حامی کو اب ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں میں کوئ فرق نظر نہیں آتا۔  سب چور ہیں ، سب اپنی تجوریاں بھرنا چاہتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت پہ مفاد پرست طبقے کا قبضہ ہے۔ یہ مفاد پرستی، ذاتی مالی مفاد سے جڑی ہے۔  جب ایم کیو ایم کا نام آتا ہے تو بابر غوری جیسے نام آتے ہیں جو پارٹی میں شامل ہوئے تو کیا تھے اور آج انکی جائدادیں امریکہ میں موجود ہیں۔ 
یوں جاگیرداری اور معاشرے کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے والے خود جاگیر داری کے نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان کی ہر دوسری سیاسی جماعت کی طرح، ایم کیو ایم نے بھی اپنے تھنک ٹینک یعنی حلقہ ء دانشوراں کو مضبوط کرنے کے بجائے شخصی سیاست کی راہ اپنا لی۔ یہ سیاست کا اگرچہ ایک آسان راستہ ہے لیکن بھونڈا راستہ ہے اور جمہوری روح سے دورہے۔ مفاد پرست طبقہ ایک شخصیت کو خوش کر کے فائدے اٹھاتا ہے۔ اس طرح سے جمہور کی آواز کہیں دور رہ جاتی ہے۔
تنظیم نے جس شخصیت کومرکزی شخصیت کے طور پہ چنا وہ اس ملک کی سرحدوں میں ایک طویل عرصے سے نہیں آیا۔ انہیں یہاں کے بارے میں جو بھی اطلاع ملتی ہے وہ کسی کے ذریعے سے ملتی ہے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ مصطفی کمال کے بنائے ہوئے پلوں نے شہر کا نقشہ تبدیل کر کے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ اڑتی خبریں ملتی ہیں کہ وہ خود ہوش و خرد سے عاری ہو چکے ہیں۔ اور در حقیقت اس وقت تنظیم کو پاکستانی ایجنسیز چلا رہی ہیں۔
اس وقت تنظیم کو لائق اور عالم افراد کے قحط کا سامنا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں ایسے لوگوں کی شمولیت کو دیکھا جانا چاہئیے جو کہ زندگی کے مختلف میدانوں مِن مہارت رکھتے ہوں تاکہ ہمیں امید ہو کہ افراد کا یہ مجموعہ ہمارے مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوگا۔  زیادہ تر افراد جو تنظیم کی سیکولر پالیسی کی وجہ سے اس سے بہتر امیدیں رکھتے تھے اب اس سے دور ہو چکے ہیں۔ اس طرح سے ایم کیو ایم بحیثیئت ایک سیاسی جماعت کراچی کے نوجوانوں کو کوئ مثبت امید ، راستہ اور سرگرمی دینے میں آہستہ آہستہ ناکام ہو رہی ہے۔ اور اسکی یہ ناکامی، نوجوانوں کو دوسری انتہا کی طرف لے جارہی ہے جو کہ مذہبی انتہا پرستی ہے۔
تنظیم کو اس حقیقت کو تسلیم کرکے مثبت سمت میں کام کرنا چاہئیے۔ انہیں اب اس چیز کو بھی تسلیم کرنا چاہئیے کہ محض پیپلز پارٹی سے اچھے تعلقات استوار کر کے یا صدر زرداری کو خوش رکھ کر یہ ممکن ہے کہ وہ آئیندہ الیکشن میں اسمبلی کے اندر اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں، ممکن ہے انہیں مالی مفادات مل جائیں لیکن اس سے وہ عوامی سطح پہ اپنی حیثیئت کم کرتے جا رہے ہیں۔
