Showing posts with label بلوچ. Show all posts
Showing posts with label بلوچ. Show all posts

Thursday, March 24, 2011

ساحل کے ساتھ-۹


یہ گوادر میں مرنے والے کیا ذکری تھے؟ نہیں، نہیں، نمازی تھے۔ ہمم، تو یہ بھی نہیں سوچا جا سکتا کہ مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ انہیں یقین تھا کہ ایجنسی والوں نے مارا ہے۔ یہ ہنگامہ کرنے والے لوگ بہت تھوڑے سے ہیں۔ سب کو باہر سے پیسہ ملتا ہے۔ ایجینسی والوں نے سوچا ہوگا کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے میں پیچیدگیاں زیادہ ہیں۔ پکڑو اور ماردو۔ یہ ان کا خیال تھا۔
 یہاں میں نمازی اور ذکری کا فرق بتاتی چلوں۔ بلوچستان میں عمومی طور پہ اور ڈسٹرکٹ گوادر میں بالخصوص مسلمانوں کا ایک فرقہ پایا جاتا ہے جو ذکری کہلاتا ہے۔ ذکری، کراچی میں بھی پائے جاتے ہیں اسکے علاوہ ایران میں بھی موجود ہیں۔  انکے فرقے کے بانی کے طور پہ ایک شخص محمد جونپوری کا نام لیا جاتا ہے۔ زکریوں کے عقیدے کے مطابق وہ امام مہدی ہیں۔ کچھ کے خیال میں وہ ایک صوفی تھے اور ذکری دراصل صوفی ازم کی کسی تحریک سے متائثر ہو کر وجود میں آیا۔
ذکری اور نمازی میں فرق جیسا کہ نام سے اندازہ ہو تا ہے، نماز کا ہے۔ ذکری نماز کی جگہ ذکر کرتے ہیں۔ یہ مذہب تقریباً پانچ سو سال پرانا ہے۔  ذکرکے اوقات مقرر ہیں۔ جس جگہ ذکر کیا جاتا ہے اسے ذکر خانہ کہا جاتا ہے۔ یہ عمارت مسجد کا ظاہری حلیہ نہیں رکھتی کسی گھر کا کوئ کمرہ بھی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ کہ میسر مواد کہتا ہے کہ ذکری دن میں پانچ دفعہ نماز کی جگہ پانچ دفعہ ذکر کرتے ہیں۔ مگر عملی طور پہ میں دیکھتی ہوں کہ ایسا اجتماع ہفتے میں ایک بار ہوتا ہے۔
ذکریوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حج بھی کرتے ہیں لیکن وہ رمضان کی ستائیس تاریخ کو گوادر شہر کے قریب واقع ایک اور شہر تربت میں موجود ایک مقام کی زیارت کو جاتے ہیں یہ مقام کوہ مراد میں واقع ہے۔ جہاں انکے مطابق امام مہدی کبھی رہ چکے ہیں۔ اسے زیارت بھی کہا جاتا ہے اور اسکے اعمال حج سے ملتے جلتے ہوتے ہیں سنتے ہیں کہ وہاں ایک کنواں بھی موجود تھا جو اب خشک ہو چکا ہے۔ یہ آب زم زم کے وزن پہ چاہ سم سم کہلاتا تھا۔
یوں ، مجھے سن دو ہزار تین میں اسکے متعلق جان کر حیرانی ہوئ کہ قادیانیوں کی طرح سے انہیں غیر مسلم کیوں نہیں قرار دیا گیا۔ آج سن دو ہزار گیارہ میں ذکریوں کو اپنے تحفظ کے متعلق خدشات ہیں۔ اور لوگ علی الاعلان اپنے آپ کو ذکری کہنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اسکی وجہ آپ جانیں؟
