یہ گوادر میں مرنے والے کیا ذکری تھے؟ نہیں، نہیں، نمازی تھے۔ ہمم، تو یہ بھی نہیں سوچا جا سکتا کہ مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ انہیں یقین تھا کہ ایجنسی والوں نے مارا ہے۔ یہ ہنگامہ کرنے والے لوگ بہت تھوڑے سے ہیں۔ سب کو باہر سے پیسہ ملتا ہے۔ ایجینسی والوں نے سوچا ہوگا کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے میں پیچیدگیاں زیادہ ہیں۔ پکڑو اور ماردو۔ یہ ان کا خیال تھا۔
یہاں میں نمازی اور ذکری کا فرق بتاتی چلوں۔ بلوچستان میں عمومی طور پہ اور ڈسٹرکٹ گوادر میں بالخصوص مسلمانوں کا ایک فرقہ پایا جاتا ہے جو ذکری کہلاتا ہے۔ ذکری، کراچی میں بھی پائے جاتے ہیں اسکے علاوہ ایران میں بھی موجود ہیں۔ انکے فرقے کے بانی کے طور پہ ایک شخص محمد جونپوری کا نام لیا جاتا ہے۔ زکریوں کے عقیدے کے مطابق وہ امام مہدی ہیں۔ کچھ کے خیال میں وہ ایک صوفی تھے اور ذکری دراصل صوفی ازم کی کسی تحریک سے متائثر ہو کر وجود میں آیا۔
ذکری اور نمازی میں فرق جیسا کہ نام سے اندازہ ہو تا ہے، نماز کا ہے۔ ذکری نماز کی جگہ ذکر کرتے ہیں۔ یہ مذہب تقریباً پانچ سو سال پرانا ہے۔ ذکرکے اوقات مقرر ہیں۔ جس جگہ ذکر کیا جاتا ہے اسے ذکر خانہ کہا جاتا ہے۔ یہ عمارت مسجد کا ظاہری حلیہ نہیں رکھتی کسی گھر کا کوئ کمرہ بھی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ کہ میسر مواد کہتا ہے کہ ذکری دن میں پانچ دفعہ نماز کی جگہ پانچ دفعہ ذکر کرتے ہیں۔ مگر عملی طور پہ میں دیکھتی ہوں کہ ایسا اجتماع ہفتے میں ایک بار ہوتا ہے۔
ذکریوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حج بھی کرتے ہیں لیکن وہ رمضان کی ستائیس تاریخ کو گوادر شہر کے قریب واقع ایک اور شہر تربت میں موجود ایک مقام کی زیارت کو جاتے ہیں یہ مقام کوہ مراد میں واقع ہے۔ جہاں انکے مطابق امام مہدی کبھی رہ چکے ہیں۔ اسے زیارت بھی کہا جاتا ہے اور اسکے اعمال حج سے ملتے جلتے ہوتے ہیں سنتے ہیں کہ وہاں ایک کنواں بھی موجود تھا جو اب خشک ہو چکا ہے۔ یہ آب زم زم کے وزن پہ چاہ سم سم کہلاتا تھا۔
یوں ، مجھے سن دو ہزار تین میں اسکے متعلق جان کر حیرانی ہوئ کہ قادیانیوں کی طرح سے انہیں غیر مسلم کیوں نہیں قرار دیا گیا۔ آج سن دو ہزار گیارہ میں ذکریوں کو اپنے تحفظ کے متعلق خدشات ہیں۔ اور لوگ علی الاعلان اپنے آپ کو ذکری کہنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اسکی وجہ آپ جانیں؟
جب سے کوسٹل ہائ وے بنی ہے مختلف اسلامی گروپوں کا یہاں نفوذ آسان ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار تین میں جب میں یہاں پہلی دفعہ آئ تھی۔ کوئ بڑا مدرسہ موجود نہ تھا۔ چھوٹے درس قرآنی کے مدرسے ہوں تو ہوں۔ کوسٹل ہائ وے کی تکمیل کے دوران ہی زمین کا ایک بڑا ٹکڑا ایک مذہبی تنظیم کے حوالے کیا گیا۔ اب اس پہ ایک خاصی بڑی عمارت موجود ہے۔
ان گروپوں نے ذکری فرقے کو خلاف اسلام قرار دینے کی جد و جہد شروع کر دی ہے۔ کچھ بلوچوں کے خیال میں ذکریوں کو غیر مسلم قرار دینے کی سازش بھی پنجابیوں کی ہے۔
خیر، یہاں تک آنے کے بعد آپکو یہ تو سمجھ آرہا ہوگا کہ عام سنّی مسلمان نمازی کہلاتا ہے۔ ابھی تک نمازی اور ذکری ایک دوسرے سے معاشرتی تعلق رکھتے ہیں۔ انکی آپس میں رشتے داریاں ہیں اور وہ آپس میں شادیاں بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ عقائد کے فرق کے باوجود وہ اپنے آپکو ایک ہی سمجھتے ہیں یعنی بلوچ۔
