یہ صرف چار سال پہلے کی بات ہے , مجھے وفاقی اردو یونیورسٹی میں پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ یہ یونیورسٹی پہلے کالج تھی جہاں پوسٹ گریجوایٹ کی سطح پہ تعلیم دی جاتی تھی۔ بعد میں شاید اسے یہ سوچ کر یونیورسٹی کی سطح تک ترقی دی گئ کہ یہ پاکستان کی واحد یونیورسٹی ہوگی جہاں ذریعہ ء تعلیم اردو میں ہوگا۔
مگر ہوا کیا؟ یونیورسٹی کے بیشتر اساتذہ وہی تھے جو کالج کے زمانے سے پڑھا رہے تھے۔ تقریباً سبھی ماسٹرز کی ڈگری رکھتے تھے۔ تقریباً سبھی کسی علمی تحقیق سے وابستہ نہ تھے، کسی نے کبھی کسی سیمینار یا کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی۔ انکا کوئ تحقیقی مقالہ موجود نہ تھا۔ در حقیقت انکی اکثریت اس بات سے واقف ہی نہ تھی کہ تحقیقی مقالہ ہوتی کیا بلا ہے۔ انہیں صرف اس بات پہ ناز تھا کہ انکی مدت ملازمت کو اتنا عرصہ ہو چکا ہے۔
یونیورسٹی کے اوپر چند مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا راج بلکہ قبضہ تھا۔ انکی پسند کے شخص کے علاوہ کسی کا ٹہرنا نا ممکن تھا۔ یہ اساتذہ تدریسی سرگرمیوں میں کم اور سازشی سرگرمیوں میں زیادہ مصروف رہتے۔ اس مذہبی گروہ کے افراد بات بے بات پہ خدا کو یاد کرتے اور اخلاقی حالت یہ کہ یونیورسٹی کے پتے پہ اگر کسی کا کوئ خط آتا تو انکے پاس سے گذر کر آتا۔ وہ اسے کھولتے، پڑھتے اور مناسب سمجھتے تو وہ متعلقہ شخص کو ملتا ورنہ جیسے دل چاہے اسکی اطلاعات کو استعمال کرتے۔
اسے یونیورسٹی کا درجہ ملے ہوئے پانچ سال کا عرصہ ہو رہا تھا۔ مگر فارمیسی کی پریکٹیکل لیبز ہونے کا سامان نہ تھا۔ کیمسٹری کی لیب میں کیمیکلز نکالنے کے وہ چھوٹے چھوٹے چمچے موجود نہیں تھے جو اسپےچولا کہلاتے ہیں حقیر ترین چیز جن کی قیمت اس وقت دس پندرہ روپے ہوگی۔ ساٹھ اسٹوڈنٹ کی لیب میں دو اسپے چولا اور تین برنرز۔ باقی سامان کا بھی یہی حساب، لٹمس پیپر جیسی روز کے استعمال کی سستی ترین شے کیمسٹری کے چیئر مین سے مانگ کر لائ جاتی۔
میری اس طرف بار بار توجہ دلانے پہ ہماری چیئر پرسن جو کیمسٹری ڈپارٹمنٹ سے لا کر یہاں مقرر کی گئ تھیں۔ اور جو کسی بھی قسم کی تحقیق تو دور تدریسی عمل میں بھی کئ سالوں سے شامل نہ تھیں۔ سخت آگ بگولہ ہوئیں اور کہنے لگیں کہ پچیس سال سے ہم پڑھا رہے ہیں ہمیشہ کیمیکلز نکالنے کے لئے کاغذ پھاڑ کر اسکی ڈوئ بنائ آپکے بڑے نخرے ہیں اسپے چولا ہونا چاہئیے۔ میرے جیسے جونیئر استاد نے یہ احمقانہ دلیل سنی اور خاموش ہو گیا۔
ماں باپ اپنی جان مار کر اپنے بچوں کو ان یونیورسٹیز میں بھیجتے ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھنے والے کراچی کے بیشتر نوجوان گھر واپس جا کر ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور تب اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ لیکن میں آپکو یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ جس طرح کا معیار تعلیم میں نے اس یونیورسٹی میں دیکھا اور جو لیبز کی حالت تھی۔ یہاں دی جانے والی ڈگری، جعلی ڈگری کے برابر ہی تھی۔
