کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ لیکن ضرورت کی مجبوری دماغی خلل بھی پیدا کرتی ہے۔ اس سے ایجاد میں شوخی ء تمنا ہوتی ہے اور اگر مناسب تعداد میں ہم نوا مل جائیں تو دھمال ڈالنے کا لطف سوا ہوتا ہے۔ میرے جیسے مجبور بھی سر اٹھا کر دیکھنے لگتے ہیں کہ ایجاد کی ماں اب کیا جنم دیں گی۔ فی الحال تو ہفتہ بھر سے زائد ہو گیا اور ایک دفعہ پھر ٹاک شوز کو رواں رکھنے کے لئے ایک کے بعد ایک ڈرامہ ہونے کے علاوہ لیبر روم سے کچھ بر آمد نہیں ہو رہا۔ ایک دفعہ پھر میڈیا اینکرز بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے کھڑے ہیں اور ایک دفعہ پھر کچھ بڑے لوگوں کو آمنے سامنے پہنچا دیا گیا ہے۔ مثلاً ڈاکٹر عبد القدیر اور پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن۔
سواس دفعہ لپیٹے میں ہمارے ایٹمی سائینسداں بھی نہ بچ سکے ۔ لگتا ہے ان سب کو پرویز ہود بھائ کی بد دعا لگی ہے۔ یوں مجھے شبہ ہے کہ آغا قادر نامی ڈپلومہ انجینیئر کو شہہ دینے والے حامد میر یا عبد القدیر خان نہیں بلکہ پرویز ہود بھائ ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ آغا قادر کی اس متوقع نوبل ایجاد پہ سب سے پہلے انہی کا اعتراض میں نے پڑھا۔ انہوں نے یہ ٹریپ تیار کیا ہے۔ ملک کے سائینسدانوں کو لنگڑی دینے کا۔ خیر یہ کانسپیرینسی تھیوری ایک مذاق ہے۔ شوخی ایجاد تمنا کا کانسپیرینسی تھیوری سے بڑا گہرا تعلق ہے۔
اس ایجاد کی خبر سامنے آتے ہی فخر و انبساط کے نعرے اٹھے۔ نعروں کی اس گونج میں جس نے بھی اپنی آواز بلند کی منہ کی کھائ۔ لوگوں کو اس پہ ہی ملک دشمن عنصر ہونے کا شبہ اٹھا۔ جہاں لکچھ لوگ بگڑ بیٹھے کہ یہ کیا پاکستانی کوئ بھی کارنامہ انجام دیں لوگ اس میں کیڑے نکالنے لگ جاتے ہیں دوسری طرف فزکس کے قوانین کی بقاء کی جنگ لڑنے والے اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ تو تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون سے متصادم ہے۔ حامیوں نے یہ نہیں کہا کہ تو کیا ہوا آئینسٹائین کے قوانین نیوٹن کے قوانین سے متصادم تھے۔ فزکس کا یہ قانون فزکس کے لئے صحیح ہوگا۔ ہم میٹا فزکس پہ ، فزکس سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ مجھے تو درحقیقت یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ انہوں نے کس کے دئیے ہوئے وظیفے سے چمتکار کر دکھایا۔
دنیا میں پانی سے کار چلانے کا یہ پہلا دعوی نہیں۔ پہلے جتنے مدعی گذرے ان میں سے زیادہ تر لوگ فراڈ نکلے۔ مغرب میں فراڈ نکلنے پہ کسی کو قومیت کا جذباتی دھچکا نہیں لگتا۔ اس لئے فراڈ کی نشاندہی کرنا کار ثواب کی جگہ کار علم ٹہرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا فراڈ پاکستان میں ہونا مشکل ہے۔ اس لئے ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے البتہ یہ کہ معصوم لوگوں کی ہمارے یہاں کمی نہیں۔ جیسے ایک معصوم حامد میر ہیں جنہوں نے پچھلے تمام مدعیوں کو فراڈ کہنے کے بجائے اپنے انٹرویو میں انکے خلاف سازشوں کا ماحول تیار کرنے کو ترجیح دی۔
