Showing posts with label thailand. Show all posts
Showing posts with label thailand. Show all posts

Friday, January 8, 2010

یہودی کا بیت الخلاء

ان لوگوں سے معذرت کے ساتھ جو یہودیوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ میں کیا کروں، مراقبے کی یہ جگہ میں نے  تھائ لینڈ کے شہر پھوکٹ میں ایک یہودی کے ریسٹورنٹ میں دیکھی۔ اور یہ تصویر اپنے بیان کی صحت کو ثابت کرنے کے لئیے دے رہی ہوں۔



میرے اپنے گھر میں کچھ لوگ کتابیں اور اخبار لیکر اس راہ پہ روانہ ہوتے ہیں۔ اور اکثر غسل خانہ میں تولیے کے ہینگر پہ اخبار ٹنگا ملتا ہے۔ شاید ایسے لوگوں کی ہڑک کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ریسٹورنٹ کے مالک نے اسے ایک نئ جدت کے ساتھ سجایا ہے۔ جب میں نے یہ دروازہ کھولا تو اندر کی طرف جانیوالے تنگ راستے کی دیواروں پہ قد آدم تصویروں کے چسپاں پرنٹ دیکھ کر ششدر رہ گئ۔  آگے چلکر ان میں سے کچھ  شخصیات کے اقوال بھی ساتھ لکھے نظر آئے۔ خود پڑھے اور ان میں سے کچھ آپکے لئیے جمع کر لئیے۔ واضح رہے کہ اس میں کچھ توبہ شکن تصاویر بھی شامل ہونے سے رہ گئیں۔ مثلاً الزبتھ ٹیلر کی مسکراتی اور میڈونا کی جھلملاتی تصاویر وغیرہ۔

یہ لینن صاحب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ چند لوگوں کو نہیں مار سکتے تو انقلاب کس لئیے بھئ۔ لینن کو کچھ قدرتی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہمارے سیاستدانوں سے سیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ تو بغیر انقلاب کے بھی چند لوگوں کو مارنا خاطر میں نہیں لاتے۔
یہ آسکر وائلڈ صاحب ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ہم بہت ساری چیزیں پھینکنا چاہتے ہیں مگر اس لئیے نہیں پھینکتے کہ کوئ اور نہ انہیں اٹھا لے۔ یہ پڑھ کر مجھے وہ ادیب یاد آگئے جو بہت کچھ لکھنا چاہتے ہیں مگر نہیں لکھتے کہ کوئ اور انہیں سرقہ نہ کر لے۔ اور یوں بہت ساری تحریروں کا بوجھ اپنے دل پہ لئیے رخصت ہوجاتے ہیں۔
یہ صاحب، تصویر میں آنے سے رہ گئے ہیں بہر حال انکا مقولہ ہے کہ سب سے بڑا گناہ دوسروں کو خوش کرنے کے لئیے خود کو بگاڑنا ہے۔ پڑھنے میں تو کچھ بہت گہری بات لگ رہی ہے لیکن کوئ مثال  اگر ذہن میں آرہی ہے تو اسکا کوئ نہ کوئ تعلق ہماری خارجہ پالیسی سے جا ملتا ہے۔ جس سے موضوع کے متنازع ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
یہ شاید عام پاکستانیوں کے موجودہ حالات کے بارے میں کہا گیا ہے۔کل کے بارے میں پریشان نہ ہوں وہ بہرحال آ کر رہے گا۔ آج کے بارے میں پریشان ہوں۔ یہ اگر بغیر سوچے سمجھے آجائے تو بڑا لمبا ہو جاتا ہے اور پھر کل نہیں آپاتا۔

ہر عظیم آدمی کچھ نہ کچھ کہہ کر جاتا ہے۔ آئنسٹائن نے بھی فرمایا۔ دو چیزوں کی کوئ حد نہیں ہے۔ پہلی چیز کائنات ہے اور دوسری چیز حماقت۔ اور پھر انہوں نے مزید فرمایا۔ مجھے پہلی چیز کے بارے میں  پھر بھی شبہ ہے۔ بادی النظر میں یہ لگتا ہے کہ جیسے اس وقت سارے طبیعیات داں کائنات کا مطالعہ اسی لئیے اتنی باریک بینی سے کر رہے ہیں کہ دوسری چیز کو صحیح ثابت کیا جا سکے۔

