Showing posts with label کہانی. Show all posts
Showing posts with label کہانی. Show all posts

Wednesday, October 3, 2012

کہانی میں ٹوئسٹ

ماما ،  مجھے آپکو ایک اہم بات بتانی ہے۔
ہمم، پہلے کھانا ختم کرو۔
ماما، یہ بہت اہم بات ہے۔
اچھا کیا ہے یہ اہم بات؟
ماما آپکو پتہ ہے سب مٹی سے بنا ہے۔
اچھا ، کیا سب مٹی سے بنا ہے؟
انسان، بندے، سب مٹی سے بنے ہیں۔
یہ کس نے بتایا؟
مس نگہت نے۔ آج دینیات کا پیریڈ تھا ناں۔ مس نگہت نے بتایا کہ انسان کیسے بنا۔
اچھا تو مٹی سے انسان کیسے بنا؟
جی ہاں، اللہ میاں نے فرشتوں سے کہا کہ مجھے کچھ مٹی لاکر دو۔ جب فرشتوں  نے مٹی لا کر دی تو اللہ میاں نے اس سے انسان بنایا اور پھر اس میں روح ڈال دی۔
اچھا ، یہ تو انسان بنانے کا بڑا آسان طریقہ ہے۔
آپکو پتہ ہے ماما، شیطان جو ہوتا ہے نا وہ بہت برا ہوتا ہے۔ اس نے اللہ میاں سے کہا کہ انسان نہیں بناءو لیکن جب اللہ میاں نے انسان بنا لیا توکہنے لگا کہ دیکھنا اب میں کیسے انسان کو بری بری باتیں سکھاءونگا اور اسے برا بناءونگا۔
اچھا، شیطان ایسا ہے۔ وہ انسان کو کیسے برا بنا دیتا ہے؟
وہ کہنے لگا کہ میں انسان کو نماز نہیں پڑھنے دونگا اور نہ ہی اسے کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے دونگا۔ ایسے وہ برا بناتا ہے۔
اچھا یہ تو واقعی بڑا برا ہے۔
ماما، اتنا برا ہے کہ اس نے کہا کہ وہ اللہ میاں کو پانی میں پٹخ دے گا۔ یہ جملہ تخیل کی پرواز تھا اور شیطان کو حتی الامکان برا ثابت کرنے کی انتہائ کوشش۔
کس نے کہا یہ؟
ہممم، سر کھجایا اور پھر جواب دیا۔ چور نے۔ تخیل کی پرواز کے دوران شیطان کا خیال ذہن سے پھسل گیا۔
لیکن چور تو چوری کرنے آیا تھا یا اللہ میاں سے کشتی لڑنے۔
ماما، چور بہت برا ہوتا ہے۔ موضوع کو ٹال کر دوسری طرف لے جانے کی کامیاب کوشش۔
ہاں ہوتا تو ہے۔
کسی کی بھی چیز اس سے پوچھے بغیر نہیں لینی چاہئیے۔ یہ چوری ہوتی ہے۔ 
ہمم، یہ بات تو صحیح ہے۔


مشعل یہ باتیں کرتے ہوئے سوچ رہی ہے کہ کہانی میں یہ ٹوئسٹ کیسے آیا۔
ماما جانتی ہیں لیکن بتائیں گی نہیں۔

Sunday, October 16, 2011

جنوبی پنجاب سے ایک کہانی

ادب دنیا کی کسی بھی زبان میں تخلیق ہو اسکی سب سے اہم خوبی یہ ہوتی ہے یا ہونی چاہئیے کہ وہ اپنے عہد کی نمائیندگی کرتا ہے اسکے بغیر ادب مردہ ہے، بے جان ہے، بے اثر ہے اور محض تفریح ہے۔
آجکا پاکستان ، بم، بارود،  بے حسی، افلاس اور شدت پسندی کے دھند میں کچھ اس طرح چھپ گیا ہے کہ یہ دھند اب لکھنے والے ہی ہٹا سکتے ہیں۔ وہ لکھنے والے جو خوفزدہ ہیں۔  لکھنے والا اگر خوف زدہ ہو تو وہ کیا نوید دے سکتا ہے، وہ کیا جدو جہد پیدا کر سکتا ہے، وہ کیا انقلاب لا سکتا ہے، وہ کیا سوچ پیدا کر سکتا ہے۔  لیکن ہم اب بھی پر امید ہے، ہر خوف اپنی انتہا پہ بے خوفی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ فضا میں ، پنجاب  میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ وہ صوبہ ہے جو پاکستان کی ساٹھ فی صد آبادی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ وراث شاہ، بلھے شاہ، اقبال، فیض، عدم، ثریا ملتانیکر، اقبال بانو، نورجہاں، ملکہ ء پکھراج، احمد ندیم قاسمی، منشا یاد اور نجانے کتنے ہی تخلیق کاروں کو، فنکاروں کو جنم دینے والی یہ زمین تمام تر نا مساعد حالات اور بڑھتی ہوئ شدت پسندی کے باوجود ابھی بھی بنجر نہیں ہوئ۔ اس زمین میں اب بھی ہیر کی بغاوت موجود ہے اور سوہنی کی استقامت۔
گذشتہ دنوں، میری نظر سے محمد اقبال دیوان کی لکھی ہوئ کہانی 'شہر کو سیلاب لے گیا' گذری۔ کہانی جنوبی پنجاب کی معیشت اور معاشرت دونوں سے تعلق رکھتی ہے۔ کہانی انقلاب کے ان نعروں سے تعلق رکھتی ہے جو کبھی مذہبی شدت پسند لگاتے ہیں، کبھی انکے مخالفین لگاتے ہیں، کبھی سیاستدان لگاتے ہیں۔ سب اپنے مفاد کے وقت ان نعروں میں پناہ لیتے ہیں۔ کیا انقلاب نعروں پہ سوار ہو کر آتا ہے؟ جنوبی پنجاب میں انقلاب کے ان نعروں کا پس منظر کیا ہے؟
کہتے ہیں ہر جھگڑے کی بنیاد زر ، زمین یا زن ہوتی ہے۔ اقبال دیوان کی یہ کہانی موجودہ پاکستان میں ان تینوں عوامل کو کس طرح اکٹھا کرتی ہے اسکے لئے آپکو یہ طویل کہانی پڑھنی پڑے گی ۔ جو کہ آصف فرخی صاحب کے مرتب کردہ ادبی پرچے دنیا زاد میں شائع ہوئ ہے۔ اسکے پبلشر ہیں شہرزاد۔ دنیا زاد کے اس حصے کا نام ہے جل دھارا، حصے کا نمبر ہے انتیس۔
کہانی کے کچھ صفحات آپکی دلچسپی کے لئے اسکین کئے ہیں۔  تو آئیے پڑھتے ہیں۔  اس زمین کے نام جس کے باسیوں کے لئے ایک ہی پیغام ہے۔ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔











نوٹ؛ بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے تصویر پہ کلک کریں۔

اس بلاگ پہ دنیا زاد میں شائع شدہ مزید تحاریر کے لئے یہ لنکس دیکھ سکتے ہیں۔

نیا پاکستان، آدھا طالبان
زر، زمین، زن
خدا، انسان کا ہتھوڑا
ایک ادیب کے مشورے