اچھا ، اس ہڑتال سے ہمارے واپسی کے منصوبے پہ کچھ ایسا ہی بھونچکا اثر پڑا جیسا آدم کا دانہ ء گندم کھانے کے بعد دنیا کے حالات پہ پڑا۔ لوگ بڑے فخر اور بے نیازی سے کہتے ہیں کہ ہمیں سیاسی موضوعات اور گفتگو پسند نہیں آتے۔ مگر یہ سیاسی حالات لمحے بھر میں ہماری ترجیحات، امیدوں اور خدشات کو یکدم تبدیل کر دیتے ہیں اور بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ ہم انکے متعلق کیسے خیالات رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو جنت سے ہمارا نکالا جانا بھی سیاست شیطاں ہی تھی۔
اب کہاں تو ہم میٹھی سویوں کی خوشبو میں غرق تھے۔ اس خیال سے مہمیز تھے کہ رات کو چھت پہ بیٹھ کر ستاروں کی کہکشاءوں سے مزین آسماں کی رونق کو دیر تک نرگس کی آنکھ سے دیکھیں گے کہ کراچی میں آسماں تک پہنچنے سے پہلے ہی نظر دھویں کی آلودگی میں گم ہو جاتی ہے۔ یہی آسماں ہوتا ہے مگر اس قدر آباد نہیں۔ کہاں ہمارے خیال دل افروز کی ایسی دھجیاں بنیں کہ وہ خود خشک سویوں کی شکل میں آگیا۔ ستاروں کا خیال ذہن آسمانی سے بھک سے اڑ گیا۔ ہم اب روحانی طور پہ کراچی میں تھے۔
وہ لوگ رخصت ہوئے تو ہم دونوں نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہماری موجودگی اتوار کے دن کراچی میں ہونا لازمی تھی۔ اگر دودن ہڑتال وجہ سے رکتے ہیں تو اتوار کو ہی نکل پاتے۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ ادھر ہڑتال کی وجہ سے اگلے دن ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہو گی ۔ اس لئے واپسی کا منصوبہ اسی لمحے بنانا تھا ۔
وہاں سے کراچی کے لئے چلنے والی بس ساڑھے آٹھ بجے روانہ ہونی تھی۔ جو دراصل گوادر شہر سے یہاں آتی ہے۔ اس وقت ساڑھے چھ بج رہے تھے۔
چلیں جناب، پہلے بکنگ آفس سے معلوم کرنا پڑے گا کہ بس میں تین افراد کے لئے جگہ بھی ہے یا نہیں۔ وہ یہ کہہ کر روانہ ہوئے۔
کراچی کی منی بسوں میں دن رات لمبے لمبے سفر کرنے کے باوجود میں پاکستان میں شہروں کے درمیان چلنے والی بسوں کے سفر سے اب تک محروم رہی تھی۔ اور اب کن حالات میں اس سفر کے امکان پیدا ہوئے۔ شام ، سات بجے اطلاع ملی کہ بکنگ ہو گئ ہے۔ ساڑھے آٹھ بجے روانگی ہے۔ بس والوں کا کہنا ہے کہ سات گھنٹے میں کراچی پہنچ جائیں گے۔
سویاں اٹھا کر رفیق بلوچ کے حوالے کیں۔ جلدی جلدی، بھاگم بھاگ چار دن کی پھیلائ گرہستی کو سمیٹا۔ رات کے کھانے کے لئے روٹی اور آملیٹ تیار کر کے باندھا۔ کچن کو صاف ستھرا کیا کہ بعد میں آنے والوں کو پریشانی نہ ہو۔ اب ہم گوادر سے کراچی بس کے سفر کے لئے تیار تھے۔
صرف دو سیٹیں ملیں۔ ہڑتال کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں سے نکلنا چاہ رہے ہیں اور بس بھری ہوئ ہوگی۔ یعنی مشعل ساری رات ہم دونوں کی گود میں پھیل کر سوئیں گی۔
ساڑھے آٹھ بجے ہم بس کے اڈے پہ کھڑے تھے۔ رفیق بلوچ میرے پاس آیا اور ایک تھیلا میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ اس میں گوادر کی مٹھائ ہے۔ اس نے کچھ جھجھکتے ہوئے کہا۔ مٹھائ، میں نے اسکی کیلوریز کا حساب لگایا۔ پھر اپنے پہ تف بھیجی، جدید شہری انداز زندگی کے متائثرین، جذبات کو بھی کیلوریز میں دیکھتے ہیں۔
ایک جانی پہچانی منزل کی طرف، جانے پہچانے راستوں پہ ایک انجان سفر شروع ہونے کو تھا۔ دیکھیں تو ہر سفر ہی اپنے اختتام تک انجان رہتا ہے، جیسے زندگی کا سفر۔ لیکن بعض اوقات یا تو راستوں میں اتنے طلسم ہوتے ہیں کہ راستےمیں ہونے کا احساس دل سے نکل جاتا ہے جیسے ایلس ان دا ونڈر لینڈ یا پھر انگریزی کا ایک محاورہ اختتام اچھا ہو تو سب اچھا ہوتا ہے، سفر بھی گذر ہی جاتا ہے۔
ساڑھے نو بجے رات کو پاکستان کےمعیاری طریقہ ء تاخیر کے مطابق بس آئ۔ میں نے مشعل کو گود میں سنبھالا، اور ذرا عالم جوش میں گوادر کے ساحل سے بس میں قدم رکھا، یوں جیسے کولمبس نے امریکہ کے ساحلوں پہ پیر دھرے ہوں۔ میرا گوادر سے کراچی پہلا بس کا سفر۔
جاری ہے