جب سے کوسٹل ہائ وے بنی ہے مختلف اسلامی گروپوں کا یہاں نفوذ آسان ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار تین میں جب میں یہاں پہلی دفعہ آئ تھی۔ کوئ بڑا مدرسہ موجود نہ تھا۔ چھوٹے درس قرآنی کے مدرسے ہوں تو ہوں۔ کوسٹل ہائ وے کی تکمیل کے دوران ہی  زمین کا ایک بڑا ٹکڑا ایک مذہبی تنظیم کے حوالے کیا گیا۔ اب اس پہ ایک خاصی بڑی عمارت موجود ہے۔
ان گروپوں نے ذکری فرقے کو خلاف اسلام قرار دینے کی جد و جہد شروع کر دی ہے۔ کچھ بلوچوں کے خیال میں ذکریوں کو غیر مسلم قرار دینے کی سازش بھی پنجابیوں کی ہے۔
خیر، یہاں تک آنے کے بعد آپکو یہ تو سمجھ آرہا ہوگا کہ عام سنّی مسلمان نمازی کہلاتا ہے۔ ابھی تک نمازی اور ذکری ایک دوسرے سے معاشرتی تعلق رکھتے ہیں۔ انکی آپس میں رشتے داریاں ہیں اور وہ آپس میں شادیاں بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ عقائد کے فرق کے باوجود وہ اپنے آپکو ایک ہی سمجھتے ہیں یعنی بلوچ۔
اچھا ، اس ہڑتال سے ہمارے واپسی کے منصوبے پہ کچھ ایسا ہی بھونچکا  اثر پڑا جیسا آدم کا دانہ ء گندم کھانے کے بعد دنیا کے حالات پہ پڑا۔  لوگ بڑے فخر اور بے نیازی سے کہتے ہیں کہ ہمیں سیاسی موضوعات اور گفتگو پسند نہیں آتے۔ مگر یہ سیاسی حالات لمحے بھر میں ہماری  ترجیحات،  امیدوں اور خدشات کو یکدم تبدیل کر دیتے ہیں اور بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ ہم انکے متعلق کیسے خیالات رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو جنت سے ہمارا نکالا جانا بھی سیاست شیطاں ہی تھی۔
اب کہاں تو ہم میٹھی سویوں کی خوشبو میں غرق  تھے۔ اس خیال سے مہمیز تھے کہ رات کو  چھت پہ بیٹھ کر ستاروں کی کہکشاءوں سے مزین آسماں کی رونق  کو  دیر تک نرگس کی آنکھ سے دیکھیں گے کہ کراچی میں آسماں تک پہنچنے سے پہلے ہی نظر دھویں کی آلودگی میں گم ہو جاتی ہے۔ یہی آسماں ہوتا ہے مگر اس قدر آباد نہیں۔ کہاں ہمارے خیال دل افروز کی ایسی دھجیاں بنیں کہ وہ خود خشک سویوں کی شکل میں آگیا۔ ستاروں کا خیال ذہن آسمانی سے بھک سے اڑ گیا۔ ہم اب روحانی طور پہ کراچی میں تھے۔
وہ لوگ رخصت ہوئے تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہماری موجودگی اتوار کے دن کراچی میں ہونا لازمی تھی۔   اگر دودن ہڑتال  وجہ سے رکتے ہیں تو اتوار کو ہی نکل پاتے۔  یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ ادھر ہڑتال کی وجہ سے اگلے دن ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہو گی ۔ اس لئے واپسی کا منصوبہ اسی لمحے بنانا تھا ۔