ماسٹرز ڈگری کے حامل یہ اساتذہ، اپنے سالوں پرانے لیکچرز پڑھا رہے تھے۔ شعبے کے ایک سینیئر ٹیچر نے انتہائ ناقص کتابچہ کیمسٹری کی رہنمائ کے لئے تحریر کر رکھا تھا اور نئے آنے والے تمام ٹیچرز پہ فرض تھا کہ وہ اسی کتابچے سے تجربات کی تھیوری اور طریقہ لکھوائیں۔ میں نے اسے ایک طرف رکھا اور ذاتی طور پہ اپنی لیب کے لئے ایک کتابچہ خود تیار کیا اس اطلاع پہ ان سینیئر ٹیچر نے فوری ایکشن لیا۔ چیئر پرسن نے فوراً طلب کر کے کہا، آپ اپنے کتابچے کو ابھی رہنے دیں۔ اگلے سال اسے دیکھیں گے۔ ابھی پرانے کتابچے کو ہی استعمال کروائیے۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ بحیثیت یونیورسٹی ٹیچر وہ اس بات کا حق نہیں رکھتیں کہ سلیبس کے علاوہ میرے طریقہ ء تدریس میں دخل دیں اور مجھے کسی خاص کتاب کے استعمال پہ مجبور کریں۔ مجھے معلوم تھا لیکن ہر دفعہ کی طرح پھر خاموش ہوئے۔
یونیورسٹی کا نام اگرچہ اردو یونیورسٹی تھا مگر یہاں اردو میں تعلیم نہیں دی جا سکتی تھی۔ کیونکہ اردو میں سائینس کی کتب ہی کتنی موجود ہیں۔ سو اسکے قیام کا بہانہ، دراصل بش کے اس بہانے کی طرح تھا جو اس نے عراق پہ حملے کے لئے کیا تھا۔
خیر، ایک ایسی ناگفتہ بہ حالت میں جبکہ تعلیمی سرگرمیوں پہ خرچ کرنے کے لئے پیسے نہ تھے۔ ہمارے مذہبی ٹولے کی ملی بھگت سے یونیورسٹی میں انکے پسندیدہ با ریش وائس چانسلر کی آمد ہوئ تو انہوں نے پہلا اور آخری کام اپنی سوابدید پہ یہ کیا کہ وائس چانسلر آفس کے لئے نئے گلاس منگوائے کیونکہ پرانے گلاسوں کی شکل انکے خیال میں ان گلاسوں سے مشابہ تھی جن میں شراب پی جاتی ہے۔ یعنی وہ جام جیسے تھے۔ ان گلاسوں کی تبدیلی کے بعد وائس چانسلر اپنی عاقبت سنوارنے کے مشکل مرحلے سے نکل کر عالم سکون میں آگئے۔ باقیوں کا رقص بے خودی بھی شروع ہوا، اس دھن پہ، سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف مذہبی طبقہ ہی ایسی کرپشن کرتا ہے ۔ غیر مذہبی بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ چیز اس وقت اتنی بد تر مذاق کی صورت لگتی ہے جب ایک شخص اپنے آپکو زیادہ مذہبی ثابت کر رہا ہو، اس پہ فخر کرتا ہواور دوسروں پہ نفرین بھیج رہا ہو پھر اس ساری نفرین کے بعد وہ وہی کرپشن زور و شور سے کرے جو دوسرے لوگ بغیر مذہبی و اخلاقی پند و نصائح کے کرتے ہیں۔
اب لیبز تو سامان کی کمی کی وجہ سے ہو نہیں پاتی تھیں۔ لے دے کر تھیوری کی کلاسز ہی منعقد ہوتیں اس کے بعد ہمارے پاس خاصہ وقت ہوتا۔ گیارہ بارہ گھنٹے ہر ہفتے کے کریڈٹ آرز کے بعد تو خاصہ وقت ہوتا ہے۔ ایکدن میں نے اپنی چیئر پرسن سے کہا کہ میرے پاس خاصہ وقت ہوتا ہے اور میں سوچتی ہوں کہ فارغ ہونے کے بعد کچھ اس طرح ورک شیڈول ترتیب دوں کہ کراچی یونیورسٹی جا کر کسی تحقیقی پروجیکٹ پہ کام شروع کردوں۔ اس طرح جو پبلیکیشن بنے گی اس میں اردو یونیورسٹی کا نام بھی آئے گا۔ میری ماسٹرز کی ہوئ پچیس سالہ تجربے کی حامل سینیئر استاد نے اپنے سر کا اسکارف صحیح کیا اور کہنے لگیں جب آپکو اپائینٹمنٹ لیٹر ملا تو اس پہ کیا لکھا تھا؟ پھر میرے سوالیہ تائثر پہ انہوں نے بیان کیا کہ اس میں یہ لکھا تھا کہ یونیورسٹی کو ایک استاد چاہئیے یا یہ لکھا تھا کہ انہیں ایک تحقیق داں چاہئیے۔ یہ ایک تحقیقی ادارہ نہیں یونیورسٹی ہے۔ اب آپ ریسرچ کو بھول جائیں۔