اس مقولے کے مطابق ہر انسان کے اندر دو بھیڑئیے رہتے ہیں۔ ایک اچھا ہے اور دوسرا برا۔ ان میں سے جیتتا وہی ہے جسے آپ کھانا کھلاتے ہیں۔ لیکن کہیں ضیا الحق قاسمی کی طرح یہ نہ ہو کہ میں شکار ہوں کسی اور کا، مجھے مارتا کوئ اور ہے،،، مجھے جس نے بکری بنا دیا وہ تو بھیڑیا کوئ اور ہے۔
اس بادبانی کشتی کے ساتھ یہ نصیحت ہے کہ اگرآپکو یہ نہیں معلوم کہ کہاں جانا ہے تو بہترین ہوا بھی آپکی کچھ مدد نہیں کر سکتی۔ شاید اسی کو سن کر سید ضمیر جعفری نے کہا کہ   ساگر کے سر شناس اگر ناخدا نہ ہوں،،بنتے ہیں کشتیوں کے کفن بادبان میں۔ واہ
 
امن کی ثالثی کرنیوالا مگرمچھ کو یہ سوچ کر کھلاتا ہے کہ مگر مچھ اسے سب سے آخر میں کھائے گا۔ اس پہ مجھے ایک شبہ ہے کہ بعض اوقات امن کی ثالثی کرنےوالے جسے مگر مچھ سمجھ کر کھلا رہے ہوتے ہیں وہ اصل میں کوئ سیل ہوتی ہے اور مگر مچھ کسی وقت اچانک پیچھے سے یہ کہکر حملہ کر دیتا ہے کہ مجھے کیوں نہیں کھلایا۔


زندگی میں اس چیز کی اہمیت نہیں ہوتی کہ آپ کتنی زور سے گھونسا مارتے ہیں۔ بلکہ اس چیز کی اہمیت ہوتی ہے کہ آپ کتنی تیزی سے ٹکڑے سمیٹ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس میں ، میں صرف یہ جمع کرنا چاہتی ہوں کہ  کتنی جلدی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، مزید گھونسے مارنے کے لئیے۔ اسکی اہمیت ہوتی ہے چندا۔
یہ جو نیچے تصویر آرہی ہے۔ یہ تو بنیادی طور پہ آپ سب کے تبصرے کے لئیے چھوڑ دی ہے۔ بس نجانے کیوں غالب کا یہ شعر یاد آگیا۔

شوق، ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

 

نوٹ؛ ان تمام تبصروں سے آپکا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اختلاف کی  صورت میں اپنا کوئ تبصرہ جمع کرائیے۔ آپکے نام کے ساتھ اس پوسٹ میں ڈال دیا جائےگا۔

تبصرہ، ریاض شاہد؛
رہے صاحب نقش ونگار تو وہ غالبا تصویر یار آئینہ دل کی بجائے اس جگہ زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں اور مقاصد کے علاوہ اس کا مقصد شاید یہ بھی ہو کہ اگر جنگ یا کسی حادثے میں بازو کٹ کر گم ہو جائے تو جس صاحب کو ملے اسے اس کی محبوبہ تک پہنچانے میں آسانی رہے ۔

Saturday, November 21, 2009

ایک باغ، کئ تتلیاں

اب کچھ حالات ایسے ہوئے کہ ہمیں پھوکٹ گھومنے کا موقعہ بھی ملا۔ چلیں کچھ جگہوں کی سیر آپکو بھی کرادیں کہ یہ آپکے لئے اجنبی نہ رہیں۔
یہ پھوکٹ کا تتلی باغ اور مختلف کیڑوں مکوڑوں کو جمع کرنے کی جگہ ہے۔ ہم یہاں ایک مقامی ٹیکسی جو کہ ایک ہائ لکس تھی لیکر پہنچے۔ مگر چونکہ نہ ہمیں یہ جگہ صحیح سے پتہ تھی اور نہ ٹیکسی والے کو اس لئیےہم ایک بل بورڈ پہ اسکا نام اور تیر کا نشان دیکھ کر وہیں اتر گئے۔ بس پھر ہمیں راستے کی چڑھائیاں اور نچائیاں طے کرنے پڑے جو اندازاً ایک کلو میٹر تھا۔ ایک بچے کو اسٹرولر میں ڈالکر دھکا دینا چڑھائیوں پر مشکل ہو جاتا ہے۔
تو آئیے دیکھئیے، پروین شاکر نے کہا تھا
خود پھول نے کئے تھے، اپنے ہونٹ نیم وا
چوری تمام رنگ کی تتلی کے سر نہ جائے
دیکھیں یہ بات کہاں تک صحیح ہے۔