اب تک اس سلسلے میں جو سائینس بیان کی گئ ہے اس میں پانی کوبجلی سے توڑ کر ہائڈروجن گیس تیار کی جاتی ہے۔ یہ عمل الیکٹرولیسس یا برق پاشیدگی کہلاتا ہے۔ پانی کی اس تحلیل سے ہائڈروجن گیس اور آکسیجن گیس کاآمیزہ پیدا ہوتا ہے جو آکسی ہائڈروجن کہلاتا ہے۔ جسے براءون گیس یا ایچ ایچ او بھی کہتے ہیں۔
آغا وقار صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا نظام بنا لیا ہے جس میں نہ صرف پانی ٹوٹ کر ہائڈروجن اور آکسیجن گیسز بنائے گا بلکہ یہ دونوں گیسز توانائ پیدا کرنے کے عمل سے گذر کر دوبارہ پانی میں تبدیل ہوجائیں گی۔ یہاں یہ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ پانی ٹوٹتے وقت جتنی توانائ لیتا ہے اتنی ہی توانائ پانی کو ان گیسز کو ملا کر بنانے کے لئے چاہئیے ہوتی یعنی مجموعی تعامل اس طرح ہوگا۔
پانی کے مالیکیول کو بنیادی اجزاء میں توڑنے کے لئے جو توانائ درکار ہوگی وہ الگ ہے جو کہ آغا وقار کی ایجاد میں بیٹری سے حاصل کی جارہی ہے اور بقول انکے بیٹری کی توانائ جنریٹر سے حاصل ہوگی ابتداء میں بعد میں جب کیمیائ تعامل چل پڑے گا تو نہیں چاہئیے ہوگی۔ واضح رہے کہ پیٹرولیئم مرکبات کی صورت میں زنجیری تعامل چلتا ہے اور توانائ کی زیادہ مقدار تعامل کی ابتداء میں چاہئیے ہوتی ہے جب ایک دفہ تعامل چل پڑتا ہے تو وہ زنجیر کی شکل جاری رہتا ہے۔
چونکہ پانی توڑنے کے لئے توانائ بیٹری سے حاصل کی جارہی ہے اس لئے سامنے جو نظر آرہا ہے وہ یہ کہ گاڑی ایک ان ڈائریکٹ ذریعےسے دراصل بیٹری کی بجلی سے چل رہی نہ کہ پانی سے۔
لیکن آغا وقار اسے سامنے کی بات قرار نہیں دیتے بلکہ انکا دعوی ہے کہ اس میں ایک راز ہے جو وہ اگر کھول دیں تو پھر پروڈکٹ انکے ہاتھ سے نکل جائے گی۔
یہاں فیئول سیلز ہوتے ہیں جن میں ہائڈروجن استعمال کی جاتی ہے۔ یہ فیئول سیلز گاڑیوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ہائڈروجن حاصل کرنے کا کمرشل ذریعہ عام طور سے قدرتی گیس یا پیٹرول مرکبات ہوتے ہیں۔ انہیں توڑ کر ہائڈروجن حاصل کی جاتی ہے۔ اس طرح فیئول سیلز کا بنیادی فائدہ کم آلودہ فضا نظر آتی ہے۔ کیونکہ ہائدروجن جلنے سے کاربن کے آکسائیڈز پیدا نہیں ہوتے جوکہ فضائ آلودگی کا بنیادی سبب ہوتے ہیں۔ فیئول سیلز پہ چلنے والی گاڑیوں کے انجن میں تبدیلی لانی پڑتی ہے۔ پانی کو سورج کی شعاعوں کی مدد سے بھی توڑآ جا سکتا ہے اس سلسلے میں تجربات جاری ہیں ۔ سمندری پودے یہ کام انجام دیتے ہیں لیکن کمرشل سطح پہ اس وقت کوئ سستا طریقہ موجود نہیں۔
آغا وقار صاحب کا ایک انٹرویو اور حامد میر صاحب کے ساتھ انکی سیر دیکھی، پانی سے چلانے کے لئے اس گاڑی کو کرائے پہ حاصل کیا گیا۔ نہ حامد میر صاحب نے اپنی گاڑی پیش کی نہ ان صاحب نے اپنی گاڑی استعمال کی نہ ہی انکے کسی دوست یا قائل شخص نے انہیں اپنی گاڑی دی۔ انٹرویو میں وہ بے دھڑک ایک کے بعد ایک پیچیدہ سائینسی اصطلاحات استعمال کرتے رہے جن سے عام لوگ واقف نہیں۔ یعنی ایک مبصر کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ بس نیوکلیئر فیوژن کی اصطلاح باقی بچ گئ۔ ڈپلومہ ہولڈر انجینیئر آغا وقار اپنی 'ایجاد؛ کے بارے میں اتنے زیادہ پر اعتماد ہیں کہ انہوں نے ہمارے محترم استاد پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمن کا بھی ٹیسٹ لے ڈالا۔ 'کیا آپکو معلوم ہے کہ ہائڈروجن گیس کہاں سے آتی ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ استاد محترم کا حس مزاح بڑا اچھا ہے اور وہ یقیناً اس سے محظوظ ہوئے ہونگے۔
انٹرویو کے دوران مسلسل زور اس بات پہ رہا کہ حکومت اس سلسلے میں فنڈنگ کرے۔ بقول آغا وقار ، وہ اس پراجیکٹ پہ سوا کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ انہیں اسکی تشہیر سے پہلے کم از کم دو گاڑیوں کو مستقل پانی پہ کر دینا چاہئیے۔ سوا کروڑ روپے خرچ کرنے والے شخص کے لئے دو سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں ایک ، ڈیڑھ لاکھ کی خریدنا مشکل نہیں۔
وہ لوگ جو ان کی اس 'ایجاد' کے قائل ہو چکے ہیں کم ازکم انہیں تو اپنی گاڑیاں پانی پہ کر دینی چاہئیں۔ خاص طور پہ حامد میر صاحب۔ وہ کم از کم اپنی گاڑی کے لئے تو فنڈنگ کر ہی سکتے ہیں۔ تاکہ لوگ اس کے قائل ہو کر اسے خریدنا شروع کریں اسکے بعد ہی کمرشل سطح پہ اسکی پیداوار کا سوال اٹھتا ہے۔
میرا تو آغا وقار سے اس سارے موضوع سے ہٹ کر ایک معصوم سا سوال ہے کہ انکے بقول ڈسٹلڈ واٹر کی بوتل تو دس روپے کی مل جائے گی یہ کم بخت پینے کے پانی کی بوتل اتنی مہنگی کیوں ملتی ہے؟
خیال یہ آرہا ہے کہ اس سے آگے کیا ہوگا؟ کیا آغا وقار میڈیا سے باہر کچھ ثابت کر پائیں گے۔ اگر وہ ثابت نہ کر پائے تو ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے پائے کے سائینسدانوں کا کیا ہوگا۔ پی سی آئ آر کے چیئرمین کس گنتی میں گنے جائیں گے؟ ہود بھائ کی مسکراتی تصویر میں انکی مسکراہٹ کتنی بڑھ جائے گی؟ کیا پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمن ، آغا وقار کو یاد رکھیں گے؟
اور عام لوگ ، کیا عام لوگ تھرمو ڈائنامکس کا پہلا قانون، قانون بقائے توانائ بھول پائیں گے۔ توانائ نہ پیدا کی جا سکتی ہے نہ فنا کی جا سکتی ہے یہ بس ایک شکل سے دوسری شکل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ پانی توڑنے کے لئے توانائ بیٹری سے حاصل کی جارہی ہے اس لئے سامنے جو نظر آرہا ہے وہ یہ کہ گاڑی ایک ان ڈائریکٹ ذریعےسے دراصل بیٹری کی بجلی سے چل رہی نہ کہ پانی سے۔
لیکن آغا وقار اسے سامنے کی بات قرار نہیں دیتے بلکہ انکا دعوی ہے کہ اس میں ایک راز ہے جو وہ اگر کھول دیں تو پھر پروڈکٹ انکے ہاتھ سے نکل جائے گی۔
یہاں فیئول سیلز ہوتے ہیں جن میں ہائڈروجن استعمال کی جاتی ہے۔ یہ فیئول سیلز گاڑیوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ہائڈروجن حاصل کرنے کا کمرشل ذریعہ عام طور سے قدرتی گیس یا پیٹرول مرکبات ہوتے ہیں۔ انہیں توڑ کر ہائڈروجن حاصل کی جاتی ہے۔ اس طرح فیئول سیلز کا بنیادی فائدہ کم آلودہ فضا نظر آتی ہے۔ کیونکہ ہائدروجن جلنے سے کاربن کے آکسائیڈز پیدا نہیں ہوتے جوکہ فضائ آلودگی کا بنیادی سبب ہوتے ہیں۔ فیئول سیلز پہ چلنے والی گاڑیوں کے انجن میں تبدیلی لانی پڑتی ہے۔ پانی کو سورج کی شعاعوں کی مدد سے بھی توڑآ جا سکتا ہے اس سلسلے میں تجربات جاری ہیں ۔ سمندری پودے یہ کام انجام دیتے ہیں لیکن کمرشل سطح پہ اس وقت کوئ سستا طریقہ موجود نہیں۔