آپ میں سے کچھ لوگوں کو اب سمجھ آئے گا صرف بلاگی دنیا میں ہی اس قبیل کے لوگوں نہیں بلکہ اس مملکت خداداد میں جہاں نکل جائیں وہاں یہ اسپی شی موجود ہے۔
ایک مایہ ناز یونیورسٹی کی، ایک اہم ڈپارٹمنٹ کی چیئر پرسن، یہ کہتی ہے کہ یونیورسٹی کا تحقیق سے کیا تعلق تو اس چیئر پرسن کو کسی کالج یا اسکول میں ہونا چاہئیے، یونیورسٹی میں نہیں۔ یونیورسٹی کی بنیاد کا مقصد ہی تحقیق کو تعلیم سے جوڑنا ہوتا ہے۔
آخر یونیورسٹی کی اس دگرگوں حالت کا کون ذمہ دار تھا۔ کون اس بات کا ذمہ دار تھا کہ وہ یونیورسٹی کے معیار پہ نظر رکھے، وہ اس بات کو جانچے کہ یونیورسٹی اپنے طلبہ کو جن سہولیات کو پہنچانے کا دعوی کر رہی ہے آیا وہ ایسا کر پا رہی ہے یا نہیں، اتنے عرصے میں یہاں سے جتنے طالب علم اپنی تعلیم مکمل کر کے نکلے یقیناً وہ تعلیمی سطح پہ انتہائ گھٹیا معیار رکھتے تھے۔ بیرون ملک تو کیا اپنے ہی ملک کی کسی بہتر یونیورسٹی کے طالب علم سے مقابلہ نہ کر پاتے۔ لیکن اس میں کس کا قصور تھا۔ کیا اس طالب علم کا یا اس بات کا کہ اس یونیورسٹی کے اندر موجود لوگوں کے ایک گروہ کو پتہ تھا کہ وہ جو دل چاہے کرتے رہیں۔ ان سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئ نہ ہوگا۔
یہ کوئ واحد یونیورسٹی نہ ہوگی، مشرومز کی طرح اگ آنے والی یونیورسٹیز کی ایک تعداد اسی قطار میں کھڑی ہوگی۔
یونیورسٹیز کے معیار کو کیسے جانچنا چاہئیے؟ یونیورسٹیز کو کیسے اس بات کا پابند بنانا چاہئیے کہ وہ بہتر نتائج دیں؟ یونیورسٹیز کے اساتذہ کو کیسے مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے آپکو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں؟ یونیورسٹیز کو آزاد تعلیمی ماحول دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ امر کیسے باور کرایاجائے کہ یونیورسٹیز کو سچی اور معیاری تحقیق سے جڑا رہنا چاہئیے؟
میں نے کچھ ہنگامہ بپا کرنے کے بعد یونیورسٹی چھوڑ دی۔ اس دوران بارہا مختلف صاحب علم لوگوں سے پوچھا اور یہ سوال میں اب بھی اپنے ملک کے اس دانشور طبقے سے پوچھنا چاہتی ہوں جو اس ملک میں تعلیم کی حالت پہ فکر مند رہتے ہیں۔ کیا آپ واقعی تعلیمی زبوں حالی پہ فکر مند ہیں؟
آج ایچ ای سی کو ختم کرنے پہ احتجاج جاری ہے۔
ایچ ای سی کے دامن پہ داغ بھی ہیں اور کامیابیاں بھی۔
ملک میں زیادہ تعداد میں یونیورسٹیز کھولنے اور زیادہ سے زیادہ طلباء کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دینے کے چکر میں معیار کا کوئ خیال نہیں رکھا گیا۔ یونیورسٹیز میں تحقیقی سہولیات مہیا کرنے کے بارے میں کوئ دلچسپی نہیں لی گئ۔ جہاں تھوڑی بہت ہو رہی ہے، انہیں اس بات پہ مجبور کرنے کے لئے کوئ منصوبہ نہیں بنایا گیا کہ وہاں ایسی تحقیق کو پذیرائ ملے جو ہمارے ملک کے لئے کار آمد ثابت ہو۔ باہر سے آنے والی فنڈنگ بشمول اسکالر شپس کو منظور نظر افراد اور اداروں کی نذر کیا گیا۔ ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد کو کھپانے کے لئے کوئ منصوبہ بندی نہیں کی گئ۔