 








 

تتلی ہوں میں تتلی ہوں
پھولوں سے میں نکلی ہوں
پھولوں کا رس پیتی ہوں
پھولوں میں، میں رہتی ہوں

Tuesday, October 20, 2009

a note to my readers

For my friends, everything is ok with me.   I just forget the charger of my laptop in Pakistan :). As soon as I get a new one you will be able to read more from me. Till then Khuda Hafiz. Miltey hein aik break ke baad. See you soon :).

Its me Aniqa.

Tuesday, June 9, 2009

لاگ اور لگاءو

تھائ لینڈ میں میری دلچسپی تھائ کھانوں کی وجہ سےیا ان کے شاہی نظام حکومت کی وجہ سے رہی تھی۔ بادشاہوں سے ہمارا لگاءو شاید اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ ہم برصغیر پاک و ہند کے رہنے والے جنہیں اب لوگ جنوبی ایشیائ کہنے لگے ہیں۔ بچپن میں جب کہانیاں سنتے ہیں تو وہ اکثر اس طرح شروع ہوتی ہیں کہ ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ جیسے جیسے شعور کی منازل طے کیں تو اس بات کو ہضم کرنے میں بڑا ٹائم لگا کہ کہانی بادشاہ کے بغیر بھی شروع ہو سکتی ہے۔

ہاں تو جب میں نے تھائ ائر لائن کی پرواز نمبر فلاں فلاں پہ قدم رکھا تو سب سے پہلے ان کی ائر ہوسٹس اور انکی یونیفارم پہ فدا ہوئ۔ پھر ان کی سروس پہ۔ تھائ لینڈ کے شہر پھوکٹ پہنچنے کے بعد اندازہ ہوا کہ تھائ کسقدر صفائ پسند اور معمولی چیزوں میں سے بھی تزئین کی جدت نکالنے والے لوگ ہیں ۔ یہاں کی روزانہ بارش خوبصورت آرکڈ کے پھولوں کے لئیے بہت سازگار ہے جن کے گملے ہر جگہ ٹنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔اتنی بارش کے باوجودشہر اانتہائ صاف ۔دھلی دھلائ سڑکیں، ہر طرف سبزہ اور ہاتھیوں کے ہر طرح کے مجسموں کے ساتھ زندہ ہاتھی چہل قدمی کرتے نظر آجاتے ہیں۔ سمندر سے گھرا، سیاحوں کو خوش آمدید کہتا یہ شہر مجھے بےحد پسند آیا۔

لیکن جس چیز سے تکلیف ہوئ۔ وہ ان کی اپنی زبان تھائ سے محبت ہے۔ کسی سپر اسٹور میں چلے جائیں یا مقامی جمعہ بازاروں میں ہر چیز پر تھائ لکھی ہوتی ہے۔ اپنی ضرورت کی چیز چھٹی حس کو استعمال کر کے، چیز کی شکل صورت دیکھ کر، یا کہیں کہیں انگریزی میں لکھے چند الفاظ کی مدد سے ہی خریدی جا سکتی ہے۔ اور پھر بھی شک رہتا ہے کہ یہ وہی ہے جو ہمیں چاہئیے تھا۔تھائیوں کو فخر ہے کہ وہ کبھی کسی کے غلام نہیں رہے۔ اس لئے وہ بغیر انگریزی استعمال کئے ہم سے زیادہ تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