آغا وقار صاحب کا ایک انٹرویو اور حامد میر صاحب کے ساتھ انکی سیر دیکھی، پانی سے چلانے کے لئے اس گاڑی کو کرائے پہ حاصل کیا گیا۔ نہ حامد میر صاحب نے اپنی گاڑی پیش کی نہ ان صاحب نے اپنی گاڑی استعمال کی نہ ہی انکے کسی دوست یا قائل شخص نے انہیں اپنی گاڑی دی۔ انٹرویو میں وہ بے دھڑک ایک کے بعد ایک پیچیدہ سائینسی اصطلاحات استعمال کرتے رہے جن سے عام لوگ واقف نہیں۔ یعنی ایک مبصر کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ بس نیوکلیئر فیوژن کی اصطلاح باقی بچ گئ۔ ڈپلومہ ہولڈر انجینیئر آغا وقار اپنی 'ایجاد؛ کے بارے میں اتنے زیادہ پر اعتماد ہیں کہ انہوں نے ہمارے محترم استاد پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمن کا بھی ٹیسٹ لے ڈالا۔ 'کیا آپکو معلوم ہے کہ ہائڈروجن گیس کہاں سے آتی ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ استاد محترم کا حس مزاح بڑا اچھا ہے اور وہ یقیناً اس سے محظوظ ہوئے ہونگے۔
انٹرویو کے دوران مسلسل زور اس بات پہ رہا کہ حکومت اس سلسلے میں فنڈنگ کرے۔ بقول آغا وقار ، وہ اس پراجیکٹ پہ سوا کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ انہیں اسکی تشہیر سے پہلے کم از کم دو گاڑیوں کو مستقل پانی پہ کر دینا چاہئیے۔ سوا کروڑ روپے خرچ کرنے والے شخص کے لئے دو سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں ایک ، ڈیڑھ لاکھ کی خریدنا مشکل نہیں۔
وہ لوگ جو ان کی اس 'ایجاد' کے قائل ہو چکے ہیں کم ازکم انہیں تو اپنی گاڑیاں پانی پہ کر دینی چاہئیں۔ خاص طور پہ حامد میر صاحب۔ وہ کم از کم اپنی گاڑی کے لئے تو فنڈنگ کر ہی سکتے ہیں۔ تاکہ لوگ اس کے قائل ہو کر اسے خریدنا شروع کریں اسکے بعد ہی کمرشل سطح پہ اسکی پیداوار کا سوال اٹھتا ہے۔
میرا تو آغا وقار سے اس سارے موضوع سے ہٹ کر ایک معصوم سا سوال ہے کہ انکے بقول ڈسٹلڈ واٹر کی بوتل تو دس روپے کی مل جائے گی یہ کم بخت پینے کے پانی کی بوتل اتنی مہنگی کیوں ملتی ہے؟
خیال یہ آرہا ہے کہ اس سے آگے کیا ہوگا؟ کیا آغا وقار میڈیا سے باہر کچھ ثابت کر پائیں گے۔ اگر وہ ثابت نہ کر پائے تو ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے پائے کے سائینسدانوں کا کیا ہوگا۔ پی سی آئ آر کے چیئرمین کس گنتی میں گنے جائیں گے؟ ہود بھائ کی مسکراتی تصویر میں انکی مسکراہٹ کتنی بڑھ جائے گی؟ کیا پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمن ، آغا وقار کو یاد رکھیں گے؟
اور عام لوگ ، کیا عام لوگ تھرمو ڈائنامکس کا پہلا قانون، قانون بقائے توانائ بھول پائیں گے۔ توانائ نہ پیدا کی جا سکتی ہے نہ فنا کی جا سکتی ہے یہ بس ایک شکل سے دوسری شکل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