وہاں سے کراچی کے لئے چلنے والی بس ساڑھے آٹھ بجے روانہ ہونی تھی۔ جو دراصل گوادر شہر سے یہاں آتی ہے۔ اس وقت ساڑھے چھ بج رہے تھے۔
چلیں جناب، پہلے بکنگ آفس سے معلوم کرنا پڑے گا کہ بس میں تین افراد کے لئے جگہ بھی ہے یا نہیں۔ وہ یہ کہہ کر روانہ ہوئے۔
کراچی کی منی بسوں میں دن رات لمبے لمبے سفر کرنے کے باوجود میں پاکستان میں شہروں کے درمیان چلنے والی بسوں کے سفر سے اب تک محروم رہی تھی۔  اور اب کن حالات میں اس سفر کے امکان پیدا ہوئے۔ شام ، سات بجے اطلاع ملی کہ بکنگ ہو گئ ہے۔ ساڑھے آٹھ بجے روانگی ہے۔ بس والوں کا کہنا ہے کہ سات گھنٹے میں کراچی پہنچ جائیں گے۔
سویاں اٹھا کر رفیق بلوچ کے حوالے کیں۔ جلدی جلدی، بھاگم بھاگ چار دن کی پھیلائ گرہستی کو سمیٹا۔ رات کے کھانے کے لئے روٹی اور آملیٹ تیار کر کے باندھا۔ کچن کو صاف ستھرا کیا کہ بعد میں آنے والوں کو پریشانی نہ ہو۔ اب ہم گوادر سے کراچی بس کے سفر کے لئے تیار تھے۔
صرف دو سیٹیں ملیں۔ ہڑتال کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں سے نکلنا چاہ رہے ہیں اور بس بھری ہوئ ہوگی۔ یعنی مشعل ساری رات ہم دونوں کی گود میں پھیل کر سوئیں گی۔ 
ساڑھے آٹھ بجے ہم بس کے اڈے پہ کھڑے تھے۔ رفیق بلوچ میرے پاس آیا اور ایک تھیلا میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ اس میں گوادر کی مٹھائ ہے۔ اس نے کچھ جھجھکتے ہوئے کہا۔ مٹھائ، میں نے اسکی کیلوریز کا حساب لگایا۔ پھر اپنے پہ تف بھیجی، جدید شہری انداز زندگی کے متائثرین، جذبات کو بھی کیلوریز میں دیکھتے ہیں۔
ایک جانی پہچانی منزل کی طرف، جانے پہچانے راستوں پہ ایک  انجان سفر شروع ہونے کو تھا۔  دیکھیں تو ہر سفر ہی اپنے اختتام تک انجان رہتا ہے، جیسے زندگی کا سفر۔ لیکن بعض اوقات یا تو راستوں میں اتنے طلسم  ہوتے ہیں کہ راستےمیں ہونے کا احساس دل سے نکل جاتا ہے جیسے ایلس ان دا ونڈر لینڈ یا پھر انگریزی کا ایک محاورہ اختتام اچھا ہو تو سب اچھا ہوتا ہے، سفر بھی گذر ہی جاتا ہے۔ 
ساڑھے نو بجے رات کو پاکستان کےمعیاری طریقہ ء تاخیر کے مطابق بس آئ۔ میں نے مشعل کو گود میں سنبھالا، اور ذرا عالم جوش میں گوادر کے ساحل سے بس میں قدم رکھا، یوں جیسے کولمبس نے امریکہ کے ساحلوں پہ پیر دھرے ہوں۔ میرا گوادر سے کراچی پہلا بس کا سفر۔