مجھے اپنے سیاستدانوں کی اس کوتاہ اندیشی پہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ محض اپنے مالی مفاد کو محفوظ کرتے ہوئے اپنے  زیادہ فائدہ مند مستقبل کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ حالانکہ اگر وہ اپنے مالی مفاد میں تھوڑی سی کمی لے آئیں اور اسے عوامی فلاح پہ خرچ کریں تو وہ ایک لمبی مدت تک عوامی پذیرائ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور زیادہ کما سکتے ہیں۔
بہر حال، باقی سب سے قطع نظر ایم کیو ایم کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ ایسے ملک میں جہاں سیاست پہ جاگیردار کا سب سے بڑا حق ہے اور جہاں یہ جاگیردار، ملک کی مضبوط طاقت یعنی فوج سے بھی مضبوط روابط رکھتا ہے۔ وہاں وہ اپنی بقاء کی جنگ عوام کی حمایت کے بغیر نہیں لڑ سکتی۔ لیاری امن کمیٹی، اسکا سب سے بڑا ثبوت ہے۔  جو منظر پہ اچانک ابھری اور اب کراچی کے امن و امان میں اپنا حصہ رکھتی ہے یعنی جب چاہے اس شہر کا امن ہلا سکتی ہے حالانکہ اسکا اثر لیاری سے آگے نہیں۔ 
سو انہیں عوام کے لئے کام کرنا پڑے گا، انہیں ترجیح دینی ہوگی اور تنظیم کو مفاد پرست طبقے سے ہی نہیں شخصی سیاست سے بھی باہر نکالنا ہوگا۔ انہیں دلجمعی سے ایک حلقہ ء دانشوراں قائم کرنا ہوگا جسے سوچ وبچار کی آزادی دینی ہوگی۔ لیکن  اگر وہ ریاستی قوتوں سے ہڈی لے کر اس سے خوش ہیں تو یاد رکھیں کہ کل وہ باہر ہونگے جبکہ دیگر طاقتیں اسی طرح کھیل میں شامل رہیں گی جیسے وہ پچھلے تریسٹھ سال سے ہیں۔

 

Monday, July 30, 2012

و تعز من تشاء؟

عزت ہمارے خطے میں ایک بہت اہم لفظ ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو کسی بھی معمولی سی بات پہ خطرے میں پڑجاتی ہے اور اگر اسے خطرے میں نہیں پڑنا ہو تو آپ کروڑوں کی کرپشن کر ڈالیں یا منافقت کے جتنے چاہیں لبادے اوڑھ ڈالیں معاشرے میں آپکی عزت کو کوئ نقصان نہیں پہنچتا۔ 
مثلاً پسند کی شادی جسے عام طور سے محبت کی شادی سے ملا دیا جاتا ہے اس سے والدین کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ شادی بیاہ پہ اگر خواتین قیمتی کپڑے نہ پہنیں تو مرد کی عزت کم ہونے کا اندیشہ دامنگیر ہوتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی عزت زیادہ خطرے میں رہتی ہے۔ یوں اگر کوئ خاتون بچاءو بچاءو چیخے تو پہلا خیال بھی یہی آتا ہے کہ عزت خطرے میں ہے چاہے وہ چوہے یا چھپکلی کو دیکھ کر چیخ رہی ہو۔
ایک زمانے میں لاچار مرد اپنی عزت بچانے کے لئے پگڑی اتار کر واسطے دیا کرتا تھا۔ خواتین کی عزت دوپٹے کے ساتھ وابستہ تھی اور گبرو مرد اس دوپٹے کی حفاظت کے لئے جان لٹا دیتے تھے۔  دوپٹہ تو اسکارف میں تبدیل ہو گیا لیکن پگڑی سرے سے نا پید ہو گئ۔
ذرا سانس لے کر وضاحت کر دوں کہ یہ تحریر  دوپٹے اور پگڑی  کے بالترتیب ارتقاء اور عنقا ہو جانے کے متعلق نہیں۔ کیونکہ یہاں سے پگڑی کے نایاب ہوجانے کی وجوہات پہ غور کے بجائے دوپٹے اور اسکارف کے تقدس پہ بات جا سکتی ہے۔ جس پہ نہ صرف پہلے بھی سیر حاصل بحث ہو چکی ہے بلکہ مزید سیر کے لئے آئندہ الگ سے بحث ہو سکتی ہے۔
بات ہے عزت کی۔ عزت کیا چیز ہے؟
