Showing posts with label کراچی، مشتاق احمد ےوسفی، نیرہ نور، برئ پراٹھے، بارش، لوڈشیڈنگ،. Show all posts
Showing posts with label کراچی، مشتاق احمد ےوسفی، نیرہ نور، برئ پراٹھے، بارش، لوڈشیڈنگ،. Show all posts

Sunday, July 19, 2009

چھم چھم کا غم


بات شروع ہوئ تھی گھنگھور گھٹاءوں سے بیچ میں برئ پراٹھے اور آم آئَے۔ ابھی بھی عذاب نہیں آئے۔ ہم اپنی قسمت پہ اترائے۔ سوچا کہ خدا ہم ناہنجاروں سے کچھ زیادہ ناراض نہیں۔ رحمت بھی ہے اور نعمت بھی۔ اپنے آپ کو بنی اسرائیل سے افضل جانا۔
پھر نیرہ نور نے بڑا ساتھ دیا اور ہم کافی دیر انکی آواز میں بولتے امیرخسرو کو سنا کئے،
جھولا کنے ڈالا رے ہمریاں
دو سکھی جھولیں، دو ہی جھلائیں
دو سکھی جھولیں ، دوہی جھلائیں
چاروں مل گئیاں، بھول بھلیاں
جھولا کنے ڈالا رے ہمریاں
پھر برآمدے میں بیٹھے مشتاق یوسفی کے مضمون کراچی کی بارش کے جملوں کو یاد کرتے رہے۔ پھر اسکےبعد------------------چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
غرور کا سر نیچا، اندھیرا جب حد سے آگے بڑھا تو تسلی دی کہ یہ تو لوڈشڈنگ ہے ابھی کچھ دیر میں باری آنے پر ہماری قسمت کا ستارہ چمکے گا۔ اور یہ رو سیاہی جس میں اپنی قسمت اور دوسروں کی تدبیر کا بھی دخل ہے، دور ہوگی لیکن ہمارے گھر میں موجود بجلی بابا نے کہا رات بغیر بجلی کے گذارنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ کیونکہ جنریٹر کام نہیں کر رہا ہے۔ آپ کے منہ میں خاک۔ ابھی تو ساون کے کے اتنے گیت باقی ہیں۔ لیکن مرفی کا قانون ہمارے اوپر مسکرا رہا تھا۔ساری رات میں جہاں آئنسٹائن کے نظریہ ء اضافت کے پر پیچ گوشے کھلے وہاں یہ اندازہ ہوا کہ بجلی کے نہ ہونے سے کتنا وقت نکل آتا ہے۔
کہاں وقت ہے کہ دوڑا جاتا ہےاور ہماری اور اسکی رفتار میں دوستانہ تعلقات پیداہونے سے قبل ہی لمحہ ء فراق آجاتا ہے اور کہاں رات ایک پہاڑ کی طرح سامنے کھڑی ہے۔ایک ایک جھینگر، اور مینڈک کے ٹرانے کا فرق پتہ چل گیا۔ سات جھینگر اور دو مینڈکوں کے سروں کے درمیان اڑوس پڑوس کی آوازیں کہ یہ کس گھر سے آرہی ہیں۔ درمیان میں اپنے گھر کی آوازیں نفی کرتی جاتی ہوں۔ مگر رات اسی طرح پل پل گذر رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں اتنی مہارت حاصل ہو جاتی ہے کہ باہر برسنے والی بارش کا اندازہ کر سکوں کہ اتنی دیر میں کتنے ملی میٹر برس چکی ہے اور ابھی کتنی باقی ہے۔ اتنا علم حاصل ہو جانے کے بعد بھی محکمہ ء بجلی کی تسلی نہ ہوئ۔ وہ ہمیں علم کے ثریا کے بام عروج پہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں گالیاں دینے کے بجائے ہم اسی طرح صبر و تحمل سے علم کے حصول میں لگے رہیں تو کچھ دنوں میں مسلمان دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لیں گے۔
اب اندازہ ہوا کہ یہ کم بخت ویلیئم گلبرٹ نے ۱۵۵۰ میں بجلی دریافت کر کے مسلمانوں کے خلاف سازش کی بنیاد رکھی۔ اگر وہ یہ نہ دریافت کرتا تو آج ہم کتنے آگے ہوتے۔ ان ناہنجار سوچوں کا بھی کوئ فائدہ نہیں۔ ایڈیسن کے ایجاد کئے ہوئے بلب اسی طرح بجھے ہوئے ہیں۔ ڈرائیو وے میں بلی کے بچے کو کھانا چاہئیے یہ پتہ نہیں کہاں سے تین دن پہلے آگیا ہے۔ اسکی میاءوں پر غور کرتی ہوں۔ مگر پہلو سے آواز آتی ہے اماں پنکھا کیوں نہیں چل رہا۔ میں اس آواز کو ویلئم گلبرٹ کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں، لیکن رک جاتی ہوں۔ جھینگر، مینڈک، بلی، پڑوسی، بارش کی چھم چھم ۔، اور دور تک چھائے اندھیرے میں ایک نا معقول شخص کا نام کیوں لیا جائے جس نے ہمیں ترقی کی راہ سے بھٹکا دیا اور فحاشی، بے غیرتی اور بے حیائ کے رستے پہ روانہ کردیا۔ میں اسے تسلی دیتی ہوں۔ پنکھا سو رہا ہے تھک گیا ہے۔
صبح ہو گئ، دوپہر، سہ پہر اور اب رات ہونے کو ہے۔ سوچتی ہون یہ اتنی بیکلی کیوں ہے، وہ مجھے بھول گیا ہو جیسے۔کیا ایک اور رات فطرت کے قریب رہنے کا موقع ملے گا۔ وہی جھینگر، مینڈک اور بلی، پڑوسی---------
ادھر ادھر فون کرتی ہوں۔ کچھ لوگوں کی لائٹ آگئ ہے۔ سسٹم آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے۔ نئ توقع باندھتی ہوں۔۔
اماں پنکھا اٹھ گیا، لائٹ آگئ۔ ایک باریک آواز نے اطلاع دی۔ ویسے بھی مجھے اندازہ ہوگیا تھا۔ وہ ساری آوازیں گم جو ہو گئ تھیں۔ جھینگر ، مینڈک، بلی، پڑوسی اور ہاں بارش کی چھم چھم بھی۔ کیا مصیبت ہوتی ہے یہ بارش بھی۔ میں پھر نیرہ نور کو سنتی ہوں۔

ہاں یاد مجھے تم کرلینا، آواز مجھے تم دے لینا
اس راہ محبت میں کوئ در پیش جو مشکل آجائے
اے جذبہ ء دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آجائے

نوٹ؛ چونکہ یہ واقعہ کراچی میں پیش آیا ہے اس لئے اس شہر کا نام لیا گیا ہے۔ دوسرے شہروں کے رہنے والے کسی بھی قسم کے احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔ میں نے کسی بھی قسم کا تعصب برتنے کی کوشش نہیں کی ہے۔

ریفرنس؛
ویلیئم گلبرٹ