جاری ہے

Sunday, March 6, 2011

ساحل کے ساتھ-۶

صبح میکینک واپس چلا گیا۔ ہم نے طے کیا کہ آج بدھ ہے جمعے کی صبح ہم بھی نکل جائیں گے بس سے۔ گاڑی یہیں چھوڑ دیں گے۔ کم از کم گھر میں کھڑی ہے۔ یہاں ایک صاحب دیکھ بھال کے لئے موجود ہیں۔ یوں اس مسئلے کا ایک عارضی حل نکل آیا۔ تھوڑا وقت ملا تو ہم ایک دفعہ پھر پہاڑ کے اس طرف چکر لگا آئے۔ واپس آ کر کھانے کے بعد کا پلان یہ بنا کہ میں اور مشعل محلے کے ایک دو گھروں کا چکر لگا لیں۔

ایک اور خوبصورت منظر ساحل، سمندر اور افق کے پہاڑ اور ایک ڈولتی ناءو
ایک گھر سے ایک دن صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا آیا تھا۔ وہاں نہ جانا تو بد اخلاقی ہوگی۔ شام کو چار بجے ہم دونوں نکلے۔ ایک مقامی صاحب سے مدد چاہی۔ قصبہ، یونہی اٹکل پچو انداز میں بنا ہوا ہے۔ گلی وغیرہ کا تصور بالکل خام حالت میں ہے پانچ  ہزار سال پرانے موئن جو داڑو کا جو نقشہ بیان کیا جاتا ہے وہ اس سے بہتر ہوگا۔ اب بھی دوبارہ اس گھر میں جانا چاہوں تو کسی کی مدد درکار ہوگی۔
گھر میں داخل ہوئ تو بکری کے پیشاب کی بدبو نے استقبال کیا۔ چھوٹے سے گھر میں تین کمرے اور انکے آگے برآمدہ تھا۔بالکل چھوٹے سے کچے صحن میں چار پانچ بکریاں بندھی ہوئیں تھیں۔ خوشحالی کی ایک نشانی۔ یہ ایک خوشحال گھر تھا جہاں علیحدہ سے باورچی خانے موجودتھا۔
ہم میزبان کے کمرے میں داخل ہوئے جو بیک وقت خوابگاہ اور ڈرائینگ روم اور ٹی وی کے کمرے کے طور پہ بھی استعمال ہوتا ہوگا۔ بہر حال یہاں ایسے گھر بھی موجود ہیں جہاں ایک ہی کمرے میں پندرہ لوگ سوتے ہیں۔ خواتین بچے، بوڑھے، شادی شدہ، غیر شادی شدہ سب۔
تین بچیاں تیرہ چودہ سال کی عمر کی بیٹھی ہوئیں تھیں اور تین خواتین۔ میرے گھر میں داخل ہوتے ہی دو اور خواتین آگئیں۔ ایک عورت کشیدہ کاری میں مصروف تھی اور باقی سب خوش گپیوں میں انکے درمیان میں حقہ موجود تھا۔ جس سے وہ سب باری باری کش لے رہی تھیں۔ یوں حقہ محفل میں گردش میں تھا۔ ان میں سے کسی کو اردو نہیں آتی تھی۔ ان بچیوں کو آتی تھی مگر انہیں بولنے میں بہت ہچکچاہٹ تھی۔
دس منٹ بھی نہ گذرے ہونگے کہ ایک اورعورت ایک بے حد اسمارٹ برقعے میں اندر داخل ہوئ۔ یہ نازنین تھی ہماری مترجم۔ پانچ سال پہلے جب میری اس سے ملاقات ہوئ تھی تو وہ پندرہ سال کی ہوگی۔ پانچ جماعتیں پڑھنے کے بعد شادی ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔تم نے پڑھنا کیوں چھوڑ دیا۔ میں نےاس سے پوچھا۔ ابا نے کہا بس اتنا کافی ہے۔ تو تم نے ابا سے یہ کیوں نہیں کہا کہ میں آگے پڑھونگی اور الیکشن میں کھڑے ہو کر زبیدہ جلال کی طرح اسمبلی میں لیڈر بنونگی۔  تھپڑ مارے گا، ابا۔ اس نے ہتھیلی کو کھڑآ کر کے تھپڑ کی شدت بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔  بلوچی اسٹائل میں سیدھا، کھڑا جواب۔ وہ زبیدہ جلال کو سخت نا پسند کرتا ہے۔ کیوں؟ وہ کہتا ہے عورت کو یہ سب نہیں کرنا چاہئیے۔ اچھا میں خاموش ہو گئ تھی۔
آج وہی نازنین میرے سامنے موجود تھی شادی کو تین سال ہو گئے۔ بچہ نہیں ہے کوئ۔ کیسے ہوگا، میں اپنے شوہر کے پاس بہت کم رہی ہوں۔ وہ مسقط میں ہوتا ہے اسکا سارا خاندان مسقط میں ہے۔