میں اسکی کوئ جامع تعریف کرنے سے معذور ہوں۔ لیکن لوگوں کو یہ کہتے اکثر سنتی ہوں کہ یہ اسکی دین ہے جسے پروردگار دے۔ یعنی خدا ہی عزت دینے والا ہے حالانکہ خدا کا دعوی ہے کہ وہی ذلت دینے والا بھی ہے لیکن اکثر عناصر اسکا سہرا اپنے سر پہ باندھنا پسند کرتے ہیں تاکہ کچھ لوگ عزت بچانے کے چکر میں ان کے قابو میں رہیں۔ 
عزت پہ شعراء اکرام نے بہت کم لکھا ہے لیکن ذلت کو خوب موضوع بحث بنایا ہے۔ حالانکہ دونوں ہم قافیہ الفاظ ہیں۔  
اب کوئ اس پہ کیا دلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
 عزت کی تعریف کرنا کیوں مشکل ہے؟ اسکی بنیادی وجہ اس کے دعوے دار ہیں۔
اس لئے ایٹم بم کا دھماکا کرنے کے بعد بھی ہم سنتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اس عزت سے نوازا۔ ادھر ایک ڈیرے دار طوائف بھی اپنے لباس کی نوک پلک درست کرتے ہوئے ایک ادا سے کہتی ہے کہ بس آج جو بھی مرتبہ ہےعزت ہے وہ خدا کی عطا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ درست ہیں اگر ہم اس پہ یقین رکھتے ہیں کہ سبھی کچھ خدا کا دیا ہوا ہے سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں۔
لیکن پھر بھی ہم اس طوائف کی بات پہ ہنستے ہیں اور اس سیاستداں کی بات پہ فخر سے سینہ پھلا لیتے ہیں۔
اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ عزت کا تعلق عام طور پہ معاشرے میں موجود اچھائ اور برائ کے معیار سے بڑا تعلق رکھتا ہے۔ طوائف کا پیشہ، نیچ  سمجھا جاتا ہے اس لئے وہ اپنے پیشے میں جتنی بھی کامیابی حاصل کرے۔ چاہے لوگ اسکی ایک جھلک کے لئے اپنا دین اور ایمان لٹا دینے کو تیار ہوں۔ اسکے ابرو کے اشارے پہ عاشق پہاڑ تو کیا آسمان کو زیر کر لے لیکن جب بھی وہ یہ کہے گی کہ یہ سب عزت خدا کی دی ہوئ ہے تو ہم  ہنستے ہیں۔
اسکے بر عکس، ہم ایک ایسا ہتھیار بنا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو چشم زدن میں انسانوں کی ایک بڑی آبادی کو ختم کر سکتا ہے تو ہمیں انتہائ فخر اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہم دشمن پہ سبقت حاصل کر لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور میدان جنگ میں وہ ہمیں آسانی سے ہرا نہیں سکتا۔ چونکہ ہم ہار نہیں سکتے اس لئے ہم عزت دار ہونگے۔ جس شخص نے یہ حاصل کرنے میں ہماری مدد کی وہ بھی ہماری عزت کا مستحق ہے۔ وہ شخص بھی یہی کہے گا کہ یہ عزت خدا کی دی ہوئ ہے ۔ ہم اسکا احترام کرتے ہیں۔ ہم اسکی بات کو سچ جانتے ہیں۔
عزت کے دعوے دار اور عزت کے پرستار دونوں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ اہمیت اس نکتے کی ہے جس پہ عزت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
 گاءوں کے چوپال میں درد بھری آواز میں ماہیا گانے والا میراثی کہلاتا ہے اس کا سماجی مرتبہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ لیکن جب آواز کا یہ جادو نورجہاں جنگ کے گیتوں میں دکھاتی ہے تو ملکہ ء ترنم کا خطاب پاتی ہے۔ کس میں ہمت کے انہیں میراثن کہہ دے۔   