اس سفر کے دوران ایک دفعہ ہم ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے مینو پہ کافی تفصیلی غور وخوض کے بعد پائن ایپل رائس آڈر کئے۔ تھائ لینڈ میں ، میں تھائ کھانوں سے اتنا لظف اندوز نہ ہو سکی کیونکہ اب آپ کو حلال اور حرام بھی دیکھنا پڑ جاتا ہے حلال کھانے آسانی کے ساتھ بوٹنگ کے دوران مل سکتے ہیں کیونکہ سمندر سے منسلکہ کاروبار پہ مسلمان چھائے ہوئے ہیں۔
خیر، سب لوگوں کا کھانا آگیا۔ مگرمیرے چاول غیر حاضر۔جب سب اپنا ایک تہائ کھانا کھا چکے تو ویٹر میرے پاس آیا ۔ اسکی ٹوٹی پھوٹی تھائ آمیز انگریزی سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کہ رہا کہ فرائیڈ رائس نہیں ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے پائن ایپل رائس منگوائے تھے فرائیڈ رائس نہیں۔ اس نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی اور اب کی بار مجھے صرف پائن ایپل کے کچھ سمجھ نہ آیا۔ اور میں نےاندازے سے اسے او کے کہہ دیا۔ اب پھر انتظار کی گھڑیاں شروع ہوئیں۔ سب لوگ اپنے کھانے کے اختتام پہ پہنچنے والے تھے اور میں سوچ ہی رہی تھی کہ اپنا آڈر کینسل کروادوں کہ وہ ویٹر ایک بڑی سی ٹرے میں ایک پائن ایپل لے آیا اور لا کر بڑے سلیقے سے میرے سامنے رکھدی۔ میں بالکل حیران ہوگئ تو گویا اتنے انتطار کی کلفت اٹھانے کے بعد مجھے یہ انناس کھانے کو ملے گا۔ اور یہ موصوف شاید مجھ سے فرما رہے تھے کہ چاول تو ہیں نہیں پائن ایپل البتہ موجود ہے۔ میں نے جھنجھلا کر کہا یہ کیا ہے، مجھے کھانا چاہئے۔ اب پھر ایک عجیب سی زبان، جس سے میں نے یہ معنی اخذ کئے کہ آپ نے یہی تو منگوایا تھا۔ میرے ساتھی نے کہا۔ اب آپ اسے اپنےہوٹل لے چلیں اور رستے میں کچھ اور کھا لیجئیے گا۔ 'کیا مطلب میں اس ریسٹورنٹ میں یہ انناس خریدنے آئ تھی اتنا مہنگا انناس۔ میں اسے کہیں نہیں لے جا رہی '۔ پھر میں نے اس ویٹر سے کہاں براہ مہربانی اےسے لے جائیں مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اب وہ کچھ گومگوں حالت میں کھڑا تھا۔ یہ سارا منظر ہمارا تھائ ڈرائیور ذرا فاصلے سے دیکھ رہا تھا۔ وہ میرے پاس آیا کہ کیا ہوا ہے۔ قصہ مختصر اس کی انگریزی بھی اتنی اچھی نہ تھی لیکن اس ویٹر سے بہتر تھی۔

ان دونوں نے اس موضوع پر تھائ میں تبادلہء خیال کیا کہ ان خاتون کو یعنی مجھے کیا مسئلہ ہے۔ اس تفصیلی گفت و شنید کے بعد ویٹر آگے بڑھا اور اس نے اس انناس کو ہاتھ لگایا۔ انناس کا اوپری حصہ ہٹا اندر اس کے خا لی حصے میں پائن ایپل فرائیڈ رائس بھرے ہوئے تھے۔ اور ان پہ چھ جمبو جھینگے رکھے ہوئے تھے۔میرا منہ کھلا اور پھر بند ہوگیا۔ ویٹر اپنے حصے کی معذرت وصول کرنے کے بعد مسکراتا سینے پہ ہاتھ رکھے رخصت ہو گیا۔ چاول بے حد مزیدار تھے۔ لیکن میں اس دن، سارا دن ان کی مہارت کی داد دیتی رہی اور شرمندہ ہوتی رہی۔ کتنی مہارت سے انناس جیسے مشکل پھل کو کاٹا تھا کہ ذرا نہ پتہ چل رہا تھا کہ یہ کٹا ہوا انناس ہے۔ غالب نےصحیح کہا ہے،

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاءو
جب کچھ بھی نہ ہو تو دھوکا کھائیں کیا

ریفرنس؛

پھوکٹ، تھائ لینڈ