یہ بھی دلچسپ تھا کہ باوجود اسکے کہ وہاں چھوٹی عمر کی بچیاں بھی موجود تھیں۔ انہیں کسی بھی طرح کی گفتگو کرنے میں کچھ مسئلہ نہ تھا۔ انکا یہ تصور نہ تھا کہ یہ باتیں بچوں کے سامنے کرنے کی نہیں۔ 
ہمم، مگر شادی اس نے گوادر میں کی۔ میں نے اس سے کرید کی۔  ہاں کہتا ہے رشتے دار تو سب ادھر ہے۔
گوادر، ایک لمبے عرصے تک عمان کے زیر تسلط رہا۔ انیس سو اٹھاون میں حکومت پاکستان نے بعوض تیس لاکھ امریکن ڈالر اسے عمان سے خریدا۔  اس وجہ سے یہاں کے طرز بودو باش پہ عربی ثقافت کا اثر ہے۔ اکثر لوگوں کے عزیز اقارب مسقط میں ہیں۔ اور آنا جانا رہتا ہے۔
 تمہارے شوہر نے تمہیں اب تک مسقط نہیں بلایا؟ ویزہ نہیں دے رہے وہ لوگ۔ میرے شوہر کو بڑا غصہ ہے۔ ویسے میں دو دفعہ وہاں گئ ہوں۔ دو تین مہینوں کے لئے۔  عربی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے ہمدردی کی۔ فون آتا ہے اس کا؟ ہاں دن میں کئ دفعہ۔ اس نے کئ دفعہ پہ زور دیا۔ اچھا،  میں تو سمجھتی تھی کہ بلوچی مرد بہت کم رومینٹک ہوتے ہیں۔ لو،  اس نے بلوچی میں ایک عورت کو میری بات کا ترجمہ کر کے بتایا، اور ہنسنے لگی۔ پاکستان میں جتنی قومیتیں بستی ہیں ان میں سب سے زیادہ رومینٹک بلوچی مرد ہوتے ہیں، نازنین نے دعوی کیا۔ مجھے نجانے کیوں لگا کہ یہ دعوی، شماریات کے ان نتائج کی طرح تھا جو موقع پہ ہی بنائے جاتے ہیں۔ نازنین شاید یہ کہہ رہی تھی کہ بلوچی عورت بڑی حساس ہوتی ہے۔ مگر عورتیں تو سبھی بڑی حساس ہوتی ہیں۔ جب ہی تو خداوند نے تخلیق کی ذمہ داری انہیں دی۔
اچھا، میں نے اسے مزید چھیڑا۔ تو تمہارارومینٹک شوہر تمہیں دن میں کتنی دفعہ آئ لو یو کہتا ہے؟ کوئ گنتی نہیں۔ اس نے ہاتھ اٹھا کرجھٹکا۔ اسکے ہاتھ کی جنبش میں ایک فخر تھا۔ دن میں کتنی دفعہ لکھ کر ایس ایم ایس کرتا ہےاور رات کو جب فون پہ بات کرتا ہے تو دس دفعہ کہتا ہے۔ میں ہنس رہی تھی۔ باقی لڑکیاں اور عورتیں بھی صرف آئ لو یو سمجھ کر مسکرا رہی تھیں۔ انہیں آئ لو یو سمجھ میں آرہا تھا۔
میں نے رفیق بلوچ کی بیوی کی طرف اشارہ کیا اچھا اس سے پوچھ کر بتاءو اسکا شوہر کہتا ہے اسے آئ لو یو۔  اس نے بلوچی میں اس سے پوچھا اور پھر کہنے لگی اسکا شوہر کیوں کہے گا۔ آئ لو یو۔
کیا مطلب، تمہارا شوہر کیوں کہتا ہے؟ میرا شوہر اس لئے کہتا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ آئ لو یو کا کیا جواب ہے۔
سچ پوچھیں تو مجھے گفتگو اب ایک فلسفے کی طرف جاتی ہوئ لگی فلسفہ ء رومانس۔ آئ لو یو کا کیا جواب ہوتا ہے۔ میں نے اپنے دماغ کو ٹٹولا۔
آپ بھی سوچیں۔
یہاں میں اس کہانی کو ذرا سسپنس میں رکھنے کے لئیے کچھ ادھر ادھر کی اطلاعات ڈالتی ہوں۔ مثلاً نازنین کا برقعہ۔ وہ دبلی پتلی لمبی لڑکی تھی۔ جسکے نین نقش تو تھے ہی خوب کٹیلے، لیکن ان سب پہ اس کا انداز گفتگوبھاری تھا۔ جس میں ایک بانکپن اور غرور تھا۔ ایسا غرور جو الجھنے کی دعوت دیتا ہے۔ اور جب الجھ جائیں تو مزہ آنے لگتا ہے۔ 
