Showing posts with label ڈھاکہ سیف گیمز. Show all posts
Showing posts with label ڈھاکہ سیف گیمز. Show all posts

Friday, February 12, 2010

فلائینگ کوئین، نسیم حمید

مجھے انڈین فلم چک دے انڈیا بہت پسند ہے۔ وجہ اسکی فلم میں شاہ رخ خان کی موجودگی نہیں ہے بلکہ فلم کی کہانی ہے جو انڈیا کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کھلاڑیوں  کی کہانی ہے۔ جن میں ایک مرد کوچ اپنی تربییت سے  وہ مہارت اور جذبہ پیدا کر دیتا ہے کہ وہ ہاکی کے ورلڈ کپ میں ایک ٹیم کے طور پہ اپنے ملک کی پہچان بن جاتی ہیں اور دنیا بھر میں اسکے فخر کا باعث۔
یہ کہانی شاید فلمی ہی لگتی، اگر نسیم حمید یہ ثابت نہ کر دیتی کہ دراصل دنیا میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ہوتا اور اگر انسان اپنے ہدف جانتا ہو اورانکے حصول کی کوشش کرے تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اپ پاکستان جیسے ملک کے پسماندہ علاقے میں رہتے ہیں۔ جہاں خواتین کی تعلیم کو عیاشی سمجھا جاتا ہے اور انکے کھیلنے کو غیر اسلامی۔
مجھے یاد ہے کہ اب سے چند سال پہلے لاہور میں ایک میراتھن ہونے والی تھی جس میں بھاگنے والوں کے تمام اہل خانہ کی شرکت متوقع تھی۔ لیکن اسکے خلاف ایک مہم چلادی گئ۔ معاشرے کے ایک طبقے کے نزدیک یہ وطن میں اخلاقی قدروں کے لئے لڑنے والا جہاد بن گیا۔ حالانکہ یہ صرف ایک دوڑ تھی۔ معاشرے میں اگر صحتمندانہ سرگرمیوں کے لئیے جگہ نہ چھوڑی جائے تو یہ توانائیاں نہ صرف کسی غیر پیداواری سرگرمی میں خرچ ہونے لگتی ہیں۔ بلکہ نوجوانوں میں مایوسی پیدا کرتی ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں کھیل تعلیم کا حصہ ہوتے ہیں اور ہر طالب علم کو کسی نہ کسی کھیل میں حصہ لینا ہوتا ہے۔
 کھیل انسانی توانائیوں کو نہ صرف مثبت طریقے سے سے خرچ کرنے کا نام ہے۔ بلکہ یہ انسان میں دیگر خواص بھی پیدا کرتے ہیں جیسے جہد مسلسل، برداشت، باہمی تعاون،اور باہمی میل جول کے طریقے۔
بہر حال کراچی سے تعلق رکھنے والی اس فلائنگ کوئین نے نہ صرف اس شہر کے باسیوں کا سر اونچا کیا ہے بلکہ وہ پاکستانی خواتین کے لئیے کامیابی کا ایک نیا نشان بن کر ابھری ہیں۔ انہیں ہم سب کی طرف سے اس کامیابی کی مبارکباد۔ اسکے ساتھ ہی وہ تمام لوگ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس بائیس لڑکی کو وہ آسانیاں فراہم کیں کہ وہ ہم سبکی فخر کا باعث بنی۔
 اگرچہ کہ یہ حق نسیم حمید کا ہے کہ وہ پیغامات دیں۔ میں انکی کامیابی کی ترجمان بن کر نوجوانوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں  کہ کچھ کرنے کا موقع آج ہی کا ہے۔ ہر عہد اپنے نوجوانوں کا ہوتا ہے۔ ہم سے پہلے کے لوگ اپنے حصے کا کام کر گئے۔ یہ ہمارا عہد ہے اور ہمیں یہ ثابت کر دینا چاہئیے کہ ہم تمام ترمشکلوں کے باوجود اسے بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم انسانی فکر کی اس آزادی پہ یقین رکھتے ہیں جو انسانوں کو اپنے ماحول سے آگاہ کرتی ہے اور جو اسے دوسرے انسانوں کے لئیے آسانیاں پیدا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ ہم اس قابل ہیں کہ اپنے لوگوں کو اپنے ملک کو ایک نئ پہچان دیں۔
تندی ء باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ توچلتی ہیں تجھے اونچا اڑانے کے لئیے
تو پھر اپنے پر، پرواز کے لئیے کھول دیں۔ بلندی کی کوئ حد نہیں ہے۔

حوالہ؛
نسیم حمید

نسیم حمید کی کہانی