عزت کے بارے میں آج جاننے کی خواہش اس وقت سوا ہو گئ جب ایک جگہ پڑھا کہ ڈاکٹرعامر لیاقت کو جب خدا نے عزت دی ہے لوگ اسکی بات سنتے ہیں ، لوگوں پہ اسکی بات کا اثر ہوتا ہے تو دوسرے لوگ اسے برا کیوں کہتے ہیں؟  لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ انہیں رمضان میں تبلیغ کے عمل سے روک دیا جائے۔ نہ صرف ان صاحب نے لکھا بلکہ دیگر صاحبان نے اسے شیئر بھی کیا۔
آج پھر میں نے سوچا کہ خدا کی دی ہوئ عزت کیا چیز ہوتی ہے؟  اگر ایسا ہے تو زرداری سے بےزاری کیوں؟ ان کی عزت بھی خدا کی دی ہوئ ہے۔ اس عقیدے کے مطابق یہ مرتبہ انہیں محض لوگوں کے ووٹ سے حاصل نہیں ہوا۔  لوگوں کے ایک بڑے حلقے میں انکا اثر ہے۔ لوگ انکی بات سنتے ہیں ان پہ اثر ہوتا ہے۔ یہی بات الطاف حسین، نواز شریف، عمران خان حتی کہ ملا عمر اور اوبامہ کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ اور چونکہ ان سب کو ملی ہوئ عزت کو خداکی دین سمجھنا چاہئیے تو ہمیں انکی عزت بھی کرنی چاہئیے اور انکے متعلق برا نہیں کہنا چاہئیے۔
کیا ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہئیے کہ یہ سب لوگ جس چیز کی تبلیغ کرتے ہیں اسکے لئے عملی طور پہ کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا نہیں؟  یا آسان الفاظ میں جب خدا کسی کو عزت اور مرتبہ دے دے اور لوگوں پہ اس کا اثر قائم ہو جائے تو کیا اسکے خلاف آواز بلند کرنا خدا کے خلاف جانا ہوتا ہے؟
  

Sunday, October 30, 2011

کرائے کے ٹٹّو

ہمارے ملک میں جیسے ریلیوں کا وبائ مرض پھوٹ پڑا ہے۔ جمعے کے با برکت  دن جناب نواز شریف نے اس سلسلے میں پہلی علامت ظاہر کی۔ یہ با برکت دن منتخب کرنے کی وجہ سے صاحبان کشف نے انکی اگلی منزل جدہ بتائ ہے۔  سبحان اللہ۔
آج عمران خان  ریلیز کا چالیس سالہ ریکارڈ توڑنا چاہتے ہیں ویسے تو اللہ میاں نے انہیں چاندی کا چمچ منہ میں دے کر پیدا کیا ہے اور نزاکت نازنینوں کے بنانے سے نہیں بنتی، خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے۔ ایسے ہی بادشاہ بننے کی خواہش بھی کسی جگر رکھنے والے شخص کے ذہن میں ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہر دلعزیز شہزادے پہ اس وقت بادشاہت کا نور اترا ہوا ہے۔ ایسا نور جس میں لوگ ان سے یہ تک پوچھنے سے قاصر ہیں کہ زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد آپ کریں گے کیا۔ آپکے منصوبوں کی کچھ تفصیل۔ واللہ علیم و خبیر۔
ادھر الطاف حسین جنہیں ذوالفقار مرزا کے ڈنڈے سے جناب صدر نے ایسا سُدھایا ہے کہ وہ انکے لئے ہر خدمت انجام دینے کو تیار ہیں چاہے انکا ووٹ بینک اسکے خلاف ہو۔ ان کو بھی بر وقت یہ خیال باور کرایا گیا کہ انکی فی الفور 'حکمت عملی' کیا ہونی چاہئیے۔یہ دونوں ریلیز جمہوریت یعنی صدر صاحب کے خلاف سازش ہیں اس لئے ایک ضد ریلی کا بند وبست انکی طرف سے بھی ہے جس میں انہوں نے دینی جماعتوں سے بھی شرکت کی دعوت کی ہے۔ نیکی کے کاموں میں باہم ہو جاءو۔