ہاں تو اس کا برقعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برقعہ، اس فیوڈل نظام میں اعلی طبقے کی خواتین کی نشانی ہے۔ یہاں جتنے اعلی خاندان سے تعلق، اتنا ہی خواتین پردے میں ہونگیں۔ اسلام سے پہلے بھی برقعہ موجود تھا مگر صرف طبقہ ء اشرافیہ یعنی دولتمند گھرانوں کی خواتین پہنتی تھیں۔ نچلے طبقے کی خواتین اسکا استعمال نہیں کرتی تھیں۔ یوں انسانوں کی خوشحالی انکی خواتین کے رہنے سہنےسے پتہ چل جاتی تھی اب بھی بیشتر اوقات خواتین سے ہی مردوں کی کمانے کی استطاعت پتہ چلتی ہے۔
خیر اسکا برقعہ بڑا اسٹائلش تھا۔
کالے رنگ کا خوبصورت فال کا کپڑا، جو جسم کی تراش کے حساب سے اوپر سے فٹنگ میں تھا اور نیچے سے گھیردار، تنگ آستینیں جن پہ فیروزی ستاروں اور ریشم کا نفیس کام کیا ہوا تھا۔ اسکے اسکارف کے ایک سرے پہ بھی وہی کام بنا ہو تھا۔ جو منہ سے لپٹنے کے بعد گردن پہ پھیل جاتا۔ اور جس میں سے اسکی قاتل سرمہ لگی ہوئ آنکھیں جھانکتی رہتیں۔
 میں نے اس سے پوچھا، کیا یہ برقعہ تم نے کراچی سے لیا ہے۔ جواب ملا نہیں مسقط سے۔ اوہ لگ رہا ہے۔ کراچی میں، میں نے کبھی اتنا خوبصورت برقعہ نہیں دیکھا۔ میں نے اسے سراہا۔
خیر ہم کہاں تھے، آئ لو یو کے جواب پہ۔ سو میں نے اس سے پوچھا کہ آئ لو یو کا کیا جواب ہوتا ہے؟ سر پہ ہاتھ رکھ کر اس نے ایک بے نیازی سے اسے جھٹکا پھر بلوچی حسینہ  مسکرائ اور ایک ادا سے منہ پھیر کر بولی۔ آئ لو یو کا جواب ہوتا ہے آئ لو یو ٹو۔
مار ڈالا۔
وہ تیرہ چودہ سالہ بچیاں دوپٹے میں منہ گھسا کر ہنسنے لگیں ان میں سے ایک نے جلدی سے حقے کی نے تھامی اور زور زور سے دو تین کش لے ڈالے۔
تمہیں تو بڑی انگریزی آتی ہے۔ میں لاجواب ہو گئ۔ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ آئ لو یو کا جواب آئ لو یو ٹو ہوتا ہے۔ کہنے لگی، جہاں سے اردو سیکھی ہے وہیں سے اس کا جواب بھی پتہ چلا۔ یعنی انڈین  ڈراموں سے؟ ہاں وہیں سے۔ اس نے بلوچی لہجے میں ہاں پہ زور دیا۔ یہ رفیق کی بیوی بالکل ٹی وی نہیں دیکھتی، نہ اسے اردو آتی ہے اور نہ آئ لو یو کا جواب۔
زندگی کے اس لمحے تک، میں اسٹار پلس کے ڈراموں میں کبھی کوئ مثبت پہلو نہیں نکال سکی تھی۔ لیکن اس دن میں نے تسلیم کیا کہ ان ڈراموں میں ایک خوبی تو ہے اور وہ یہ کہ تمدن کی دنیا سے دور رہنے والے بھی ایک دوسرے کو آئ لو یو کہہ سکتے ہیں۔ غیرت میں عورت کے  قتل  پہ فخر کرنے والے بھی محبت کے اس ظاہری اظہار کی سمجھ رکھنے لگے ہیں اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے ساتھی کو پیار بھری کوئ بات کہنی چاہئیے۔ یہ تبدیلی کتنی غیر محسوس طریقے سے آئ ہے، کتنی آہستگی سے کہ بہت سارے لوگوں کو اسکی خبر بھی نہ ہو سکی۔ شاید آئ لو یو اور آئ لو یو ٹو کہنے والے بھی اپنی اس تبدیلی سے نا آشنا ہیں۔
۔
۔
۔
خیال آیا کہ کیا میں اپنے مرد قارئین سے صرف یہ پوچھ سکتی ہوں کہ انہوں نے اپنی قریبی خواتین کو جس میں انکی مائیں ، بہنیں، بیویاں اور بیٹیاں اور دیگر رشے دار  خواتین شامل ہیں، انکو آخری دفعہ کب کہا کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں؟