ان میں سے بیشتر باتوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ کرپشن ہمارے ملک کا مزاج ہے۔ بہت کم ایسا ہو پاتا ہے کہ حق دار کو اسکا حق ملے۔ اور کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ غریب ممالک میں، تبدیلی یک لخت نہیں آتی۔ ادارے جیسے جیسے پختگی کی طرف بڑھتے ہیں زیادہ بہتر ہو جاتے ہیں۔
اسکے ساتھ ایچ ای سی کے حصے میں تمغے جاتے ہیں۔ بیرون ملک سے پاکستانی طلباء طالبات کے لئے اسکالر شپس حاصل کی گئیں، ریسرچ کے لئے فنڈنگ ملی۔ سب سے بڑھکر یہ کہ بیرون ملک سے غیر ملکی اساتذہ آئے جنکی وجہ سے یہاں طلباء طالبات کو مہمیز ملی اور اندازہ ہوا کہ باہر کس طرح اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں کو دلچسپ بناتے ہیں اور کیسے انہیں اپنی تحقیق کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
پاکستان سے کثیر تعداد میں طلباء طالبات باہر گئے، انہیں ایک نئ، مختلف دنیا دیکھنے کو ملی۔ وہ نئ ثقافتوں کو دیکھ کر
واپس آئے اور لازماً یہ صورت ملک میں پھیلتی ہوئ انتہا پسندی کو روکنے میں سازگار ہو سکتی ہے اور کسی قوم کی بالغ نظری کی بنیاد بن سکتی ہے۔
ان اسکالرشپس سے ملک کے دوردراز کے علاقوں کے لوگ بھی مستفید ہوئے۔ ایسے لوگ بھی باہر اعلی تعلیم کے لئے گئے جو کبھی تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ وہ وظیفے پہ اتنی اعلی تعلیم حاصل کر پائیں گے۔
اب بجائے یہ کہ ایچ ای سی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے اقدامات کئیے جاتے۔ حکومت نے ہمیشہ کی طرح اپنی ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ انکا کہنا ہے کہ وہ اسے صوبوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی جو اپنے آپکو ایک وفاقی جماعت کہتی ہے وہ خدا جانے دن بہ دن ایسےفیصلے کیوں کر رہی ہے جو اسے ایک وفاقی جماعت کے بجائے ایک علاقائ جماعت بنائے دے رہے ہیں۔
اب شاید وہ لمحہ آن پہنچا ہے کہ ہم اپنے کچھ مسئلوں کو جنگی نوعیت کا قرار دے کر ان پہ پورے جذبے کے ساتھ کام کریں اور ان میں سب سے پہلا مسئلہ تعلیم کا ہے اسلام کا نہیں۔ صوبوں کو اسکول کی تعلیم کا حق حاصل ہے انہیں اسکی ترویج کے لئے جان لگانی چاہئیے۔
پولیو کے ٹیکوں کی طرح پرائمری سطح کی تعلیم کے لئے ایک ٹارگٹ مقرر کرنا چاہئیے کہ آئیندہ پانچ سال میں ہمارا ہر بچہ اسکول کی اتنی تعلیم حاصل کرے گا اخبار پڑھ سکے اور اپنی زبان میں خط لکھ سکے۔ جب صوبے اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جائیں تو انہیں ہائیر ایجوکیشن کی ذمہ داری دی جائے۔ فی الوقت تو یہ فیصلہ صرف دو پس منظر رکھتا ہوا لگ رہا ہے۔ ایک جعلی ڈگری کی شناخت کی وجہ سے ایچ ای سی پہ عتاب اور دوسرے صوبوں کو تعلیم کی مد میں ملنے والے فنڈ میں زیادہ خرد برد کے آسان مواقع حاصل کرنا۔ صوبوں کی سطح پہ جہاں علاقائ اثر زیادہ گہرا ہو گا، خرد برد اور غبن کے مواقع زیادہ آسان ہونگے۔