لجئیے جناب ایک کے بعد ایک تواتر سے اتنی ساری چیزیں سامنے آکر کھڑی ہوگئیں۔ ابھی تو بلیک
واٹر اپنی جگہیں سنبھالنے بھی نہ پائے تھے کہ کیری لوگر بل سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔۔ خیال کیا جا
رہا تھا کہ اس میں کچھ امریکن نواز عناصر نے سیکیورٹی فورسز کو لگامیں ڈالنے کے لئیے ایسی شقیں ڈالدی ہیں جن سے پاکستانی افواج کو اپنی حدیں پتہ رہیں۔ہم نے سوچا کہ چلیں اب قوم اس مسئلے میں کافی دن لگی رہے گی۔ اور دیکھیں یہ معاملہ کیسے نبٹتا ہے کہ امریکہ میں ایکدفعہ جو بل پاس ہو گیا وہ اسی طرح نافذالعمل ہوتا ہے۔ یہ شقیں ڈالنے کے ضمن میں رحمان ملک کا نام لینے کی بھی کچھ لوگوں نے جرءات کر ڈالی۔ اب ہمیں خیال آیا کہ ایک کے بعد ایک صدر صاحب کے عزیز رفقاء کی باری آرہی ہے۔ شاید اس طرح انکو ایک کونے میں نمائشی طور پر رکھنے میں کامیابی ہو۔
واٹر اپنی جگہیں سنبھالنے بھی نہ پائے تھے کہ کیری لوگر بل سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔۔ خیال کیا جا
رہا تھا کہ اس میں کچھ امریکن نواز عناصر نے سیکیورٹی فورسز کو لگامیں ڈالنے کے لئیے ایسی شقیں ڈالدی ہیں جن سے پاکستانی افواج کو اپنی حدیں پتہ رہیں۔ہم نے سوچا کہ چلیں اب قوم اس مسئلے میں کافی دن لگی رہے گی۔ اور دیکھیں یہ معاملہ کیسے نبٹتا ہے کہ امریکہ میں ایکدفعہ جو بل پاس ہو گیا وہ اسی طرح نافذالعمل ہوتا ہے۔ یہ شقیں ڈالنے کے ضمن میں رحمان ملک کا نام لینے کی بھی کچھ لوگوں نے جرءات کر ڈالی۔ اب ہمیں خیال آیا کہ ایک کے بعد ایک صدر صاحب کے عزیز رفقاء کی باری آرہی ہے۔ شاید اس طرح انکو ایک کونے میں نمائشی طور پر رکھنے میں کامیابی ہو۔
لیکن ابھی ہم اس بل کے مطالعے میں مصروف ہی تھے کہ پتہ چلا کہ ہماری یونیورسٹی کہ محمد حسین نامی طالب علم نے ایک امریکی اسکالر کو جو پاکستان اور دہشتگردی سے متعلق کسی تعلق پر لیکچر دے رہے تھے انہیں ایک جوتا دے مارا۔ نہیں معلوم کہ یہ محمد حسین کا اپنا جوتا تھا یا کسی کا فراہم کردہ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس لیکچر کی یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے منظوری نہ تھی۔ پھر بھی کچھ سر پھروں نے انکی بابرکت شخصیت سے یونیورسٹی کو متعارف کرانے کی ٹھان لی۔ اگرچہ ڈپارٹمنٹ کا دیگر اسٹاف اس سے الگ رہا لیکن پھر بھی یہ تقریب منعقد ہوئ۔
جوتا مارنے والے طالبعلم کے بقول انہوں نے پاکستانیوں کو شدت پسند کہا تو انہیں بڑا غصہ آیا اور یہ غصہ اسوقت عروج پر پہنچ گیا جب اس میں ایران کا نام آیا۔ پاکستانیوں کو ہمیشہ اپنے برادر ممالک کی عزت اور وقار پہ حرف اٹھانے پر زیادہ غصہ آتا ہے۔ محمد حسین سے یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ برادر خورد اتنے سالوں میں پاکستان میں رہتے ہوئے کسی اور پاکستانی کو جوتا مارنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔ اس بات پہ ایک اور ناراض صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بات کسی امریکی کو کہنے کا حق حاصل نہیں۔وہ بھی ہمارے یہاں آکر۔ اور اس سینہ زوری پہ وہ اسی قابل ہیں کہ انہیں جوتا مارا جائے۔ حالانکہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ سینے اور جوتے کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ امید ہے امریکی بہت جلد یہ تعلق معلوم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ابھی ہم اس پہیلی کی سلجھن دور کر رہے تھے کہ آخر یہ کون لوگ تھے جو اسکالر موصوف کو گھسیٹ کر جامعہ کراچی تک لے گئے اور زبردستی انکا لیکچر رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر وہ کون لوگ تھے جو محمد حسین جیسے قابل طالب علم کو اس سیمینار میں شرکت کر کے وقت ضائع کرنے پر اکسا سکے۔ کہ پشاور میں دھماکے کی اطلاع آگئ جس میں چالیس کے قریب لوگ مارے گئے۔ اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ یہ چالیس لوگ بس ایسے ہی عام سے لوگ تھے اور انکی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ آٹے کی لائنوں یا کسی اور خود کش حملہ آور کے دھماکے میں مرنے سے بچ گئے تھے۔
آج پتہ چلا کہ جناب، اسلام آباد میں جی ایچ کیو پر مسلح حملہ ہو گیا۔ حملے کی تفصیلات تو نہیں معلوم لیکن کہا یہ جارہا ہے کہ اس حملے میں دہشت گردوں سمیت مسلح افواج کے لوگ بھی مارے گئےجبکہ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ وہ دو افراد کو اغوا کر کے بھی لے گئے ہیں۔ یہ وہ خبر ہے جسکا کافی دنوں سے لوگ انتظار کر رہے تھے۔ حالات جس نہج پہ جا رہے ہیں اس سے اس قسم کے واقعات کا پیش آنا قرین از قیاس تو نہیں۔
اندازہ لگانے والوں کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستانی فوج وزیرستان میں کارروائ نہیں کرنا چاہ رہی اس لئیے یہ سب کچھ فوج کو دباءو میں لانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ کیا یہ واقعی صحیح ہے اور کیا واقعی پاکستان کے خلاف کچھ برا ہونے جا رہا ہے۔ اور کیا ہم یہ جنگ جوتوں سے جیت لیں گے۔ میں نے یہ سوچ کر اپنے پرانے جوتے روک لئے ہیں کہ کیا جانے کب انکی ضرورت پڑ جائے۔ اتنے امریکی جو دھڑا دھڑ ہمارے یہاں گھسے چلے آرہے ہیں انکے لئیے ایک جوتا تو کافی نہ ہوگا یا ہوگا۔