جاری ہے

Tuesday, February 22, 2011

ساحل کے ساتھ-۳


شام کے سوا چھ بج رہے تھے جب ہم پسنی سے کوئ بیس کلو میٹر کے فاصلے پہ شادی کور کی چیک پوسٹ پہ پہنچے۔  ٹرک ایل طرف رکا تو تھوڑے ہچکولے کھا کر گاڑی بھی رک گئ۔  ٹرک ڈرائیور نے معلومات درج کروائیں۔ ہماری گاڑی کی حالت تو سب پہ ظاہر تھی۔  تقریباً دو گھنٹے  ٹرک کے ساتھ رینگتے ہوئے ہم نے سوچا کہ ٹرک والوں سے بات کی جائے ہو سکتا ہے وہ ہمیں گوادر تک لے جانے پہ راضی ہو جائیں۔ وہ بھی تو گوادر جا رہے ہیں۔ بس یہ کہ انہیں پسنی میں زیادہ دیر کے لئے نہ رکنا ہو۔ 
سو وہ گاڑی سے اتر کر ان سے باتیں کرنے لگے۔ مجھے اس وقت ڈوبتے سورج کا منظر بے حد اچھا لگا اور میں نے سب بھول کر سوچا کہ اگر فلش آف کر کے لوں تو شاید بالکل ایسا ہی آجائے جیسا نظر آ رہا ہے۔ پہلی تصویر لی۔ اتنی دیر میں وہ واپس آ کر بیٹھے۔ گاڑی کے چلنے تک میں نے ایک اور تصویر لی۔ اور جب گاڑی اسٹارٹ ہو کر چلی ہی تھی کہ پیچھے سے سیٹیوں کی آواز آنے لگی۔
ٹرک اور گاڑی ایک دھچکے سے رکے۔ ایک سپاہی ہماری طرف تیزی سے دوڑتا ہوا آیا۔ آپکی گاڑی سے تصویر لی گئ ہے۔ جی میں گڑ بڑا گئ۔ دیکھے بغیر بھی جان سکتی ہوں کہ پڑوسی مجھے کن نظروں سے گھور رہے ہونگے۔
خیر، میں نے سپاہی محترم سے کہا کہ میں سورج کی تصویر بنا رہی تھی چاہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی میں نے کیمرہ انکی طرف بڑھا دیا۔ اس نے کیمرہ نہیں لیا۔ بس میرے چہرے پہ ایک لحظہ نظر جمائے رہا۔ پھر کہنے لگا کسی یونیفارم والے کی تصویر تو نہیں لی۔ جی نہیں۔ ٹھیک ہے پھر آپ جا سکتے ہیں۔ 'دیکھا آپ سے کہا بھی تھا کہ چیک پوسٹ کی تصویر نہیں لینی ہے۔  شریف آدمی تھا چھوڑ دیا۔ ورنہ خوب درگت بناتے ہیں'۔ 'میں نے چیک پوسٹ کی لی بھی کہاں تھی۔ اسے میری معصومیت کے اعتماد پہ یقین تھا اس لئے چھوڑ دیا'۔ سچ پوچھیں تو کیمرہ بچ جانے پہ میں نے بھی دل میں شکر ادا کیا۔