دینی جماعتیں ابھی ممتاز قادری غازی کو رہا کرانے کی ریلیوں میں مصروف ہیں۔ انکی ریلی کا موضوع ہمیشہ کی طرح ایک ہی ہے نفاذ شریعت۔ یہ جملہ اتنا پر اثر ہے کہ ڈنگی کے مچھر ہوں یا سیلاب، وال اسٹڑیٹ پہ قبضہ ہو یا شعیب ملک کی شادی ہر جگہ کام کرتا ہے۔  اطیعواللہ و اطیعوالرسول۔
ہر ریلی کے مریض کے منہ سے ایک ہی آواز برآمد ہو رہی ہے 'ہاکستان بچاءو۔ جبکہ پاکستان آہستہ آہستہ بدبدا رہا ہے مجھے میرے دوستوں سے بچاءو۔ 
ریلیوں کے جراثیم کس نے پھیلائے ہیں؟ اسکا کیا تدارک ہے؟ اسکا کون سا مریض بچے گا؟ بچ جانے والا مریض ہمارے کسی کام کا ہوگا یا اپنے ڈاکٹر کے اشارے پہ ناچے گا؟
ان تمام سوالوں کے جواب جاننے کے لئے، ایک چالیس روزہ چلّہ کاٹنے کی ضرورت ہے جسکے لئے ایک سنسان جگہ کی چاہئِے۔ اٹھارہ کروڑ آبادی والے ملک میں یہ جگہ کہاں ملے گی۔ اگر لوگوں کے ذہن سے کوئ جگہ اتری ہوئ ہے تو اس پہ، سیلاب، ڈنگی کے مچھر،  مجاہدین یا بیرونی طاقتوں کا قبضہ ہے؟ ہم کیا کریں، کیا ہم بھی کوئ ریلی نکالیں؟ 
ہم عوام کے پاس ریلیاں نکالنے کے ہزار بہانے ہیں مگر ہر دفعہ روپے کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے۔ 
جو طاقتیں ان ریلیوں کو منعقد کرانے میں دلچسپی لے رہی ہیں ان سے صرف اتنا کہنا  ہے کہ ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں۔ اجی ، آزما کر تو دیکھئیے ہم بھی جاندار ڈائیلاگز بول سکتے ہیں، آپکی ڈگڈگی پہ آئیٹم رقص پیش کر سکتے ہیں۔ ریلی کیا ریلہ لا سکتے ہیں۔ خدا گواہ ہے ہم بھی قرآن پہ ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتے ہیں کہ کبھی ایک روپئیے کی بھی کرپشن نہیں کی۔ اگر کی تو مرے پہ سو درے۔ ہم بھی پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں اگرچہ کہ اب تک اپنا مال، جان، عزت، گھر، شرافت، علم اور دوسری بے شمار اشیاء بچانے میں ناکام رہے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم پاکستان بچانے میں کامیاب ہونگے۔ انشاءللہ۔
گو کہ ہمیں اکثر یہ بھی خیال آتا ہے کہ ہم کون سا پاکستان بچائیں گے وہ جو قائد اعظم نے بنایا، وہ جو انیس سو اکہتر میں دو ٹکڑے ہوا پھر بھی پاکستان کہلایا، وہ جس نے ایک فلاحی ریاست بننے کے بجائے جہاد کو اپنی معیشت بنایا۔ سر، آپ تو جانتے ہیں کہ یاد ماضی عذاب ہوتا ہے اور اسکا حل حافظہ چھین لینے میں ہی ہے جس میں سنا ہے کہ آپ ماہر ہیں۔
 
یقین کریں عزت مآب، ان سب کرائے کے ٹٹءووں سے ہم کہیں بہتر ٹٹو ثابت ہونگے۔ ہم تعداد میں زیادہ ہیں تو کیا اتنے ہی بے ضرر ہیں جتنی درخت کی چڑیاں یا آنگن کی گئیاں۔ جہاں باندھ دیں گے بندھ جائیں گے اور جدھر کو اڑا دیں اڑ جائیں گے۔ بخدا ہمیں دانہ پانی، ایک چھوٹا سا آسمان اور صحن کے کھونٹے کے علاوہ بس ایک چیز اور چاہئیے۔ آپکے ان چہیتے ٹٹءووں کے لئے ایک اصطبل اتنی دور جہاں سے یہ ہمیں نظر نہ آسکیں۔ و تعز من تشاء تزلّ من تشاء۔