لاکھ کوشش کی مگر نکل کر ہی رہے،،گھر سےیوسف، خلد سے آدم ، تیری محفل سے ہم

راستے میں ایک جگہ ہمارے محسنین چائے پینے کے لئے رکے اور بالآخر  رات کو گیارہ بجے گوادر سے بیس بائیس میل دورآباد ہماری منزل، مضافاتی آبادی کے باہر ٹرک رک گیا۔  ڈرائیور نے اتر کر آگے جانے والے راستے کا معائینہ کیا اور پھر معذرت کرلی۔ اندر آبادی میں  نہیں جا سکتے۔ روڈ مکمل نہیں بنا ہوا اور ٹرک کے پھنس جانے کا اندیشہ ہے ورنہ ہم ضرور آپکو گھر تک پہنچا کر گوادر جاتا۔
 ہم تو راستے بھر ویسے ہی انکے احسان پہ حیران ہوتے  چلے آرہے تھے۔ اس ویرانے میں سوا دو سو کلومیٹر تک ایک لوڈڈ رینج روور کو کھینچ کر لے جانے کا  احسان اگر دنیا میں کوئ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے تو وہ شاید ایک بلوچ کا حوصلہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس ٹرک میں موجود تینوں افراد بلوچ تھے۔  بلوچ اپنی مہمانداری کے لئے مشہور ہیں اور اپنی وسعت قلب کے لئے بھی۔ پھر آخر ایسا کیوں کہ اس صوبے کے اندر ان لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جائے جو بلوچ نہیں لیکن جو وہاں انکے ساتھ حیات کی سختیوں میں شریک ہونے کے لئے موجود ہیں؟
روڈ کے کنارے کھڑے کھڑے، تھوڑی دیر میں ایک گاڑی نظر آئ۔  سوار بلوچ نے کہا میں آگے ایک کام سے جا رہا ہوں اگر آپ دس منٹ انتظار کر لیں تو واپسی میں میری گاڑی میں جا سکتے ہیں۔ سامان تو ہم پہلے ہی سیٹ کر چکے تھے۔ جتنی دیر ہم وہاں اس کا انتظار کرتے رہے۔ جو بھی گاڑی وہاں سے گذری اس نے ہماری خیریت دریافت کی۔ حسب وعدہ وہ شخص آگیا۔ سردی اتنی نہیں تھی جتنی ہوا تیز چل رہی تھی۔ ضروری سامان  ساتھ لیا اور اس میں بیٹھ گئے۔ گھر وہاں سے  ڈیڑھ دو کلو میٹر سے زیادہ دور نہیں تھا۔
 گھر پہنچ گئے۔ شاید ایک سال کے بعد کھلا تھا۔ ہر چیز پہ  مٹی کی موٹی تہہ جمی تھی۔
مشعل بھی اٹھ چکی تھی۔ اسے جھاڑو دینا اور ڈسٹنگ کرنا بے حد پسند ہے۔ مستقبل میں وہ ماسی بن کر قوم کی خدمت کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ ہر جگہ اتنی مٹی جمع دیکھ کر انکے دل کی کلی کھل گئ۔ اور اس وقت جبکہ ہم پلان بنا رہے تھے کہ رات کے اس وقت، اتنی تھکی ہوئ حالت میں ہم کیا کیا کر سکتے ہیں وہ بار بار یاد دہانی کرا رہی تھیں کہ وہ اب بڑی اور سمجھدار ہو چکی ہیں اور ہمارے شانہ بشانہ کام کرنے کو تیار ہیں۔ والدین کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ  ایک چار سالہ بچے کی ان رضاکارانہ خدمات کو کتنی سختی سے ٹھکرانا پڑتا ہے۔ یوں کام گھٹنے کے بجائے اور بڑھ جاتا ہے۔ 
بہرحال بیڈ روم کی صفائ، صاحب نے سنبھالی، کچن کی میں نے تاکہ کھانا گرم کر کے پیٹ پوجا کی جائے۔  حیات میں شریک ہونا  شاید اسی کو کہتے ہیں۔ مشعل دونوں جگہوں کے درمیان دوڑتی رہیں تاکہ جہاں موقع ملے وہ گھس جائیں اور بزور قوت اپنا حق صفائ حاصل کریں۔ ہماری قسمت کی کمزوری کہ انہیں کہیں سے ایک گندہ کپڑا اور ٹوٹی ہوئ جھاڑو بھی مل گئ تھی۔
صبح کے لئے پروگرام یہ بنا کہ کراچی میکینک کو فون کر کے پہلی بس سے یہاں آنے کو کہا جائے۔ کیونکہ گوادر میں کوئ اچھا مکینک  ملنا ممکن نہیں۔ پھر گاڑی کو گھر کے گیراج تک لانے کا بندو بست ہو۔ پھرگھر کی اچھی طرح صفائ کی جائے۔
اس واضح منصوبے کے بعد ہم نے اپنے اوپر سے دن بھر کی گرد جھاڑی اور ہر اندیشے سے بے نیاز ہو کر بستر پہ پڑ گئے۔ گھر سے چار پانچ گز کی دوری پہ سمندر کی لہریں، ساحل سے راز ونیاز میں مشغول تھیں۔ کہتے ہیں
رات بھر کوئ نہ سوئے تو سنےشور فغاں
چاند کو درد سناتا ہے سمندر اپنا
لیکن ایک لمبے دن کے بعد رات کے ایک بجے تھکن نے ہر جذبہ ء  تجسس کو بھی سلا دیا  تھا یہ ممکن نہ تھا کہ کسی کا درد سننے کے لئے ہم جاگتے رہیں۔ سو اسے لوری سمجھ کر گہرری نیند کے مزے لئے۔


صبح گاڑی گھر تک کیسے پہنچی؟ اس کے لئے وہاں زیرتعمیر جیٹی کا شکریہ کہ اسکی وجہ سے ایک ٹریکٹر مل گیا جو مقامی بلوچوں کی مدد سے اسے کھینچ کر گھر تک لے آیا۔


اب میکینک کا انتظار تھا۔ جو اسی رات تین بجے  آنے والی بس سے پہنچ رہا تھا۔ یہ اس کا گوادر کا پہلا سفر تھا۔ اور وہ خاصہ پُر جوش تھا۔ یوں جیسے کراچی میں کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے والے کو تھائ لینڈ جانے کا پیغام ملے۔

جاری ہے